یہ دو تحریریں جنہیں جناب محمد عمران سعید نے کینیڈا سے اور جناب ساجد یوسف نے برطانیہ سے اپنے سماجی رابطوں کے صفحات پر تحریر کیا پڑھنے والوں کے لیے پیش خدمت ہیں .
جون ایلیا کی تلاش
(ساجد یوسف )
اگر جون ایلیا زندہ ہوتے تو آج پورے 89 برس کے ہوتے۔ لیکن وہ 89 برس جیتے بھی کیوں؟ جون ایلیا 72 سال جس معاشرے کی تلاش میں زندہ رہے وہ 89 برسوں میں بھی کب ان کو مل جانا تھا؟ بلکہ اگر آج وہ زندہ ہوتے تو شائد اس سے زیادہ اذیت میں مبتلا ہوتے کہ جس اذیت ناک کیفیت کا اظہار انہوں نے ان الفاظ میں کیا تھا کہ۔۔۔” میں اس حالت سے کہیں زیادہ اذیت ناک حالت میں تھا اور ہوں، جس میں دسویں صدی عیسوی کے عظیم المرتبت ادیب اور مفکر ابوحیان توحیدی نے اپنے حالات سے تنگ آکر اور اس عہد کے "باذوق امرا” کی خوشنودی حاصل کرنے کی ناگوار مشقت سے بیزار ہو کر اپنی ناکام زندگی کے آخری لمحوں میں اپنی تصنیفات کے مسودے جلوا دیے تھے” ۔
جون ایلیا جو 72 سال جیئے وہ بھی کب جینا چاہتے تھے، سچائی کا علمبردار جھوٹ کے معاشرے میں زندہ رہ بھی کیسے سکتا تھا؟ جون ایلیا نے اپنے پہلے شعری مجموعہ ” شائد” کے آغاز میں لکھا کہ۔۔۔۔۔”یہ میرا پہلا مجموعہ کلام یا شائد پہلا اعتراف شکست ہے جو انتیس برس کی تاخیر سے شائع ہورہا ہے۔ یہ ایک ناکام آدمی کی شاعری ہے۔ یہ کہنے میں بھلا کیا شرمانا کہ میں رایگاں گیا۔ مجھے رایگاں ہی جانا بھی چاہیے تھا جس بیٹے کو اس کے انتہائی خیال پسند اور مثالیہ پرست باپ نے عملی زندگی گزارنے کا کوئی طریقہ نہ سکھایا ہو بلکہ یہ تلقین کی ہو کہ علم سب سے بڑی فضیلت اور کتابیں سب سے بڑی دولت، تو وہ رایگاں نہ جاتا تو اور کیا ہوتا؟” ۔
علم کو فضیلت اور کتابوں کو سب سے بڑی دولت سمجھنے والے جون ایلیا رایگاں نہیں بلکہ وہ اپنی شاعری، تحریروں اور فکر کی بنیاد پر ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
جون کے جنم دن پر
( محمد عمران سعید )
مشتاق احمدیوسفی نے کہاتھا
”ایک زمانے میں جب ہم جوان تھے اور جون ایلیا بالکل ایسے ہی تھے جیسے کہ اب ہیں توہم رسالوں میں ان کی غزلیں یہ سمجھ کربڑے شوق اور بے تابی سے پڑھتے تھے کہ یہ کسی آوارہ اینگلوانڈین لڑکی کا کلام ہے”
صاحب ہمیں (اپنی) بھری جوانی میں جون ایلیا کی بابت ایسا کوئی مغالطہ نہیں رہا، سو جون کو پڑھنے میں کسی بے تابی کا ہم دعویٰ نہیں کرتے، پہلی کتاب جسکوہمارے ہاتھ لگے وہ ان کا مجموعہ تھا ’شاید‘.
اس کتاب کو پہلے پہل ہاتھ میں لینے کا خمار
؎ ہمیں یاد ہے کچھ ذرا ذرا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ہم آدمجی سائنس کالج کراچی میں گیارہویں کے پڑھاکوطالبعلم تھے
گرومندرکے نزدیک ہی مزارقائد کے پڑوس میں علامہ اقبال پبلک لائبریری تھی جہاں سے امی کے شناختی کارڈکی ضمانت پرکتابیں مستعارمل جاتی تھیں
لیکن شاعری سے بھی بڑھ کرہم جون ایلیا کی جس کاوش سے متاثرہوئے وہ تھے انکے انشائیے
سسپنس ڈائجسٹ سے ہمارا ماہانہ یارانہ تھا
اور سسپنس کا آغازہی جون کے یک صفحی انشائیے سے ہوتا تھا
تحریر کی کاٹ اوراندازبیان، صاحب پڑھنے اور سر دھننے کا مقام تھا
کچھ جملے تو لوح دل پرایسے نقش ہوئے کہ آج تک یاد ہیں جیسے
’تم نے کبھی جو کے تخم سے گندم کو طلوع ہوتے دیکھا ہے!‘
صاحبو اگر آج بھی جون کی آواز کانوں کو بھلی لگتی ہے اور اس کے لفظ دل کے تاروں پہ ویسا ہی کاری وارکرتے ہیں تو جان لینا چاہیے کہ جون ہرزمانے کا شاعرہے اور اس سدابہار ہستی کی یاد کو زوال نہیں
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی