پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟
اُمِ عمارہ
نام۔۔اسداللہ بیگ خان ،عرف۔۔مرزا نوشہ، تخلص۔۔اسد اور غالب ،خطاب۔۔نجم الدولہ، دبیر الملک، نظام جنگ۔
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟
کوٸی بتلاٶ کہ ہم بتلاٸیں کیا؟
(غالب)
غالب 8 رجب 1212ھ(بمطابق 27دسمبر 1797) کو بروز بُدھ اکبرآباد(آگرہ )میں پیدا ہوۓ۔
تاریخ ولادت من از عالم قدس
ہم شورش شوق آمد وہم لفظ غریب
(غالب)
غالب کی شاعری اور نثر میں تین چیزیں کثرت سے ملتی ہیں، جدت طرازی ،مشکل پسندی اور فلسفیانہ طرزِفکر۔بعض نقاد نے لکھا ہے کہ غالب کی مشکل پسندی اُنکی عالی ظرفی سے نکلی تھی اور اِس مشکل پسندی کا عوامی ردِعمل بہت شدید ہوا کیونکہ اُس وقت کے لوگ شاہ نصیر اور ذوق کے روایتی کلام کے طلسم میں قید تھے۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ غالب کے دور میں غالب کے لوگوں نے غالب کو وہ اہمیت نہیں دی جس کے وہ مستحق تھے۔
سو پشت سے پیشہ آبا سپاہ گری
کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے
(غالب)
غالب کا سلسلہِ نسب توران ابنِ فریدون سے ملتا تھا۔فریدون ایران کا مشہور شہنشہاہ گزرا ہے۔غالب کو اپنے سلسلہِ نسب پر فخر تھا۔تورانیوں پر جب زوال آیا تو وہ منتشر ہوگۓ اُنھی میں سے ایک شخص کا نام ترسم خان تھا غالب اُسی کی اولاد میں سے تھے۔اُنکے آباو اجداد کا پیشہ سپاہ گری تھا جس کا ذکر اُنکے مندرجہ بالا شعر میں ہوا ہے۔
غالب کا بچپن افسردہ حالی میں گزرا وہ محض پانچ برس کی عمر میں یتیم ہوگۓ۔غالب خود لکھتے ہیں۔
”میں پانچ برس کا تھا باپ مرا۔نو برس کا تھا کہ چچا مرا۔اس کی جاگیر کے عوض میرے اور میرے شرکاِ حقیقی کے واسطے شامل جاگیر نواب احمد بخش خاں مرحوم دس ہزار روپے سال مقرر ہوۓانہوں نے نہ دیے۔مگر تین ہزار روپے سال۔“
”اس میں غالب کا حصہ سات سو پچاس روپیہ سالانہ تھا۔بعد میں غالب نےاس رقم کے لیے مقدمہ بازی بھی کی اور بہت تکلیفیں اُٹھاٸیں۔“
ہو چکیں غالب بلاٸیں سب تمام
ایک مرگِ ناگہانی اور ہے
(غالب)
غالب کی شادی نواب احمد بخش خاں کے چھوٹے بھاٸی نواب الہی بخش خاں کی چھوٹی صاحبزادی امراو بیگم سے محض 13 برس کی عمر میں ہوٸی۔غالب کے بعض بیانات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس شادی سے تنگ تھے جبکہ حقیقت اسکے برعکس ہے وہ دونوں مختلف مزاج رکھتے تھے مگر الفت و محبت دونوں میں موجود تھی۔غالب کے ہاں 7 بچے پیدا ہوۓ جن میں سے کوٸی بھی 15 ماہ سے زیادہ نہ جی سکا، لوگوں نے نوشہ کو امراو کو چھوڑنے تک کے مشورے دیے مگر مرزا نوشہ نے امراو کا ساتھ کسی مقام پہ نہیں چھوڑا۔
امراو غالب کی رند مزاجی،آزاد روی،عشق بازی،شراب نوشی ،جوا بازی، مذہب سے دوری کی وجہ سے پریشان رہتی تھیں۔
وہ سیدھی سادھی گھریلو خاتون تھیں۔ بعض نے تو اُنھیں عابدہ وزاہدہ تہجد گزار خاتون بھی لکھا ہے۔
مولانا الطاف حسین حالی نے یہاں تک لکھا ہے:
”بیگم نے ازراہ کمال اتقا اپنے کھانے پینے کے برتن الگ کر رکھے تھے۔“۔
اے آنکہ براہ کعبہ روۓ داری
نازم کہ گزیدہ آرزوے داری
زین گو نہ کہ تند می خرامی دانم
در خانہ زن ستینرہ خوے داری
(غالب)
غالب کے ہاں سات بچے پیدا ہوۓ اور ساتوں ہی زندگی سے محروم رہے، غالب نے بیگم کے بھانجے یعنی بنیادی بیگم کے صاحبزادے میرزین العابدین( عارف) کو بیٹا بنا لیا۔وہ خوش فکر شاعر تھا مگر قسمت کی ستم ظریفی کہ جوانی میں وہ بھی مر گیا۔
لازم تھا کہ دیکھو مرارستہ کوٸی دن اور
تنہا گۓ کیوں، اب رہو تنہا کوٸی دن اور
آۓ ہو کل ، اور آج ہی کہتے ہو کہ جاٶں
مانا کہ ہمیشہ نہیں ،اچھا کوٸی دن اور
جاتے ہوۓ کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوٸی دن اور
ناداں ہو جو کہتے ہو کہ کیوں جیتے ہیں غالب
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوٸی دن اور
(غالب)
مرزا غالب کی ذہنیت پر سب سے پہلے جن خارجی حالات کا اثر ہوا وہ اُنکے خاندانی واقعات کا تھا اُسکے بعد اُنھیں زندگی کے غموں نے گھیر لیا۔
غالب کی شاعری میں دیانت ہے اور اُنکی ذاتی فکر جابجا شدید ہوجاتی ہے۔
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
(غالب)
ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالب دشمن آسمان اپنا
(غالب)
غالب کے دُکھ بڑے تھے اور اُنکا سب سے بڑا دُکھ یہ تھا کہ وہ سوال کے شاعر تھے وہ اُس دور میں پہلے جدید انسان تھے کیونکہ وہ سوال کرتے تھے۔جب اُنکی نظر حکمرانوں کی غفلت پہ جاتی، وہ سوال کرتے تھے۔
جب وہ بے ہنروں کی عیش وعشرت دیکھتے ،نااہلوں کی قدر دیکھتے تو خاموش نہ رہتے، سوال کرتے تھے۔
آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھا
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
(غالب)
فنون لطیفہ کے لیے کچھ قاعدے ،ضابطے ،قرینے اور سلیقے مقرر ہیں۔چونکہ شاعری بھی فنونِ لطیفہ میں سے ایک فنِ لطیف ہے۔لہذا شاعری کا بھی ایک جمالیاتی معیار ہے،فنونِ لطیفہ کے اصول اور ضابطے صرف خارجی باتوں یا کیفیات پر مشتمل نہیں ہوتے بلکہ ان کا تعلق داخلی امورسے بھی ہوتا ہے۔
دیکھیے شاعری کا جسم ہوتا ہے روح ہوتی ہے۔شاعرانہ فن کاری کی کامیابی اورناکامیابی روح آفرینی اور ہیتِ آفرینی کے کمال اور زوال پر منحصر ہے۔
بسیارہ شیوہ ہاست بتاں را کہ نام نیست
کسی بھی شاعر کے ”فنی محاسن اور اسلوبیاتی عناصر شاعر کے استعمال شدہ جدت مضامینِ طرفگی خیالات،نٸ اور موزوں تشبہیوں کا استعمال ،استعارہ و کنایہ کا برمحل برتاٶ اور شوخی و ظرافت ہوتے ہیں اور اس میں کوٸی شک نہیں کہ غالب کی شاعری میں تشبیہ اور استعارہ کی کمی نہیں تھی۔
شعردیکھیے:
قید میں یعقوب نے لی گو نہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزن دیوار زندان ہو گٸیں
(غالب)
غالب اگرچہ غمِ روزگار اورغمِ جاناں کے ستاۓ ہوۓ تھے لیکن وہ شوخی،طنز اور ظرافت کا کوٸی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے لیکن ان کے طنز و مزاح میں پھکڑ پن ،بازاری پن اور فحاشی نہیں ہوتی۔ان کے طنز و مزاح پڑھنے والا ایک ہلکی سی مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پہ پھیلا لیتا ہے۔
واعظ نہ تم پٸو نہ کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمہاری شراب طہور کی
(غالب)
غالب کی شاعری پہ تنقید کا باقاعدہ آغاز حالی کرتے ہیں۔
”مرزا کے ابتداٸی کلام کو مہمل اور بے معنی کہو یا اس کو اُردو زبان کے داٸرے سے خارج سمجھو لیکن اس میں شک نہیں کہ اس نے ان کی اوریجنٹلی اور غیرمعمولی اُپج کا خاطر خواہ سراغ ملتا ہے اور یہ ان کی ٹیڑھی ترچھی چالیں، ان کی بلند فطرتی اور غیر معمولی قابلیت و استعداد پر شہادت دیتی ہیں۔معمولی قابلیت اور استعداد کی معراج یہ ہے کہ جس بگڈنڈی پر اگلی بھیڑوں کا گلہ چلتا جاتا ہے،اس پر آنکھیں بند کرکے گلے کے پیچھے پیچھے ہولیے۔لیکن لیک سے ادھر اُدھر آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھا۔۔۔۔برخلاف اُن کے جن کی طبعیت میں اوریجنٹلی اور غیر معمولی اُپج کا مادہ ہوتا ہے، وہ اپنے میں ایک ایسی چیز پاتے ہیں جو اگلوں کی پیروی پر ان کو مجبور نہیں ہونے دیتی۔۔۔۔۔مرزا کی طبعیت اسی قسم کی واقع ہوٸی تھی۔وہ عام روش پر چلنے سے ہمیشہ ناک چڑھاتے تھے۔“
پروفیسر مجنوں گورکھپوری ”دیوانِ غالب اور ادوارِغزل “ پر لکھتے ہیں:
"اردو میں غالب کی آواز پہلی آواز ہےجو دل دماغ دونوں کو مخاطب کرتی ہے ، چونکاتی ہے، غالب کےاشعار احساس اور فکر دونوں کو چھیڑتے ہیں اور دونوں کو آسودہ کرتے ہیں غالب کو اُردو کا پہلامفکر شاعر کہنا غلط نہ ہوگا اس کے کلام کے مطالعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کی زندگی میں جذبات یا جذباتی سپردگی ہی سب کچھ نہیں بلکہ ہم کو ہمت کے ساتھ اپنے تمام خارجی حادثادت و حالات اور ذہنی کواٸف و دورادات کا جاٸزہ لینا چاہیےاور ان کی اصلیت پر عارفانہ عبور حاصل کرنا چاہیے۔”
غالب اردو ادب کے روشن منار ہیں اُنکی شخصیت کی انفرادیت اور عظمت کے اتنے متضاد پہلو ہیں کہ اُنھیں ایک مضمون میں محدود کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے ۔فکرو سخن کی محفل میں اُن کا مقام سب سے الگ ہے۔
رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں:
"مغلوں نے ہندوستان کو تین چیزیں دی ہیں ایک تاج محفل، دوسری اُردو اور تیسری غالب۔”
ہوگا کوٸی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے
شاعر تو وہ اچھا ہے پر بدنام بہت ہے
(غالب)
دنیا بھرمیں جہاں اُردو شناسی ہے وہاں غالب شناسی ہوتی رہے گی۔جب تک اُردو اور فارسی زبان زندہ ہے اس وقت تک غالب کا کلام زندہ رہے گا۔