اردو کی آخری کتاب میں ہمسایہ ملک پر ایک تعارفی مضمون میں ابن انشاء لکھتے ہیں،’بھارت کے بادشاہوں میں راجہ اشوک اور راجہ نہرومشہورگزرے ہیں۔ اشوک سے ان کی لاٹ اوردہلی کا اشوکا ہوٹل یادگار ہیں اور نہرو جی کی یادگارمسٔلہ کشمیر ہے جو اشوک کی تمام یادگاروں سے مضبوط اور پائیدارمعلوم ہوتا ہے‘
صاحبو اس پائیدارمسئلے کو دوام بخشتی ایک ناپائیدار سی لکیرہے جو شکرگڑھ کی قربت میں نقشے پرخط شکست میں کھنچتی ہے تو کشمیرکے پربتوں کو کاٹتی چلتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ دنیا کی چھت تک پہنچتی ہمالہ کی فصیل بلند بانگ کو بھی دولخت کرتی سیدھی دو ہمسایہ ملکوں کے دل میں ترازو ہوتی ہے۔ ان گنت چھوٹے بڑے معرکوں اور تین عدد جنگوں کا خون پی کرپلی اس لائن آف کنٹرول کی خوبی یاخرابی اس کی ناپائیداری میں مضمرہے
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
اور صاحب خرابی کی یہی صورت بر بنائے فتوروفساد ہے۔ یہاں باڑ کیوں کھڑی ہوئی وہاں بنکرکیوں بنا، اِس باڑ کو گرادو اُس بنکرکو ڈھا دو، جونقش غیرکہن تم کو نظرآئے مٹادو۔ اگر دیکھا جائے تو لائن آف کنٹرول پر وقفے وقفے سے چھڑتی اس چاند ماری کا نقشہ ہوبہو اپنے مسدس حالی کے جیسا ہے (تھوڑی تحریف کے ساتھ، اللہ تعالیٰ اور مولانا الطاف حسین حالیؔ ہمیں معاف کریں)
کہیں ہے باڑھ اٹھانے پہ جھگڑا
کہیں بنکراک نیا بنانے پہ جھگڑا
یونہی روز ہوتی ہے تکرار ان میں
یونہی چلتی رہتی ہےتلوار ان میں
اس لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری سے جنوبی سمت نارووال سے نیچے نیچے بین الاقوامی سرحد کی رضامندانہ حد بندی ہے مگرآپسی اندیشے اور بےاعتباری کا یہ عالم ہے وہاں بہت سا لوہا اورکنکریٹ پلائی ، آدم کو پھلانگنے سے بازرکھتی اس کے قد سے کہیں اونچی خاردارتارکھڑی ہے۔ بہت پرانی بات نہیں ہے، ہمارے پڑھنے والوں کو احمد بشیرسسٹرز(مراد اس سے بشریٰ انصاری اورعاصمہ عباس ہیں) کا گایا اورانہی پرفلمایا گانا ہمسایہ ماں جایہ یاد ہوگا۔ درمیان میں کھنچی دیوارجس کے اوپر ریت اورسیمنٹ کے مضبوط گارے میں پیوست خون آشام کانچ کے ٹکڑے اپنا کٹیلا پھل اٹھا ئے کھڑے ہیں کہ کسی بھی اٹھتے ہاتھ کو چشم زدن میں خون میں نہلا دیں گے۔ دیوارکے دونوں اطراف سے ایک دوسرے کی سُن گُن لیتی ’گواہنڈنیں‘ ایک پیاربھری لجائیت سے بات کرتی ہیں مگر پھرایک سنی سنائی بات کا شک کئی خدشوں کا روپ دھارکرانکی آنکھوں پر اترتا ہے
ٹی وی تے میں سنیااے کہ تیرے کول ایٹم اے!
میں وی ایہوای سنیااے کہ تیرے کول ایٹم اے!
مگر یہ فکرمندی زیادہ دیر نہیں رہتی کہ بہت جلد باہمی رائے سے دونوں گرہستی خواتین متذکرہ ایٹم کو ’چُلّھے وچ پا کے‘ اور اس عمل کے لازمی نتیجے میں بجنے والے ’پٹاکوں‘ پر بھنگڑا ڈالنے کی ترغیب دلاتی ہیں ۔ جوہری توانائی کے تعاون سے پیش کیے جانے والےاس خوش آئند بھنگڑے کی تجویزپردونوں حکومتیں تادم تحریر خاموش ہیں۔ توصاحبو جب تک دونوں ملک ایک مشترکہ جوہری بھنگڑے کی سرکاری تائید نہیں کردیتے تب تک عسکری تلواروں کے سائے میں ایک طرف سے شکتی اور دوسری طرف سے اٹن چلتا رہے گا جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔
ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ ہوا، ہم جو کارگل کے پہاڑوں پر اگلو زن تھے۔ راوی چین کی بانسری بجارہاتھا کہ اس کی خود کی آنکھ لگ گئی۔ یکایک ہمارے پڑوس کی پوسٹوں پر چاند ماری شروع ہوئ اور بات بڑھتے بڑھتے دونوں اطراف کا توپخانہ گرجنا شروع ہوگیا اور یاران کامران ونگہبان جان و ہتھیارکی سلامتی کے لیے بنکروں کے محتاج ہوگئے۔ روزانہ کی دی جانے والی آل اوکے رپورٹ میں اردو کے کچھ نئے جملوں کا اضافہ ہوگیا اور ایک صبح رواں دواں رسول پناہ ایک دفعہ پھررک رک کر چلنے لگا۔ باہمی کرید و افہام سے معلوم ہوا کہ فائر پھر سے کھل جانے پر بٹالین ہیڈ کوارٹر سے پانی کے متعلق کچھ احکام موصول ہوئے ہیں۔ ابھی برف ٹھہرنا شروع نہیں ہوئی تھی یعنی پڑتی تو تھی مگرپگھل پگھل جاتی تھی ۔ ایسے میں ہم پینے اور ضرورت کا پانی پوسٹ سے تھوڑا دور اسی اونچائی پر دشمن کی ناک کے عین نیچے ایک چشمے سے لایا کرتے تھے جسے مقامی زبا ن میں سانگر کہتے ہیں۔ اب چونکہ محاذ اچانک گرم ہوگیا تھا تو انڈین پوسٹ کے فائر کی ڈائریکٹ زد میں آنے کے باعث ہماری چشمے تک کی آمدورفت پر پابندی لگ گئی۔ اور کچھ ہی دنوں میں انورمقصود کی زبانی ’آپ نہانے کا پوچھتے ہیں وہاں دھونے کے لالے پڑگئے‘۔
متبادل انتظام کی صورتحال کچھ یوں تھی کہ اب ہمارے دو جوانوں کی پارٹی کو لگ بھگ پانچ ہزار فٹ نیچے اتر کر بیس کیمپ سے جری کین میں پانی بھر کے کمر پر لاد دوبارہ پانچ ہزار فٹ کی جان توڑ چڑھائی چڑھنی پڑتی۔ یکایک پانی ایک متبرک جنس کی صورت اختیار کر گیا تھا جسے ہم پھونک پھونک کر برتنے پر آگئے تھے۔ صاحبو جوانمردی، جذبۂ جہاد اور شوق شہادت کی اہمیت اپنی جگہ ہمارے پڑھنے والے اتفاق کریں گے کہ ان کے ساتھ ساتھ
طہارت بھی ہے مطلوب و مقصود مومن
افسر کو نہائے ہفتے سے اوپرہوگیا تو ایک دن اپنے شیردل جوانوں کے ساتھ اترائی اور اس کے بعد کی چڑھائی کا کشٹ کاٹتے ہوئے بیس کیمپ کے پانی کے ذخیرے سے جسم کو سیراب کر آیا۔پوسٹ پر پہنچا تو رسول پناہ کے چہرے پر ناگواری کا سایہ سا تھا۔ پوچھنے پر فرمایا کہ آپ مہربانی کروبیس کیمپ نہانے مت جاؤ۔ جب آپ بولو ہم پانی ادھرلے کرکے آتاہوں۔ تفتیش کرنے پر پتہ لگا کہ بیس کیمپ کے صوبیدارنے کہیں رسول پناہ کو طعنہ دیا ہے کہ تم سے کمانڈر کے نہانے کا پانی اوپر نہیں لے جایا جاتا۔ یکبارگی ان جفاکش لوگوں کی سادہ لوحی اور ’غیرت ‘ پر بہت پیار آیا۔ صوبیدار صاحب کی حسبِ موقع و ضرورت ’تسلّی و تشفّی‘ کردینے کے بعد رسول پناہ کو سمجھانے کی کوشش کی مگر فوجی گراری جتھے اڑ گئی اوتھے اڑگئی۔ مجبوراً افسر نے آئندہ شاور کے ارادے کو لامحدود مدت کے لیے ملتوی کردیا۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ اس کے کچھ ہی دن بعد پہاڑوں نے برف کی چادر مستقل اوڑھ لی اور ہم برف اکٹھی کرکے کے ٹوآئل کے سٹوو کی گرمی پر پگھلا گر پانی بنانے میں خود کفیل ہوئے تو گرم حمام کی قسمت بھی کھل گئی۔
ساتھ ہی ساتھ پینے کی بھی فراوانی نصیب ہوئی تو دھیان کچھ کھانے کی سمت منتقل ہوا۔ صاحب بنی نوع فوج نے سیاچن کی بلندیوں کو خوردنی اعتبارسے دو واضح گروہوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ فریش کھانے والے اور ڈبہ کھانے والے۔ اس میں ایک بڑا دخل فوج کی لاجسٹک پلاننگ کو بھی ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ جہاں جہاں گاڑی کی پہنچ ہے اور ذرائع نقل وحمل کھلے ہیں وہاں فریش راشن دستیاب ہے۔ وہ بلندیاں جو بار برداری اور سامان ڈھونے کے لیے پورٹرز اور ان کے خچّروں کی محتاج ہوتی ہیں ان کی قسمت میں روز ازل سے ڈبہ لکھا جا چکا۔ ان میں اکثریت ثانی الذکر لوگوں کی ہے اور اسی تناسب سے ان میں حاسدین پائے جاتے ہیں۔ ہم چونکہ شروع دن سے قسمت کے دھنی واقع ہوئے ہیں تو ہمارا پانسہ حسد کرنے والی جماعت یعنی ڈبہ کھانے والے خانے میں گرا۔
اگراسّی ۔ نوے کی دہائی میں آپ کی مسیں بھیگ رہی تھیں یا پھر انگیا کسی وجہ سے جس کا بھلا سا نام ہے روز تنگ سے تنگ ترہوئی جاتی تھی توعین ممکن ہے کہ لفظ ڈبہ یادداشت کے پردے پر کچھ پرانی تصویریں تازہ کردے۔احمد اورفریش ویل کا دور تھا اوران کی مصنوعات کے اشتہاروں میں ٹن ڈبے میں سربمہر بند تیار سالن بھی ہوتے تھے۔ دور پرے کے آپ کے وہ رشتے دار جو چھٹیوں سے خلیجی ممالک کو واپس پلٹتے کراچی میں ایک آدھی رات یا دن کے لیے آپ کے مہمان بنتے انہیں ساتھ لیتے جاتے۔ اللہ ہماری اماں کو خوش و خرم اور سلامت رکھے لڑکپن میں ہماری حسرت ہی رہی کہ ہمیں بھی کبھی وہ رنگین رال ٹپکواتی تصویروں سے لیس ڈبے سے کھانے کا موقع ملتا۔ کسے معلوم تھا کہ لڑکپن کی یہ کسک سیاچن کی بلندیوں پر کچھ اس فراوانی سے نکلے گی کہ اگلے پچھلے سب قرض بے باق کردے گی۔صاحب ہم یہ تو نہیں بتاسکتے کہ نوے کی دہائی میں ایک چاؤ سے پیک کیے ڈبوں کے مواد کا اصل ذائقہ کیاتھا مگر شنید ہے کہ اجزائے ترکیبی اور ان کی دیرپا تاریخ منسوخی کا بنیادی جزو زبید ہ آپا کے ٹوٹکوں کی طرح ایک ہی رہا ہوگا۔یعنی اچار۔ اب آپ اس پروہ مشہورفوجی محاورہ لاگو کردیں۔ فوج کے ایمونیشن اور راشن کی سپلائی سب سے کم بولی لگانے والے ٹھیکیدارکے حصے میں آتی ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھیے کہ اگر آپ کی پانچوں حسیں ٹھیک کام کررہی ہیں اور چھٹی میں کوئی فتورنہیں ہے تو معلوم ہی نہیں پڑتا تھا کہ جو ڈبہ آج کھارہے ہیں اس میں قرون اولیٰ کے زمانے میں حنوط کیا گیا مرغی کا سالن ہے یا قریب قریب اسی زمانے کی آلو گوبھی۔ یا پھر پیوند کاری کی برکتوں سے اگائی گئی اے ٹی جی ایم یعنی آلو ٹماٹر گاجر مٹر کی کوئی نایاب قسم۔ ہمارے آپ کے سر کی قسم لگتا تھا اچارکے ساتھ روٹی کھارہے ہیں۔اب جن کی قسمت میں تین ٹائم اچارکے ساتھ روٹی کھانا لکھا جاچکاہو تو یہ کہنے کے مقابلے میں کہ ہم کھانا کھاتے تھے یہ کہنا حقیت کے زیادہ قریب ہوگا کہ ہم روز کھانے کا سیریل ٹک کرتے تھے۔
لیکن صاحب اب اتنا بھی کال نہیں پڑا تھا کہ اچار ہی کھاتے چلے جاتے ۔ استور سے چلی ایچ ایم ٹی کی برکت سے ہفتوں میں کبھی کبھار اپنی اصلی حالت میں سبزی اور کڑ کڑ کرتی جنس تازہ زندہ حالت میں پہنچ ہی جاتی ۔ مگر اس کے ساتھ جو سلوک ہوتا وہ کچھ کچھ اس پنجابی محاورے سے ملتا جلتا تھا جس میں ایک بھولی بھالی تیسری جنس کے ہاں ’منڈاجمنے‘کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا ذکرہے۔
تو صاحبوجاڑوں کی آمد کی ایک کٹیلی صبح کا ذکر ہے ایک دن کڑکڑانے کی جگہ اچانک ممیانے کی آواز سے آنکھ کھلی ۔ اگلو سے باہر نکل کر دیکھا تو لگا کہ گوشت خوری کے خواب ِ غفلت کی بھول بھلیوں میں گم افسر سیاچن کے آسمان سے گر کر کسی بکرا پیڑی کی کھجور پر اٹک گیا ہے۔ اس تنگ سی جگہ میں جہاں چھ لوگوں کے اژدہام میں عقل دھرنے کی جگہ نہ تھی، چار بکرے قطار اندر قطار باہر نکلی آنکھوں اور پھولتی سانسوں کے تھپیڑوں میں لت پت حیران پریشان ممیارہے تھے۔
(جاری ہے)