کشمیر کی تازہ سیاسی صورت حال بارے ہمارے بہت سارے دوست احباب ان دنوں ہم سے بھی "اندر اور باہر "کی خبروں بارے جاننے اور تبصرہ کرنے کا تقاضہ کرتے ہیں اور ہم اپنے زاتی کام کاج کی وجہ سے اور کچھ دیگر ایشوز کے پیش نظر بہت ساری باتیں جاننے اور سمجھنے کے باوجود بھی نظر انداز کر دیتے ہیں ۔
تو مختصراً ہمارا ماننا ہے کہ تازہ ترین صورت حال میں پاکستانی سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادت کو کشمیر کے سیاسی فیصلوں میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور کشمیر کے صدور کو مکمل با اختیار نظر آنا چاہیے وہ ٹکٹوں کی تقسیم ہو یا دیگر سیاسی فیصلے ۔
اس بارے میں تحریک انصاف چونکہ اسلام اباد کے اقتدار میں ہے اس لیے اس کی قیادت کی طرف سے انتہائی متنازعہ اقدامات نظر آرہے ہیں اور بادی النظر میں ان کے کشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود کو سیاسی فیصلوں میں فری ہینڈ نہیں دیا گیا ہے اور انہیں بہت سارے کمپرومائز کرنے پڑھ رہے ہیں جو کسی بھی سیاسی جماعت کے صدر کے شایان شان نہیں ہے۔
ایسے سیاسی حالات کی زیادہ تر ذمہ دار بیس کیمپ کی فرنٹ لائن سیاسی قیادت ہے جو اپنے محدود سیاسی مقاصد کی خاطر اہم مواقع پر اسلام آباد والوں کو یہ مناسب احساس نہیں دلاسکتے کہ بیس کیمپ کی سیاسی نوعیت پاکستان کی اندرونی سیاست سے یکسر مختلف سیاسی اپروچ کا تقاضا کرتی ہے ۔ ہمارے سیاسی بڑے تو بس اپنی گاڑیوں اور پکوڑوں کے حساب کتاب سے ہی نہ نکل سکے ۔
ہر دور میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کے چکر میں مختلف سیاسی شخصیات نے مظفر آباد کی "امامت” حاصل کرنے کے لیے کشمیر کے تشخص بارے سستے فیصلے کیے ۔
رہی بات کسی بھی حلقے سے کسی سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کے خواہش مند امیدوار کو ٹکٹ کیوں ملے ؟ اس کے لیے امیدواروں کا عوام کے ساتھ اتنا تعلق، اور مضبوط رشتہ ضرور ہونا چاہیے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کی مرکزی قیادت کی خواہش ہو کہ یہ بندہ ہمارے ٹکٹ پر الیکشن لڑے، سیاسی بڑے آپ کو گھر آکر ٹکٹ دیں برعکس اس کے کہ آپ سالوں کی جدو جہد کے بعد بھی پیشہ ور بروکروں کے سہارے پر امیدیں لگائے بیٹھے ہوں کہ یہ بندہ ہمیں ٹکٹ دلائے گا ۔
آخری بات۔۔۔۔ ہماری خواہش ہےکہ ہر سیاسی پارٹی کی اعلٰی قیادت کے ٹکٹوں کی تقسیم میں بد دیانتی کو عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے غلط ثابت کردیں اور پیشہ ور لوٹوں کے بجائے حقیقی عوامی نمائندے ، مستقل مزاج اور وفادار سیاسی کارکنوں کو ووٹرز کی طرف سے پزیرائی ملے چاہے وہ آزاد حیثیت سے ہی الیکشن لڑے ۔
تھوڑا لکھے کو زیادہ سمجھا جائے

