معروضی تجزیہ
وقار احمد ملک
اس ملک میں معروضی تجزیہ ممکن ہی نہیں ہے۔ایسا تجزیہ آپ کو میٹھے میں لپیٹ کر اور آئیں بائیں شائیں کر کے کرنا پڑتا ہے۔نذیر صابر کے تجزیے پر جو ان کی درگت بنی ہے ایسی غیر متوقع نہیں ہے۔۔درگت بنانے والوں میں کچھ تو ایسے بھی تھے جو پوچھ رہے تھے یہ نذیر صابر ہے کون؟
نذیر صابر نے کسی جگہ نہیں کہا کہ علی سدپارہ بحیثیت پورٹر جا رہے تھے۔۔۔ہمارے ہاں کوہ پیمائی کو سپانسر کرنے کا تصور بھی نہیں ہے۔۔ایسے میں علی سدپارہ جیسے ہیروز کو بین الاقوامی کوہ پیماؤں کے تعاون کی ضرورت پڑتی ہے جس میں کوئی قباحت نہیں کہ وہ چوٹی بھی سر کر لیتے ہیں اور معاوضہ کے عوض اپنے تجربے سے غیر ملکی کوہ پیماؤں کو مستفید بھی کرتے ہیں۔۔۔اور مستفید ہوتے بھی ہیں۔۔
زبان و بیاں کے مسائل بھی ہوتے ہیں۔۔بنیادی طور پر نذیر صابر۔۔علی سدپارہ کا دفاع کر رہے ہیں کہ وہ گزشتہ کچھ دنوں سے مختلف لوگوں سے بحث کر رہے تھے کہ یہ مت کہو کہ خراب موسم کے باوجود اوپر جانے کا فیصلہ اس کا تھا ۔۔یہ اس کا نہیں بلکہ سنوری کا فیصلہ تھا۔۔۔لیکن اس انٹرویو میں سیاق وسباق سے نابلد حضرات نے معاملہ کہیں اور پہنچا دیا۔۔۔
میں یہ سب اس لیے بھی کہہ سکتا ہوں کیونکہ تارڑ صاحب کو علی سدپارہ کے حوالے سے از حد تشویش تھی اور وہ مسلسل نذیر صابر سے رابطے میں تھے۔۔۔لیکن ہم
بغیر پس منظر جانے کتنی آسانی سے ہیروز کو گالیاں تک نکالنا شروع کر دیتے ہیں
علی سدپارہ نے چار مرتبہ نانگا پربت سر کیا ہوا ہے۔(میسنر نے دو دفعہ نانگا پربت سر کیا ہوا ہے)۔۔14میں سے دنیا کی 8بلند ترین چوٹیاں سر کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔۔نانگاپربت کو سب سے پہلے سردیوں میں سر کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔اب اس میں کیا شک ہے کہ وہ پاکستان کے میسنر تھے..اور یہ بات نذیر صابر جیسے تجربہ کار اور بین الاقوامی شہرت کے مالک سے مخفی تو نہیں ہو سکتی۔۔۔اردو پوائنٹ نے نذیر صابر کا انٹرویو علی سدپارہ کی عظمت کے حوالے سے نہیں کیا تھا بلکہ حالیہ واقعہ کے حوالے سے تھا۔۔۔نذیر صابر کے لہجے میں تلخی تھی لیکن اس کی وجہ یہی فیس بکی تجزیے تھے۔۔۔۔
علی سدپارہ تھے ۔۔تو ملک میں ان کے کتنے گن گائے جاتے تھے ہمیں معلوم ہے۔۔۔اور نذیر صابر جب نہیں ہوں گے تو کس سطح کے ہیرو کہلائیں گے یہ بھی جانتے ہیں۔۔۔
ایک پیشہ ورانہ تجزیہ جذبات سے ماورا دو جمع دو چار ہوتا ہے۔۔ایسے تجزیات کی ہمیں عادت نہیں۔۔
علی سدپارہ زندہ باد
نذیر صابر پائندہ باد