تحریر: اُمِ عمارہ
محبت کی مثلث خدا، انسان اور کاٸنات پر مشتمل ہے اِسے سمجھنے کے لیے اِس مثلث کے اندر گہراٸی میں اُترنا پڑتا ہے اور ہر وہ شخص جو اِس مثلث میں تنہا اُترتا ہےاُس کے پار لگنے کا کوٸی امکان نہیں ہوتا ،محبت کی اِس تنہاٸی اور کربناکی کو سمجھنے کے لیے ادب کے گلشن نے ایک خوبصورت پھول اپنے دامن میں کھلایا ہے جس کے لفظوں کی خوشبو اُس کے نام سے محسوس ہوتی ہے مگر اُن لفظوں کی گہراٸی محسوس کرنے کے لیے آپ کا اہلِ ادب ہونا اِتنا ضروری نہیں ہے جتنا کہ آپ کا اہلِ دل ہونا ضروری ہے۔
چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا
اے مری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی
اہل کتاب نے مگر کیا ترا حال کر دیا
ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا
اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامن یار منتظر
بانوئے شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کر دیا
ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا
میرے لبوں پہ مہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو
شہر کے شہر کو مرا واقف حال کر دیا
چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے
وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا
مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا
منصب دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کر دیا
(پروین شاکر)
پروین شاکر ادب کی دنیا کا وہ روشن ستارہ ہیں جنھوں نے بہت کم عرصے میں اپنے مخصوص لب و لہجے اور کمالِ فن سے ادب کی دُنیا میں اپنی پہچان بنا لی۔محترمہ کومحبت اور خوشبو کی شاعرہ کہا جاتا ہے۔
اُنھوں نے محبت کو اپنا فن بنایا اور اُسی کو پہچان ، آل ریڈیو پاکستان کو انٹریو دیتے ہوۓ اُنھوں نے کہا کہ
”میری وجہِ شہرت شاعری نہیں محبت ہے”
عشق نے سارے سلیقے بخشے
حسن سے کسبِ ہنر کیا کرتے
(پروین شاکر)
پروین شاکر 24 نومبر 1952 میں کراچی میں پیدا ہوٸیں آپ کی وجہِ شہرت آپ کا شہکار ”خوشو “ تھا جو سن 1977 میں شاٸع ہوٸی۔ پروین شاکر نے ادب وراثت میں پایا تھا آپ کے نانا ”حسن عسکری“کو ادب کی دُنیا میں خاص پہچان حاصل ہے ۔پہلے پہل پروین شاکر نے اپنا کلام ”بینا“ کے نام سے معتارف کروایا بعد میں اپنے دادا شاکر حسین کے نام کو اپنے نام کے ساتھ شہرت بخشی۔
لطیف مصور کہتے ہیں: ’’پروین شاکر کی شاعری کئی پرتوں اور کئی جہتوں کی شاعری ہے۔ اس کی ذات جو مختلف خارجی اور داخلی موسموں کے حصار کی گرفت میں تھی، اس کا عکس اس کے شعروں میں کئی رنگوں میں دمکتا ہے۔ اس کا لہجہ اظہارِ محبت اور وصال لمحوں میں مکمل سا ہوجاتا ہے اور وہ ان کیف آگیں لمحات کے سحر میں یوں ڈوب جاتی ہے کہ اس کے لفظوں میں سچ کے کندن کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اس لیے وہ لڑکیوں کے دکھ سکھ کے بارے میں کچھ یوں رقم طراز ہے۔
، لڑکیوں کے دکھ عجیب ہوتے ہیں سکھ اس سے عجیب
ہنس رہی ہیں اور کاجل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
(پروین شاکر)
رضا ہمدانی کہتے ہیں: ’’جدید طرزِ فکر رکھنے والی ممتاز شاعرہ پروین شاکر عہدِ حاضر کی بڑی ذمہ دار شخصیت ہے۔ اس کے ہاں پختہ کاری کے علاوہ پرکاری بھی بدرجہ وافر پائی جاتی ہے۔ اس نے لفظ و حرف سے جو پیکر جمیل تراشے ہیں، وہ اسراف اور ذہنی تعیش کی تہمت سے مبرا و منزہ ہیں۔‘‘
حرف تازہ نئی خوشبو میں لکھا چاہتا ہے
باب اک اور محبت کا کھلا چاہتا ہے
ایک لمحے کی توجہ نہیں حاصل اس کی
اور یہ دل کہ اسے حد سے سوا چاہتا ہے
اک حجاب تہہ اقرار ہے مانع ورنہ
گل کو معلوم ہے کیا دستِ صبا چاہتا ہے
ریت ہی ریت ہے اس دل میں مسافر میرے
اور یہ صحرا تیرا نقش کف پا چاہتا ہے
یہی خاموشی کئی رنگ میں ظاہر ہوگی
اور کچھ روز ، کہ وہ شوخ کھلا چاہتا ہے
رات کو مان لیا دل نے مقدر لیکن
رات کے ہاتھ پہ اب کوئی دیا چاہتا ہے
تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی
اور تیری بزم سے اب کوئی اٹھا چاہتا ہے
(پروین شاکر)
محسن بھوپالی کا کہنا ہے : ’’پروین شاکر کا شمار ان چند شاعرات میں ہوتا ہے جنہوں نے نہایت کم عرصے میں ادب میں نہ صرف اپنا اعتبار قائم کیا ہے، بلکہ وہ ادا جعفری کے بعد دوسری شاعرہ ہے، جس نے شہرت و مقبولیت کے لحاظ سے وہ مقام حاصل کرلیا ہے جو ہماری اُردو شاعری میں بہت کم شاعرات کو حاصل ہوا ہے۔ پروین شاکر کا شعری گراف مسلسل ارتقا پذیر ہے اور اس کی شاعری جذبات اور لطیف احساسات کی راہ سے ہوتی ہوئی شعور و فکر کے اعلیٰ مدارج کی طرف گامزن ہے۔‘‘
پروین شاکر نے اپنی شاعری میں مشرقی لڑکی کے احساسات کو نہایت خوبصورتی سے حیا کا لبادہ اُڑھایا ہے۔وہ اُس کے داخلی اور خارجی احساسات سے واقف تھیں اور اُسکی نسوانیت کا احترام کرتی تھیں۔۔
حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیے جاناں!
دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں
ماں سے کیا کہیں گی دکھ ہجر کا کہ خود پر بھی
اتنی چھوٹی عمروں کی بچیاں نہیں کھلتیں
(پروین شاکر)
پروین شاکر محبت کی شاعرہ تھیں اور محبت کی نظر سے مناظر میں رنگ بھرتی تھیں اگرچہ قدرت کی ستم ظریفی تھی کہ وہ تنہاٸی کے کرب میں جلتی رہیں اور بالاآخر ایک کار ایکسیڈنٹ میں اُنکا انتقال 42 سال کی عمر میں ہوگیا۔ اُنھوں نے ورثے میں 5 کتب ،ایک بیٹا اور محبت چھوڑی ہے۔