پاکستان کی مشکلات اور اس کا حل
شیراز خان
انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے آنے کے بعد غلط یا صیحع معلومات کا ایک طوفان ایا ہوا ہے ایک وقت میں یہ تاریخ جغرافیہ اور دینا بھر کے مذاہب کے بارے میں ہر ملک اپنے اپنے ملک کی پالیسی کے تحت تعلیمی نصاب مرتب کرتے تھے جو سکولوں اور یونیورسٹیوں کی کتابوں میں شامل کیا جاتا تھا بس اس کی چھاپ بعد میں ان یونیورسٹیوں اور کالجز سے فارغ ہونے والوں پر لگ جاتی تھی اسی طرح مدرسوں میں اپنے اپنے مسلک کی کتابیں پڑھا کر مدرسوں سے فارغ ہونے والوں کو کسی ایک مسلک کے پنجرے میں بند کردیا جاتا تھا اب صورتحال بدل گئی ہے پاکستان میں روایتی طور پر جب سے دو پارٹی نظام تبدیل ہوا ہمارے ملک میں روایتی طور پر جس طرح سیاسی کارکن تبدیل ہونے لگے ویسے ہی سیاسی علماء سول سوسائٹی کے افراد روایتی طور پر سیاست میں حصہ نہ لینے والے پروفیسر اداکار، کھلاڑی اور دیگر تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد کو ملکی حالات اور سیاست میں دلچسپی بڑھ گئی جس کا نقصان بھی ہے لیکن فائدہ یہ ہوا کہ اب کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہی جس کا کریڈٹ وزیراعظم عمران خان کو برحال جاتا ہے جو ملکی معاملات کے بارے میں کھل کر جان کاری دیتے حالانکہ حکومت میں ہونے کی وجہ سے جب وہ اعتراف کرتے ہیں تو بعض اوقات یہ زیادہ تر انکے اپنے برخلاف ہوتا ہے تارکین وطن پاکستانیوں کی بھی یہی حالت ہے سب کی دلچسپی پاکستان کی بہتری ہے منزل سب کی ایک ہے لیکن طریقہ کار مختلف ہے بعض موجودہ اور سابقہ سب حکمرانوں کو برا بھلا کہتے ہیں بعض میری طرح پر اُمید ہیں کہ پاکستان مضبوط ہاتھوں میں ہے اور ان شاء اللہ ترقی کی منزلیں طے کرے گا اور پاکستان کے اسلام اور مسلح افواج کے دشمن نیست ونابود ہونگے
آج میں ہانگ کانگ میں مقیم ایک محب وطن پاکستانی جہانزیب خان کا ایک مراسلہ اپنے کالم کا حصہ بناتا ہوں اگرچہ انکے مراسلے کے بعض اقتباسات سے میں متفق نہیں ہوں لیکن انہوں نے سوالات مختلف قسم کے آٹھائے ہیں جہانزیب خان کو میں پچھلے دس سالوں سے جانتا ہوں مذہبی کاروباری اور سماجی شخصیت ہیں-
مراسلہ پیش ہے
” میرے خیال میں پاکستان نہ تو آزاد ملک ہے اور نہ ہی خود مختار اُس کی پہلی مثال کہ پاکستان اور انڈیا کے سربراہ گورنر جنرل بنے اور جب تک لارڈ ماؤنٹ بیٹن انڈیا کے گورنر جنرل رہے تب تک پاکستان میں بھی عہدہ گورنر جنرل کا ہی رہا بعد میں پارلیمانی نظام کے تحت صدر کا عہدہ برائے نام اختیارات کے ساتھ تخلیق کیا گیا کیونکہ پاکستان اور انڈیا دو ڈومینین تھے آزاد اور خود مختار ملک نہیں
پاکستان کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہوئی کہ ہماری آزادی کے رہنماؤں نے صرف آزادی کے لیے نعرے لگائے لیکن حقیقی خودمختار ملک بنانے کی قطعاً تیاری نہیں کی بلکہ اسلام کے نام پر عوام کو بے وقوف بنائے رکھا اور کوئی آئین یا نظام حکومت ترتیب نہیں دیا اور جیسے ہی آزادی ملی وہی لوگ اہم عہدوں پہ فائز کروا دئیے گئے جو انگریزی حکومت کے نمک خوار تھے اور وہی جاگیردارانہ نظام کی لوٹ کھسوٹ اور بندر بانٹ سے ہر کسی نے اپنا اپنا حصہ وصول کیا
پاکستان کا عبوری آئین وہی 1935 کا ایکٹ نام کی تبدیلی کے ساتھ قرار پایا اور وہی انگریزی دور کا کرپٹ نظام انصاف اور پولیس ایکٹ سے کام چلایا گیا جس کی بنیاد ہی غلط طور پہ استوار کی گئی ہماری معیشت پہلے دن سے امریکی اور برطانوی امداد کی مرہون منت رہی اور ان سامراجی ملکوں اور یہودی اداروں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے پاکستان پر جو بھی وزیر خزانہ آج تک مسلط کیا اُس نے ہمیشہ اپنے آقاؤں کی پالیسی وقتی ترقی کو کامیابی سے چلایا اور پاکستان میں کوئی ایسا ترقی کا دائمی نظام نہ بننے دیا کہ جس سے حقیقی ترقی کی منزل حاصل کی جاسکے جس کی مثال ہر حکومت میں نظر آنے والی مصنوعی اور قرض کی مرہون منت ترقی تھی جو ہر حکومت کے ساتھ ہی ختم ہوجاتی تھی
پاکستان کی ترقی نہ کرنے کی دوسری بڑی وجہ بھارت سے جنگیں کشمیر کا مسئلہ اور پاکستان کے دو حصے جن کا نہ تو جغرافیہ ایک تھا نہ کوئی معاشرتی ہم آہنگی تھی ایک اسلام کے نعرے پر دو نوں حصے ساتھ تھے نہ اسلام پاکستان کی منزل تھا اور نہ مغربی پاکستان کے جاگیردار ان کی رعونت اور احساس برتری اور بنگالیوں کو ہر لحاظ سے کمتر سمجھنے کی روش نے دونوں حصوں کو کبھی مل کر منزل کی جدوجہد کے قابل بنایا تھا بلکہ آزادی کے دس سالوں کے بعد ہی امریکہ کے نمک خوار جنرلوں نے یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ بنگالی ہمارے ساتھ دیر تک نہیں چل سکتے اور وہی ہوا کہ بنگالیوں نے افواج پاکستان کی ذلت پر اپنی علیحدگی کی منزل پالی حالانکہ پہلے دن سے دو الگ ملک پاکستان اور بنگلہ دیش یا مشرقی پاکستان بننا چائیے تھا لیکن سچ یہ ہے کہ پاکستان روس کے کیمونزم کو انڈیا میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے بفرزون بنایا گیا تھا اور فوج کو اس ملک میں کلیدی کردار دے کر تمام امور سلطنت میں مداخلت کا اختیار دیا گیا تھا
جنرل ایوب کے دور میں روس کے خلاف جاسوسی کے لئے مدد فراہم کرنے کے صلے میں پاکستان کے اندر صنعتی انقلاب اور انفراسٹریکچر کو جو ترقی دی گئی وہ پاکستان کو توڑ کر اور بھٹوکی صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی سے اس ترقی کو صفر کردیا گیا اور پھر قرض لے کر حکومت چلانے کی پالیسی کا آغاز ہوا
آج بھی حیرانگی ہے جس بھٹو کی اولاد اور پارٹی کو آج اُس کی وفات کے چالیس سال بعد بھی اسلام سے الرجی ہے اُس سیکولر لبرل بھٹو نے ملک میں اسلامی آئین کیسے نافذ کردیا خود شراب پینے والے نے کیسے شراب پینے پہ پابندی لگوادی جمعہ کی چھٹی کیسے منظور کرلی مجھے آج تک اُن علماء کا نہیں پتہ جنہوں نے دوسال کی قلیل مدت میں اسلامی آئین تیار کرکے دے دیا حالانکہ پہلے سیکولر آئین کو تیار ہونے میں آٹھ سال لگے تھے مجھے کامل یقین ہے پاکستان کا اسلامی آئین بھی امریکہ نے بناکر بھی دیا پاس کروا کر بھی دیا ورنہ اُس وقت کی سیکولر جماعتیں اس کو ہرگز نہ مانتیں اور بھٹو کے سیکولر ساتھی کبھی اس کو ووٹ نہ دیتے لیکن یہ روس کے خلاف جہاد کا میدان سجانے کی پہلی سیڑھی تھی اور اسلام کو اور اسلام پسندوں کو مجاہد بناکر روس کے خلاف لڑانے کی پہلی سیڑھی تھی اور اس مقصد کے لئے کامل دس سال عارضی طور پر ڈالروں کی بارش بھی کی گئی لیکن معیشت کو ٹھیک کرنے اور صنعتیں لگانے کی اجازت نہ دی گئی تاکہ ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا رہے اور ڈالروں کے لئے ڈو مور کی پالیسی چلتی رہے
روس کی شکست کے بعد جب جمہوری تماشا شروع ہوا تو بجائے سستی بجلی کے لئے اور زراعت کی ترقی کے لیے ڈیموں کی اشد ضرورت کے باوجود ڈیموں کے لئے نہ فنڈ دئیے گئے اور نہ تکنیکی مدد البتہ مہنگی بجلی کے تھرمل پاور پلانٹ لگواکر معیشت کو مزید برباد کیا گیا اور جنرل مشرف کی امریکی دہشت گردی کی جنگ میں شمولیت سے جو وقتی معاشی ترقی ہوئی اُس کے اثر کو زائل کرنے کے لئے اگلے دس سال ملک میں بجلی کا بحران پیدا کیا گیا ملک پر سو ارب ڈالر کے مہنگے قرضے چڑھا کر معیشت کی شرح نمو کو وقتی سہارا دیا گیا لیکن معیشت کی بحالی کے لئے آئی ایم ایف کے پروگرام تک کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا بلکہ اب تو اشیاء ضرورت کو مہنگا کرکے معیشت کا مزید بیڑا غرق کرنے کا پروگرام چل رہا ہے اوپر سے کرونا کی وبا نے پوری دُنیا کی معیشتوں کو برباد کردیا ہے
مجھے کامل یقین ہے جس دن آخری امریکی فوجی کا بوٹ افغانستان سے باہر نکلے گا اور چائنہ سی پیک روٹ اور صنعتی زونز اور منصوبے مکمل رفتار سے چلیں گے تب ہی پاکستان کی معیشت بہتر ہوگی اور آئی ایم ایف سے چھٹکارا ممکن ہوگا