دستِ کشمیر میں….. خوش قسمتی کی لکیر
رٹو شونٹھر شاہراہ
امسال اہلیان کشمیر کے لئے ایک بہت بڑی خوشخبری جو سامنے آئی ہے وہ چین کا ”سی پیک کامتبادل“ روٹ تعمیر کرنے کا فیصلہ ہے جو کہ آزادکشمیر سے گزرے گا۔ جس میں آزادکشمیر کے دیرینہ مطالبے ”شونٹھر رٹو ٹنل“ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔رپورٹس اورستاویزات کے مطابق 8جنوری کو گلگت بلتستان ورکس ڈیپارٹمنٹ کو سی پیک کے نئے روٹ کے لئے ”کانسیپٹ کلیئر نس پروپوزل“ کے لئے مسودہ تیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جو گلگت بلتستان کے اضلاع شگر،سکردو،اور استور سے گزر کر آزادکشمیر کے ضلع مظفرآباد کوملائے گا۔
مذکورہ اضلاع میں بھی متعلقہ محکموں کو ”یارکند (چینی سرحد)“ سے لے کر براستہ شگر تھنگ(سکردو) گوری کوٹ ضلع استور تک 33فٹ چوڑی ایسی سڑک تعمیر کا پروپوزل تیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے جس پر سے بآسانی تجارتی ٹرک گزرسکیں گے۔
گلگت بلتستان کے وزیر میثم کاظم نے اس حوالے سے جمعہ کو وفاقی وزیر برائے مواصلات و پوسٹل سروسز مراد سعید سے ملاقات کی تھی۔انہوں نے بتایا کہ سی پیک کا نیا روٹ موجودہ حکومت کا تاریخی کارنامہ ہوگا اور وزیر مواصلات مراد سعید بھی اس پراجیکٹ کی منظوری کے حوالے سے خاصے پر امید ہیں۔ وزیر نے بتایا کہ یارکند سے براستہ شگر،سکردو تک روٹ قدیم دور سے چین اور گلگت بلتستان کے مابین تجارت کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے۔ اس تاریخی تجارتی روٹ کی بحالی علاقے میں معاشی سرگرمیوں میں انقلاب برپا کر دے گی۔ واضح رہے کہ چین کا ایک وفد پہلے ہی شگر اور سکردو کے مذکورہ علاقوں کا دورہ کر چکا ہے جس دوران وفد کو مذکورہ تاریخی روٹ کے بارہ میں معلومات فراہم کی گئیں تھیں۔
اگر یہ تاریخی روٹ بحال ہو جاتا ہے تو پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کی موجودہ روٹ کی نسبت جو کہ ہنزہ،نگر اور گلگت سے ہو کر جاتا ہے ساڑھے تین سو کلو میٹر فاصلہ کم ہو جائے گا۔
؎؎اس سے قبل سی پیک درہ خنجراب سے گلگت تک آتا ہے اور وہا ں سے یہ براستہ کاغان ویلی روڈ اسلام آباد تک جاتا ہے۔ گلگت سے یہ روٹ براستہ چلاس استور سے لنک ہوتا۔ استور رٹو سے وادی نیلم کی حدود میں شونٹھر ٹنل کی نکاسی کرکے اسے براستہ مظفرآباد و مری اسلام آباد تک بطور ایک لنک کے جانا تھا۔ یہ لنک نہ معلوم وجودہ کی بنیاد پر معطل کر دیا گیا تھا لیکن موجودہ پیش رفت میں نہ صرف شونٹھر ٹنل کو اس منصوبے میں شامل کیا گیا ہے بلکہ اب درہ خنجراب سے گلگت کے بجائے براستہ اسکردو یہ سی پیک روڈ براہ راست استور آئے گا جس کی وجہ سے گلگت کے مقابلے میں فاصلہ کم رہ جائے گا پھر یہ کاغان ویلی کے بجائے نیلم ویلی کے راستے یہ اسلام آباد تک جائے جس کی وجہ سے فاصلہ مزید 220کلو میٹر کاغان کی نسبت اور کم ہو جائے گا اس طرح کل 360کلو میٹر کا فاصلہ چین سے اسلام آباد تک کم ہوگا۔ لیکن اس سارے منصوبے کی کامیابی کے لئے شونٹھر ٹنل کی نکاسی یقینی و ازحد ضروری ہو گی۔
مزید یہ کہ مظفرآباد سے دریائے جہلم کے ساتھ ساتھ پورے آزاد کشمیر سے اس سی پیک روٹ کو گزار کر پنجاب کے علاقوں گجرات تک پہنچایا جائے گا۔ دریائے جہلم کے ساتھ ساتھ اس وقت ایک سڑک پہلے سے تعمیر شدہ ہے اگرچہ یہ خستہ حال ہے مگر اب بھی اسے کوٹلی تک جانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور مظفرآباد سے بھمبر تک پہنچے کا یہ دریائی راستہ انتہائی مختصر ترین ہے۔ شاہرائے نیلم کے ساتھ اس شاہراہ کو سی پیک کے معیار کے مطابق بنا کر چین سے پاکستان تک کا انتہائی مختصر ترین روٹ تیار ہوسکتا ہے۔ اس لحاظ سے شمالی پنجاب کے ان پسماندہ اضلاع میں بھی ایک معاشی انقلاب آئے گا اور آزاد کشمیر کے تینوں ڈویژن مختصر ترین راستے سے چین پاکستان کی تجارتی راہداری کا حصہ بن جائیں گے۔لیکن اس تمام منصوبے کی کامیابی کا دارومدار شونٹھر ٹنل کی نکاسی پر ہے۔
آزادی کے بعد کشمیر انتظامی لحاظ سے چار مختلف حصوں،مقبوضہ کشمیر (بھارت)،اکسائی چن (چین)،گلگت بلتستان (پاکستان) اور آزادکشمیر میں تقسیم ہوا۔ ان میں سے دو اہم اکائیاں گلگت بلتستان اور آزادکشمیر چونکہ پاکستان کے زیر انتظام ہیں اس لحاظ سے ہونا یہ چاہیے تھا کہ ان کے درمیان آزادی کے فورا بعدبراہ راست زمینی رابطہ بذریعہ سڑک قائم ہو جاتا جو اگر سال بھر نہ سہی موسم بہار ہی میں بحال رہتا لیکن ستر سال تک اس جانب کسی نے توجہ نہ دی۔ آزادکشمیر اور گلگت کے درمیان جو سرحد ملتی ہے وہ کاغان ویلی کی نسبت انتہائی محدود ہے اورصرف آزادکشمیر کے ضلع نیلم کابالائی علاقہ(کیل سے تاؤ بٹ تک) گلگت بلتستان سے پہاڑوں کے ذریعے جڑا ہواہے۔ دوسری جانب استور کا علاقہ جو آزاد کشمیر کے اس ضلع سے ملتا ہے بین االاقوامی شاہراہ ”شاہراہ ریشم“ سے منسلک ہے۔ مختلف مقاما ت پر چند کلو میٹر سڑک کی نکاسی کر کے آزادکشمیر کو گلگت سے ملایا جاسکتا ہے۔ ان میں سب سے موئثر مقام وادی شونٹھر ہے. جہاں شونٹھر پاس (گلی) کو پیدل عبور کر کے استور کے لوگ آج بھی آزادکشمیر اور یہاں سے اسلام آباد تک جاتے ہیں۔ یہ قدیمی راستے صدیوں سے زیر استعمال رہے ہیں۔ وادی نیلم کے اس بالائی علاقہ سے مشہور چینی سیاح ”اوکانگ“ کے دور میں کشمیر کی اس وقت کی دوسری بڑی سڑک گزرتی تھی جس کا ذکر اس نے سیکڑوں سال قبل اپنے سفر نامہ میں کیا ہے۔یہ راستہ موجودہ بانڈی پورہ سے ہو کر کنزل وان اور پھر تاؤبٹ اورآگے گلگت تک جاتا تھا۔چینی زبان میں ’تاؤ“ کے معنی راستہ اور بٹ ”بلتی“ لوگوں کو کہا جاتا تھا۔ اسی شاہراہ کا اہم مقام ہونے کی وجہ سے یہ گاؤں تاؤ بٹ مشہور ہوا۔ سری نگر اور استور و چلاس ایک زمانہ میں بدھ مت کے ماننے والوں کے بڑے مراکز رہے ہیں جن کا میٹنگ پوائنٹ اس زمانہ میں موجود گریز(کنزل وان) اور بالخصوص شاردہ تھا۔ اس لحاظ سے اگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو موجودہ نیلم کا یہ بالائی علاقہ کشمیر کے زمانہ عروج میں اہم جغرافیائی خطہ تھا۔
آزادی کے بعد بالائی نیلم کا یہ علاقہ تقسیم ہو گیا اور گلگت و سری نگر کے رابطے ختم ہو گئے یوں وہی وادی گریز جو ڈوگرہ دور میں ایک تحصیل کا درجہ رکھتی تھی تقسیم در تقسیم ہو کر کشمیر کے پسماندہ ترین علاقہ میں بدل گئی۔ کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ چین اور پاکستان نے جب سے”سی پیک“ کوریڈور کے ذریعے ملک بھر کو منسلک کرنے کے لئے کام شروع کیا تو ان کی نظر گھوم پھر کر اس اہم تاریخی و جغرافیائی علاقہ پر جاٹہری۔ کراچی میں کام کرنے والی ایک سماجی تنظیم تحریک صدائے نیلم نے 2000ء میں جبکہ سی پیک پر اتنے زور و شور سے کام کی ابتداء بھی نہ ہوئی حکومت کو یہ تجویز دی کے بالائی نیلم کے ان تاریخی راستوں کو بحال کیا جائے۔ پہلے پھلاوئی تا رٹو اور بعد ازاں شونٹھر تا رٹو سڑک و ٹنل کی نکاسی کی تجویز پیش کی گئی۔جسے مقتدر اور دور اندیش حلقہ ارباب اختیار نے نہ صرف سنجیدگی سے لیا بلکہ سی پیک کے حوالے سے جب کام شروع ہو تو اس تجویز کوباقاعدہ سی پیک کا حصہ بنا دیا گیا۔ صدائے نیلم کے بعد استور کی عوام اور کشمیر کے باشعور نوجوانوں نے اس تجویزکوسوشل میڈیا پر ہاتھوں ہاتھ لیا خوش قسمتی سے گلگت کے وزیراعلی کا تاج ایک ایسی شخصیت کے سر سجا جن کا آبائی علاقہ نہ صرف رٹو(استور) ہے بلکہ شونٹھر رٹو ٹنل کی نکاسی کے وہ ایک عظیم داعی ہیں۔ الیکشن میں کامیابی سے قبل راقم الحروف کی وزیر اعلی گلگت خالد خورشید خان سے شونٹھر ٹنل کے حوالے سے ٹیلی فونک گفتگو بھی ہوئی۔جس کے دوران شونٹھر ٹنل کی نکاسی کے حوالے سے آپ کے ارادے جان کر حوصلہ بہت بلند ہوا۔ اس کے بعد بذریعہ واٹس اپ آپ سے رابطہ رہا۔ الیکشن جیتنے کے بعد آپ نے جس طرح اپنی ترجیح شونٹھر رٹو ٹنل کو بنایا ہے اور اس حوالے سے اسلام آباد میں وزیر اعظم پاکستان سے ون ٹو ون ملاقات کر کے شونٹھر ٹنل کو یقینی بنانے کے لئے اپنا موقف پیش کیا ہے اس سے امید کی ایک کرن نمودار ہوئی ہے کہ یہ معطل شدہ منصوبہ انشاء اللہ از سر نو بحال ہو گا اور نہ صرف نیلم و مظفرآبا د بلکہ پورا آذاد کشمیر سی پیک سے لنک ہو جائے گااور اس خطہ میں معاشی انقلاب کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔اس سلسلے میں آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت کوبحیثیت سن آف دا سائل بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے ہے۔ موجودہ حکومت اگرچہ ملکی سطح پر مختلف مسائل میں الجھی ہوئی ہے اس کے باوجود اس اہم منصوبے کے حوالے سے حکومت آزادکشمیر کو چاہئے کہ وفاق کو بریف کرے اور آمدہ بجٹ میں شونٹھر ٹنل کی شمولیت کو یقینی بنائے۔
شونٹھر ٹنل کی فزیبلٹی رپورٹ ’دوہا انجینئرنگ کو لیمٹڈ کورین ایسوسی ایشن اور پرائم انجینئرنگ اینڈ ٹیسٹنگ کنسلٹنٹ لمیٹڈ (پاکستان) نے مشترکہ طور پر اپریل 2017ء میں مکمل کی ہے۔اس کے مطابق اس منصوبہ کے تین حصے ہیں۔
۱۔کیل سے شونٹھر پاس تک ہر موسم میں بحال رہنے والی سڑک،
۲۔شونٹھر پاس میں ٹنل،۳۔ ٹنل سے آگے استور کے مرکزی علاقہ تک سڑک کی نکاسی۔
اہم بات یہ کہ یہ منصوبہ ا س طرح ڈیزائن کیاگیا کہ سڑک ہر موسم میں بحال رہے۔ گلیشئر اور سلائیڈ والے علاقوں میں چھت نما برجز بنائے جائیں گے اور دیگر ضروری اقدامات کو اس منصوبہ میں شامل رکھا جائے گا۔شونٹھر ٹنل کا منصوبہ نیشنل ہائے وی اتھارٹی کے زیر نگرانی ہے جو کہ جنوبی اور شمالی پاکستان کو ملانے کا والی مین شاہراہ کا فاصلہ کم کرتا ہے اور ریاست جموں وکشمیر کے دو اہم حصوں گلگت اور آزاد کشمیر کو بذریعہ سڑک ملانے کا واحد منصوبہ ہے۔ نیز اس منصوبے کی تکمیل سے مستقبل میں اپر وادی نیلم گریس سے مقبوضہ کشمیر تک سی پیک کو توسیع مل سکتی ہے۔ اس منصوبہ سے متعلق اہم تفصیلات یہ ہیں
نمبر۱۔ یہ منصوبہ آزادکشمیر کی حدود میں دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے مرحلے میں وادی نیلم کے مشہور ومرکزی گاؤں کیل سے شونٹھر پاس تک چھبیس کلو میٹر سڑک کی نکاسی کی جائے گی یہ سڑک کیل، لوئر دومیل، ڈھکی ناڑ، کھوڑیاں،اپر دومیل سے ہوتی ہوئی مغربی جانب شونٹھر پاس تک جائی گی۔ اس وقت ایک کچا جیپ ٹریک یہاں زیر استعمال ہے۔
نمبر۲۔ اس سڑک کو ہر موسم میں بحال رکھنے کے انتظامات کئے جائیں گے۔راستے میں پل نما ٹنل، بھی بنائے جائیں گے تاکہ گلیشئر اور سلائیڈ سے بچ سکیں۔
۳۔ دوسرے مرحلے میں ہزاروں فٹ بلند شونٹھر پا س کی بیس سے ایک ٹنل بنائی جائے گی جس کی لمبائی فزیبیلٹی رپورٹ کے مطابق 13کلو میٹر ہوگی۔یہ ٹنل ہر موسم میں قابل استعمال رہے گی۔ٹنل کا مین ٹریک 3میٹر چوڑا ہوگا جس کے اطراف 2.5میٹر چوڑا ایمرجنسی ٹریک ہوگا۔ اور 1.2میٹر چوڑا راستہ ہوگا۔ اس طرح ٹنل کی اوسطا چوڑائی تیس سے36 فٹ تک ہوگی
۴۔ سطح سمندر سے شونٹھر پاس کی بلندی 14973فٹ ہے جبکہ اس کے اندر 6000فٹ بلندی سے ٹنل گزاراجائے گا۔
۵۔ شونٹھر ٹنل سے دوسری جانب32کلو میٹر ”رٹو“ روڈ بنا رکر استور کے ساتھ آزادکشمیر کو لنک کر دیا جائے گا۔
۶۔ گلگت کو آزادکشمیر اور اسلام آباد سے ملانے کا یہ مختصر ترین راستہ ہوگا۔ اس ٹنل کی نکاسی کے بعد گلگت سے اسلام آباد تک کا فاصلہ 440کلو میٹر رہ جائے گا جبکہ قراقرم ہائے وے براستہ کاغان یہی فاصلہ 620کلو میٹر بنتا ہے۔گویا 220کلو میٹر کا فاصلہ اس ٹنل کی نکاسی سے کم ہو جائے گا۔
دفاعی لحاظ سے بھی شونٹھر ٹنل انتہائی اہم ہے۔ آزادکشمیر کے دفاعی حصار و محافظ وادی نیلم کی مین شاہرائے نیلم کو بھارت بھاری توپ خانے سے بمباری کر کے اکثر بند کر دیتا ہے جس کی وجہ سے یہ وادی محصور ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس لئے بیک سائیڈ سے بالائی نیلم تک بروقت اور ہمہ وقت سپلائی لائن بحال رکھنے کیلئے بھی شونٹھر ٹنل انتہائی اہم و ضروری ہے۔ شونٹھر رٹو شاہراہ واحد سڑک ہے جو کشمیر کی دو اکائیوں ”گلگت بلتستان“ اور ”آزادکشمیر“ کو آپس میں منسلک کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے میرے دوست خواجہ عارف مصطفائی نے ”شاہرائے وحدت“ کا نام دیا جو سو فیصد درست ہے اور مستقبل میں جب کبھی مقبوضہ کشمیر کا فیصلہ ہوا تو گریز کے راستے یہ شاہراہ وادی کشمیر کو بھی ان دو اکائیوں سے منسلک کر دے گی۔ اس لحاظ سے بھی شونٹھر رٹو ٹنل اہم ہے۔