سید روح اللہ موسوی خمینی جنہیں امام خمینی اور آیت اللہ خمینی کے نام سے بھی یادکیا جاتا ہے 17مئی 1900ء کو پیدا ہوئے اور 3جون 1989ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ابھی ان کی عمر چند ماہ ہی تھی کہ جب ان کے والد کو قتل کر دیاگیا جس کے بعد ان کی والدہ نے ان کی پرورش کی اور انہیں حصول علم کی طرف راغب رکھا۔ خمینی صاحب نے 40سے زائد کتابیں تصنیف کیں ۔ وہ علم و فضل کا منبع تھے اور ان کی کرشماتی شخصیت نے اہل ایران کو بادشاہت کی گرفت سے نکلنے کا حوصلہ دیا۔انہوں نے ایرانی قوم کواحساس دلایا کہ سید الشہداء امام حسینؓ کے پیروکار کبھی کسی بادشاہت کو قبول نہیں کر سکتے۔ بادشاہت کا حق صرف اللہ رب العزت کا ہے۔ اس پیغام نے شاہ ایران کے محلات کی بنیادیں ہلاکر رکھ دیں۔ امام خمینی کو اپنے مشن کی تکمیل کے لئے ملک بدر ہونا پڑا۔ وہ تقریباً 15برس جلا وطن رہے لیکن اس دوران وہ اپنے لوگوں کی تربیت اور رہنمائی سے غافل نہیں ہوئے۔ انقلاب ایران کے بعد ان کے ملک کو عالمی قوتوں کی طرف سے ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ عراق کی طرف سے مسلط کی جانے والی جنگ سے لے کر اقتصادی پابندیوں تک ایران نے ہر چیلنج کا مقابلہ کیا اور آج بھی اسلامی جمہوریہ ایران ایک خودمختار اور باوقار ملک کے طور پر مغربی طاقتوں اور استعماری قوتوں کے سینے پر مونگ دل رہا ہے اور اسلام دشمنوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھتا رہتا ہے۔ مجھے یہ تمہید باندھنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ہمارے ایک پاکستانی دانشور نے نواز شریف کی جلاوطنی کو امام خمینی کی جلاوطنی سے تشبیہ دے کر اسے پاکستان کے روشن مستقبل کی نوید قرار دیا ۔ یہ مثال بالکل ایسے ہی ہے جیسے آصف علی زرداری کے صدر مملکت بننے سے پہلے کئی دانشوروں نے انہیں نیلسن مینڈیلا ثانی قرار دیا تھا کیونکہ انہوں نے بھی مینڈیلا کی طرح قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی تھیں۔ شاعر مشرق نے کہا تھا کہ
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور
امام خمینی ہوں یا نیلسن مینڈیلا، ان انقلابی رہنمائوں کی جلاوطنی یا قید و بند کی صعوبتیں کسی جرم یا ملک کو لوٹنے اور کرپشن کی پاداش میں نہیں تھیں۔ ہمارے دانشوروں کو قوم کے حال پر رحم کھانا اور مفلوک الحال اور مظلوم عوام کے زخموں پر مزید نمک چھڑکنے سے باز رہنا چاہئے۔ ہمارے بہت سے دانشور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو یہ مشورہ بھی دے رہے ہیں کہ وہ بیرون ملک رہ کر پرویز مشرف کی طرح زندہ لاش بننے کی بجائے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی طرح جرأت اور ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان واپس آکر خود کو ایک بہادر لیڈر ثابت کریں۔
جس طرح ہمارے مجبور عوام سیاستدانوں کے بہکاوے میں آ جاتے ہیں اسی طرح ہمارے بہت سے سیاستدان بھی دانشوروں اور کالم نویسوں کے بہکاوے میں آ سکتے ہیں۔ 18؍اکتوبر ، 2007ء کو جب کراچی میں بے نظیر بھٹو کی ریلی پر حملہ ہوا اور جس میں 180افراد لقمہ اجل بن گئے تو سیکورٹی اداروں کے منع کرنے کے باوجود بہت سے دانشوروں کے کہنے یا بہادری پر اکسانے پر محترمہ بے نظیر بھٹو 27؍دسمبر، 2007ء کو لیاقت باغ راول پنڈی میں جلسے سے خطاب کرنے چلی گئیں اور اپنی زندگی کو دائو پر لگا دیا۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو بھی ہمارے بہت سے دانشوروں نے یہ یقین دلایا تھا کہ ضیاء الحق کسی بھی صورت آپ کو پھانسی کی سزا نہیں دلوا سکتا۔ آپ قائد عوام ہیںاور پورا ملک اور قوم آپ کے ساتھ ہیں۔ آپ امت مسلمہ کا اثاثہ ہیںاور عرب ممالک آپ کو تختہ دار تک نہیں جانے دیں گے۔ لیکن جب بھٹو صاحب کو پھانسی دینے کا فیصلہ ہو گیا تو پھر یہی دانشور ایک دن پہلے بار بار گھڑیاں دیکھ کر ایک دوسرے کو بتا رہے تھے کہ اب قائد عوام کی پھانسی میں کتنے گھنٹے باقی رہ گئے ہیں۔ ہمارے یہی دانشور جانتے بوجھتے ہوئے بھی ممولے کو شہباز سے لڑانے کی ہر ممکن کوشش میں لگے رہتے ہیں اور تماشا دیکھنے کا انتظار کرتے ہیں۔ ہمارے یہ دانشور ان نام نہاد موٹیویشنل سپیکرز کی طرح ہیں جو اپنی چکنی چپڑی باتوں اور فرضی مثالوں سے معصوم لوگوں کی برین واشنگ کر کے اور اچھی خاصی ملازمت کرنے والوں کو اپنا کاروبار کرنے اور کروڑ پتی بننے کے گر بتاتے ہیں اور پھر ان کے بہکاوے میں آنے والے بھولے لوگ کاروبار میں ناکامی اور ملازمت سے محرومی کے بعد زندگی بھر ان موٹیویشنل سپیکرز کو کوستے رہتے ہیں۔ ہمارے یہ ظالم دانشور بیوقوفوں کو بانس پر چڑھا کر خود پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں۔ زمینی حقائق اور معروضی حالات کے تناظر میںمیاں نواز شریف کو میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ لندن میں رہیں۔ یہاں آپ کو علاج معالجے کے علاوہ ہر طرح کی خریداری، کھانے پینے اور سیر سپاٹے کی سہولت میسر ہے۔ یہاں کا موسم بھی آپ کی صحت کے لئے سازگار ہے۔ آپ کے دونوں بیٹے، بھتیجے، پوتے، نواسے اور اسحاق ڈار سمیت دیگر عزیز و اقارب بھی برطانوی دارالحکومت میں رہتے ہیں او روسطی لندن کے ان علاقوں میں مقیم ہیں جہاں گھر خریدنے کے لئے لاکھوں برطانوی شہری صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ میاں صاحب جو دانشور آپ کو واپس پاکستان آنے کے مشورے دے رہے ہیں ان کی جذباتی باتوں اور مشوروں پر بالکل کان نہ دھریں۔ آپ بے نظیر بھٹو نہیں ہیں اور نہ ہی آپ کے والد ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ان دونوں مرحوم سیاستدانوں کے انجام کو پیش نظر رکھیں۔ جو لوگ ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ کے نعرے کا پھل کھا رہے ہیں انہی لوگوں نے اصل وارثوں فاطمہ بھٹو ، ذوالفقار جونیئر اور صنم بھٹو کو ایک خاص حکمت عملی یا سازش کے تحت منظر نامے سے غائب کر رکھا ہے۔ میاں صاحب جب آپ اپنے سیاسی مستقبل کے لئے کوئی بڑا فیصلہ کرنے لگیں تو اس حقیقت کو ضرور دھیان میں رکھیں کہ آپ نے اپنی سیاست کا آغاز کس کی سرپرستی میں کیا تھا اور آپ 17اگست 1988ء کے بعد بڑے بڑے جلسوں میں یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ضیاء الحق شہید کے مشن کی تکمیل کرنا آپ کی اولین ترجیح ہے۔ یہ حقیقت ہی نہیں احسان فراموشی بھی ہو گی کہ جن مہربانوں نے آپ کی سیاسی پرورش کی وہی آپ سے یہ شکوہ کریں کہ
جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں
ان کو زبان ملی تو ہم ہی پر برس پڑے
ویسے بھی جب سے آپ نے اپنی سیاسی وراثت اپنی راجکماری کے حوالے کی ہے اس کے بعد آپ کو پاکستان جانے کی قطعاً ضرورت نہیں۔آپ لندن میں رہ کر الطاف حسین کی طرح اپنی پارٹی کے معاملات کو کنٹرول کریں۔ بس اتنا خیال رکھیں کہ ایم کیو ایم کے بانی کی طرح پاکستان مردہ باد کا نعرہ ہر گرز نہ لگائیں وگرنہ آپ کی بھارت دوستی اور مودی سے ہمدردی کا بھانڈا پھوٹ جائے گا۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب آپ اپنی پارٹی کے رہنمائوں اور کارکنوں کو احتساب اور آمریت کے رحم و کرم پر چھوڑ کر سعودی عرب کے مہمان بن گئے تھے تو وہی لوگ جو آپ کو یقین دلاتے تھے کہ قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں انہیں شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑاتھا۔ اسی لئے جب آپ نے سعودی عرب اور پھر لندن کی طرف قدم بڑھانے کے بعد پیچھے مڑ کر دیکھا تو آپ تنہا کھڑے تھے۔ خیال تھا کہ آپ نے مشرف دور کی جلاوطنی سے سبق سیکھا ہو گا اور آپ ایک مختلف لیڈر ثابت ہوں گے لیکن آپ کی ترجیحات وہی رہیں جو ضیاء الحق کے دور حکومت سے آپ کے مزاج کا حصہ تھیں۔ قومی رہنما یا لیڈر تقریریں یاد کرنے یا امریکی صدر کے سامنے پرچی پر لکھا پڑھنے سے نہیں بنتے۔ لیڈر شپ ایک فطری صلاحیت ہوتی ہے جس کا تعلق ہارس ٹریڈنگ یا عوام کو بے وقوف بنانے سے بالکل نہیں ہوتا۔
میاں صاحب! جو دانشور آپ سے کہتے ہیں کہ وطن واپس آ جائیں کیونکہ لندن میں آپ اور آپ کے عزیزوں کا پیچھا کر کے آوازیں کسی جاتی ہیں، چور چور کے نعرے لگائے جاتے ہیںتو اس سلسلے میں آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ برطانیہ میں سیاستدانوں پر آوازیں کسنا، ان پر انڈے اور رنگ پھینکنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ لندن میں آپ سیکورٹی اور پروٹوکول کے بغیر آتے جاتے ہیں اسی لئے کسی راہ گیر کو آپ کے قریب آنے یا آپ کے خلاف کوئی نازیبا بات کرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ اگر آپ پاکستان میںبھی سیکورٹی اور پروٹوکول کے بغیر گھومیں پھریں تو شاید آپ کو لندن سے بھی تلخ ردعمل اور عوامی جذبات کا سامنا کرنا پڑے۔ اگر آپ لندن میں رہ کر برطانوی سیاستدانوں کے طرز سیاست اور اس ملک کی جمہوری اقدار کا بغور مشاہدہ کریں اور یہ دیکھیں کہ یونائیٹڈ کنگڈم کے سیاستدانوں کومال بنانے یا اقتدار کے حصول کی کتنی ہوس ہے؟ تو آپ کو اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کی وجہ بڑی آسانی سے سمجھ آ جائے گی۔
میاں صاحب! اگر آپ اپنی اس خود ساختہ جلاوطنی کے دوران پاکستان کے سیاسی حالات کے اس طرح سازگار ہونے کا انتظار کر رہے ہیں کہ لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہواسمندر آپ کا منتظر ہو گا اور آپ اپنے فقید المثال استقبال کے لئے لاہور کے ہوئی اڈے پر اتریں گے (جس سے بے نظیر کی جلاوطنی کے خاتمے کے بعد ان کے والہانہ استقبال کا ریکارڈ ٹوٹ جائے گا) تو اس سلسلے میں یہ حقیقت ضرور پیش نظر رہنی چاہئے کہ اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ حالات یکسر بدل چکے ہیںاور آپ کے ہر سیاسی دعوے اور وعدے کی ریکارڈنگ ٹی وی چینلز پر بار بار دکھائی جاتی ہے۔ آپ کے بدلتے ہوئے سیاسی نظریات اور مختلف سیاستدانوں(بشمول بے نظیر اور زرداری) کے بارے میں آپ کے خیالات کی ویڈیوز پاکستان کے عوام سوشل میڈیا پر بڑے شوق سے دیکھتے ہیں جن کی تردید کرنا اب آپ کے لئے ممکن نہیں ہے۔ اس لئے کسی بھی دانشور کے اکسانے اور کسی سیاستدان کے بہکانے پر پاکستان واپسی کا خیال فی الحال ذہن سے نکال دیں اور اپنے آپ کو بہادر ثابت کرنے کے چکر میں کسی بم کو لات نہ مار دیں۔ موجودہ حالات میں بہت سے پاکستان دشمن عناصر آپ کے کندھے پر بندوق رکھ کر اپنے ہدف کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ ایسے مفاد پرستوں کی چالبازیوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ آپ تین بار ملک کے وزیر اعظم رہے ہیںلہٰذا قومی رازوں اور ملکی مفادات کا تحفظ اب بھی آپ کی ذمہ داری ہے چاہے آپ پاکستان سے باہر رہیںویسے بھی مسافر کو اپنے سامان کی حفاظت خود کرنی چاہئے۔
آپ کو ایک تشویش ناک حقیقت سے آگاہ کرنا ضروری ہے کہ مئی 2014 میں برطانیہ میں کامن رپورٹنگ سٹینڈرڈ کے متعارف ہونے کے بعد پاکستان سمیت ایک سو سے زیادہ ممالک آٹو میٹک شیئر آف انفارمیشن کے اس رپورٹنگ سسٹم پر دستخط کر چکے ہیں اس نیٹ ورک کے ذریعے مختلف ممالک اقتصادی معلومات اور ٹیکسوں کی وصولی کے تبادلے کر رہے ہیں اور دنیا بھر میں مختلف حکومتیں ٹیکس چور اور کرپٹ سیاستدانوں اور تاجروں کی سرکوبی کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ آف شور کمپنیز کے ذریعے اپنے اثاثے چھپانے والوں کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہو چکا ہے جن لوگوں کے اثاثے اُن کے وسائل سے زیادہ ہیں یا جنہوں نے ناجائیز ذرائع سے مال بنایا ہے اُن پر برطانیہ میں بھی بُرا وقت آنے والا ہے… اللہ نہ کرے کہ پاکستان کے بعد آپ کے خلاف برطانیہ میں بھی کسی قسم کی تحقیقات کا آغاز ہو۔ آپ پاکستان کے تین بار وزیر اعظم رہے ہیں اب بھی آپ کی عزت سے پاکستان کی عزت، توقیر اور وقار وابستہ ہے۔