تحریر:فیضان عارف
میں جب 1993ء میں روزنامہ ’’جنگ‘‘ لندن کے سٹاف میں شامل ہوا تو اس وقت ظہور نیازی صاحب ریذیڈنٹ ایڈیٹر، قیصر امام نیوز ایڈیٹر اور علی کیانی صاحب سٹاف
رپورٹر تھے جب کہ افتخار قیصر صاحب سنڈے میگزین اور جنگ فورم کے انچارج تھے۔ جہانزیب صاحب، اعجاز اقبال صاحب، مشتاق مشرقی صاحب، لیاقت دولتانہ، شگفتہ نسرین اور سعید نیازی سب ایڈیٹر کے طور پر نیوز روم میں کام کرتے تھے۔ اُن دنوں حبیب الرحمٰن صاحب شعبہ اشتہارات کے انچارج تھے اور اُن کے ساتھ مسز شبانہ مقصود، نغمہ طارق اور ہادی صاحب بھی ان کی ٹیم کا حصہ تھے۔ اکاؤنٹس کے شعبے میں سلطان زمان اور ہارون خان شامل تھے۔ سلطان زمان کو بعد میں جنرل منیجر کے طور پر بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ پیسٹنگ سیکشن میں غفور صاحب، آفتاب صاحب اور محبوب الٰہی صاحب کام کرتے تھے جب کہ پروف ریڈنگ کا شعبہ علیم الدین صاحب، یوسف غزنوی صاحب، اسحاق صاحب اور طارق محمود صاحب پر مشتمل تھا۔ کمپیوٹر سیکشن کے انچارج مشیر عباس تھے اور ان کے دیگر ساتھیوں میں تنویر بشیر، عبدالطیف، قمرزمان، محمد اشفاق اور مسز شمیم شامل تھے۔ شاہد احمد صاحب اور نثار معظم جنگ لندن کے فوٹو گرافرز تھے۔ پرنٹنگ پریس میں لطیف صاحب کے علاوہ اویس صاحب، عمران اور دو ایک اور لوگ کام کرتے تھے۔ دی ’’نیوز‘‘ لندن کے ایڈیٹر شاہد سعد اللہ تھے اور ان کے ساتھ سلمان آصف، مسز پنّی، مس سلمہ، مس کلینا، یوسف حیدر اور علی عثمان پروڈکشن ٹیم کا حصہ تھے۔ مسزلون سرکولیشن کے شعبے میں انتظامات سنبھالتی تھیں۔ اُن دنوں روزنامہ ’’جنگ‘‘ لندن برطانیہ اور یورپ میں اردو صحافت کا واحد علم بردار تھا اور اس زمانے میں جنگ لندن کی سرکولیشن اپنے عروج پر تھی۔
غالباً 1996ء میں طاہر چوہدری صاحب جنگ لندن کے نیوز ایڈیٹر اور ہمراز احسن صاحب یورپیئن ڈیسک کے انچارج مقرر ہوئے۔ گلاسگو میں طاہر انعام شیخ، ایڈنبرا میں فیاض الرحیم، بریڈ فورڈ میں ظفر تنویر، مانچسٹر میں عظیم جی، برمنگھم میں عباس ملک، جرمنی میں ثریا شہاب، لیڈزمیں انجم سلیم میر، فرانس میں شبیر بھدر، ہیلی فیکس میں آفتاب بیگ اور دیگر شہروں میں کئی اور صحافی ’’جنگ‘‘ لندن کی نمائندگی کرتے تھے۔
روزنامہ ’’جنگ‘‘ نے جب لندن سے مارچ 1970ء میں اپنی اشاعت کا آغاز کیا تو انعام عزیز صاحب اس کے پہلے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ اُن کے بعد یہی ذمہ داری آصف جیلانی صاحب کے سپرد ہوئی جب کہ میر خلیل الرحمٰن کے داماد اشرف قاضی صاحب جنگ لندن کے انتظامی امور کے ایگزیکٹو بنائے گئے اور محمد سرور صاحب کو ایڈیٹر بنایا گیا اور ان کے بعد ظہور نیازی صاحب اور افتخار قیصر نے جنگ لندن کے ایڈیٹر کے طور پر کام کیا۔ مذکورہ صحافیوں کے علاوہ پروفیسر امین مغل، غیور احمد، وجاہت خان، انور خالد، زیڈ یو خان، تاج جاوید، افضال شاہد، تنویر زمان، رشید بنگش اور اسلم شاہد بھی جنگ لندن کے مختلف شعبوں میں صحافتی خدمات انجام دیتے رہے۔ 1999ء سے پہلے تک روزنامہ جنگ لندن کی اشاعت ہزاروں میں تھی اور یہ اخبار برطانیہ سمیت یورپ کے مختلف شہروں میں ہر روز صبح سویرے نیوز ایجنٹس کے سٹالز پر دست یاب ہوتا تھا مگر اب الیکٹرانک میڈیا کے پھیلاؤ کی وجہ سے اس کی اشاعت بہت محدود ہوگئی ہے۔ جولوگ مختلف اوقات میں جنگ لندن سے وابستہ رہے ہیں، وہ اس اخبار کے عروج کے زمانے کو یاد کرتے ہیں۔ ایک زمانے میں جنگ لندن کا سٹاف تقریباً 30 افراد پر مشتمل تھا جو اَب صرف مرتضیٰ علی شاہ، سعید نیازی اور نصیر احمد تک محدود ہوگیا ہے۔ سعید نیازی کی کوششوں سے روزنامہ جنگ لندن کے لئے کام کرنے والے تمام سٹاف اور احباب سے ملاقات کا جو سلسلہ تین برس قبل شروع کیا گیا تھا، اس کا اعادہ گزشتہ ہفتے 25 ستمبر 2021ء کو کیا گیا جس میں جنگ لندن سے وابستہ رہنے والے صحافی دوستوں نے شرکت کی اور پرانی یادوں اور دل چسپ واقعات سے محفل کو پر رونق بنائے رکھا۔
میں نے جنگ لندن کے سنڈے میگزین اور یورپئین ڈیسک پر تقریباً آٹھ برس کام کیا۔ یہ پرنٹ میڈیا کے عروج کا زمانہ تھا اور جنگ کے نیوز روم کا ماحول انتہائی دوستانہ اور شان دار تھا۔ کمپیوٹر سیکشن کے قمرزمان اپنی بے ساختہ جگتوں سے رونق لگائے رکھتے تھے۔ قیصر امام صاحب علمی بحث مباحثے کے لئے ہمہ وقت چوکس رہتے تھے۔ افتخار قیصر صاحب جنگ فورم میں ایک سے ایک نامور شخصیت کو مدعو کرکے کمیونٹی کے لوگوں کو اُن سے مکالمے کا موقع فراہم کرتے تھے۔ غفور صاحب انبالہ کی مٹھائی کے شوقین تھے اور کسی نہ کسی بہانے نیوز روم میں مٹھائی منگوانے کا اہتمام کرتے رہتے تھے۔ علی کیانی ہر وقت خبریں لکھنے میں مصروف نظر آتے تھے۔ وہ اپنے کام کو اس انہماک سے کرتے تھے کہ انہیں نیوز روم میں ہونے والے کسی بحث مباحثے سے کوئی سروکار نہیں ہوتا تھا۔ جنگ لندن میں جس صحافی نے بھی کام کیا، اس نے نہ صرف خوش اسلوبی سے اپنی ذمہ داری کو نبھایا بلکہ نیوز روم کے ماحول سے لطف اندوز بھی ہوا اور ہم سب آج بھی اسی ماحول اور صحافی دوستوں کی رفاقت کو یاد کرتے ہیں اور اب ان تمام ساتھیوں سے ملنا کسی نعمت سے کم نہیں۔
امیرؔ جمع ہیں احباب حالِ دل کہہ لے
پھر التفاتِ دلِ دوستاں رہے نہ رہے
(امیر مینائی)