تحریر: عقیل ثقلین بٹ
کشمیریوں کو دنیا میں عزت و وقار کا مقام دلانے کیلیے ایک مخلص، ویژنری اور بہادر قیادت کی اشد ضرورت ہے جو اپنے قومی مفاد کیخاطر عارضی اقتدار کو جوتے کی نوک پر رکھے اور اپنے قومی حقوق چھیننے والوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے۔ اپنی قوم کو انکا جائز حق دلوا سکے۔
ہمیں علم ہیکہ موجودہ نظامِ سیاست میں اکثر ایسے نا اہل لوگ منتخب ہوتے رہے ہیں جن کو نہ تو اپنے ہی حلقے کے مسائل کا مکمل ادراک تھا اور نہ علاقائی و بین لاقوامی امور پر کوئی دسترس۔ خود اعتمادی کے فقدان کا یہ عالم ہیکہ کبھی کسی معاملے پر کسی ٹی وی چینل کو انٹرویو دینا پڑے تو ہاتھ اور ٹانگیں کانپنے لگے۔ ان نکموں و نا اہلوں کا زور زیادہ تر صرف اپنے علاقے کے sp، پولیس انسپیکٹر یا پٹواری وغیرہ پر چلتا ہے۔ انکی سب سے بڑی خدمت اپنے حلقے کے با اثر لوگوں کی نمازِ جنازہ، فاتحہ اور انکے بچوں کے ولیمے اٹینڈ کرنا، اپنے پسندیدہ افراد کی بغیر میرٹ نوکری دلوانا یا اپنے مقبول ٹھیکیدار کو کمیشن پر ٹھیکہ دلوانا ہوتا ہے۔ مخالف اور حق و سچ کی آواز کو کچلنا انکے بائیں ہاتھ کا کھیل رہا ہے۔ اسکے علاوہ سال میں ایکبار مسئلہ کشمیر کے نام پر انگلینڈ کا دورہ کرنا بھی انکا پسندیدہ مشغلہ ہوتا رہا ہے۔ دورے کے دوران بیچارے کشمیر کے لیے کس سے، کیا اور کیسے بات کریں گے البتہ اپنے چمچوں کی دعوتیں کھانا اور ان سے تحائف وصول کرتے کرتے ایک کامیاب دورہ اختتام پزیر ہوتا ہے۔
بد قسمتی سے پچھلی پانچ چھے دہائیوں سے (جعلی) جمہوریت کے نام پر عوام سے یہی مذاق روا لکھا جاتا رہا ہے۔ اکیسویں صدی میں عزت و آبرو کے ساتھ جینے کیلیے عوام الناس کو اپنے حقوق و فرائض کی آگاہی ایک قومی دینی فریضہ بن چکی ہے۔ مغرب کے ملحدوں کے برخلاف یومِ آخرت پر ایمان رکھنے والی مسلمان قوم کو اپنے اعمال کے جوابدہی کی فکر سب سے زیادہ ہونی چاہیے۔ ہم میں سے اگر ہر ایک صرف حق و سچ کا ساتھ دینے کا تہیہ کر لے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ترقی کرنے سے نہیں روک سکتی۔ ہم نے ہی فیصلہ کرنا ہیکہ ہم اپنے بچوں اور انکی آنے والی نسلوں کو کیسا معاشرہ دیکر اس دنیا سے رخصت ہونا چاہتے ہیں۔ ایک غریب، نا انصافی، بیماری اور پسماندگی پر مبنی معاشرہ یا ایک ترقی یافتہ، توانا، مہذب اور پروگریسو سوسائٹی۔ میرے عزیز دوستو، فیصلہ آپ نے کرنا ہے!