مشہور روسی مفکر،محقق، دانشور اور شاعر رسول حمزہ توف اپنی تحریر”میرا داغستان” میں لکھتے ہیں کہ بستی میں ایک عقل مند اور ایک ہی عقل سے عاری بدھو کافی ہوتا ہے۔ عقلمندوں اور بے عقلوں کی بہتات بستی کا نظام تباہ کر دیتی ہے۔ عام لوگ کنفیوژن کا شکار ہو جاتے ہیں اور غلط فیصلے کرنے لگ جاتے ہیں۔ عقلمندوں اور جاہلوں کے جھگڑے سے معاشرے میں فساد برپا ہو جاتا ہے اور آخر کار بستی تباہ ہو جاتی ہے۔
بد قسمتی سے آج ملک پاکستان پر عاقلوں اور جاہلوں کے درمیان بیانیے کی جنگ جاری ہے اور ملک دشمن عناصر بیانیہ فروشوں کی حمایت میں ملکی نظام پر حملہ آور ہیں۔
آزادکشمیر میں کچھ روز پہلے عام انتخابات ہوئے۔ مریم صفدر، بلاول زرداری اور بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اپنی اپنی ٹیمیں لیکر الیکشن کے میدان میں آئے اور پھر بیانیے کی جنگ شروع ہو گئی۔ بیرسٹر سلطان محمود شروع دن سے ہی مایوس نظر آرہے تھے چونکہ اُن کے ضمیر پر برادری ازم، سیاسی شکست و ریخت کے علاوہ اخلاقی گراوٹ کا بوجھ واضع نظر آرہا تھا۔ بیرسٹر صاحب کا مورچہ وزیر امور کشمیر نے سنبھال لیا اور مریم کی گولی کا جواب گولے سے اور بلاول کے تیر کا جواب توپ سے دینے لگے۔گولی اور تیر والے ناکام ہوئے اور توپ والے جیت گئے۔ وزارت عظمیٰ کے اُمیدواران کی لسٹ مرتب ہوئی توجاٹ،گجر اور مغل سوئمبررچانے آگئے۔اقتدار کی دیوی نے جاٹوں، گجروں اور مغلوں کی لڑائی سے بددل ہو کر ایک دُلی راجپوت کے گلے میں نولکھا ہار ڈالا تو پنجاب کے دانش کدے میں آگ لگ گئی۔ نامور صحافی، تجزیہ نگار اور دانشور سونے چاندی کے ڈھیروں، خوراکوں کے انباروں، بلیک لیبل کے کریٹوں، یبرون ملک دوروں، کشمیر ہاؤسنگ سکیم کے پلاٹوں، شاہانہ دعوتوں اور تحفوں پر نظریں جمائے بیٹھے تھے کہ وزارت عظمیٰ ایک شریف النفس، غریب پرور اور عوام کا دکھ درد سمجھنے والے درویش کے حصے میں آگئی۔ سب سے پہلے دانشور صحافی نصر ت جاوید نے مایوسی کا اظہار کیا اور عبدالقیوم نیازی کی وزارت عظمیٰ کو علم الاعداد اور علم بخوم کی دیگر اصناف کا کرشمہ لکھ کر اپنے عزیز الحجان دو ستوں بیرسٹر سلطان محمود چوہدری، مشتا ق منہاس اور دیگر بلیک لیبل اور ٹن قائدین کا غم ہلکا کرنے کی کوشش کی۔دوسری بڑی مایوسی 92چینل کے ایک اینکر کو ہوئی۔ اینکر محترم نے لاہور سے کسی لاہوڑی سیاسی تجزیہ نگار اور ماہر کشمیریات رانا صاحب سے طویل انٹرویو کیا تو ر۔کو۔ڑبولنے والے رانا صاحب نے پشین گوئی کی ہے کہ سردار عبدالقیوم نیازی کی حکومت چھ ماہ بعد ختم ہو جائے گی۔ دوران گفتگو رانا صاحب نے فرمایا کہ پیپلز پارٹی، نون لیگ اور پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے جاٹ اور گجر جلد ہی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائینگے اور ایک نئے اتحاد کی صورت میں نہ صرف وزارت عظمیٰ بلکہ سارے آزادکشمیر بشمول گلگت، بلتستان پر گجرانوالہ کے سانسی جٹ رنجیت سگھ کی طرح قابض ہوجائینگے۔
رانا صاحب کی سیاسی بصیرت کا کچھ کہہ نہیں سکتے۔ شاید ایسا ہی ہو جائے اور بیرسٹر سلطان جاٹ اور گجر فور س کے ہمراہ سردار تنویر الیاس کے مغل لشکر کی مدد سے آزادکشمیر فتح کر لیں مگر بظاہر ایسا نظر نہیں آرہا۔ بیرسٹر سلطان بہت سے سکینڈلز اور الزامات کی زد میں ہیں جو مقدمات میں بدل سکتے ہیں۔ جٹ گجر اتحاد کی قوت سے انہیوں نے راجہ ممتاز راٹھور کو بلیک میل کرنا شروع کیا تو مرحوم راٹھور صاحب نے حکومت کو ہی چلتا کردیا۔ بیرسٹر صاحب کی اپنی وزارت عظمیٰ نے آزادکشمیر میں بلیک لیبل اور کرپٹ کلچر کی بنیاد رکھی تھی۔ بیرسٹر صاحب کا ایک وزیر اور بردداری کا سرخیل دوبار دھت پکڑا گیا اور کئی بار بے عزت ہوا مگر ہر بار پنجاب کے چوہدری، مجاہد اوّل اور اُن کا پسر اوّل مدد کے لیے میدان میں آگئے۔ شرابی سیاسی کلچر کی حمایت کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب سردار عتیق ڈان کے خوطے کی طرح اکیلے ہی خالی گھوڑے پر سوار پن چکی پر حملہ آور ہوئے نکلے ہیں۔
سردار تنویر الیاس کی مغل فورس اب بہادر شاہ ظفر کے لشکر کی طرح ہے جس کا کمانڈ ر کوئی مغل جرنیل نہیں۔ مرزا حیدر دوغلات کی تاریخ رشید ی کے مطابق مغل بھی دو نسلوں کے تھے۔ ایک جاٹا اور دوسرے کارواناں کہلاتے تھے۔ آزادکشمیر میں بھی مغلوں کی تین اقسام ہیں اور تینوں کے کمانڈر الگ الگ ہیں۔ چغتائی، ملدیال اور سادہ مغل ابھی تک متحد نہیں ہو سکے۔سردار تنویر الیاس بھی درجنوں الزامات اور مقدمات کی زد میں ہیں۔ رانا صاحب کو پتہ نہیں کہ آزادکشمیر کا ہر سیاستدان اور اسمبلی کا ممبر کرپشن زدہ ہے۔ اگر کشمیر ہاؤسنگ سوسائٹی کا کھاتہ کھل گیاتو سوائے سردار عبدالقیوم نیازی کے ننانوے فیصد سیاسی ٹولہ دلائی کیمپ میں ہو گا۔ وزیراعظم آزادکشمیر کے علاوہ وزیراعظم پاکستان کے پاس بھی آئینی اختیار ہے کہ وہ کسی سیاسی تصادم،انتشار ریاستی نظام کے تحفظ کو مد نظر رکھتے ہوئے آزادکشمیر میں ڈائریکٹ ایکشن کر سکتے ہیں۔ ا ب زرداری اور نواز شریف کا دور نہیں۔ عمران خان کا تعلق ہیبت خان اور عیسیٰ خان نیازی کے قبیلے سے ہے۔ پنجاب کے عقلمندوں سے گزارش ہے کہ وہ شیر شاہ سوری کی سوانح حیات کا مطالعہ کرلیں۔
سردار عبدالقیوم نیازی کے وزیراعظم منتخب ہونے پر انتہائی مایوس کن اور نفرت آمیز تبصرہ جناب ہارون الرشید نے کیا ہے۔ ہارون الرشید مجاہد اوّل سردار عبدالقیوم اورسردار سکندر حیات خان کے پرانے ساتھیوں میں سے ہیں۔ آپ دونوں سرداروں کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ رہے ہیں۔ بیرسٹر سلطان کے حلقہ احباب میں بھی کبھی کبھی شرکت فرماتے رہے مگر کبھی کھل کر اظہار محبت نہیں کیا۔
ہارون رشید کی نفرت کے سائے میں اُن کی تاریخی علم گہنا گیا ہے۔ آپ سے عرض ہے کہ سردار عبدالقیوم نیازی کا سوات کے محمود خان اور ڈیرہ کے عثمان بزدار سے کوئی مقابلہ نہیں۔ آپ کو طنز کا اختیار ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ زمانہ طالب علمی سے ہی سردار عبدالقیوم نیازی روحانیت اور شاعری کی طرف مائل تھے۔ آپ کے پسندیدہ شاعرمنیر نیازی اور عبدارلستار خان نیازی تھے۔ اپنے پسندیدہ شاعروں سے انس کی بنیاد پر آپ نے اپنا تخلص نیازی رکھا۔آپ کی میٹر ک کی سند پر بھی ہی نام درج ہے۔ آپ حضرت پیر حیدر شاہؒ پناگ شریف کے مریدوں میں سے ہیں۔ آپ کا گھرانہ علاقے میں معزز اور معتبر شمار ہوتا ہے۔ اگر بھاولپور، حاصل پور اور خیر پور ٹامیوالی کے لوگ انہیں نہیں جانتے ہیں تو یہ سردار عبدالیقوم نیازی کا ہر گزقصور نہیں۔ جن مشہور سیاسی لوگوں کو آپ جانتے ہیں وہ نہ تو تحریک آزادکشمیر سے کوئی محبت رکھتے ہیں اور نہ ہی انہیں کشمیر کے لوگوں سے کوئی سروکار ہے۔ ان کی کوالیفکیشن جھوٹ، فراڈ، پٹوار خانوں اور تھانوں پر قبضہ، پیداگیری، بدمعاشی، قانون شکنی، شراب، جوا اور بدکاری ہے۔ آپ کو یاد ہوگاکہ آپ کے مرحوم دوست مجاہد اوّل سردار عبدالقیوم خان جب بھارت کے دورے پر دلی گئے تھے تو اُن کے وفد کا چناؤ سردار عتیق نے کیا تھا۔ سردار صاحب آزادی کشمیر کا مشن لیکر گئے تھے اور ان کا وفد راتیں شراب خانوں اور طوائف خانوں میں گزارتا تھا۔ کیا” ر” نے ان سب کے کوائف جمع نہ کیے ہونگے؟ شاید ایسا نہ کیا ہو؟ آخر میزبانی کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں۔
سردار عبدالقیوم خان نیازی چھ ماہ وزیراعظم رہیں پا پانچ سال۔ تاریخ میں اُن کا نام ایک دیندار،اعلی علمی گھرانے کے چشم و چراغ اور نیک نام وزیر اعظم کی حیثیت سے لکھا جائے گا۔
رانا صاحب کی علم وعقل اور سیاسی بصیرت کو دادنہ دینا بھی درست نہیں۔آپ نے فرمایا کہ آزادکشمیر کا وزیراعظم عالمی سطح پر کشمیر کا مقدمہ لڑتا ہے۔ رانا صاحب کا علم راوی کے کنارے تک محدود ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ آزادکشمیر کے ایک وزیراعظم کو یوسف رضا گیلانی کے جہاز سے اتار لیا گیا تھا چونکہ وہ جس ملک میں جارہے تھے وہاں آزادکشمیر کا وزیراعظم کئی جرائم میں ملوث اور وہاں کی حکومت کو مطلوب تھا۔ آزادکشمیر کے ٹن وزیر، وزیراعظم اور سیاستدان بیرون ملک کیا کرتے ہیں ساری دنیا ان کے کرتوت جانتی ہے۔
دانشوروں اور سیاسی تجزیہ نگاروں کی مایوسی اپنی جگہ درست ہے۔ اب کشمیر ہاؤس اور مظفرآباد کے پی سی ہوٹل میں مندے کا رحجان رہیگا۔ آزادکشمیر کا بجٹ غیر ملکی دوروں، پبوں اور کلبوں کے بجائے آزادکشمیر کے عوام پر خرچ ہو گا۔ جناب ہارون الرشید عالم دین بھی ہیں۔ آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ اصل حکمرانی اللہ کی ہے اوروہی عزت و ذلت دینے والا ہے۔