دن کواک نوربرستا ہےمری تربت پر
رات کوچادرمہتاب تنی ہوتی ہے
حفیظ جونپوری کایہ حسب حال شعربےطرح یاد آیاجب میانی صاحب کےایک خاموش گوشے میں چاردیواری کے اوپرسے جھانکتے ایک کتبےکی پشت پرکھدےحروف میں ایک نام نظرپڑا حسرتؔ
دل نے فوراًگواہی دی یہ گورغریباں یقیناًچراغ حسن حسرتؔ کی ہے
تازہ تازہ تارڑصاحب کی راکھ پڑھی تھی اور میانی صاحب کی بھول بھلیوں میں گم آغا حشر کاشمیری کی قبرکےکتبےکی تفصیل سے متاثرہوکرہم انڈین شیکسپیئرکوکھوجنےچل پڑے
مگرراکھ کےصفحےجغرافیائی محل وقوع میں ہاتھ کرگئے
اس دن آغا صاحب توہاتھ نہیں آئےمگرقسمت ہمیں مولانا کےقدموں میں لےآئی
مولانا چراغ حسن حسرتؔ، صاحب طرز ادیب، مزاح نگار، صحافت کےمیدان کےسرخیل، شاعراوراگرلوگ برانہ مانیں توبشرط صحبت دوستاں رندبلانوش اورراگداری کی نزاکتوں سے بہرہ ورصاحب ذوق تماشبین
یاروں کایار اور لگی لپٹی رکھے بغیرسچ کہہ اور سہہ جانے والا ایک عظیم انسان
صاحب ہم کیا ہمارے لفظ کیا!
کچھ ان کاتذکرہ ہم عصروں سے
دوسری جنگ عظیم کے اختتام کا ذکرہےمیجر چراغ حسن جنوب مشرقی ایشیائی کمان میں آئی ایس پی آرمیں تھے
ان دنوں نہ ایف اےٹی ایف گرےلسٹ کارولاتھا نہ قومی امیج بہترکرنےکاٹنٹا
میجرحسرتؔ عسکری ہندوستانی اخبارات کےمدیرونگران تھےجب سید ضمؔیرجعفری ان کی کمان میں آئے
سنگاپورکےمیجرحسرتؔ پرہمارے آپ کےسیدضمیرجعفری لکھتےہیں تو بےدرنگ کہہ ڈالتےہیں یہ انکی خوش بختی ہے کہ انہوں نے اپنےزمانےکےایک صاحب طرزانشاپرداز، ایک بڑےصحافی اورایک بہت بڑےانسان کوبہت قریب سےدیکھااور پرکھا
اور صاحب اجنبی زمینوں پر جو فاتح لشکراترتے ہیں ان ہراول دستوں کے رفیق جب ایک دوسرے کے بارے میں لکھتے ہیں تو ان کا فرمایا مستند ہوتاہے کہ زندگی ان کے بیچ کوئی حجاب کوئی نقاب باقی نہیں رہنے دیتی
میرز اادیب بتاتے ہیں کہ لاہور میں ایبٹ روڈ پر نشاط سنیما کے بالمقابل ایک پرنٹنگ پریس ہواکرتا تھا جس کا نام غالباً کپورپرنٹنگ پریس تھا۔
اسی ایک منزلہ لمبی چوڑی عمارت میں جو ایک طرح کا شیڈ تھی امروزاخبارکادفترتھا
اسی شیڈ کےایک حصّےمیں ایک ٹرانسپورٹ کمپنی کی ورکشاپ تھی
دلچسپ صورتحال تب پیدا ہوتی جب کوئی مکینک اوزار لٹکائے کونے میں واقع دفترکی بانس کی چق اٹھاکر آواز لگاتا
چھّبی اٹھتّی دا ڈرائیورنواں ٹائرمنگداپیااے
اندر ٹیبل لیمپ کی روشنی میں کام کرتےصاحب سر اٹھاکر نستعلیق اردو میں پوچھتے’کیا فرمایاآپ نےمولانا؟‘
یہ امروزاخبارکےایڈیٹرکا دفترتھا جومولانا چراغ حسن حسرتؔ تھے
وہ ہرکسی کو مولاناکہہ کربلاتےتھے۔ احمد بشیرکوبھی انہوں نے یہی کہہ کرمخاطب کیاتھاجب وہ نوکری ڈھونڈتامولانا کےدفترآپہنچاتھا
احمدبشیرجوصحافت کےمیدان میں طبع آزمائی کرنےنکلااورمولاناچراغ حسن سےآٹکرایاجب امروز کےنکلنےمیں تین دن باقی تھے
دل بھٹکےگامیں احمدبشیرلکھتےہیں اگر مولانا کو اکیلے شراب پینے اورگانا سننے کا شوق ہوتا تو یہ نوکری کبھی نہ ملتی۔
نوکری کے استفسارپرمولانانےکوراجواب دےدیا تھا’آپ دیرسے آئے
جانے کی اجازت طلب کرتےشام ڈھل چلی تھی اوریہ وقت چونکہ گھرسے نکلنے کاتھامولانانےاحمدبشیرکووالگاہوٹل میں دعوت شراب دےڈالی
دورِجام میں بقول احمدبشیرمولانانےوضعداری کوہاتھ سےنہ جانےدیا اورچونکہ دونوں حضرات مالکونس کےدلدادہ تھےتو مولانا احمدبشیرکےساتھ بلوبائی کےچوبارےپربےکھٹکےچڑھ گئے
مولانا کی بے پروائی اور بے نیازی کے کیا کہنے۔ ملایا کے دنوں میں سیدضمیرؔجعفری سے مروی ہے کہ فوجی ضابطوں میں بندھی دفتری زندگی میں افسراعلیٰ کی بازپرس کے جواب میں حسرتؔ نے یہ شعرلکھ بھیجا
جرمنی ختم اور اس کے ساتھ جاپانی بھی ختم
تیری کرنیلی بھی ختم اور میری کپتانی بھی ختم
امروز کے مالک میاں افتخارالدین کے کان کسی نے بھرے تو حسرت ؔکے سامنے ان کے منہ سے نکل گیا ’آپ مذہبی اردو لکھتے ہیں‘
ملاحظہ فرمائیے اخبار کے مدیرکا مالک کو جواب ’معاف کیجیے میاں صاحب زبان ہر ایرے غیرے پچ کلیان کے بس کا روگ نہیں۔ آپ نے اردو میں کتنی کتابیں پڑھی ہیں؟ سکول کالج میں تو آپ انگریزی پڑھتے رہے۔ اجی میاں صاحب! یہ لڑکے حقے کی نے ہیں آپ کے منہ لگے ہوئے ہیں۔ آپ کو فرصت کہاں کہ آپ امروز پڑھیں، جو کچھ آپ کے کان میں ڈال دیا۔ آپ نے وہ آویزہ بنالیا
اور صاحب کچھ دیر گذرتی ہے کہ پورے دفترمیں حسرتؔ کی آواز گونج رہی ہے۔ سنا آپ نے! میاں صاحب کیا فرماتے ہیں! اجی چھوڑیے ۔ ناقدروں کے پاس کیا رکھاہے۔ میاں افتخارالدین تو دولت کا حادثہ ہیں۔ ان سے شالامار کے آموں کی فصل کا حال پوچھیے۔ یہ کیا جانیں کہ زبان کیاہے! ادب کسے کہتے ہیں ! شعر کس باغ کی مولی ہیں!
پورا دفترسنتا اور حسب توفیق و استظاعت میاں افتخارکے گوش گزار کردیتا
کچھ عرصہ ریڈیو پر کام کیا تو زیڈ اے بخاری کا فنی تعصب مولانا چراغ حسن جیسے جوہرکامل کی قدرنہ کرسکا۔ ممتاز مفتی کو بھی کہنا پڑا
بخاری برادران اگرچہ اعلیٰ درجے کے دانشورتھےلیکن ان میں طوائف کا عنصربہت زیادہ تھا۔ اس وجہ سے ریڈیو میں دربارداری کی رسم رائج ہوئی اور ادبی بھڑوے تخلیق ہوئے۔۔۔
اپنی اسی بے حجاب فطرت اور بےباک عادت کے سبب حسرتؔ نے آخری دنوں میں عسرت اور تنگدستی بھی دیکھی مگراس مردِقلندرنے سرکاری مدد نہ تو لینے کی درخواست دی بلکہ ادبی حلقوں کی ایسی پیشکش کو بھی ایک شان استغناء سے ٹھکرادیاکہ روکھی سوکھی اچھی چل رہی تھی۔
۲۶ جون ۱۹۵۵ کو یہ آفتاب ادب و صحافت ڈوب گیا اور اہالیان لاہورمولانا چراغ حسن کو میانی صاحب کے قطعے میں کھدی ایک لحد کے حوالے کر آئے۔
26 جون کو مولانا چراغ حسن حسرتؔ کی برسی تھی۔ ۔ اللہ ان کے ساتھ رحمت والا معاملہ فرمائے۔ آمین
___
مضمون کے مآخذ
اڑتے خاکے، سید ضمؔیرجعفری
لاہورکی باتیں، اے حمید
دل بھٹکے گا، احمد بشیر
چراغ حسن حسرتؔ احوال و آثار، ڈاکٹرطیّب منیر