https://soundcloud.com/sheherzadepodcast/introduction
اور اگر آپ سننے کے خوگرنہیں ہیں تب بھی بلا جھجھک آگے بڑھ جائیے۔ ہم کوشش کریں گے کہ داستان کا تسلسل نہ ٹوٹے۔
ایک ڈھنڈار حویلی کے اس سے کہیں زیادہ شکستہ مگر مغلوب الغضب جوالامکھی مالک قبلہ کےنام سے ہیں، ہتھ چھٹ بدمعاملہ، گالیاں دینے پر آئیں تو مادری زبان میں طبع زاد بلکہ خانہ ساز۔ لفظ کے لچھّن دیکھنا چاہیں تو اپنے پڑھنے والوں کے لیے پیش خدمت ہے آب گم سے بقلم خود لکھاگیا یہ ٹکڑا :
ہم ان بلندیوں کو تو نہیں پہنچ سکتے مگر نقل کرنے کی سعی کرسکتے ہیں اور صاحب آپ کو پہلے بتائے دیتے ہیں کہ نقل بالکل بھی بمطابق اصل نہیں ہے۔
تصوّف کی وارداتِ قلبی کاظہورآدھی عمراِدھرآدھی اُدھرچالیس کےپیٹےمیں ہوتاہے۔ اس عمرمیں بندہ کھُل کرصرف حال ہی کھیل سکتاہے۔ ہمارے یہ لفظ اس پوڈکاسٹ کی تمہید ہیں جہاں ہم یوسفؔی کامضمون بائی فوکل کلب پڑھ کرسنا رہےہیں۔ پیش خدمت ہے یوسفؔی بزبانِ ناچیز
یوسفؔی کاحساس قلم بچھڑجانےکی تصویرکھینچتااداس کرتا چلاجاتاہے۔ وہ انگارےکی طرح دہکتی بوگن ولیا کی گودمیں سویا سیزرؔ ہو بچے جہاں کسی کو پاؤں نہیں رکھنے دیتے کہ وہاں ان کا ایک ساتھی سورہاہے۔
یا نثاراحمد خاں کےمرگ چھالےکا قصّہ جن کاجواں سال بیٹاایک حادثےمیں گزرگیا۔ جنازےکےدالان میں لارکھنے پر زنانے سے وہ ’بھنچی بھنچی سی چیخ کہ سننےوالےکی چھاتی پھٹ جائے‘۔ نثاراحمد خاں کا دلاسا ’بیوی!صبر۔اونچی آوازسےرونےسےاللہ کےرسول ﷺ نےمنع کیاہے‘ مگرمیّت کو لحدمیں اتارتےوقت باپ کااپنےسفیدسرپرمٹھی بھربھرکےخاک ڈالنا ۔
یاپھرتمباکوپراپنے استادخان سیف الملوک خان سےبیس سال بعدنوشہرہ کی یخ بستہ سویرمیں ملاقات کہ خانصاحب خاص ملنے کے لیے آئے تھے اور ریتا بنوا کے لائے تھے کہ ’بیٹی نے ساری رات جاگ کرپکایاہے‘
یوسفؔی کا استفسار’اور بھابھی ۔۔۔؟‘
انہوں نےمضبوطی سےابدالی (بندوق) کوتھامااورسرجُھکالیا
اپنی زندگی میں شریک حیات کو وداع کرنے کےسانحے سےخو د یوسفؔی صاحب بھی گزرے۔صاحب کیا کچھ نہ دل پر بیتی ہوگی۔زندگی کےآخری ایام کسی مونس ، کسی دسراہٹ کےبغیرکیسے گزرے ہوں گے یہ کچھ ان کا دل ہی جانتا ہوگا۔ اس کا کچھ ذکرایک انٹرویو میں کرتےہیں جس میں شام کو صبح کرنےکےحیلوں کابیان ہے۔کمرے میں ایک کرسی، ساتھ چھ بائے تین کابیڈاورکچھ بکھری کتابوں کےسواایک زرد چادر۔ یہ تھی متاع فقیر۔ کہنےلگے ’میری بے حد پسندیدہ بسنتی رنگ کی یہ چادرمرحومہ نے بڑے شوق سے اپنے ہاتھ سے اپنے لیے سی تھی۔ آخری دن دمِ وداع یہی چادر اوڑھے ہوئے تھیں۔ رُخسار بھی ہمرنگِ چادر ہوچلے تھے۔سب نے کہا، یہ چادر بھی فقیر فقراکو دے دلادو۔ سو میں نے سب سے اُتاؤلے باؤلے سوالی، دھجا دھاری بیراگی کو یہ کفنی سونپ دی۔‘
کہیں اوڑھ چدریاسجنی گئی
کوئی کفنی پہنے راہ تکت ہے
۲۰ جون ۲۰۱۸ کو اس کفنی پہنے راہ تکنے والے کا بلاوہ بھی آگیا اور ہم نے مٹی کی امانت مٹی کے سپرد کردی۔
صاحب! ہم ڈنکےکی چوٹ یہ ماننےکوتیار ہیں کہ ہمارادامن آگےسےپھٹاہواہے۔ ہمیں ببانگِ دہل اپنادامن پیچھےسےپھٹ جانے کی حسرت کااظہارکرنےمیں بھی کوئی عارنہیں۔ کہہ لینےدیجیےہم خوش قسمت تھےکہ اردوادب کےعہدِیوسفؔی میں جیے
آ جاکبھی تودستِ زلیخا لیے ہو ئے