چنار کہانی
محمدصغیر قمر
نظریاتی اور خونی رشتے ا نسان کو جوڑکر رکھتے ہیں۔میرا اور ان کا کیا رشتہ تھا؟کئی روز سے سوچ رہا ہوں۔
1978 کے وہ دن یاد آئے جب ہمارے مڈل اسکول میں یونین کے انتخابات کرائے گے۔مجھے بھی کسی نے دھکا دے کر آگے کر دیا۔بھٹوکی محبت میں ہم نے پی۔ایس ایف ایس کی طرف سے الیکشن لڑنے پر مجبور کیا تھا۔تین ووٹوں سے ہم الیکشن ہار گئے اور اسلامی جمعیت طلبہ جیت گئی۔اس ہار کے بعد میرے دل میں ”بھٹوز“کی محبت بیٹھ گئی۔میٹرک میں پہنچتے ہی میں نے مطلوب انقلابی اور پروفیسر راجہ رفیق کا ہاتھ تھام لیا۔سگے بھائیوں جیسے ان دونوں میں سے پروفیسر رفیق کوشاید زیادہ جلدی تھی،کچھ سال پہلے اس دنیا کو آخری سلام کر کے تہہ خاک جا سویااور دوسرے کو بے تابی تھی چند روز پہلے وہ بھی رب کی جنتوں کو پا گیا۔ہائے موت تجھے موت نہ آئی۔!!آج دونوں کے ساتھ میرا کوئی خونی رشتہ ہے نہ نظریاتی تعلق۔زندگی پلٹے کھائی ہے اور انسان اپنی زندگی کی راہیں بدل لیتا ہے۔میں نے پی ایس ایف چھوڑ کر اسلاامی جمعیت طلبہ سے تعلق جوڑ لیا۔ہمارے راستے جدا ہو گئے۔خون میں تپش تھی،جذبے جوان تھے،نظریاتی سیاست کا زمانہ تھا،ہم ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہو گئے۔ادھر سے پتھر آتا ادھر سے اینٹ برستی۔ہم بھٹو شہیدکو سوشلسٹ کہتے تو ادھر سے مودودیؒ یہودیوں کاایجنٹ ثابت کیا جاتا۔وہ ہماری انگلی توڑتے تو ہم ان کی ٹانگ کے درپے ہوتے۔دن بھر جھگڑتے شام کو ایک ہی ٹیبل پر جمع ہو جاتے۔ایک ہی پلیٹ میں کھاتے اور ”کل“کے اپنے اپنے خواب دیکھ کر سو جاتے۔یوں تو یہ معرکہ آرائیاں پورے ملک میں جاری رہتی تھی لیکن ضلع کوٹلی میں ان” جنگوں“ کے اپنے آداب تھے۔ان آداب کے پیچھے ایک ہی فرد تھا،محمدمطلوب انقلابی۔دور پسماندہ دیہات کا ایک فرد،جس کی جبلت میں اللہ نے لیڈری کوٹ کوٹ کر بھر دی تھی۔وہ حکمت اور دانائی سے راہیں تلاش کرتا۔لوگوں کو دور کرنے کی بجائے جوڑتا رہتا۔مشکلات سے نکلنے اور انسانوں کی خدمت کے گرسیکھتا رہا۔وقت گزرتا رہا اور ”اٹ کتے کا ویر “بھی جاری رہا۔ہم جب بھی ایک دوسرے کے سامنے آتے ہماری باہیں کھل جاتیں اور سینے وا ہو جاتے۔وہ ایم بی اے کر کے ایل ایل بی کرنے کراچی چلے گئے اور ہم غم روزگار میں نکل پڑے۔وہ سیاست میں فل ٹائم اترے۔پیپلزپارٹی ان کی پہچان بن گئی۔ہم ایک دوسرے کو تلاش کر کے ملتے،زمانہ طالب علمی کی بچگانہ باتیں یاد کرتے اور قہقہے لگا کر رخصت ہو جاتے۔میرے گاﺅں سے دور ایک دوسرے حلقہ انتخاب میں ان کی رہائش تھی۔میں نے اپنی شادی کا دعوت نامہ انہیں پوسٹ کر دیا۔اس زمانے میں ٹیلی فون کارابطہ تو بس نام کا ہی تھا۔میرے گھر تک سڑک نہیں تھی، پہاڑی راستوں سے لوگ گزر کر آتے تھے۔میں نے ولیمے والے دن کچھ لوگ ادھر ادھر پہاڑیوں پر رہنمائی کے لیے بٹھا دیے۔خود بھی گھر کے پاس ایک اونچی جگہ پر بیٹھ گیا۔کچھ دیر بعد ایک پہاڑی سے مطلوب انقلابی اترتے ہوئے نظرآئے۔وہ اپنے گاﺅں جونا سے پیدل میرے گھر پہنچنے والے پہلے فرد تھے۔کچھ دیر بعد تحریک آزادی کشمیر رہنما غازی عبدالرحمن بھی تشریف لے آئے۔دونوں حضرات علاقے کی پسماندگی پر دیر تک باتیں کرتے رہے۔انقلابی صاحب نے کہا ”غازی صاحب! میں کبھی آپ کی طرح بااثر ہوا تو صغیر قمر کے گاﺅں تک سڑک ضرور بناﺅں گا۔“میری ایسی کوئی غرض ان سے وابستہ نہیں تھی۔بس شرمندگی سی تھی کہ یہ لوگ کئی کئی کلو میٹر دور سے چل کر آئے ہیں،میرااندازہ ہے کہ مطلوب صاحب کم و بیش سترہ اٹھارہ کلو میٹر پیدل چلے تھے۔زندگی اپنی رفتار سے چلتی گئی۔میں ان دنوں مظفرآباد میں تھا ،پروفیسر رفیق بھی آزاد جموں کشمیریونیورسٹی مظفرآد منتقل ہو گئے۔اکثر شام کو ہم اکھٹے بیٹھ کر گزرے دنوں کی دشمنیوں اور نظریاتی کشمکش کو یاد کرتے۔ایک روز خبر ملی مطلوب انقلابی صاحب کشمیر کونسل کے ممبر منتخب ہو گئے ہیں۔سچی بات یہ ہے کہ شدید نظریاتی بعد کے باوجودمجھے بے انتہا خوشی ہوئی۔کچھ ماہ بعد پروفیسر رفیق میرے پاس آئے اور کہنے لگے”انقلابی صاحب نے اڑھائی لاکھ روپے منظور کرائے ہیں،ان کی خواہش ہے ہم دونوں اپنے اپنے گھر تک سڑک کا کچا ٹریک بنوالیں۔اب آپ یہ بتائیں کہ آپ کو کتنے دوں اور میں کتنے رکھوں؟“مجھے ان کی بات سن کر ولیمے والا دن یا دآگیا۔کوٹلی کالج کی کشمکش یاد آگئی۔میں نے ایک نظر پروفیسر رفیق کو دیکھا اور کہا”’میں آپ کی جماعت سے پیسے کیوں لوں گا،میرے پاس آپ کو دینے کے لیے نہ ووٹ ہیں نہ میں اتنا اہم ہوں کہ آپ کے کام آسکوں“انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا”انقلابی صاحب نے غازی عبدالرحمن صاحب کے سامنے وعدہ کر رکھا ہے،آپ کو اس وعدے کی پاس داری کرنی ہے،آپ یہ بتائیں کہ آپ کا ٹریک کتنے میں بن جائے گا“؟میں نے رفیق بھائی سے عرض کی”آپ خود پیپلز پارٹی کے ساتھ وابستہ ہیں،میرے گاﺅں میں آپ کی پارٹی کے بہت لوگ ہیں لہذاآپ ان میں سے کسی کو یہ پیسے دلا کرٹریک بنوا دیں“
وہ مصر رہے کہنے لگے” انقلابی صاحب!کو آپ سے بہت محبت ہے،میں آپ کے لیے ڈیڑھ لاکھ اور اپنے لیے ایک لاکھ مختص کرتا ہوں۔“
رفیق صاحب نے پی پی پی ایک کارکن کے ذریعے ٹریک بنوا دیا۔پیسے کم تھے ،نصف تک پہنچ کر کام رک گیا۔میں نے انقلابی صاحب کو خط لکھ کر شکریہ ادا کیا۔کچھ روزبعد مظفرآباد آئے اور کہنے لگے”او جماعتیو!!آپ کی نفرتیں مجھے یاد ہیں لیکن محبتیں بھی لازوال ہیں،میں آپ کے گھر اب تب آﺅں گا جب مکمل سڑک بنا دوں گا۔“انقلابی صاحب پھر کشمیر کونسل کے ممبر منتخب ہو گئے۔انہوں نے بقیہ کام بھی کرا دیا۔ وہ محترمہ بینظیر بھٹو کے مشیر بنے،تب میں راولپنڈی منتقل ہو چکا تھا۔اب ہماری ملاقاتیں بڑھنے لگیں،وہ صبح راولپنڈی کے ایک پسماندہ علاقے غریب آباد کے ایک چھوٹے سے گھر سے نکلتے،ایک بڑی سی جھنڈے والی گاڑی پر سوار ہوتے اورلوگوں کے چھوٹے چھوٹے،بڑے بڑے مسائل کے لیے دفتروں کے چکر لگاتے۔ہم شام کو اکثر صدر میں کریم سموسے والے کے تھڑے پر بیٹھ کر گپیں لگاتے۔ایک روزمیں نے ان کے ہاتھ میں سگریٹ کی ڈبیا دیکھی۔مجھے بہت برا لگا۔زمانہ طالب علمی میں وہ ایسی ہر چیز سے دور تھے جسے معاشرہ قبول نہ کرتا ہو۔دین کے معاملے میں گہری دلچسی لیتے تھے۔چھوٹی چھوٹی باتیں بتاتے اورپوچھتے ۔لوگوں کی مشکلات کا ذکر کرتے اور اپنی بے بسی پر رو پڑتے۔مجھے حیرت ہوتی کہ کیا پیپلز پارٹی کے لوگ بھی ایسے ہو سکتے ہیں؟حالات نے پلٹا کھایا اور اپنا حلقہ انتخاب چھوڑ کر وادی بناہ منتقل ہو گئے،اسمبلی کا پہلاالیکشن تھوڑے سے ووٹوں سے ہار گئے،ملتے جلتے ،اٹھتے بیٹھتے کبھی نہ ووٹ کاذکر کیا نہ کسی طرح کی مدد طلب کی۔الیکشن ہارنے کے باوجود بھی ان کی میرے ساتھ دوستی اور محبت گہری ہوتی چلی گئی۔ایک بارایک دوست نے ان کے سامنے مجھ سے شکوہ کیا۔اس کی بات سننے کے بعد مجھ سے کہا ”مجھے معلوم ہے میں نے پیپلز پارٹی نہیں چھوڑنی اورآپ جماعت اسلامی کے علاوہ کسی کو ووٹ نہیں دیں گے،میں آپ کو کیوں آزمائش میں ڈالوں‘مجھے ووٹ نہیں آپ جیسا بھائی چاہیے“
وہ اپنے حلقے میں مشقت کرتے رہے اور عوام کے دلوں میں اتر گئے۔اگلی بار الیکشن میں ہزاروں ووٹوں کی برتری کے ساتھ جیت کر ہائر ایجوکیشن کے وزیر بن گئے۔اس الیکشن میں مجھ سے جو ہوسکتا تھا وہ کیا۔پھر میں نے ان سے رابطہ کم کر لیا۔دوست احباب ان کی اور میری دوستی سے خوب واقف تھے اور میں انقلابی صاحب کے مزاج کو اچھی طرح سمجھتا تھا۔مجھے معلو م تھا کہ کام غلط ہوا تو کبھی نہیں کریں گے۔کام درست ہوا تو میرٹ دیکھیں گے۔ان کے گرد جو ٹیم جمع ہو گئی تھی وہ اپنی پسند ناپسند دیکھتی اورانہیں محض ایک قبیلے کا وزیر بنانےپرمصررہی۔سچی بات یہ ہے کہ وہ زمان و مکان کی قید سے آزاداورقبائیلی تعصب سے کوسوں دور ایک ایسے انسان تھے جو چھونپڑی سے محلات تک ایک ہی لاٹھی استعمال کرتے تھے۔اللہ کے بندے سب ان کی نظر میں برابر تھے۔یہی وجہ ہے کہ اکثر ایک فقرہ تواتر سے کہتے تھے۔”مجھے کسی نے جانا ہی نہیں،پہچانا ہی نہیں“۔وزارت کے دوران کئی مواقع ایسے آئے جب انہوں نے خواہش کی کہ کہیں مل بیٹھتے ہیں۔مجھے افسوس تھا ان کے گرد جمع ہونے والے لوگ کوشش کر کے انہیں دوسروں سے دور رکھتے۔ان کے کچھ حواری ہر انسان کو ووٹ کے ساتھ تولنے لگے تھے۔میں ان سے معذرت کر لیتا ،بہانے بنا لیتا۔اسی دورا ایک بار فون پر انہوں نے بہت غصہ کیا،بہت تپ گئے تھے۔میں چپ رہا۔میں نےبس اتنا پوچھا کیسی گزر رہی ہے؟ بے ساختہ فیض احمد فیض کاشعر پڑھا،
اینویں ہڈّاں چ کلپے جان میری
جیویں پھاہی چ کونج کر رلاوندی اے
چنگا شاہ بنایا اِی رب سائیاں
پَولے کھاندیاں وار نہ آوندی اے
وزارت کے دوران ہی ان کی زندگی نے پلٹا کھایا۔وہ عمرے کے لیے چلے گئے۔چودھری محمودالحسن صاحب نے جاتے ہوئے انہیں سید ابوالاعلیٰ ؒ کی تفہیم القرآن دی تھی۔مسجد نبوی میں اعتکاف کیا اور واپسی پرمونچھیں کم کر کے چہرہ سنت نبوی سے منور کر لیا۔سگریٹ چھوڑ دیے اور زندگی کا رخ ہی بدل دیا۔سچی بات تو یہ ہے کہ وزارت نے انہیں بہت تلخ تجربوں سے گزارا۔ایک نظریاتی کارکن کے لیے قبیلے کی سیاست کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔وزارت کا پانچ برس کادور گزر گیا۔اگلا الیکشن تھوڑے سے ووٹوں سے ہار گئے۔اسی دوران ہم نے رحمہ اسلامک ریلیف کا آفس چکلالہ اسکیم تھری میں منتقل کر دیا۔یہاں سے ان کا چھوٹا ساگھر چند منٹ کی مسافت پر ہے۔وہ روزانہ آتے جاتے دفتر آنے لگے۔یہ ایک طرح کی ’ ری یونین‘ تھی۔ان کی محبت پہلے سے زیادہ تھی۔جس نے ملنا ہوتا اسے میرے آفس بلا لیتے۔نماز کا وقت ہوتا تو خود اٹھ کر صفیں بچھاتے۔امامت میرے آفس کے ساتھی نعیم زمان کراتے تھے۔کچھ روز بعد ہم نے انہیں امام بنا لیا۔وہ انکار کرتے تو میں کہتا اللہ نے آپ کوعزت دی ہے اسی نے” امام “بنایا ہے۔عصر کی نماز پڑھ کر ہم پارک میں چلے جاتے،اسی دوران وہ مسلسل فون پر لوگوں سے رابطے میں رہتے۔یوں کئی بار ہم دس گیارہ کلو میٹر واک کر لیتے۔وہ دنیا جہاں کی باتیں کرتے۔اللہ اور اس کے رسولﷺ سے عشق کی بات ہوتی تو روپڑتے۔بچپن سے اس عمر تک کی چھوٹی چھوٹی باتیں شئیر کرتے۔اپنی غربت اور پسماندگی یاد کرتے۔اللہ نے انہیں ایک بیٹا اور ایک بیٹی عطا کی۔بیٹی پیدائشی طور پر اسیپشل بچی ہے۔بیٹاقانون کی اعلی تعلیم لندن سے حاصل کر چکا ہے۔بچی کے معاملے میں بہت حساس تھے اس کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کاخیال رکھتے۔میرے اصرار پر اسے اسپیشل اسکول میں داخل کرایا۔اکثر اسے خود اسکول چھوڑتے اور واپس لاتے۔ایک روز کہنے لگے میں نے اپنی زندگی پر کتاب لکھنی ہے،آپ میری مدد کریں۔میں نے ہامی بھر لی۔کتاب کا نام خود تجویز کیا،” صدا کر چلے“!!
ایک روز خود ہی اس کام کو کچھ عرصے کے لیے ملتوی کر دیا۔سفر وحضر میں ان کی خواہش ہوتی میں ان کے ساتھ چلوں،کبھی چل پڑتا کبھی عذر پیش کر دیتا۔یہ وہ عرصہ ہے جب مجھے لگتا کہ ہم یک جان دو قالب ہیں۔لوگوں کے کام دل وجان سے کرتے اور خوش ہوتے لیکن اللہ نے انہیں کچھ فطری آزمائشوں میں ڈالا تھا،جیسا کہ وہ اپنے محبوب بندوں کو آزماتا ہے۔ہم ایک دوسرے سے ڈسکس کرتے۔حل تلاش کرتے لیکن آزمائشوں کا یہ مرض بڑھتا ہی گیا جوں جوں دوا کی۔دفتر کادروازہ بند کر کے دھاڑیں مار کر روتے اور کہتے اگر اللہ مجھے ان آزمائشوں سے نکال دے تو میں لوگوں کی خدمت کے لیے خیبر سے کراچی اور بھمبر سے اٹھمقام اڑتا پھروں۔پھر کہتے
”افسوس مجھے کسی نے جانا ہی نہیں پہچانا ہی نہیں۔“کچھ برس پہلے مجھے چند دوست نما لوگوں کی وجہ سے ایک بڑا مالی دھچکا لگا۔ملازمت سے بھی انہی دنوں فارغ ہو گیا اورچند ہی دنوں میں ڈیپریشن میں چلا گیا۔مطلوب صاحب گاﺅں گئے ہوئے تھے واپس آئے تو سب کچھ میرے چہرے پر لکھا ہوا تھا۔میں نے اصل وجہ بتائی تو کہنے لگے”جب تک میں زندہ ہوں،آپ کو یہ پریشانی نہیں ہو گی،میں ہوں نا“۔مجھے یوں لگتا کانٹا مجھے چبھتا ہے دردان کو ہوتا ہے،چوٹ مجھے لگتی ہے تو بے قراری ان کو ہوتی ہے۔اسی ڈپریشن کے نتیجے میں دل کے بائی پاس کی طرف چلا گیا۔میں نے سب سے پہلے انہیں فون پر بتایا۔کئی لمحے ادھر خاموشی رہی۔پھر رندھی ہوئی آواز آئی” آپ نے پریشان نہیں ہونا،کوٹلی میں لطیف اکبر صاحب آئے ہو ئے ہیں اور میرے گھر پران کی رہائش ہے۔میں کچھ کرتا ہوں“میں نے کہا ”سر آپ نے صرف دعا کرنی ہے،اللہ مجھے معذوری سے بچائےاور اگر اپنے پاس بلانا چاہتا ہے تو رسوائی سے بچائے،آپ چار پانچ روز کے بعد آئیے گا“ اگلے روزمیں نے عسکری ادارہ قلب میں داخل ہونا تھا۔اللہ سے دعا کے بعد سو گیا،صبح نمازفجر کے بعدبے فکر ہو کر پھر سو گیا۔گھر کی بیل بجی تو بیگم نے کہا”انقلابی صاحب باہر کھڑے ہیں“۔وہ رات کے پچھلے پہر کوٹلی سے نکلے،فجر سے پہلے راولپنڈی سواں کے پاس ایک مسجد میں رکے رہے۔نماز کے بعد گھر آئے تھے۔ہمیشہ دیکھتے ہی کہتے تھے”ماشاللہ، ماشاللہ اج باہوں سوہنے لغنے ہو“ اس روز نہیں کہا۔مجھے دیکھا بھی نہیں،بس ناشتہ کیا اور مجھے اتنا کہا”جااویار حوالے رب دے“پھربلک بلک کر رونے لگے۔گلے لگایا ماتھے پر بوسہ دیا اور روتے ہوئے گھر سے نکل گئے۔باہر جا کر پھر بیل دی ہاتھ اندر کیا اور ایک چیک پھینک کر باہر سے کہا” جتنے پیسے چاہیں نکلوالینا پریشان نہیں ہوا۔“تھوڑی دیر بعد مجھے ان کے بنک سے فون آگیا”سر! انقلابی صاحب نے ہمیں کہا ہے ،پیسے کہاں پہنچانے ہیں؟“آپریشن کے بعد مجھے ان کے ڈرائیور زبیر نے بتایاکہ رات آکر سواں مسجد میں فجر تک نفل پڑھتے رہے اور بار بار دعا کرتے رہے۔واپس کوٹلی پہنچے تک نہ بات کی نہ کسی کی کال اٹینڈ کی۔ان کی آنکھیں سوجھی ہوئی تھیں اور مسکراہٹ کھو گئی تھی۔میرے رب نے کرم کیا۔میں نے ان کاوہ چیک اپنے سینے کے ساتھ لگائے رکھا۔مجھے ان کے پیسوں کی ضرورت کبھی نہیں تھی۔ان کا یہ کہنا”میں ہوں نا!!“مجھے اندر سے جوان کر دیتا تھا۔ہم دکھ سکھ کے ساتھی تھے۔مجھے کبھی اپنی کوئی بھی بات ان کو بتاتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی اور انہوں نے بھی ہمیشہ سینہ کھول کر اپنے درد دکھائے۔کتنی شامیں ،کتنی راتیں ہم دفتر میں بیٹھے رہتے ،اڑنے اورکچھ کرگزرنے کی تدبیریں سوچتے۔غربت ہم دونوں کا پس منظر تھا۔میرے ایک ایک بچے کا تجزیہ کرتے اور بتاتے اس کو فلاں فیلڈ میں اس کو فلاں یونیورسٹی میں داخل کرا دیں۔ان کی پوری زندگی پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ایک ہمہ جہت شخصیت کی بدقسمتی یہی ہوتی ہے کہ اسے معاشرہ کسی اور نظر سے دیکھتا اور پھر اس کا جنازہ بتاتا ہے کہ وہ جس طرح میرے ساتھ محبت کرتے تھے ،سبھی کے ساتھ ایسے ہی تھے۔اللہ نے انہیں ایک وجہیہ شخصیت سے نوازا تھا۔کبھی نخرہ اور غرور ان کے اندر نہیں دیکھا۔خراب سے خراب بھی کھانا ملتا تو کھا کر کہتے”کمال کا کھانا تھا“۔میرے دفتر کے باورچی محمد رزاق سے اتنی گہری دوستی تھی کہ وہ کچھ کھانے کو کہتے تو یہ صاحب لپک لپک جاتے۔جیسا تیسا پکاتے،انقلابی صاحب کھاتے جاتے اور کہتے ”کمال ہے رزاق کمال“۔حوصلے بڑھانے اور دل میں گھس کر بیٹھ جانے کا سلیقہ انہی کو ہی آتا تھا۔جس روز وہ چھت سے گرے،ہم نے پارک میں واک کرنے کا سوچا تھا،باہر بہت ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔میں نے ان سے کہا آج واک ملتوی کرتے ہیں۔وہ گھر کی چھت پر چلے گئے،وہاں سے پھر کال کی،کہنے لگے میرے گھر آجائیں چھت پر واک کرتے ہیں ،میں اس وقت اپنے گھر کے پاس پہنچ چکا تھا،معذرت کی لیکن انہوں نے بے دلی کے ساتھ فون بند کر دیا۔مجھے کسک سی تو محسوس ہوئی لیکن آنے والے حادثے کی کسے خبر تھی۔زندگی بھر کاپچھتاوہ میرے دل سے چمٹ کر رہ گیا ہے۔اللہ کے فیصلے کون بدل سکتا ہے؟ان کے زخمی ہونے کے بعد میں نے دیکھا ،وہ دلوں کے باسی تھے۔ ان کو رب کے حوالے کرتے ہوئے،بے اختیارمنہ پر آگیاِ،آپ کو سب نے جان لیا ،سب نے پہچان لیا۔الوداع !!رب کی جنتوں میں ملیں گے،بس اللہ کے فیصلے کامنتظر ہے آپ کا بھائی!!