تحریر: پروفیسر مسعود اختر ہزاروی
یہ بات شدہ ہے کہ انسانی خواہشوں میں قدر مشترک پر سکون اور خوش رہنا ہے۔ ان کی زندگی کی بھاگ دوڑ اسی محورر کے گرد گھومتی رہتی ہے۔ ابھی تک کوئی ایسا پیمانہ معرض وجود میں نہیں آیا کہ انسانوں کی حقیقی خوشی کو ناپا جا سکے۔ البتہ ہرفرد اپنے دل پر توجہ کر کے اندر کی کیفیت کا خود ہی فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ کس قدر پرسکون یا بے اطمینان ہے۔ اپریل 2019 کے اوائل میں جرمنی کی Mannheim University میں شعبہ نفسیات کے پروفیسر Dr Edinger-Schons نے 67562 افراد کا سروے کر کے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ وجود باری تعالیٰ کے تصور اور عقیدے سے مختلف مذاہب کے پیروکاروں کیلئے پر سکون رہنے میں کتنا فرق ہے؟ اس کے نتیجے میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ مسلمان دوسرے مذاہب کے مقابلے میں اﷲ تعالیٰ کی ذات کے عقیدہ توحید و وجود پر زیادہ مضبوط ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے مذاہب کے مقابلے میں مسلمان سب سے زیادہ پرسکون اور خوش رہتے ہیں۔ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ Atheist (ملحدین) سب سے زیادہ غیر مطمئن پائے گئے۔ غیر مسلم سکالرز کا کہنا تھا کہ اﷲ تعالیٰ کے وجود اور اس کی وحدانیت کا تصور ہر مذہب میں جدا جدا ہے لیکن مسلمانوں میں یہ عقیدہ انتہائی مضبوط اور اعلی پائے کا ہے۔ مسلمانوں کے انتہائی درجے کے یقین کے باعث ذہنی اور نفسیاتی حالت بہتر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو علم نہیں کہ روحانیت کسی شخص کی زندگی پر کیا اثر ڈالتی ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس روحانی پختگی کے نتیجے مین بہتر سماجی تعلقات استوار ہوتے ہیں۔ قوت مدافعت بڑھتی ہے، دوسروں کیلئے خیر خواہی کے جذبات پروان چڑھتے ہیں اور ذہنی دباؤ (ڈپریشن) میں کمی واقع ہوتی ہے۔ 2016ء میں امریکہ کے شہر واشنگٹن میں Pew Research Centre کے ایک سروے میں بھی اسی نوع کے نتائج سامنے آئے تھے، جن میں بتایا گیا تھا کہ جو لوگ جتنے زیادہ مذہب سے منسلک اور عقیدے میں مخلص ہوتے ہیں وہ اتنے ہی زیادہ زندگی میں خوش اور مطمئن ہوتے ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ زندگی جسم وروح سے مرکب ہے اور روح کو اصل کا درجہ حاصل ہے۔ جب روح نکل جائے تو زندگی کی رفتار رک جاتی ہے۔ اس دنیا میں زندگی کے حوالے سے بنیادی طور پر دو طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں، آج کے دور میں اکثریت ایسے (بزعم خویش) "روشن دماغ” لوگوں کی ہے جن کا نظریہ مادی ترقی اور آسائش کے حوالے سے یہ ہے کہ یہی مقصد زندگی ہیں اور بس۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ جوانی چار دن کی چاندنی ہے خوب مزے اڑالو۔ ان کے ہاں عفت وعصمت، حلال و حرام اور جائز و ناجائز کا معیار ہی الگ ہے۔ دوسری جانب ﷲ کے روشن ضمیر بندے ایسے ہیں جو ترقی کے تمام لوازمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں البتہ انہیں دنیوی وسائل واسباب سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ ان کی باطن کی نگاہ آخرت پر ہوتی ہے۔ اول الذکر نظریہ کے حاملین انہیں دقیانوس، قدامت پسند اور ترقی کے دشمن شمار کرتے ہیں۔ اس کے باوجوددوسرے نظریہ کے حاملین اپنے اس عقیدے پر نہ صر ف ڈٹے ہوئے ہیں بلکہ اسے فلاحِ دارین کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔اول الذکر طبقے کیلئے ترقی کی اس دوڑ میں ایک چیز کہیں نہ کہیں گم شدہ ہے اور وہ ہے’’دل کاسکون اوراطمینان‘‘ لوگ جسمانی راحت وآرام تو پارہے ہیں، لیکن قلبی اطمینان سے بہت دور ہیں۔ اس عارضی زندگی پر انسان خوب اتراتا ہے حالاں کہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ تارِ نفس کسی بھی وقت دو ہچکیوں میں ٹوٹ سکتا ہے۔ اب سوچئے!!! جس سکون کے ہم اور آپ متلاشی ہیں وہ کیسے پاسکتے ہیں؟ سکونِ قلب کا اصل سرمایہ کیا ہے؟ ایسے تمام سوالات کا جواب یہ ہے کہ پریشان حال اور کھوئے ہوئے دل کا سکون اوراطمینان ﷲ کی یاد میں ہی ہے۔ اسے چھوڑ کرسکون کی تلاش میں جہاں کہیں بھی جائیں گے ،وہاں صرف اور صرف ظاہری راحت اور لذتیں ملیں گی، اوریہ رب کائنات کا ارشاد ہے کہ’’خوب سمجھ لو! اﷲ کے ذکر میں دلوں کا اطمینان ہے۔‘‘
جرمن یونیورسٹی کے مذکورہ سروے نے بھی ایک بات ثابت کر دی کہ ﷲ تعالی کی ذات سے تعلق کی پختگی ہی سکون کی دولت سے مالا مال کر سکتی ہے۔ سکون واطمینان کی دولت کے حصول کیلئے ذکر الہی ایک ایسی روشنی ہے جس کی ایک ہلکی سی کرن بھی بے پناہ تاریکی اور بے اطمینانی کے دبیز پردوں کوچاک کر کے مسرت وشادمانی کے پھول کھلا سکتی ہے۔ مسلمانوں کیلئے اللہ کو یاد کرنے کا بہترین ذریعہ پنج وقتہ نماز ہے، جسے دین کا ستون، مومن کی معراج، سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا گیا ہے، جسے اسلام وکفر کے درمیان حد فاصل بتایا گیا ہے، جس کی ادائیگی پر بے پناہ اجروثواب کا وعدہ کیا گیا ہے اور جس کے چھوڑنے پرسخت قسم کی وعید سنائی گئی ہے؛ لیکن مقام افسوس ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں نماز جیسی اہم عبادت سے ایک بڑا طبقہ بلکہ ایک بڑی اکثریت محروم ہے۔ اپنے ارد گرد کے ماحول پر نگاہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ آج کل لوگ دل کے سکون کے لیے کلبوں، تھیٹروں اور قحبہ خانوں میں جاتے ہیں، وہاں انہیں شہوانی لذت تو مل سکتی ہے، حقیقی سکون نہیں، ۔نوجوان طبقہ سکون کی تلاش میں انٹر نیٹ پر وقت ضائع کرتا ہے۔لوگ سکون کے لیے شراب وشباب کی مستیاں لوٹتے ہیں، کیا سکون اسی کو کہتے ہیں؟ لوگ سکون کے لیے سیروتفریح کے لیے جاتے ہیں لیکن اس کے بعد پھر وہی بے اطمینانی۔لوگ سکون کے لیے فلمیں دیکھتے اور گانے سنتے ہیں، کیا اس سے سکون مل گیا؟ دنیا میں سکون کے جتنے ذرائع ہوسکتے ہیں سبھی کو ایک ایک کر کے لوگ استعمال کررہے ہیں، لیکن سکون نہیں مل رہا۔اور افسوس یہ کہ سکون کا جو اصل سرمایہ اور حقیقی وسیلہ ہے اسے اختیار کرنے کے لیے پھر بھی آمادہ نہیں ہیں، ضرورت اس بات کی ہے ہم اس حقیقت کو سمجھیں اور دوسروں کو سمجھائیں، ورنہ ہماری مثال اس بے تاب مچھلی جیسی ہوگی جسے پانی کے باہر پھینک دیا گیا ہو اور اسے کہا جائے کہ آرام وسکون سے رہو۔ ذکر کے آداب کو ضرور مد نظر رکھا جائے لیکن یہ ایک آسان عبادت ہے جس لیے شریعت نے وضو، وقت،استقبال قبلہ، جگہ اور خاص ہیئت وغیرہ کی قید بھی نہیں لگائی تاکہ ہر خوش بخت فرد اپنے دامن کو ذکر کے ہیرے موتیوں سے بھر سکے اورکثرت ذکر کے حکم کی تعمیل بھی بآسانی ہو سکے۔ اس عالم فانی میں اگر کوئی انسان کسی پر احسان کرتا ہے تو وہ انسان اپنے محسن کو یاد رکھتا ہے اور یاد رکھنا ایک اخلاقی فریضہ بھی ہے۔ تو وہ خدا جس نے ہمیں ایسی ایسی نعمتیں عطا کی ہیں کہ کوئی دوسرا عطا کر ہی نہیں سکتا تو کیا خدا کے احسانوں کے بدلے ہمارے اوپر ضروری نہیں ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے محسنِ حقیقی کو یاد رکھیں۔ سکون دل پائیں اور زندگی کو کما حقہ انجوائے کریں۔
ہمارا کام تھا راتوں کو رونا یاد مولا میں
ہماری نیند تھی محو خیال یار ہوجانا