جب سے طالبان فاتح کابل میں داخل ہوئے جبکہ نیٹو و امریکی افوج کا ، “آتے ہوئے آذاں ہوئی جاتے ہوئے نماز” کے مصداق خروج شروع ہوا دنیا بھر کے میڈیا کے لئے یہی ایک خبر جیسے ایک بہت بڑا دھچکا ہے جس کے لیے وہ تیار نہ تھے ۔ بدقسمتی سے کوئی چینل ، کوئی اخبار یا کوئی حکومت امریکہ کے بارے میں تعریفی کلمات کہتے ہوئے بری طرح ہچکچاتی ہے ۔ نہ صرف امریکہ کے اپنے نیٹو جیسے اتحادی بھی اس خفت و رسوائی پہ امریکہ سے ازحد نالاں ہیں بلکہ خود امریکہ کے اندر بابے بائیڈن پہ الزامات کی بھرمار ہے لیکن بابا جی ہیں کہ ان کے کانوں پہ جُوں تک نہیں رینگ رہی ۔ اور بالآخر نہ صرف ان کےبلکہ امریکہ کے دل کی بات ان کی زباں پہ آ ہی گئی ہے کہ امریکہ کو افغانستان کی ترقی ، تعمیر نو یا دفاع سے کوئی غرض نہیں ، افغانستان جانے اور اس کی حکومت ۔ خیر یہ تو روز اول سے ہی واضح تھا کہ امریکہ کا گیم پلان کچھ اور تھا جسے ہمارے دفاعی دانشوروں نے یہ کہہ کر امر کر دیا تھا کہ اسامہ اک بہانہ ہے ، افغانستان محض ٹھکانہ ہے جبکہ پاکستان ہی نشانہ ہے۔
افغانستان میں ذلت آمیز شکست اور سنٹرل ایشیا کی ریاستوں کی علٰحدگی کے بعد روس تاریخ کا ایک بھولا بسرا باب بن کر رہ گیا تھا جبکہ امریکہ پہ دنیا کا واحد خدا کہلوانے کا خبط سوار ہوگیا ۔ یہ اسی فرعونیت کا نتیجہ تھا کہ امریکہ نے اپنے نئے ورلڈ آرڈر کا نعرہ لگایا جس کے نتیجے میں وہ دنیا پہ سیاسی ، معاشی اور دفاعی کنٹرول کے خواب دیکھنے لگا ۔ یہی وہ وقت تھا جب امریکہ کے تھنک ٹینکس نے کمیونزم کے بعد اسلام کو اگلا سب سے بڑا خطرہ قرار دے ڈالا اور اسلامی دنیا کے عراق ، ایران ، لبیا اور پاکستان جیسے طاقتور ممالک کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔ امریکہ کے خدشات کو خطے کے حالات نے مزید پختہ یوں کیا کہ ایران میں امام خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب پہلے ہی آچکا تھا اور اس کے بعد اب افغانستان میں بھی ایک اسلامی حکومت بن چکی تھی ۔ امریکہ کو براستہ پاکستان اسلامی تحریک کے پھیلنے کا شدید اندیشہ تھا جسے تقویت اسامہ بن لادن کی مالی معاونت سے امیر المومنین بننے کے خواب دیکھنے والے نواز شریف کے ذریعے مغرب نواز بے نظیر کی حکومت کا تختہ الٹنے اور عرب ، بالخصوص سعودی عرب ، بادشاہتوں کے خلاف وہاں سے امریکہ کے اثرورسوخ کو ختم کرنے کے القائدہ تحریک کے بیانات اور ارادوں سے ملی ۔
امریکہ جس نے پوری روس افغان جنگ کے دوران وہاں پاوٗں تک نہیں رکھا تھا ، بلکہ پاکستان کی معرفت مجاہدین کی مدد سے روس کے خلاف نبرد آزما رہا ، اب افغانستان کو سیڑھی بنا کر اپنے نئے ورلڈ آرڈر کے یہاں کے چہپٹر کو عملی جامہ پہنانا چاہتا تھا اور ساتھ ہی ساتھ سنٹرل ایشیائی ریاستوں کو اپنے زیر اثر لاتے ہوئے ان کے معدنی وسائل پہ بھی للچائی ہوئی نظر رکھتا تھا ۔ چنانچہ اس نے ایک خاموش ڈپلومیسی کا آغاز کردیا اور سنٹرل ایشیا تک رسائی کی خاطر طالبان حکومت سے مذاکرات شروع کردئے اور ناردرن ایریاز کی سو سالہ لیز کا مطالبہ کیا جوکہ طالبان نے بن لادن ، جس کی ان پہ خاص مالی عنایات تھیں جو پہلے ہی روس کے بعد اب امریکہ سے بر سر پیکار تھا اور مڈل ایسٹ میں ان کی موجودگی کا دشمن تھا ، کے اثرورسوخ اور اصرار پہ انکار کر دیا ۔ جس کے بعد انہیں سونے اور بارود میں سے کسی ایک کے انتخاب کی دھمکی بھی دی گئی ، یہ بات اس وقت کے میڈیا میں آنے کے بعد کہیں گمنام فائلوں میں دفن کر دی گئی ، جو کہ طالبان نے بڑی حقارت اور دیدہ دلیری سے مسترد کردی ۔ امریکہ جہاں ایک طرف طالبان سے مذاکرات میں مصروف تھا وہیں شمالی افغانستان میں طالبان مخالف وار لارڈز احمد شاہ محسود اور رشید دوستم سے بھی پینگیں بڑھا رہا تھا تاکہ بوقت ضرورت ان سے بھی کام لے سکے ۔ احمد شاہ محسود کو تو اسامہ بن لادن نے طالبان کی رضامندی سے جیمز بانڈ جیسے بڑے ڈرامائی انداز میں راستے سے ہٹا دیا جبکہ رشید دوستم ان کی پہنچ سے دور رہا اور بعد کے ادوار میں امریکہ کی آنکھ کا تارا بنا۔
اس وقت تک امریکہ یہ جان چکا تھا کہ طالبان و بن لادن یک جان و دو قالب ہیں اور ان میں سے کسی ایک کو شکست دینے کے لئے دوسرے پہ کاری ضرب کی ضرورت ہے ۔ اس کے لئے القاعدہ پہ کام شروع کردیا گیا اور اپنے انتہائی قابل اعتماد اور خفیہ جاسوسی نیٹ ورک کی معاونت سے امریکہ و مغرب میں زیر تعلیم طلباٗ کو استعمال کیا گیا جنھیں ایک طرف توافغانستان میں موجود القاعدہ کیمپوں میں تربیت کے لئے بھیجا گیا جبکہ دوسری طرف ان کی مکمل تفصیلات اور ڈیٹا جمع کیا جسے 9/11 کے فوراً بعد منظر عام پہ لاتے ہوئے القاعدہ کے خلاف اور 9/11 کے حق میں استعمال کیا ۔ دنیا کی تاریخ میں یہ ایسا خفیہ ٓ آپریشن تھا جو خفیہ دستاویزات اور فائلوں میں ہی دبا دیا گیا جبکہ میڈیا کے زور پہ اپنے آپ کو اتنا مظلوم بنا کے پیش کیا کہ افغانستان پہ چڑھائی کے وقت دنیا کے کسی ملک کومخالفت یا اعتراض کی ہمت نہ ہوئی ۔ امریکی صدر بُش نے ایک طرف تو پاکستانی جنرل مُش کو دھمکی دی کہ یا تم ہمارے ساتھ ہو یا پھر مخالف اور مخالف ہونے کی صورت ہم تمھیں پتھر کے زمانے میں دھکیل دیں گے جبکہ دوسری طرف انڈیا سے مکمل سپورٹ اور پورا انڈیا امریکہ کے حوالے کرنے کا بیان دلوا دیا ۔ جنرل مُش کو اب تک اقتدار کا بھی چسکا پڑ چکا تھا لہذا امریکہ کی مدد میں اسے دوامِ اقتدار نظر آیا اور تمام امریکی مطالبات کو بلا حیل و حجت تسلیم کر لیا جس پہ خود امریکی انتظامیہ ، جو کہ چند مطالبات کے ٹھکرائے جانے کو بھی بعید نہیں سمجھتی تھی ، کو بڑی حیرت ہوئی ۔ افغانستان کو مکمل طور پہ تنہا کرنے کے بعد اسامہ بن لادن کی حوالگی کامطالبہ کیا گیا جس پہ طالبان نے پہلے تو ٹھوس ثبوت مانگا اور بن لادن کو یو این او کی نگرانی میں کسے دوسرے ملک کےحوالے کرنے پہ راضی بھی ہوگئے لیکن چونکہ اسامہ ایک بہانہ تھا جس کے لئے افغانستان ایک ٹھکانہ مقصود تھا لہذا بلا حیل و حجت افغانستان پہ آگ کی بارش کردی ۔ امریکہ و مغرب کی تمام اسلحہ ساز کمپنیوں اور ڈرگ مافیا نے اس جنگ کی مالی سرپرستی کی ۔ خود امریکی عہدیدار بھی اسلحے کے کاروبار میں شریک تھے لہذا دنیا کا کوئی ایسا اسلحہ نہ بچا جو اس جنگ میں آزمایا نہ گیا ہو ۔
افغانستان کو آگ اور خون کی ندیوں میں ڈبو کر اگلے نشانے یعنی پاکستان کی بھی تیاری ہوچکی تھی ۔ امریکی ، انڈین ، برطانوی اور اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں نے ایک مربوط جاسوسی نیٹ ورک کو پاکستان میں پھیلانے کی تیاری کی ہوئی تھی سو اس پہ عمل شروع ہوگیا ۔ امریکی بلیک واٹر کے جاسوس ٹھیکیداروں کے لبادے میں ہر جگہہ پھیلا دئے گئے ۔ پاکستان کو قابو میں رکھنے کے لئے انڈین فوجوں کو بارڈر پہ بٹھا دیا گیا ۔ ڈرون حملوں کی بھرمار سے چن چن کر مخالفین کو یا تو مارا گیا یا پھر انہیں پکڑوا کرکیوبا میں حاصل کئے گئے گوانٹاناموبے کیوبا کیمپ میں بھجوا دیا گیا ۔ اپنے جاسوسی نیٹ ورک سے پھیلائی گئی ٹی ٹی پی کو سوات ، جنوبی اور شمالی وزیرستان میں پھیلا دیا گیا ۔ بلوچستان میں اسلحے اور غیر ملکی کرنسی کی بھرمار کر دی گئی ۔ القاعدہ کے نامور قائدین یا تو مار دئے گئے یا قید کرکے کیوبا پہنچا دئے گئے ۔ طالبان یا تو پسپا ہوکرغاروں اور پہاڑوں میں روپوش ہوگئے یا داڑھیاں منڈوا کر زیر زمین چلے گئے ۔ اب جنگ مکمل طور پہ پاکستان کے اندر دھکیل دی گئی تھی اور دہشت گرد کاروائیوں کی بدولت دنیا کو صرف یہ باور کرانا رہ گیا تھا کہ ایک غیر محفوظ ایٹمی پاکستان دنیا کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے لہذا اس کے ایٹمی ذخیرے کو قبضے میں لے کر تباہ کر دیا جائے ۔ اب 9/11 کے بہانے شروع کی گئی افغانستان پہ چڑھائی پاکستان پہ ایک دہشت گردی کی جنگ کی صورت نازل کر دی گئی تھی ۔
کہتے ہیں ظلم کی ایک سیاہ رات میں بھی دن کا اجالا پنہاں ہوتا ہے ۔ افغانستان کی جنگ میں اب امریکہ خود لہو لہان ہوچکا تھا کیونکہ غاروں ، پہاڑوں پہ بمباری سے افغانستان کا کچھ نہ بگڑا ۔ طالبان برائے نام ہی ان کے ہاتھ آئے ۔ جبکہ امریکہ اور اتحادی نیٹو کے اپنے فوجی نفسیاتی مریض بننا شروع ہوگئے ۔ انہوں نے یا تو خودکشیاں شروع کردیں یا پھر چھٹیوں کے دوران اپنے بیوی بچوں کو مارنا شروع کردیا اور پھر ان کی بہت بڑی اکثریت افغانستان کی سنہری فصل ، پوست، کے نشے کی عادی ہونا شروع ہوگئی ۔ چنانچہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے دہائی شروع کردی ۔ اِدھر پاکستان میں پاکستان آرمی اور اس کی مایہ ناز آئی ایس آئی نے پاکستان کو غیر ستحکم کرنے کا منصوبہ رفتہ رفتہ خاک میں ملا دیا ۔ بھارتی جاسوسی نیٹ ورک اور اس کے پیچھے چھپے دوسرے بھی خفیہ ہاتھوں کو پکڑ کر سامنے لا کھڑا کیا ۔ اپنے عوام ، جوانوں حتاکہ معصوم بچوں کی قربانیوں کو رائیگاں نہ جانے دیا ۔ اور بہت ہی مختصر عرصے میں پاکستان کو دہشتگردی سے پاک کر دیا۔ دونوں محاذوں پہ اپنے منصوبوں کو خاک میں ملتے دیکھ کر طالبان کے قطر آفس سے مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا اور پاکستان کی معرفت زلمے خلیل زاد اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں ستمبر تک افغانستان خالی کرنے کی حامی بھر لی ۔ اِدھر امریکہ کے اعلان کی دیر تھے اُدھر تمام روپوش طالبان میدان میں آگئے اور یکے بعد دیگرے ایک ایک دارلحکومت فتح کرتے کابل کے باہر آکر بیٹھ گئے کیونکہ یہ انکے معائدے میں تھا کہ وہ کابل پہ قبضہ نہیں کریں گے لیکن جب کابل کی انتظامیہ ہی بھاگ کھڑی ہوئی اور امریکیوں کی ٹرلین ڈالرز سے کھڑی کی گئی فوج ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور خود جاکر طالبان سے مل گئی تو اس میں بابے بائیڈن کا بھلا کیا قصور! طالبان کے واپس آتے ہی اینٹی طالبان پراپیگنڈہ بھی شروع ہوگیا کہ:
اب ظلم و بر بریت کا دور شروع ہوگا اور طالبان چن چن کر بدلہ لیں گے جبکہ طالبان نے تمام لوگوں کے لئے عام معافی کا اعلان کر دیا ہے،
عورتوں کو حجروں میں بند کردیا جائے گا اور ان پہ تعلیم اور ملازمت کے دروازے بند کر دئے جائیں گے جبکہ طالبان نے عورتوں کو ان کے تمام حقوق اسلام کی روشنی میں دینے کا وعدہ کیا ہے ۔ اب ملالہ جیسی جاسوسہ ، جس نے طالبان کی جاسوسی کے بدلےامن کا نوبل انعام حاصل کیا ، اور اس قماش کی دوسری پراپیگنڈہ مشنری کا کاروبار ٹھپ ہو جائے گا،
انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی اب انسانی حقوق کی یاد ستانے لگی جبکہ شمالی اتحاد کے ہاتھوں طالبان قیدیوں کا اپنے امریکی آقاوٗں کو رقص بسمل ، جس میں زندہ قیدیوں کے جسم میں ڈرل کرکے مٹی کا تیل یا پٹرول بھر کر اسے آگ لگائی جاتی تھی جسے وہ قیدی نیم ذبحہ مرغ کی طرح تڑپ تڑپ کر جان دیتے تھے، پیش کرتے تھے یا پھر انہیں زندہ کنٹینروں میں بند کرکے دھوپ میں رکھ دیتے تھے ، ان کنٹینروں میں سے جب کچھ بچ جانے والوں کو نکال کر کیمپوں میں بھیجا گیا تو انہی کی بدولت یہ بات سامنے آئی کہ وہ گرمی کی شدت اور پیاس کو دوسروں کا پسینہ چاٹ کر مٹاتے تھے اور جب پسینہ بھی خشک ہوجاتا یا اگر کوئی دم توڑدیتا تو اس کے جسم کو دانتوں سے کاٹ کر اس کا خون چوس کر پیاس مٹاتے ، یا پھر قیدیوں پہ جینیوا اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر ان پہ کتے چھوڑے جاتے یا انہیں جانوروں سے بھی بد تر پنجروں میں بند کر دیا جاتا تھا تو یہی نام نہاد انسانی حقوق کے سوداگر کہاں مر گئے تھے؟
اور اب طالبان نے یہ تمام ظلم کرنے والوں کو بھی معاف کردیا ہے؛
اس کے باوجود بھی اگر میرے بابے بائیڈن ، جس نے ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح ہنود و یہود کی لابی کی سفارشات کو ٹھکراتے ہوئے امریکی افواج کو ایک بے معنی جنگ سے نکالا ہے اورخود تنقید کا نشانہ بن رہا ہے تو امریکی شہری ہوتے ہوئے اپنے بابے بائیڈن کی بھرپور وکالت کروں گا اور بابے کو مشورہ دوں گا کہ وہ ہر ناقد کو یہی جواب دیں کہ افغانستان کو بیڈ طالبان سے چھڑایا گیا تھا جسے میں گڈ طالبان کے حوالے کر آیا ہوں ۔ بس اللہ اللہ خیر صلا۔