کرونا، ڈنگی، غربت، مہنگائی، پولیس گردی، وکیل گردی، ڈاکٹر گردی، دہشت گردی اور دیگر انگنت گردیوں کے گردو غبار نے سارے پاکستانی معاشرے اور ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔پرنٹ میڈیا تو اب برائے نام ہی ہے اور آہستہ آہستہ دم توڑ رہا ہے۔ کالم نگاروں اور صحافیوں نے اپنے سوشل میڈیا چینل کھول رکھے ہیں اور مال کما رہے ہیں۔ اہل قلم و علم جو گفتگو ٹیلی ویژن سکرینوں پر کرتے ہیں اپنے ذاتی چینلوں پر اکثر اُس کی نفی کر دیتے ہیں۔
سیاستدان بیانیے کی جنگ لڑ رہے ہیں اور عوام اس بیانیے میں مدہوش موت کے منتظر ہیں۔ صلاح الدین ایوبی ؒ کا قول ہے کہ جب مزدور کی مزدوری سے روٹی کی قیمت بڑھ جائے تو اُس کی عزت نیلام ہو جاتی ہے۔پروین ہماری جاننے والی ہے۔ وہ پانچ گھروں میں کام کرتی ہے اور بیس ہزار ماہانہ کماتی ہے۔ بارہ ہزار اُسکا شوہرکماتا ہے۔ تین بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں۔ یوں یہ آٹھ افراد پر مشتمل ایک گھرانہ ہے۔
پروین کی برادری کے سات سو ووٹ ہیں اور یہ لوگ باہم مشورے سے کسی ایک ہی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔ یہ لوگ ہمیشہ سے ہی چوہدری نثا ر کے ووٹر رہے ہیں مگر ووٹ کو عزت دو والی جماعت نے انہیں کبھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔اس باروہ تقاربدیلی کے جھانسے میں آگئے اور عمران خان کے کھلاڑیوں میں شامل ہوگئے۔
پروین کے گھر میں ایک فرشی پنکھا اور چار بلب ہیں۔ پچھلے تین ماہ سے اُس کا بجلی کا بل پندرہ اور اٹھارہ ہزار کے درمیان آرہا ہے۔تین ہزار کا گیس سلنڈر آتا ہے جوپندرہ دن بھی نہیں نکالتا۔ پروین نے اپنے بچے سکولوں سے اٹھالیے ہیں مگر اتنے چھوٹے بچوں کو کوئی کام بھی نہیں آتا۔ پروین کا خاوند پریشانیوں میں مبتلا ہو کر بیمار رہنے لگا ہے اور اکثر کام پر نہیں جاتا۔ پروین نے صحت کا رڈ بھی بنوا رکھا ہے مگریہ کارڈ کسی بڑی بیماری یاآپریشن وغیرہ کی صورت میں صرف سرکاری ہسپتال میں کام آسکتا ہے۔وہ ثانیہ تشتر کے کرشماتی پروگراموں میں کئی بار نا م لکھو ا چکی ہے مگر کمپیوٹر میں اُس کے نام کی گنجائش ہی نہیں۔
پروین کے لئے اب زندہ رہنے کا ایک ہی اختیار ہے کہ وہ جن گھروں میں کام کرتی ہے وہاں چوریاں کرے اور بچوں کو بھی یہی ہنر سکھا دے۔ پکڑ ے جانے کی صورت میں جیل جائے اور باقی زندگی بچوں سمیت جیل میں گزار دے۔”کشمیر کا المیہ“ نامی کتاب میں لکھا ہے کہ ہنزہ میں ایک بھوکے شخص نے بادشاہ کے باغ سے چند خوبانیاں توڑ کر کھا لیں۔ محافظوں نے چور کو پکڑ لیا، مقدمہ چلا اور چو ر کو تین سال سزا ہوگئی۔ ہنزہ میں اُن دنوں جیل نہیں صرف قتل گاہ ہوتی تھی۔ مجرموں کو شاہی قلعے کے عقب سے ہزار فٹ نیچے پتھروں پر پھینک دیا جاتا تو انصاف کا بول بالا ہو جاتا۔ خوبانی چور کر سزا بھگتنے کے لیے مہاراجہ کشمیر کی بنائی جیل میں گلگت بھجوادیا گیا تو اُس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ سونے کے لیے چٹائی، کھانے کے لیے برتن،صبح کا ناشتہ اور پھر دو وقت کا کھانا اندر مہندر مہاراجہ کشمیر کی طرف سے ملنے لگا تو خوبانی چور نے اپنی بیوی اور بچوں کو خط لکھا کہ فوراً بادشاہ کے باغ سے دو دو خوبانیاں توڑ کر کھاؤ اور سزا یافتہ ہو کر یہاں آجاؤ۔ یہاں کوئی کام نہیں اور کھانا مفت ملتا ہے۔
غربت، بیماری، مہنگائی، بجلی، پانی، گیس اور ادویات کے بل وہ شخص بھی ادا نہیں کر سکتا جس کی تنخواہ ایک لاکھ ماہانہ ہو۔ گھر کا کرایہ اور ٹرانسپورٹ کا خرچہ اس کے علاوہ ہے۔ محنت مزدوری یا نوکری کرنے جو بھی گھر سے نکلتا ہے اُسے کرایہ بھی ادا کرنا ہے۔ اگر حالت یہی رہی تو لوگ سرکار کے بل ادا نہیں کرینگے تو بجلی، پانی اور گیس سے محروم ہو جائینگے۔ امرأ کے گھروں پر حملے کرینگے، بلوے اور چوریاں ہونگی، لوگ سیکیورٹی گارڈوں اور پولیس کے ہاتھوں مریں گے یا پھر عدالتوں سے سزا یافتہ ہو کر جیلوں میں بند ہونگے۔ اگر تین چارکروڑ لوگ جیلوں میں چلے گئے تو پھر وہاں بھی جگہ نہ ہوگی۔اشد ضرورت ہے کہ حکومت ابھی سے اگلا پانچ سالہ منصوبہ اپوزیشن سے ملکر بنالے تاکہ بلاول اورمریم کی حکومت اس مسئلے سے نبر د آزما ہوسکے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کی بقأ اور سلامتی کا حل صرف اور صرف پانی میں ہے جو فی الحال وافر مقدار میں دستیاب ہونے کے باوجود ضائع ہو رہا ہے۔ اس کا فوری حل کالا باغ ڈیم ہے مگر بلاول اور اُس کے اتحادیوں کو اس نام سے ہی نفرت ہے۔ وجہ اُن کے نانا حضور ہیں جنہوں نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر کالا باغ ڈیم کا منصوبہ ترک کر دیاتھا۔ ظاہر ہے کہ جب تک بھٹو زندہ ہے کالا باغ ڈیم نہیں بنے گا۔ نہ پانی ہوگا، نہ بجلی بنے گی، نہ کھیت آباد ہونگے، نہ روٹی ملے گی اور نہ کپڑ ابنے گا۔
پاکستانی عوام بھی عجیب مخلوق ہے۔ ایسے لوگ توحمورابی، اشنونا اور نمرود کے دو ر میں بھی نہ تھے۔ بابلی اور سو میری دور میں بھی لوگ احتجاج کر تے تھے اور حق مانگتے تھے۔چین کی تاریخ میں غلامی کاطویل دور آیا مگر اُن کے علماء، صوفیاء اور دانشوروں نے عوام کا ساتھ نہ چھوڑا اور اُن کی جدوجہد میں بھرپور شرکت کرتے ہوئے انہیں لڑنے، جینے،آگے بڑھنے اور اچھی روایات سے جڑ ے رہنے کا حوصلہ دیا۔ ہزاروں سال بعد آج چین لاؤزے، کنفیوشس،سن توژو، مہاتما بدھ اور دیگر علمأ، صوفیأ، شعرأاور فلاسفہ کے بتلائے ہوئے اصولوں کی بنیاد پر دنیا کی عظیم قوت اور مثالی معاشرہ ہے۔ڈیڑھ ارب آبادی والا ملک دنیا کا امیر ترین ملک ہے۔ عوام خوشحال اور ہر لحاظ سے مطمّین ہیں۔
ہمارے ہاں روٹی کپڑے اور مکان کا جھانسہ دیکر عوام کو لوٹنے، انہیں برہنہ کرنے، انہیں عزتیں نیلام کرنے پر مجبور کرنے، ان کے کھیت کھلیان ویران کرنے اور اُن کی جیبوں سے پیسہ نکال کر سرئے محل اور اندرون ملک اور بیرون ملک کھربوں کی جائیدادیں خریدنے والوں کے ساتھ لوہے کے چنے چبانے اور ملک کوکنگال اور عوام کو بد حال کرنیوالا حکمران خاندان بھی عوام الناس میں مقبول ہے۔ ان حکمران خاندانوں کا دنیاکے کسی بھی ظالم، سفاک اور انسان دشمن خاندان سے مقابلہ کیا جائے تو بھٹو، زرداری اور شریف خاندان نمرود، شداد، قارون،فرعون، نیرو اور یونانی اگاتھا کا نام ہمارے حکمران خاندانوں اور اُن کے معاونین کے بعد آئیگا۔
مستقبل کا تاریخ دان یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب ہو گا کہ عقل و شعور سے عاری ایک قوم جس کے پاس اسلام اور قرآن جیسی روشنی موجود تھی وہ کس مجبوری یا بے حسی کی وجہ سے اندھیرے میں رہنے پر مجبور تھی۔ کیا انہیں یہ محسوس نہیں ہوا کہ دو حکمران خاندان اور اُن کی پالتو نوکر شاہی اُن کا خون چوسنے والی مخلوق تھی جس نے انہیں انسانیت کے درجے سے گرا کر مفلسی کی زندگی گزارنے کا عادی کر دیا۔ اُن کی عزت نفس کا خاتمہ کیا اور غلامی کا خو گر بنا دیا۔
المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے علمأ، صوفیأ، بوڑھے اور ینگ مشائخ، دانشور حکیم و فلاسفہ بھی ان ہی دو خاندانوں کی غلامی پر فخر کرتے ہیں۔ ہر آستانے اور پیر خانے کا تعلق کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے ہے۔ اسمبلیوں میں بھی ان کی نمائندگی ہے جس کا مقصد دین نہیں بلکہ دنیا ہے۔ مزدور کی مزدوری سے اب روٹی کا حصول ممکن نہیں رہا۔ پیسہ صرف پراپرٹی، ایجوکیشن آئی ٹی اور پرائیویٹ ہسپتالوں سے ہی کمایا جاتا سکتاہے۔ پراپرٹی ڈیلر ایک خطر ناک مافیا بن چکا ہے۔ زمینوں پر قبضے، ہاؤسنگ سکیموں کی بھر مار اور انتظامیہ و عدلیہ کی ان کے سامنے بے بسی بلکہ بڑی حد تک معاونت نے عام آدمی سے جتنے کا حق چھین لیا ہے۔ افتخار چوہدری اور ڈاکٹر امجد کی کہانی پر خاموشی سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت جرائم کا خاتمہ کرنے کے بجائے خود آلہ کار کا کردار ادا کر رہی ہے۔
تعلیم کا حصول صرف پرائیویٹ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں تک محدود ہے جہاں صرف امر اء، اعلیٰ سرکاری افسروں یا پھر قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے والوں کے بچے ہی پڑھ سکتے ہیں۔ امیروں کا یہ طبقہ دوسرے اور تیسرے درجے پر آتا ہے۔پہلے درجے والوں کے بچے بیرون ملک اُن تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں جہاں بادشاہوں اور دنیا کے امیر کبیر لوگوں کے بچے تعلیم حاصل کر تے ہیں۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی تک پیسے اور اس علم سے بہرہ ور ہو کر ہی رسائی ممکن ہے جو عام آدمی کی دسترس سے باہر ہے۔ پرائیویٹ ہسپتالوں اور پرائیویٹ سکولوں کی حقیقت ایک جیسی ہے۔ میرے ایک جاننے والے اچانک بیمار ہوگئے،پڑوسیوں نے نزدیک ایک پرائیویٹ ہسپتال میں داخل کروادیا۔ دوسرے دن اُن کا بیٹا کراچی سے آیا تو ہسپتال والوں نے بغیر کسی علاج کے محض مریض کی تیمارداری کا ساٹھ ہزار بل دیکر مریض کو قریب المرگ کر دیا۔
پاکستان میں پیسہ کمانے والے ادارے پاکستانیوں کا خون نچوڑنے والوں کے ہاتھ میں ہیں جہاں عام لوگوں کی رسائی ممکن نہیں۔ پیسہ کمانے کا پانچواں ادارہ جسم فروشی کا ہے جو”میرا جسم میری مرضی“ کے اصول پر استوار کیا گیا ہے۔ پاکستان کے تمام بڑے شہروں اور ماڈرن ہاؤسنگ سکیموں میں کام کرنے والے ٹیکسی ڈرائیور خاص کر اُوبر اور کریم چلانے والے اس کاروبار سے منسلک ہیں۔ ایک ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ وہ ایک ہاؤسنگ سکیم سے چاراعلیٰ تعلیم یافتہ اور بظاہر رکھ رکھاؤ اور سلیقہ مند عورتوں کو رات دس بجے بلیو ایریا میں چھوڑتا اور صبح چھ بجے اُسی مقام سے واپس لاتا ہے۔ وہ اُسے روزانہ بارہ سے پندرہ ہزار کرایہ دیتی ہیں جو ایک بڑی آمدنی ہے۔ ایسی خواتین سے پولیس بھی دور رہتی ہے اور کبھی رکاوٹ نہیں بنتی۔ بیان کردہ مسائل اور تنزلی کا دور بھٹو کے اقتدا رسے شروع ہوا جسے مشر ف دور میں روشن خیالی کا نام دے کر تقویت پہنچائی گئی۔ زداری اور شریف دور میں بھی ترقی ہوتی رہی اور اب عمران خان نے اسے تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا ہے۔ سکرپٹ کے مطابق عمران خان اپنے حصے کا کام کر چکا ہے۔شاید آخری دھکہ مریم، حمزہ یا پھر بلاول دینگے۔مکمل تباہی کی کوکھ سے نیا پاکستان ابھرے گا جس کا نقشہ تہذیبوں کے تصادم کا مصنف پیش کر چکا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شیطانی منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں اور ساری بازی ایک ہی جھٹکے میں اُلٹ جائے۔ ہمارا ایمان ہے کہ مظلوم کی آہ عرش پر سنی جاتی ہے۔ عرش والا کہتا ہے کہ مجھے پکارو تو سہی پھر دیکھو میں کیسے مدد کے لئے آتا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ جلد ہی کوئی پکارنے والا میدان میں آ جائے۔
اُس گھڑی کا خوف لازم ہے کہ انور جس گھڑی
دھر لئے جائیں گے سب اور سب دھرا رہ جائے گا
(ا نور مسعود)