درہ بابو سر 150 کلو میٹر ایک طویل درہ ہے جس کا بلند ترین مقام بابو سر ٹاپ 13٫691 فٹ بلند ہے ۔۔اور یہی وادی کاغان کا بلند ترین مقام بھی ہے ۔۔بابو سر ٹاپ سال میں آٹھ مہینے برفباری کی وجہ سے بند رہتا ہے ۔۔شدید گرمی میں بھی یہاں برفانی ہوائیں چلتی ہیں اور انتہائی ٹھنڈ ہوتی ہے ۔۔۔یہ درہ چلاس اور مانسہرہ دونوں کو شاہراہ قراقرم سے ملاتا ہے ۔۔۔
لولو سر جھیل سے نکل کر ہم درہ بابو سر پر بابو سر ٹاپ کی جانب روانہ ہوچکے تھے ۔۔سڑک کی حالت بہت اچھی تھی جبکہ ماہ ستمبر کی وجہ سے ٹریفک بہت کم تھی ۔۔لولو سر جھیل سے بابو سر ٹاپ 18 کلو میٹر اور بابو سر ٹاپ سے چلاس 44 کلومیٹر ہے جبکہ ناران سے بابو سر ٹاپ کا فاصلہ 65 کلو میٹر ہے ۔۔لولو سر جھیل سے نکل کر چھ کلو میٹر بعد گیٹی داس کا مقام آتا ہے ۔۔گیٹی داس ایک قدیم گاؤں ہے جو صرف تین ماہ کے لیے آباد ہوتا ہے ۔۔یہاں ایک پولیس چوکی ہے جبکہ سڑک کنارے آبادی کے آثار بالکل نہیں ہیں ۔۔سڑک سے آگے بائیں جانب پہاڑ ہیں جن کے ساتھ سڑک اوپر بلندی کی جانب جاتی ہے جبکہ دائیں جانب ایک وسیع وادی ہے جسے گیٹی داس میڈوز کہتے ہیں لیکن حقیقت میں اس کا نام گال وادی ہے ۔۔اس سرسبز وادی کے بیچوں بیچ ایک برفانی ندی خم کھاتی آتی ہے جو آگے جاکر لولو سر جھیل میں مل جاتی ہے ۔۔
گیٹی داس اور گال وادی سے ہی دھرم سر اور سمبک سر نامی جڑواں جھیلوں کی جانب راستہ جاتا ہے ۔۔۔ان جھیلوں پر راہزنی اور ڈکیتی کی کئی وارداتیں ہوچکی ہیں اور اسی لیے پولیس اس جانب جانے سے روکتی ہے ۔۔۔پولیس کارروائی کیوں نہیں کرتی ؟
یہ سوال ہمارے ذہن میں بھی تھا جسکا جواب یہ ملا کہ ان جڑواں بہنوں کا تاحال فیصلہ نہیں ہوسکا کہ یہ مانسہرہ کے عقد میں ہیں یا دیامر کے ۔۔۔اور جب تک ان دونوں اضلاع میں سے کسی ایک کے باقاعدہ عقد میں یہ بہنیں نہیں دی جاتیں تب تک دونوں اضلاع کی انتظامیہ کی غیرت نہیں جاگے گی کہ وہ ان کی جانب میلی انکھوں سے دیکھنے والوں کی آنکھیں نوچ لیں ۔۔۔بہرحال یہ خالصتاً ایک انتظامی مسئلہ ہے اور ارباب اختیار کی توجہ کا طلبگار ہے ۔۔۔۔لیکن میری ذاتی رائے یہی ہے کہ جب تک ان بہنوں کا عقد نہیں ہوتا اور یہ کنواری رہتی ہیں تب تک ان کا حسن اور جوانی برقرار رہے گی ۔۔عقد میں آنے کے بعد بمشکل ایک یا دو سیزن نکال پائیں گی اور ان کا حال سیف الملوک سا ہو جائے گا ۔۔۔
گال وادی میں ایک بڑا پولو کا میدان بھی ہے اور یہ یہاں سالانہ ایک میلہ بھی لگتا ہے جبکہ یہاں ایک بہت خوبصورت کرکٹ کا میدان بھی ہے ۔۔لیکن فی الحال ماہ ستمبر کی وجہ سے سب کچھ غیر آباد تھا ۔۔۔چاروں جانب بلند وبالا پہاڑ اور بیچ میں میلوں طویل یہ سر سبز میدان جس کے بیچوں بیچ ندی بل کھاتی جاتی ہے ۔۔بلاشبہ خوبصورت ترین جگہ ہے ۔۔۔
بابو سر ٹاپ کی انتہائی بلندیوں تک پہنچنے تک گال وادی نیچے گہرائیوں میں اپنی تمام لطافتوں کے ساتھ ہمراہ چلتی ہے ۔۔۔بابو سر ٹاپ پہنچ کر بائیں جانب مڑتے ساتھ سڑک بل کھاتی نیچے کی جانب جاتی ہے اور منظر یکسر تبدیل ہوجاتا ہے ۔۔یہ بابو سر ٹاپ کا کوہستان کی جانب چلاس والا علاقہ ہے ۔۔جبکہ گال وادی مانسہرہ کاغان کی جانب ہے ۔۔۔چلاس کی جانب رخ کرکے کھڑے ہوں تو نانگا پربت کا دیدار بھی خوش نصیب افراد کو ہوتا ہے ۔۔۔کیونکہ یہاں موسم بہت کم صاف ملتا ہے ۔۔۔ہم بھی اس روز خوش نصیب تھے ۔۔
ٹاپ پر ٹھنڈ بہت شدید تھی لیکن ایسا ممکن نہیں تھا کہ تصویریں نہ بنائی جاتیں ۔۔بابو سر ٹاپ کی یادگار پر کافی رش تھا لیکن اللہ بھلا کرے احتراماً دوستوں نے مجھے تصویر بنانے کے لیے جگہ عطا کردی ۔۔۔
ٹاپ پر پہنچ کر مجھے اندازہ ہوا کہ بظاہر بلندیوں پر پہنچ کر بھی ہم لوگ پستیوں کے مکین ہی رہتے ہیں ۔۔۔بابو سر ٹاپ کا کوئی کونہ ایسا نہ تھا جہاں پلاسٹک کی خالی بوتلیں اور کچرا نہ ہو اور طرفہ تماشا یہ کہ ان کی صفائی کا کوئی خاطر خواہ بندوبست موجود نہیں ۔۔۔ہاں تیز ہوا ان کو اڑا کر نیچے وادیوں کی زینت بنا دے تویہ الگ بات ہے ۔۔۔
بہرحال بابو سر ٹاپ بحثیت مجموعی ایک دلفریب جگہ ہے جہاں ایک ٹکٹ میں دو مزے لیے جاسکتے ہیں ایک جانب گال وادی کا خوبصورت نظارہ اور دوسری جانب چلاس ۔۔۔۔
بابو سر ٹاپ پر ایک خوبصورت وقت گزار کر واپسی شروع ہوئی تو ایک بار پھر بابو سر ٹاپ اپنی تمام حشر سامانیوں سمیت الپائن جھیلوں سے پیچھے رہ گیا ۔۔۔اور شریک سفر ساتھیوں نے مجھے دھوکہ باز قرار دیا کہ جھیلوں کا لارا لگا کر خشک پہاڑوں پر لے آیا ہوں ۔۔۔جھیل ناگزیر تھی تاعمر کے طعنوں سے بچنے کے لیے لیکن وادی میں ایسی کوئی جھیل موجود نہ تھی ۔۔۔جہاں بچوں کے ہمراہ جاسکوں ۔۔۔سوچوں میں ڈوبا واپسی کی جانب رواں تھا ۔۔۔ایک جھیل ذہن میں تھی لیکن وہاں جانے کے لیے ایک مشکل فیصلہ درپیش تھا اور مجھے آج کی رات ہر صورت فیصلہ کرنا تھا ۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔