ایک زمانے میں جب آتش نوجوان تھا اورشہزاد رائے بالکل ایسے ہی تھے جیسے کہ اب ہیں تو بلال مقصود اورفیصل کپاڈیا کے گروپ سٹرنگز کا ایک گانا میوزک چارٹس پرراج کیا کرتا تھاجس کے بول کچھ پہاڑوں کو سرکرنے کے بارے میں تھے۔ سٹرنگز کے گانے اور ہماری پیشہ ورانہ زندگی میں یہی ایک قدرمشترک ہے۔
اب متذکرہ فعل یعنی کوہ پیمائی کی غرض و غایت میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ اپنی سہولت کے لیے یہ سمجھ لیجیے کہ جنرل ہیڈ کوارٹرز کا محبت بھرا مراسلہ اگرآپ کو سرخ گلابوں اور سفید برفو ں کی نگری میں پوسٹنگ کی نوید مسرت دے تو پھر پہاڑ چڑھنا اور انہیں اپنا مسکن بنانا اختیاری عمل نہیں رہتا۔
ہم نئے نئے کپتان بنے تھے اورفی کندھا لگاتارتین پھولوں کا وزن اٹھائے پبا ں بھار نچدے پھررہے تھے کہ اوپر بیان کی گئی نوید مسرت ہمارا پوچھتی ٹل پہنچ گئی۔ اگلا منظر گلگت کا ہے جہاں ہمیں خوشخبری دی گئی کہ غازی افسروں کی قلت کی وجہ سے ہمیں انفنٹری رول پرپوسٹ کمانڈر کی ترقی دے دی گئی ہے اور اگلے محاذ پر ناردرن لائٹ انفنٹری کی ایک بٹالین ہماری منتظرہے۔ پلٹن میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور ایک دن اور رات کے آرام کے بعد ہم گشتی پارٹی کی ہمراہی میں منزل مقصود کی طرف روانہ ہوئے۔ دو دن اور دو راتوں کے وقفۂ سکوت کے بعد جب ہم چودہ ہزارفٹ کی بلندی پر پروازکیے بغیر پیدل پہنچے تومعلوم ہوا یوسفیؔ صاحب ٹھیک کہتے تھے کہ ہرچیزکا اوپراس کے نیچے سے بہترنہیں ہوتا۔ مرشدی نےعرق ریزی کے بعد ان چیزوں کی لسٹ ترتیب دی تھی جن کا نیچے ان کےاوپرسے بہترہوتا ہے۔ شربت، کھیراورزردے کی کھرچن، گنے کی نچلی پور، سانپ کی دم، پارلیمنٹ کا ایوان زیریں، آخری اولاد، کراچی آرٹس کونسل کا گراؤنڈ فلور۔ اب آپ اس میں سیاچن کے بیس کیمپوں کا اضافہ کرلیجیے۔
غالباً میرتقی میرؔ کے بارے میں مشہورہے کہ ایک دفعہ دورانِ سفر وہ سواری میں پہلو بدل کر بیٹھے رہے۔ ہمسفرسے بات تک نہ کی کہ زبانِ غیرسے اپنی زبان بگڑتی ہے۔ صاحب اپنی پوسٹ کی چڑھائی کے کٹھن سفرمیں ہم خود ہی سواری تھے خود ہی سوار۔ سارے راستے ہمیں بات کرنے کا یارا نہیں تھا۔ اپنی رزم گاہ پہنچ کر جب سانس اور اوسان (اسی ترتیب سے) بحال ہوئے اور ہم نے زبان کھولی تو پتہ لگا یہاں کوئی ہم زبان ہی نہیں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ناردرن لائٹ انفنٹری کی نفری گلگت بلتستان کے مقامی لوگوں پر مشتمل ہوتی تھی۔ نانگا پربت کے پڑوس میں جس پوسٹ کا قرعہ فال ہمارے نام نکلا وہاں 25 مربع گز کے گنجائشی علاقے میں ہمارے علاوہ ایک نائیک اور چھ جوان تھے۔ ان میں کک عبدالنبی کو چھوڑکر جو کشمیر سے تھا باقی سب صرف شنہا بولتے اور سمجھتے تھے۔ آپ سےجھوٹ نہیں بولیں گے
وہاں تو بات کرنے کو ترستی تھی زباں میری
ہم اردومیں بات کرتے تو ہمارے زیرِکمان جوان شنہا میں مسکراتے۔ جواباً ہم اردو میں مسکرادیتے۔ تاش کھیلنے میں البتہ کچھ دقت پیش نہ آتی۔ صاحبو تاش کے پتوں کی ترکیب استعمال جو اردو میں رائج ہےوہی شنہا میں بھی مستعمل ہے۔ خیرصورتحال اتنی بھی مخدوش نہیں تھی ہماری بات ان کی سمجھ میں آجاتی تھی۔ مگر جہاں لفظ جوڑ کر جملے بنانے کی نوبت آجائے وہاں جوان سکوت اختیار کرتے یا پھر نائیک رسول پناہ کو آگے کردیتے۔
نائیک رسول پناہ ہمارا سیکنڈ ان کمانڈ تھا۔ اس کے ذمے فوجی امور کی انجام دہی میں روزانہ صبح و شام اپنے کمانڈر کی یعنی ہماری خدمت میں حاضر ہو کر دست بستہ سچوئشن رپورٹ دینی ہوتی تھی۔ عام دنوں میں جب فائرنہیں ہوتا تھا تو یہ دشمن کے علاقے میں خچروں اورپورٹرزکی نقل وحمل کی تفصیل ہوتی تھی۔ رسول پناہ ہوشیارپوزیشن میں ہمارے روبرو کھڑا پہلے اپنے دماغ میں لفظوں کوجملے کی ترتیب میں ڈھالتا پھر خود کوادائیگی کے نازک مرحلے کے لیے تیار کرتا۔ اٹین شن ہونے کے باوجود زبان اورجسم بل کھا کھا جاتے۔
رسول پناہ ہمارا مستقل مزاج ہیرا سپاہی تھا۔ نہ اس نے ہمت ہاری اور نہ ہی ثانی الذکر نے حوصلہ۔ ابتدائی ہچکیوں اور رکاوٹوں سے بطریق احسن نمٹتے وہ بہت جلد اردو میں رواں ہوگیا اور مقابلتاً ہم بھی کچھ کچھ شنہا میں گٹ مٹ کرنے لگ گئے تو حجابات من و تو اٹھ گئے۔ رسول پناہ سے آل اوکے رپورٹ لینے، تاش کھیلنے اورکھانے کا سیریل ٹک کرنے سے جو وقت بچتا تھا اس میں ہم نے ایک اورمصروفیت دریافت کرلی تھی۔
ابھی کل کی بات تھی ان کوہساروں میں کارگل کی جنگ لڑی گئی تھی۔ ہماری پوسٹ پرجوجوان تھے وہ اس معرکےمیں شریک تھے۔ ان کے پاس کہانیاں تھیں اور ہمارے پاس سننے کے لیے بہت سارا وقت۔ ہمارے جوانوں کے قصّوں میں ایک کیپٹن چنگیزی کے دلیری کے قصّے تھے ۔ اپنی جوانمردی کا ستارۂ جرّات سینے پر سجائے وہ محاذ سے غازی بن کرلوٹے تھے۔ بعد کے سالوں میں ہماری ان سے پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں ملاقا ت ہوئی۔ و ہ وہاں پلاٹون کمانڈرتھے۔ وہ جسکی جوانمردی پر ہمارے جوان اسے ایک دیوتا کی طرح پوجتے تھے ہمیں تو مجسم عجزوانکسار کا پیکرایک عام سے انسان لگے۔ ان کے چہرے پر ہمہ وقت ایک دلکش مسکراہٹ کھیلتی رہتی ۔ کوئی ان سے ان کے ستارۂ جرّات کی بات کرتاتو بڑے ظرف کے ساتھ بہت پیارسے بات بدل دیتے لیکن اس ایک لمحے میں ان کی آنکھوں میں وہ ایک سرشاری کی جھلک بہت صاف بہت واضح نظرآتی۔
بریگیڈ ہیڈ کوارٹرسے بٹالین کے سفرمیں بریگیڈ میجر نے ہمیں گلتری اورفارن شاٹ کے درمیان وہ جگہ دکھائی تھی جہاں سے کیپٹن کرنل شیراپنے شیردل جوانوں کےساتھ کبھی نہ واپس آنےوالے گشت پر روانہ ہوا تھا۔ یہیں کہیں سے ایک راستہ تولولنگ اور ٹائیگرہل کو نکلتا تھا۔
ٹائیگر ہل ، جہاں سے کیپٹن کرنل شیرکو مٹھی بھرجوانوں کے ساتھ دشمن کے دو بٹالین کی نفری کے حملے سے پسپا ہونا پڑا تو ہار مانے بغیر دنیا کے سب سے بلند محاذ جنگ پر دن کی روشنی میں کسی للکارتے شیر کی دلیری سے انہی چند جوانوں کے ساتھ کاؤنٹر اٹیک میں چڑھ دوڑا۔ کچھ ہی دیرمیں دشمن کی گولیوں نے ان جوانوں سے ان کی زندگیوں کا دان لے لینا تھا۔ اس معرکے کی کہانی کہنے کو حملہ آوروں میں سے کوئی نہیں بچا۔ مگرٹائیگرہل کی بلندیوں سے یہ جوانمردی دیکھتے دشمن نے اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے جب کیپٹن کرنل شیرکا جسدخاکی حوالے کیا تو ساتھ شجاعت کی داستان بھی حکومت پاکستان تک پہنچائی۔ صوابی کے شیرکو شجاعت کا سب سے بڑااعزاز نشان حیدردیا گیا۔
جب بات صوابی کے شیر کی ہوگی تو ایسا کیسے ہوسکتاہے کہ سرحد پارسے پالم پورکے کیپٹن وکرم بتراکا ذکرنہ ہو۔ کیپٹن بتراکی دلیری پران کے جوان انہیں شیرشاہ کہتے تھے۔ شیرشاہ جوش میں آیا تو اپنی پلٹن کے لیے وہ پہاڑی چوکی پاکستان سے واپس لی جس کا نام اب بتراٹاپ ہے۔ اس حملے میں کیپٹن وکرم کی کمپنی کا سکسیس سگنل تھا ’یہ دل مانگے مور‘۔ تو جب دل نے مور پر اکسایا تو اسی بتراٹاپ سے تھوڑا پرے ایک اور چوٹی کو سر کرنے میں شیرشاہ جان کی بازی ہارگیا اور حکومت ہندوستان نے کیپٹن وکرم بتراکو شجاعت کا سب سے بڑا اعزاز پرم ویرچکرا دیا۔
کارگل کے پہاڑایسی اور بہت سی شجاعت کی داستانوں کے امین ہیں۔ صاحب یہاں ہمیں رکنے کی اجازت دیجیے۔ کارگل کے پہاڑوں سے ہماری اپنی کہانی ابھی جاری ہے۔ اسے بشرط زندگی اگلی نشست میں یہیں سے آگے بڑھائیں گے ۔ یہ آپ سے وعدہ رہا۔
فی امان اللہ