مبصّر:عابد محمود عابد
میرپور آزاد کشمیر
ہمارے ہاں کسی کالج مجلّے کی ادارت جاں فشانی، جدّوجہد، تپسیا، ریاضت اور مشقّت کا مسلسل عمل ہے جو عموماً تین ماہ سے نو ماہ تک پورے زور و شور سے جاری و ساری رہتا ہے ۔اس محاذ پر مدیر کو سر پر کفن باندھنا پڑتا ہے اور جان ہتھیلی پر رکھنی پڑتی ہے ۔اہلِ خانہ کو خدا کے حوالے کرنا پڑتا ہے اور پیٹ کو بھوک کے۔
کالج کے مجلّے کی کرتا ہے نگہبانی
"یا بندہ صحرائی یا مردِ کوہستانی”
یہ ایک ایسا کام ہے جس کا کوئی الاؤنس نہیں معاوضہ نہیں اور اعزازیہ نہیں البتّہ اعزاز ہے تکریم ہے اور قلبی سکون ہے۔لوگ ایسے "دیوانوں” پر سرِ عام ہنستے ہیں جو اپنے بیش بہا قیمتی وقت کو ایسے "فضول کام ” میں صرف کرتے ہیں ۔یہی وقت اگر "امدادی تعلیم” یا کاروبار کو دیا جائے تو لاکھوں میں کھیلا جاسکتا ہے اور ہزاروں میں اُٹھا بیٹھا جاسکتا ہے ۔مجلّے کی آمد پر "صاحبانِ علم و دانش” جن کا مطالعہ تصاویر دیکھنے تک محدود رہتا ہے؛ بیان داغتے ہیں بلکہ” پِیکتے” ہیں :” مدیر نے اپنی تصاویر سب سے زیادہ لگائی ہیں”۔ یقینناً سب سے زیادہ تصاویر ہم سایہ ملک کے پروفیسر کی ہونی چاہییں تھیں ۔ایسی "علمی و ادبی فضا” میں اس کام کی ہامی بھرنا اپنی قبر کے لیے خود جگہ ڈھونڈنا ہے بلکہ کھدائی کا ٹھیکہ بھی خود ہی کو دینے کے مترادف ہے ۔یہ وہی گڑھا ہے جو مدیر اپنے لیے کھودتا ہے اور خود ہی اس میں گرتا ہے ۔
ایسی صورتِ حال کے باوجود استادِ گرامی پروفیسر خواجہ خورشید احمد نے "سروش”2016-17″کے لیے خود سربراہِ ادارہ سے فرمائش کرکے مورچہ سنبھالا۔آپ مجلسِ اقبال کے نگران ہیں ۔اس وقت صدر شعبہ اردو ہیں ۔تعبیر کے نام سے تقریباً ٤٠سالوں سے ادبی و ثقافتی ادارہ چلانے کا وسیع و عریض تجربہ رکھتے ہیں ۔
"سروش” گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج میرپور آزاد کشمیر کا علمی و ادبی مجلّہ ہے جس کا پہلا شمارہ 1958 میں منظرِ عام پر آیا تھا ۔زیرِنظر "سروش 2016-17” اس کا انتیسواں شمارہ ہے جو اکتوبر2019 کو چھپا ہے ۔ماقبل "سروش”2014میں شائع ہوا تھا۔اس شمارے پر کام 2015میں شروع ہوگیا تھا ۔حصّہ اُردو 634صفحات پر اور حصّہ انگریزی108صفحات پر پھیلا ہوا ہے ۔بقول میر انیس :
لگا رہا ہوں مضامینِ نو کے پھر انبار
خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
112 رنگین صفحات ہیں ۔اقبال نے کہاتھا:
پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اُودے اُودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن
جریدے کا انتساب دو حصّوں میں تقسیم ہے ۔حصّہ اوّل میں” سروش”کو جن ٣شخصیات نے عروج پر پہنچایا :یہ شمارہ ان کے نام کیا گیا جن میں پروفیسر عبدالعلیم صدیقی (مرحوم) پروفیسر غازی علم الدین اور پروفیسر منیر احمد یزدانی شامل ہیں ۔دوسرے حصّے میں خواجہ خورشید احمد (مدیر اعلیٰ) نے اپنے اساتذہ ڈاکٹر سیّد معین الرحمن(مرحوم) پروفیسر اسرار احمد، ڈاکٹر سلیم اختر (مرحوم) اور پروفیسر صابر لودھی (مرحوم) کو شاملِ انتساب رکھا ہے ۔مجلّہ ٧ گوشوں پر مشتمل ہے جن کا پھیلاؤ 200 صفحات پر محیط ہے ۔یعنی یہ بھرپور اور "گونج دار” گوشے ہیں، محض "سرگوشیاں” نہیں ہیں ۔اس شخصی قوس قزح” کی مجلّی ترتیب درج ذیل ہے :
1:گوشہ قائد اعظم
2:گوشہ علّامہ اقبال
3:گوشہ میاں محمد بخش
4:گوشہ محمود ہاشمی
5:گوشہ ارشد راٹھور
6:گوشہ ڈاکٹر سیّد معین الرحمن
7:گوشہ بانو قدسیہ
ان "خصوصی گوشوں” ہی سے شمارے کے ثروت مند، پھل دار اور زرخیز ہونے کا پتہ چلتا ہے ۔ان کے علاوہ :تحقیق کے رنگ، یادوں کے دریچے، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم، افسانے، رنگِ تغزل، ذرا نم ہو تو…..، نظمیں، نقد و نظر، جاگ اُٹھا کشمیر _____منظومات، طنزومزاح، شگفتہ کلام، علم و ادب،کالج نامہ اور علاقائی رنگ کے رنگ شامل ہیں ۔
” سروش” کا صدر دروازہ کھول کر جیسے ہی ہم اندر داخل ہوتے ہیں تو پروفیسر نذر حسین چودھری (پرنسپل ) کی دل موہ لینے والی مسکراہٹ مرحبا کہتی ہے ۔خواجہ صاحب اداریے میں جناب پرنسپل کے بارے میں رقم طراز ہیں :
"سروش”2016-17 دراصل پروفیسر نذر حسین چودھری کے زمانہ سربراہی کے تین یا چار برس کی منفرد تقریبات سرگرمیوں اور کالج کی کار گزاری کا گوشوارہ بھی ہے، تاریخ بھی، تہذیب بھی اور ثمر بھی! اس کا سارا کریڈٹ انہی کو جاتا ہے ۔”
شعبہ اُردو، مجلسِ اقبال، شعبہ انگریزی کی تصاویر کے علاوہ دیگر متفرق تقریبات کی تصاویر نے شمارے کو چار چاند لگا دیے ہیں ۔کالج کے تدریسی عملے کی سربراہِ ادارہ کے ساتھ اجتماعی تصویر یادگار ہے جس میں خواتین اساتذہ شامل نہیں ہوئیں ۔اس کے باوجود تصویر آب و تاب لیے ہوئے ہے ۔
ع:”وجودِ مرد” سے تصویرِ کائنات میں رنگ
مزید اچھّی بات یہ ہے کہ غیر جریدہ عملے کی اجتماعی تصویر اپنی انفرادیت کے
ساتھ جلوہ گر ہے۔خُدا لگتی کہیں تو غیر جریدہ ملازمین کی تصویر تدریسی عملے کی تصویر سے بہتر ہے ۔پروفیسر خواجہ خورشید احمد بخوبی جانتے ہیں کہ ایک اچھّی تصویر کیسے لی جاتی ہے ۔منظر و پس منظر کی کیا اہمیت ہے اور اجتماعی تصویر کے لیے "فیلڈنگ” کیسے ترتیب دی جاتی ہے ۔
"سروش سال بہ سال” جس میں پہلے شمارے سے لے کر تازہ شمارے تک کی مجلسِ ادارت کی تاریخ رقم ہوتی ہے؛ جس میں اُستاد مدیر، طالب علم مدیر اور طالب علم معاون مدیر کے مستقل کالم ہوتے ہیں ۔زیرِ نظر شمارے میں مکمّل طور پر معاون مدیر کے کالم کو ہٹا دیا گیا مگر تازہ شمارے کے شریک مدیر کا اندراج بھی ہے اور معاون مدیر کا بھی ۔
"گوشہ قائد اعظم” عمومی نہیں خصوصی ہے کیوں کہ اس میں قائد کے نادر خطوط اور تصاویر موجود ہیں اور ان کی توضیحات بھی ۔”گوشہ اقبال” کا باقاعدہ آغاز علامہ اقبال کے بابرکات کلام سے ہوتا ہے ۔پروفیسر محمّد عرفان چودھری، پروفیسر منیر احمد یزدانی ،پروفیسر صابر ملک اورسردارمحمّد صاعد کے بھرپور مضامین شامل ہیں ۔پروفیسر محمّد اکرم طاہر اور جابر آزاد نے اقبال کے حضور منظوم گُل پاشی کی ہے جس سے گوشہ مہک مہک اُٹھا ہے ۔
حصّہ شاعری کا کینوس خاصا پھیلا ہُوا ہے ۔چار حصّوں پر تقسیم شاعری :”رنگِ تغزل” ، "نظمیں” ، "جاگ اُٹھّاکشمیر_______منظومات” اور” شگفتہ کلام” پر محیط ہے ۔یوں شعروسخن کے لیے 58صفحات مخصوص کیے گئے ہیں ۔یہاں انتخاب بھی ہے، تازہ کلام بھی اور طلبہ و طالبات کا تازہ خونِ جگر بھی ۔طلبہ و طالبات کا کلام اصلاح کے لیے انگلستان برآمد کیا گیا ہے ۔خواجہ محمّد عارف معروف شاعر ہیں اورکالج کے سابق طالب علم بھی ۔کسی زمانے میں میرپور کے مقامی شاعر مظہر جاوید حسن یہ فریضہ سر انجام دیا کرتے تھے ۔اب دنیا گلوبل ویلج کا روپ دھار چکی ہے ۔اب اندرون ملک اور بیرون ملک میں کوئی فرق نہیں رہا ۔ اس کے باوجود بھی حصّہ شاعری میں "مقاماتِ آہ و فغاں” آتے ہیں ۔گویا شمارے میں "منفرد” اور” ممتاز "کلام اب بھی ہے ۔
پروفیسر خواجہ خورشید احمد نے اس شمارے کے لیے اپنی عمرِ عزیز کے چار قیمتی سال صرف کیے ہیں ۔خورشید صاحب جب کسی کام کی ٹھان لیتے ہیں تو پھر ان کی اُٹھان، لپک اورگرفت قابل رشک بھی ہوتی ہے اور لائقِ صد تحسین بھی ۔گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج میرپور آزاد کشمیر کا یہ شمارہ عہد ساز ہے ۔اس کی انفرادیت کے پہلو نیچے رقم ہیں ۔
یہ سروش کا سب سے ضخیم شمارہ ہے جس میں پہلی بار112 رنگین تصاویر کا اہتمام کیا گیا ہے ۔پہلی بار ٧ گوشے ترتیب دیے گئے ہیں ۔مجلسِ ادارت میں صرف ایک استاد مدیر ہے جبکہ طلبہ و طالبات کی تعداد 5 ہے۔حصّہ شاعری ٧ زبانوں پر مشتمل ہے ۔گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج میرپور آزاد کشمیر کے سربراہ ادارہ پروفیسر نذر حسین چودھری اور مدیرِ اعلیٰ پروفیسر خواجہ خورشید احمد خصوصی مبارک کے مستحق ہیں ۔آخر میں مرزا غالب کا وہ شعر جس سے اس مجلّے کا نام” سروش” اخذ کیا گیا ہے :
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے