انتباہ : سوشل یا پرنٹ میڈیا پر کاپی کرنے والوں کےلئے –گجر ناڑ جس کا سرکاری نام سکمال ندی ہے پر لکھا گیا یہ پہلا تحقیقی مضمون اور سفر نامہ ہے جو شاءع ہو رہاہے ۔ کاپی پیسٹ کرتے وقت یا سوشل میڈیا پر اسے شیئر کرتے وقت مصنف کا نام تبدیل نہ کیا جائے نیز مضمون میں دئیے گئے حقائق بغیر مصنف کے حوالہ کے لکھنے سے گریز کریں ۔ (تصاویر : راجہ شمس الزمان ۔ محمد زعفران اعوان ۔ سمیع اللہ عزیز)
ہماری پہلی منزل مرناٹ گریس:
سات جولائی 2021ء بروز بدھ صبح چھ بجے میں اور بھائی زعفران اعوان مظفرآباد سے وادی نیلم کے گاءوں مرناٹ کی طرف روانہ ہوئے ۔ جانوئی کے مقام پر راجہ شمس الزمان صاحب بھی ہمارے ساتھ گاڑی میں سوار ہوئے اور ہم تین افراد شام کو چھ بجے کے قریب شاہرائے نیلم پر اس مقام پر گاڑی سے اترے جہاں سے ایک لنک روڈ پہاڑ پر آباد گاؤں مرناٹ جاتی ہے ۔ مرناٹ کی طرف جانے والے لنک روڈ پر جوں ہی ہم چلے تو زعفران اعوان صاحب نے آواز لگائی کے ہمارے پیچھے اے ای او ملک امان صاحب بھی آرہے ہیں ۔ جو کہ مرناٹ گاؤں کے ہی رہنے والے ہیں ۔ ہم نے چند منٹ ان کا انتظا کیا اور پھر ان کے ساتھ پیدل سڑک پر چلنا شروع کر دیا ۔ ٹھیک مغرب کے وقت ہم مرناٹ گاؤں پہنچ گئے ۔ چونکہ نماز کا وقت تھا ۔ مرناٹ کی مسجد میں سب نے نماز ادا کی ۔ راستے میں ملک امان صاحب ہ میں مرناٹ گاءوں کی محرومیوں اور تعمیر و ترقی پر روشنی ڈالتے رہے ۔ انہوں نے مرناٹ گاءوں میں پہنچ کر ہ میں وہ پرائمری اسکول بھی دکھایا جو زیر تعمیر تھا ۔ شاہرائے نیلم سے مرناٹ کی بستی بذریعہ سڑک تقریبا ایک کلو میٹر کے فاصلہ پر ایک پہاڑ پر واقع ہے ۔ مرناٹ کے دو حصے ہیں ۔ مرناٹ پائین اور مرناٹ بالا ۔ مرناٹ کو مرناٹ کیوں کہتے ہیں ملک امان صاحب نے ہ میں یہاں ایک درخت دکھایا جسے کائی کا درخت کہتے ہیں ۔ اسے شینا زبان میں مرنو کہتے ہیں ۔ جب یہ گاءوں آباد ہونے لگا تو یہ درخت یہاں کثرت سے تھا ،جانوروں کے لئے اس کے پتے بطور چارہ استعمال ہوتے ہیں اور اس کی ٹہنیوں سے چھال اتار کر اسے بھی کام میں لایا جاتا ہے ۔ اسی درخت کی نسبت سے ابتداء میں یہ گاءوں ’’مرنو‘‘ مشہور ہوا جو بدلتے بدلتے ’’مرناٹ‘‘ بن گیا ۔ مسجد میں نماز باجماعت ادا کی ۔ مسجد کی خاص بات یہ تھی کہ اس دور دراز علاقہ میں مسجد کے اندر نفیس کارپٹ ڈالا ہوا تھا ۔ اور مسجد سے الگ ایک حصہ یا حال اہل محلہ کی گفت وشنید اور اجتماعی مسائل پر روشنی ڈالنے یا سوشل گیتھرنگ کے لئے بنائی گئی تھی جس کے وسط میں انگیٹھی نصب تھی ۔ بہر حال مسجد میں نماز کی ادائیگی کے بعد ملک امان صاحب کے ساتھ ہم ان کے گھر پہنچے ۔ آپ کویہ بتاتا چلوں کے گریس میں ہمارے پروگرام کوآرڈینیٹر راجہ شمس الزمان صاحب تھے اور انہوں نے پہلے سے ہی ہ میں بتا دیا تھا کہ رات ہم ملک امان صاحب کے گھر ٹہریں گے ۔ اور پھر اتفاق دیکھیں کہ مرناٹ گاءوں کے انٹری پوائنٹ پر ہی ملک امان صاحب سے ملاقات بھی ہو گئی جو جندر سیری ایک عزیز کی نماز جنازہ میں شرکت کر کے گھر واپس لوٹ رہے تھے ۔ ملک امان صاحب نے اپنے مکا ن کی بالائی منزل پر حال مہمان خانے کے طور پر وقف کر رکھا ہے اٹیچ باتھ کے ساتھ رات مہمانوں کی رہائش کا بہترین انتظام ان کی مہمان نوازی کا منہ بولتا ثبوت تھا ۔ کچھ دیر ہم صاحب خانہ سے اپنے آئندہ کے سفر کے حوالے سے گفت و شنید کرتے رہے ۔ انہوں نے ہ میں گجر ناڑ کے حوالے سے بہت سی معلومات دیں جو دوسرے دن کے سفر کے لئے رہنما ثابت ہوئیں ۔ کھانے کے بعد طے یہ ہوا کہ ہ میں گجرناڑ میں ملک امان صاحب کی ڈھوک سے ان کے چھوٹے بیٹے جوائن کریں گے جو ہمارے آگے کے سفر کے لئے معاون ہونگے ۔
ڈنہ ٹاپ کی طرف :
رات پر سکون نیند کے بعد صبح ہم چار بجے نما ز فجر ادا کر کے مرناٹ سے روانہ ہوئے ۔ ملک امان صاحب کافی دور تک ہ میں چھوڑنے کے لئے ہمارے ساتھ چلتے رہے اور ہ میں ابتدائی راستہ بھی سمجھایا ۔ ان کے بتائے ہو ئے ٹریک پر چلتے چلتے ہم پونا گھنٹے بعد مرناٹ بالا کے عقب میں پہنچ گئے ۔ صبح کا وقت تھا ۔ موسم گرما میں ٹھنڈی ہو اکے جھونکے ، چڑیوں کی چہچہاٹ اور دور تک بہتا ہوا دریائے نیلم اور مقبوضہ کشمیر کی طرف کے بلند ہوتے پہاڑ بہت ہی سہانا سفر تھا ۔ چڑھتے چڑھتے ہم مرناٹ کے ٹاپ تک جاپہنچے ۔ ٹاپ پر پہنچتے ہی ہ میں اس پہاڑ کی دوسری طرف گجر ناڑ وادی کے سر پر چمکتا ہوا سورج اپنی کرنیں بکھیر تاہو دکھائی دیا ۔
ہم نے ابھرتے سور ج کی طرف جانا تھا ۔ ٹاپ سے اطراف کے پہاڑوں کا منظر کبھی بھلایا نہیں جاسکتا ۔ مغرب میں پھلاوئی کا شیشہ پہاڑ جنوب میں ساءو ناڑ ٹاپ ،لوسر ٹاپ ا ور نریل آگے مقبوضہ گریس کے پہاڑ دکھائی دے رہے تھے ۔ ڈنہ ٹاپ جس مقام پر ہم کھڑے تھے یہ مرناٹ پہاڑ کا بلند ترین مقام تھا اور اس پہاڑ کی رج تھی جس کے ایک طرف صبح کے سور ج کی چمک سے ہر چیز نور میں نہاتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی جبکہ جس طرف سے ہم اوپر چڑھے تھے سور ج کی کرنیں ابھی تک نہ پہنچنے کی وجہ سے ڈارکنیس تھی ۔ نور و ظلمت کایہ نظارہ بڑا دیدنی اور قابل توجہ تھا ۔ بہر حال ٹاپ سے ہونے والے نظاروں نے چڑھائی چڑھنے کی تکھان دور کر دی تھی ۔مرناٹ بالا یہاں سے قدموں میں دکھائی دے رہا تھا ۔ ہ میں مرناٹ پائین سے ٹاپ تک پہنچتے پہنچتے ڈیڈھ گھنٹہ گزر گیا جبکہ یہی سفر مقامی لوگ آدھ گھنٹے میں طے کرتے ہیں ۔ راستے میں ہم اطراف کے مناظر کی یادیں سمیٹنے کےلئے انہیں کیمرہ بند بھی کرتے رہے ۔ ہاں مرناٹ کی یہ بدقستمی کہیں یا ناخداءوں کا ظلم کہ گجر ناڑ کے قدموں میں ہونے کے باوجود یہاں پانی کی دستیابی تاحال ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ چھوٹے سے چشمہ سے پانی فراہم ہوتا ہے جو یہاں کے گاءوں کی ضرورت کے لئے بہت ہی ناکافی ہے ۔ کسی زمانہ میں ایک کوہل گجر ناڑ سے نکال کر مرناٹ تک لائی گئی تھی لیکن ہر سال گلیشئر کی نظر ہونے کی وجہ سے یہ متروک ہو گئی ۔ شاید ہی نیلم میں ایسا کوئی گاءوں ہو جو مرناٹ کی طرح پانی کی عدم دستیابی کا شکا ر ہو ۔ یہاں تو ہر طرف ندی نالے دریا چشمے ابلتے ہیں ۔ لیکن یہ ابلتے چشمے بہتی ندیا مرناٹ کو سیراب نہیں کر سکی بہر حال مرناٹ میں زیر زمین پانی موجو ہے جس کے آثار ہم نے خود دیکھے کہ نم زمین جیسے کہہ رہی ہو قدرت کی فیاضی اسی پر ہوتی ہے جو اسے حاصل کرنے کی کوشش بھی کریں ۔ اگر کچھ بورنگ کر کے یا کنویں کھود کر بذریعہ سولر بجلی ،پانی کی نکاسی کی جائے تو کچھ بعید نہیں کہ یہ محرومی بھی دور ہو جائے ۔ اس جانب این جی اوز اور متعلقہ حکام کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اور میں بالخصوص ان سطور کے ذریعے ایسی اداروں اور این جی اوز سے مطالبہ کروں گا کہ وہ اس جانب توجہ دیں اور اس کےلئے انہیں مقامی معاونت کی ضرورت ہو تو ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں ۔ بہر حال بات سے بات نکل گئی اصل بات یہ تھی کہ مرناٹ سے چلتے ہی ہم نے پانی ایک بوتل میں بھر کے ساتھ رکھ لیا تھا جو اس دوران ہمارے بہت کام آیا ۔ اور ایسا ہم نے ملک امان ڈی ای او کی گفتگو سننے کے بعد کیا تھا ان کا کہنا تھا مرناٹ کی حدود تک اس بوتل کی آپ کو ضرورت رہے گی اس کے بعد قدم قدم پر چشمہ آپ کو خوش آمدید کہیں گے ۔ اور ایسا ہی ہوا ۔ ڈنہ ٹاپ پر فوٹوگرافی نہ کر نا گویا اپنے ساتھ زیادتی کرنے کے مترادف ہے ۔ سر پر لہراتے بادل ، چمکتا سورج ، شیشہ مالی ۔ گجر ناڑ کا سر سبز جنگل اور دور دکھائی دیتے مقبوضہ علاقے کی پہاڑی چوٹیوں ۔ اس ٹاپ تک مرناٹ گاءوں سے مزید ایک کلو میٹر سڑک پہنچا کر اسے بہترین ویو پوائینٹ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔ جہاں گیسٹ ہاءوسز بھی تعمیر ہو سکتے ہیں ۔
جنگل کا کوریڈور اور بنڑ میں ناشتہ:
ڈنہ ٹاپ سے ہم نے نیچے اترنا شروع کیا اور ایک گھنے جنگل میں داخل ہو گئے ۔ جنگل میں داخل ہو کر چند میٹر ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ راستہ پر نصب لکڑی کا ایک دروازہ دکھائی دیا ۔ جسے دیکھ کر ہ میں خوش گوار حیرت ہوئی کہ عموما نیلم میں ایسا کہیں ہوتا نہیں ۔ یہ دروازہ گجر ناڑ کا انٹری پوائنٹ ہے ۔ لکڑی کا دروازہ کھول کر ہم آگے کی طرف بڑھے ۔ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ مرناٹ سے آگے گجر ناڑ تک پکڈنڈی کو کشادہ راستے میں تبدیل کیا گیا ہے ۔ یہ کام مقامی لوگوں نے کسی این جی اوز کے تعاون سے کر کے سفر کرنے والوں کے لئے مزید آسانی پیدا کر دی ہے ۔ جس جنگل سے ہم گزر رہے تھے یہ ایک وسیع میدانی علاقہ تھا ۔ یہاں بھی چڑیوں کا قدرتی میوزک اور کہیں سے گجر ناڑ کے بہنے کی آواز بہت سہانی لگ رہی تھی ۔ درختوں سے تازہ آکسیجن جسم اور روح کو سر شار کر رہا تھا ۔ گزرتے گزرتے یہ جنگل بھی کچھ دیر کے بعد ختم ہو گیا ۔ اب ہمارے سامنے ایک بڑی وسیع وادی تھی جس کے بیچوں بیچ گجر ناڑ اس طرح بہہ رہا تھا گویا یہ زمین سے ابل رہا ہو ۔ اور اس کے دونوں اطراف پتھر کے بنے مکانات سے صبح کے وقت اٹھتا دھواں اور اتنے سویرے اس مقام تک ہمارا پہنچنا یہاں کے مکینوں کے لئے تعجب خیز تھا ۔ ہمارے بھائی راجہ شمس الزمان صاحب ان کے سوالوں کے جوابات دے کر انہیں مطمئن کرتے اور آگے بڑھتے رہے ۔ ہر قدم پر ان کا کوئی نہ کوئی جاننے والا ان سے بغل گیر ہو جاتا تھا ۔ بہر حال جنگل کے بعد ہم سب سے پہلے ڈھوک’’بنڑ‘‘ میں داخل ہوئے ۔ یہاں شمس بھائی ہ میں اپنے ایک عزیز نمبردار خانیزمان صاحب کے گھر لے گئے ۔ اگرچہ وہ خود کہیں پہاڑ گردی کے لئے نکل گئے تھے لیکن ان کے اہل خانہ نے ہمارا بڑا پر خلوص استقبال کیا ۔ دیسی انڈوں اور چوری سے ہم نے ناشتہ کیا اور دیسی چائے پی کر ان کا شکریہ ادا کر کے یہاں سے روانہ ہوئے ۔ ہاں جب ہم ڈھوک میں پہنچیں تو ہماری یہاں ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی جنہوں نے گجر ناڑ کے حوالے سے نہ صرف ہ میں معلومات بھی دیں ساتھ ہ میں یہ کہہ کر کچھ مایوس کرنے کی ناکام کوشش بھی کی کہ آپ گجر ناڑ وادی تو دیکھ سکتے ہیں البتہ جھیلوں تک نہیں پہنچ سکتے ۔ اس کی مختلف وجو ہات انھوں نے بیان کیں ۔ بہرحال ناشتے کے بعد انہیں ہاتھ ملا کر ہم اس ڈھوک سے نئے عزم کے ساتھ آگے روانہ ہوئے اور اپنے دل کا حال ان سے چھپائے رکھا ۔ اس بہک کے سامنے نالے کی دوسری طرف بھی بانڈی نام کی ایک ڈھوک تھی جہاں سے بہت ہی تیز دھواں بلند ہو رہا تھا ۔ ہم نے سمجھا کسی گھر سے یہ دھواں بلند ہو رہا ہے لیکن معلوم کرنے پر پتا چلا کہ یہ لوہے کی بھٹی ہے جہاں انگار تیا ر کئے جا رہے ہیں ۔ بہرحال دور سے یہ اٹھتا دھواں اس قدرتی منظر میں ایک خوبصورت اضافہ لگ رہا تھا ۔کچھ ہی دیر کے بعد ہم اب گجر ناڑ ندی کے پانیوں کے کنارہ پہنچ چکے تھے ۔ اس کے ساحل پر بیٹھے تو پرسکون ماحول میں ندی کے بہتے پانی کی آوازیں ، دماغ کی بند نسیں بھی کھول رہیں تھی ۔
گجرناڑ کی وجہ تسمیہ اور پرانا نام :
گجر ناڑ کا پرا نا نام ’’سکمال ‘‘ ہے اور آج بھی سرکای نقشہ جات میں اسے سکمال لکھا جاتا ہے ۔ یہ لفظ ’’سُکیال ‘‘ بھی بولا جاتا ہے ۔ وادی گریس میں اچھور کے قریب سینیال گاءوں میں بہنے والے نالے کانام بھی ’’سکیال ‘‘ ہے ۔ یہ نالہ گریس کے شمالی پہاڑوں سے بہہ کر سنیال گاءوں کے بلمقابل برزل نالہ میں شامل ہوتا ہے ۔ البتہ مقامی لوگوں میں یہ نام معروف نہیں ۔ اور یہ اسے گجرناڑ ہی کہتے ہیں ۔ گجر ناڑ کو گجر ناڑ کیوں کہتے ہیں ۔ اس کی دو وجوہات بیان کی جاتی ہے ۔ پہلی وجہ یہ بتائی گئی کہ اس علاقہ میں تین تہذیبوں اور زبانوں سے تعلق رکھنے والی قو میں آباد ہیں جن میں کشمیری ، اور شینا زبان والے ہندکو بولنے والوں کو ’’گجرائی اور گجر ‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں ۔ چونکہ اس وادی میں پہلے پہلی ہندکوبولنے والے لوگ آباد ہوئے اس لئے ان کشمیری اور شینا بولنے والوں نے اسے گجر ناڑ مشہور کر دیا ۔ جبکہ دوسری روایت کے مطابق گجر ناڑکی وادی میں گجر برادری نے پہلے پہل اپنی ڈھوک ’’گجر بہک ‘‘ بنائی ۔ جس کی نسبت سے اس کانام ’’گجر ناڑ‘‘ مشہور ہو گیا ۔ اس وادی میں بکروال کثرت سے اپنا مال مویشی لے کر جاتے ہیں ۔ اس لئے بھی یہ گجر ناڑ کے نام سے مشہور ہے کیونکہ یہ بکروال زیادہ تر گجر برادری سے تعلق رکھتے ہیں جو گوجری زبان بولتے ہیں ۔ البتہ گجر ناڑ میں ہندکو ، گوجری اور شینا زبانیں بولنے والے تینوں تہذیب و ثقافت رکھنے والے لوگوں کی ڈھوکیں موجود ہیں ۔ گجر ناڑ کی وادی میں ندی کے دونوں اطراف کم و بیش 24کے قریب چھوٹی بڑی ڈھوکیں ہیں ۔ زیادہ تر ڈھوکیں گجر ناڑ دومیل میں ہیں ۔
وادی گجر ناڑ کا راستہ اور رتی گلی پاس :
وادی گجر ناڑ کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں سے ایک راستہ استور کے علاقہ گیشارٹ جاتا ہے ۔ جس پر موسم بہار میں لوگوں کی آمدورفت بدستور جاری رہتی ہے ۔ گجر ناڑ ٹاپ پر جو درہ ہے اسے ’’رتی گلی ‘‘ کہتے ہیں ۔ رتی گلی پاس سے گزر کر لوگ ’’گیشارٹ‘‘ جاتے ہیں ۔ یہ اہم درہ ہے جو سطح سمندر سے 14090فٹ بلند ہے ۔ یاد رہے ایک رتی گلی دواریاں کے مضافات میں بھی ہے جس کے نام پر ’’رتی گلی کی جھیل ‘‘ مشہور ہے جہاں ہر سال ہزاروں سیاح آتے ہیں ۔گجر ناڑ کے سفر کے دوران بھی ہمار متعدد ایسے افراد سے ملاقات ہوئی جو گیشارٹ سے اس پاس کے ذریعہ وادی نیلم آرہے تھے اور ایک ایسے قافلے سے بھی ملاقات ہوئی جو بیس سے پچیس بیل اور گائے لے کر گیشارٹ جارہے تھے یہ مال مویشی انہوں نے پھلاوئی اور قریبی بستیوں سے خریدے تھے ان کا کہناتھا کہ انہیں گلگت پہنچایا جائے گا ۔ جہاں عید الاضحی پر قربانی کے لئے انہیں فروخت کیا جائے گا ۔ اس راستے سے قدیم زمانے سے آمد و رفت جاری ہے ۔
بنیادی طور پر کالا پانی اور جیجرکدل نالے اور گجر ناڑ کا منبع ایک ہی پہاڑی سلسلہ پر ہے ۔ یہ پہاڑی سلسلہ جو ایک طرف سر والا ناڑ کے عقبی پہاڑوں سے ملا ہوا ہے تو دوسرے طرف گشارٹ تک پھیلا ہوا ہے ۔ اسی پہاڑی سلسلہ کی جنوبی ڈھلوانوں سے بہنے والا پانی کالا پانی اور جیجر کدل کے نالوں کے ذریعے بالا ٓخر رٹو نالہ کا حصہ بنتا ہے ۔ جبکہ شمالی ڈھلوانوں کاپانی ایک طرف اپر تاءوبٹ نالہ اور دوسری طرف گجر ناڑ کی صورت میں بہتا ہوا دریا ئے نیلم میں شامل ہوتا ہے ۔
گجر ناڑ کا منبع ،فاصلہ اور بلندی وپستی:
گجر ناڑ کے ٹاپ پر موجود درہ رتی گلی کے اس پہاڑی سلسلہ میں دو نالے بالترتیب شمال مشرق اور شمال مغرب سے بہہ کر پہاڑ کے دامن میں ایک ہو جاتے ہیں جہاں سے اصل میں گجر ناڑ کی ابتداء ہوتی ہے ان دونوں نالوں کے ملاپ کے مقام کو مقامی لوگ دومیل کہتے ہیں ۔ ان دو نالوں میں سے جو نالہ شمال مغرب کی طرف سے آتا ہے یہ دوسرے کی نسبت بڑا بھی ہے اور اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس کا منبع ایک جھیل ہے ۔ اور یہ جھیل حقیقت میں گجر ناڑ کا بھی منبع ہے ۔ مقامی لوگ اسے ڈک جھیل کہتے ہیں بعض رتی گلی پاس کی وجہ سے اسے ’’رتی گلی جھیل ‘‘ بھی کہتے ہیں ۔ گجر ناڑ اس جھیل سے لے کر پھلاوئی میں سروالا ناڑ کے سنگم تک تقریبا اٹھارہ کلو میٹر طویل ہے ۔ جھیل کی سطح سمندر سے بلندی 4033میٹر ہے جبکہ پھلاوئی میں جس مقام پر گجر ناڑ سروالا ناڑ سے ہم آغوش ہوتا ہے یہ سطح سمندرسے 2333میٹر بلند ہے اس طرح اٹھارہ کلو میٹر کے فاصلہ کے دوران یہ نالہ کم و بیش 2000میٹر کی اترائی طے کر اپنے سنگم پر پہنچتا ہے ۔
سبز علی بہک ون میں :
وادی گجر ناڑ میں داخل ہو کر ندی کے کنارہ کچھ دیر سستانے کے بعد ہم نے گجر ناڑ پر لگے لکڑی کے پل کے ذریعے اسے پا ر کیا اور اب اس کے دائیں طرف جانب مشرق بڑھنے لگے ۔ راستے میں ڈھوکوں ، چشموں ، سبزے اور سر پر تنے نیلے آسمان کو دیکھتے دیکھتے ہم آدھ ایک گھنٹے بعد چوہدری سبز علی صاحب کی پہلی ڈھوک میں پہنچے ۔ جہاں چوہدری سبز علی صاحب اور ان کے ساتھ موجود چند دیگر افراد نے انتہائی خندہ پیشانی اور گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا ۔ سبز علی صاحب مرناٹ بالا کے رہنے والے ہیں ۔ ان کی خاص بات اور ان کا طرہ امتیاز سخاوت اور مہمان نوازی ہے ۔ انہوں نے ڈھوک میں بھی ایک مخصوص کمرہ جس کا فرش لکڑی کے پھٹوں سے تیار کر دہ ہے اس وادی سے گزرنے والے مہمانوں کے لئے تیار کر رکھا ہے ۔ اکثر گجر ناڑ کے راستے گشارٹ اور رٹو استور تک جانے والے لوگ رات ان کے یہاں قیام کرتے ہیں اور ان کی پر خلوص مہمان نوازی سے لطف اندوذ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی سفری تھکان ان کی باتوں سے دور کرتے ہیں ۔ ڈھوک کے اندر اس طرح کا کمرہ انوکھی بات لگتی ہے ۔ یہی نہیں سبز علی صاحب کی باغ و بہار شخصیت اس قیام کو مزید چار چاند لگا دیتی ہے ۔ خالص دیسی دود ھ کی چائے جسے ہم اپنی زبان میں دودھ پتی کہتے ہیں سبز علی صاحب نے پلائی تو ساری تکھان ہوا ہو گئی ۔ میرے ایک ساتھی نے سبز علی صاحب کے ہاں دو وقت کے قیام میں اس لذیذ چائے کے سات بڑے پیالہ نما کپ نوش فرمائے لیکن پھر بھی واپسی پر وہ اس چائے کے لئے بے تاب ہی رہے ۔سبز علی صاحب نے نہ صرف ہمارا حوصلہ بڑھایا بلکہ درست انداذ میں جن جھیلوں تک ہم جانا چاہتے تھے معلومات فراہم کیں ۔ یہی نہیں بلکہ میرے موبائل میں اپنا ایک پیغام ریکاڑ کروایا کہ ان جھیلوں کے قریب اگر آپ رات قیام کرنا چاہیں تو بکروالوں کو میرا یہ پیغام سنا کر وہاں قیام کر سکتے ہیں ۔ اس لئے کہ سبز علی ان بکروالوں کا خاص خیال کرتے ہیں ۔ بہر حال باقی ساتھیوں کے ساتھ گفت و شنید اور چائے وغیرہ نوش کرنے کے بعد رات ان بکروالوں کے ہا ں قیام کا فیصلہ کر کے ہم گجر ناڑ کی دائیں جانب ا س کے کنارہ کنارہ چلنے لگے ۔ گجر ناڑ کے بائیں جانب جنگل اور دائیں جانب سر اٹھاتی خشک چوٹیاں تھیں ۔ جو اس وادی اور ندی کے حسن پر ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرے ہوئے تھے اور اب ہ میں ان پہاڑی ٹکڑوں کو قدموں میں روندتے ہوئے آگے گزرنا تھا ۔ بہرحال راستے کے یہ پتھر بھی ہمارے عزم بالجز م میں تزلزل نہ لا سکے ۔ الحمد للہ ۔ اگرچہ ان پر چلنا بھی ایک الگ فن ہے جو یہاں کہ مقامی لوگ بخوبی جانتے ہیں البتہ نئے آنے والوں کو کچھ دشواری ہوتی ہے ۔ بہرحال ہزاروں فٹ بلند جھیلوں تک پہنچنے کے لئے ایسی دشواریاں کچھ حقیقت نہیں رکھتی ۔
چچا سائیں کی صورت میں غیبی مدد :
سبز علی صاحب کے مطابق اس بیس کیمپ تک پہنچنے کے لئے ہ میں دو سے تین گھنٹے درکار تھے بہرحال ہم پتھروں پر سے چلتے گئے ابھی بیس کیمپ سے کچھ ہی فاصلہ پر تھے کہ ایک اور غیبی مدد ہوئی ۔ ہم سستانے کے لئے ندی کے کنارے ایک پتھر کی سل پر لیٹے ہوئے تھے کہ بزرگ اور نورانی چہرے والے شخص گجر ناڑ کی طرف سے ہماری طرف آئے ان کے ساتھ ایک نوجوان بھی تھا ۔ یہ بزرگ ہم سے اس طرح ملے گویا صدیوں سے جانتے ہوں ۔ اور ہمارا احوال پوچھتے ہی فورا ہ میں کھانے کی دعوت دی ۔ ناشتہ اور چائے تو چلتے چلتے کہیں ہضم ہی ہو چکی تھی ۔ ان کے اصرار اور پر خلوص دعوت پر ہم انکار نہ کر سکے ۔ انہوں نے ہ میں یہیں ٹہرنے کا کہاں اور کچھ ہی دیر بعد اس نوجوان اور دو چھوٹی بچیوں کے ہمراہ ، دیسی دہی ، مکئی اور گندم کی روٹیوں کا ٹوکرہ لے کے ہمار ے پاس وآپس آگئے ۔ ان کی اس ضیافت سے پیٹ بھرا ہی تھا کہ اس فرشتہ صفت انسان نے ایک دوسری خوشخبری سنائی کہ میں آپ کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا ۔ اس جھیل تک میں آپ کے ساتھ جاءوں گا ۔ اور پھر واپس بکروالوں تک پہچا کر میں اپنی ڈھوک آجاءوں گا ۔ ہمارے بھائی راجہ شمس الزمان صاحب نے ان کی پیرانہ سالی کو مد نظر رکھتے ہوئے ۔ انہیں انتہائی مودبانہ طور پر ایسا کرنے سے منع کیا کہ کہیں ہماری وجہ سے انہیں زحمت اور تکلیف نہ ہو ۔ لیکن متفقہ مشورہ کے بعد فیصلہ یہی ہوا کہ وہ جہاں تک چاہیں ہمارے ساتھ جا سکتے ہیں ۔ ہمارے ساتھ جائیں گے ۔ جس جھیلوں تک ہم نے جانا تھا وہ وہاں متعدد بار جا چکے تھے اور ہر پہاڑ کی چوٹی اور اس سے نکلنے والے راستوں سے نہ صرف واقف تھے بلکہ جب وہ ہ میں تفصیل بتانے لگے تو ایسا لگا کہ وہ اس وادی کی ایک ضخیم کتاب اپنے حافظہ میں محفوظ کئے ہوئے ہیں ۔ یو ں کہہ لیں کہ وہ چپے چپے سے واقف تھے ۔ کھانے کے بعد وہ ہمارے ساتھ روانہ ہو گئے ۔ ان کے ہاتھوں میں ایک عصا تھا، چہرہ نورانی اور گفتگو وجدانی ،اورچلتے ہوئے وہ قدیم زمانہ کے کسی بزرگ کی جھلک لگتے تھے ۔ پتھروں پر سے چلتے ہوئے میں نے انداذہ کیا کہ ہم ان کی رفتار کے ساتھ اپنا سفر جاری نہیں رکھ سکتے ۔ ان کے مطابق ہماری رفتار ایسی ہونی چاہئے تھی کہ ہم دوپہر کو جھیل دیکھ کر نیچے وآپس آجائیں ۔ بہرحال کچھ ہی دیر بعد ہم ایک گلیشئر تک پہنچے جو گجر ناڑ کو ڈھانپے ہوئے تھا ۔ اس گلیشئر پر بکروالوں کا قافلہ چڑھ کر کہیں اوپر پہاڑ پر جا رہا تھا جہاں انہوں نے اپنا ڈیرہ جمانا تھا ۔ گلیشئر کے فورا بعد گجر ناڑ کہیں غائب ہو گیا اور اس کی جگہ ایک خوبصورت جھیل ہماری نظروں کے سامنے تھی ۔ اصل میں یہاں گجر ناڑ جھیل کا روپ دھار لیتا ہے ۔سبز علی صاحب کی پہل ڈھوک میں ہ میں یہ سمجھا یا گیا کہ یہاں سے آگے دریا کے دونوں طرف ایک دوسرے سے فاصلے پر چار سے پانچ ڈھوکیں آئیں گی جن کے بعد گجر ناڑ ندی نہیں رہے گا بلکہ ایک جھیل میں تبدیل ہو جائے گا ۔ میدانی علاقہ میں پہلے گجر ناڑ سر ون اور اس کے فورابعد گجر ناڑ سر ٹو دکھائی دے گا بس یہی بیس کیمپ ہو گا ۔ اس بیس کیمپ سے دائیں طرف چڑھائی چڑھ کر ہ میں ہزاروں فٹ بلندی پر واقع ’’شاڑنک سر ‘‘ (جھیل ) تک جانا تھا ۔
چچا سائیں کی رفتار ہم سے بہت زیادہ تھی ۔ اور وہ ہماری چال دیکھ کر کچھ متفکر ہو گئے تھے ۔ اس سے قبل کے وہ کچھ کہتے ہم نے پہل کر کے ان سے کہا کہ شاید ہم جھیل تک نہ جا سکیں اس لئے اسی بیس کیمپ پر وقت گزار کر ہم نولکھیاں بکروال کے پاس رات رہائش اختیا ر کر لیں گے ۔ اور صبح سویرے اس جھیل تک جائیں گے ۔ یہ سن کر چچا سائیں نے بھی ہماری تائید کی اور وہ ہم سے اجازت لے کر چل دئیے انہیں اپنی زوئی بھی تلاش کر نی تھی ۔ جی یہ ایک پالتو حلال جانور ہے ۔ جو وادی نیلم بھر میں خاص گریس ویلی کی پہچان ہے ۔ نر کو ’’زووا ‘‘ اور ’’مادہ ‘‘ کو زوئی کہتے ہیں ۔ یہ یاک کی نسل سے ہوتا ہے ۔ گجر ناڑ میں اکثر لوگ اسے پالتے ہیں اور ہم نے راستے میں کئی مقامات پر اسے گھاس چرتے ہوے دیکھا ۔ بہرحال چل چل کر ہماری حالت اچھی نہ تھی اس وقت ہم3318میٹر یعنی10885فٹ سطح سمندر سے بلندی پر تھے اور دوپہر کے تقریبا دو بج رہے تھے ۔
شاڑنک سر (جھیل ) کا بیس کیمپ :
یہاں ایک سرسبز میدان ہے جس میں سے گزرنے والا گجر ناڑ کا پانی پھیل کر ایک وسیع جھیل کا روپ دھار لیتا ہے ۔ سبزے میں اس جھیل پر تصویر کشی کی جائے تو اس کا منظر ’’جھیل سیف الملوک ‘‘ کی طرح دکھائی دیتا ہے ۔ اس جھیل میں پانی داخل ہونے کا منظر بھی بڑا خوبصورت ہے کہ کہ نالہ جھیل بننے سے قبل بالکل سانپ کی طرح کئی بل کھاتا ہے اور پھر پانی سرسبز میدان میں پھیل کر جھیل کا روپ دھار لیتا ہے ۔ یہاں اکثر جھیل کے کنارہ زویا،گائے ، بھینسیں گھاس چرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ۔ جو اس سبز میدان اور جھیل کے حسن کو چار چاند لگا دیتی ہیں ۔ سبز علی بہک اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ یہاں کیمپنگ کی بہت ہی مناسب جگہ موجود ہے ۔ اور سونے پر سہاگہ یہ کہ گجر ناڑ کے دائیں اور بائیں جانب کی جھیلوں کے لئے یہ مقام ’’بیس کیمپ ‘‘ بھی ہے ۔ سبز علی بہک ندی کے دائیں کنارہ اس سبز میدان سے ایک طرف ہٹ کرپہاڑ کے قدموں میں ہے ۔ اس بہک کے عقب سے ایک نالہ دائیں جانب سے گجر ناڑ میں شامل ہوتا ہے ۔ جس کے ساتھ سفر کر کے بالخصوص وادی نیلم اور بالعموم گجر ناڑ کی خوبصورت ترین جھیل تک جا سکتے ہیں ۔ اس جھیل کا نام ’’شاڑنک سر(جھیل )‘‘ ہے ۔
بیس کیمپ سے آگے:
چچا سائیں کے رخصت ہونے کے بعد ہم نے جھیل پر وضو کیا ۔ راجہ شمس صاحب نے اذان دی ۔ نماز اد ہوئی اور پھر ہم نے مجلس مشاورت قائم کی ۔ مشورہ یہ ہوا کہ جھیل آج ہی دیکھنی ہے ۔ زعفران بھائی ، شمس بھائی اور میں نے بھی حامی بھر لی ۔ ہم نے اب مزید دوہزار میٹر سطح سمندر سے بلندی پر جاتا تھا جہاں ہماری عارضی منزل شاڑنک جھیل تھی ۔ عارضی اس لئے کہ وآپس ہم نے رات کسی محفوظ جگہ میں پہنچنا تھا ۔
بیس کیمپ سے چڑھائی چڑھنا شروع کی تو ہ میں مزید انداذہ ہو گیا کہ جھیل پر جا کر مغرب سے پہلے ہی وآپس محفوظ مقام پر جو اس بیس کیمپ سے مزید کئی کلو میٹر دور تھا تک پہنچنا آسان نہیں بلکہ مشکل ترین ہے ۔ اللہ تعالی نے خصوصی مد د کی ۔ بیس کیمپ سے ایک راستہ شاڑنک جھیل کے نالے کے سنگم سے پہلے ہی اوپر دائیں طرف چڑھتا ہے ۔ اس پر ہم نے چڑھنا شروع کیا ہ میں اوپر بھوج پتر کے جھنڈ سے تک جا نا تھا جہاں سے آگے مزید راستہ واضح ہوتا کہ اب کیا کرنا ہے ۔ بھوج پتر یہاں کا مقامی درخت ہے جو سطح سمند ر سے سب سے زیادہ بلندی پر پایا جانے والا واحد درخت ہے اس سے آگے کوئی درخت نہیں اگتا بلکہ جھاڑیاں اور گھاس وجڑی بوٹیاں ہوتی ہیں ۔ بھوج پتر کے جھنڈ سے نکل کر ہم شمالی جانب مڑے تو کچھ ہی دیر بعد وہ ایک تنگ وادی دکھائی دی جس کے بیچوں بیچ ایک نالہ بہہ رہا تھا اور یہ نالہ مکمل طور پر گلیشئر سے ڈھکا ہوا تھا جسے مقامی لوگ چھنج کہتے ہیں ۔ ہمارے خیال میں یہ شاڑنک جھیل سے نکلنے والا نالا تھا ۔ بہر حال جھیل تک پہنچتے پہنچتے سرد ہوائیں چلنے لگ گئیں ناک وغیرہ سرخ ہو گئے اور ہمت جواب دینے لگی صبح چار سے شام چار بجے تک مسلسل چل رہے تھے تقریبا چار بجے جھیل کے قریب پہنچے اس وادی میں آخری وقت تک جھیل ہ میں دکھائی نہ دی یہاں تک کہ ایک ٹیرس پر چڑھنے کے بعد پتا چلا کہ حسن کی یہ دیوی یہاں چھپی ہوئی ہے ۔
شاڑنک سر(جھیل )کا ٹریک اور عقبی مینار نما پہاڑ:
سبز علی بہک سے جھیل تک نالے کے ساتھ ساتھ دو کلو میٹرچڑھائی چڑھنی پڑتی ہے ۔ بیس کیمپ سے راستہ دائیں جانب اوپر چڑھنا شروع ہوتا ہے ۔ بھوج پتر کے درختوں کے جھنڈ میں سے ہوتا ہوا یہ راستہ شاڑنک جھیل کے نالہ کے دائیں جانب سے شمال مغربی سمت مڑتا ہے تو سامنے ایک ڈھلوانی تنگ وادی دکھائی دیتی ہے ۔ جس کے اختتامی حصہ میں گجر ناڑ کے عقبی پہاڑ اپنی قدرتی منفرد بناوٹ ،سنگلاخی اور مینار نما شکل وشباہت کی وجہ سے دیکھنے والوں کو محو حیرت کر دیتے ہیں ۔ دیکھنے والا انہیں دیکھتا ہی رہ جاتا ہے اور یہ پہاڑ اپنے خالق کی کبریائی بیان کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔ ان پہاڑوں میں سے دو سنگلاخ مینار نما پہاڑ ارد گرد کے پہاڑوں سے بلند ہو کر وکٹری کی علامت بناتے ہیں ۔ ان پہاڑوں کا منظر بذات خود بہت ہی دلچسپ اور قابل دید ہے ۔ دور سے جھیل نہیں دکھائی دیتی کسی حسینہ کی طرح ان پہاڑوں میں اوجھل رہتی ہے ۔ جوں جوں آگے بڑھیں تو ان پہاڑوں کے قدموں میں قدرتی طورپر بنی ہوئی ایک بند نما سبز کوہی دیوار دکھائی دیتی ہے جس میں بظاہر یہ پہاڑ بلند ہوتے ہوے نظر آتے ہیں ۔ اس بند نما دیوار کی وجہ سے یہ جگہ باقی وادی سے ممتاز ہوکر ایک قدرتی ٹیرس بن جاتی ہے ۔ جس پر شاڑنک جھیل کا نیلگو پانی دیکھنے والے کو اپنے سحر میں مبتلا کر دیتا ہے ۔ یہ جھیل سطح سمندر سے پونے تیری ہزار فٹ بلندی پر واقع ہے ۔
شاڑنک جھیل :
ایک بڑے قدرتی پیالے یا شاڑنک میں برف کے تیرتے راج ہنس اور ایک کونے سے بہتا اس کا پانی عقب میں محافظوں کی طرح اس جھیل کے حسن کو سلامی پیش کرتے پہاڑ ۔ سامنے ساحل اور ساحل سے نیچے اترتا پانی سب کچھ دیکھ کر شاڑنک جھیل کا قدرتی حسن دل میں اتر جاتا ہے ۔ جھیل سے کئی رومانوی کہانیاں وابستہ ہیں کہ یہاں گائے کی آواز ، مرغ کی اذان اور اس طرح کی دیگر باتیں دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں ۔
شاڑنک جھیل کے اطراف جولائی کے آخر تک پہاڑ برف میں ڈوبے رہتے ہیں اور جب ہم یہاں گئے تو جولائی میں بھی جھیل کا 80فیصد حصہ برف سے ڈھکا ہوا تھا ۔ انتہائی خوبصورت جھیل ہے ۔ دیکھنے والے کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے ۔ راقم نے راجہ شمس الزمان اور زعفران اعوان کے ساتھ پہلی مرتبہ اس جھیل کو ملکی سطح پر نہ صرف دریا فت کیا بلکہ اس کی پہلی تصویربرقی اور پرنٹ میڈیا پر نشر کی گئی ۔ اس اعزاز پر میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں ۔ ہم صبح سات بجے مرناٹ ڈنہ سے روانہ ہوئے اور راستے میں ٹہرتے چلتے ہوئے شام چار بجے شاڑنک جھیل کے قریب پہنچے ۔
شاڑنک سر( جھیل )شمال سے جنوب کے رخ لمبی اور مشرق سے مغرب کے رخ چوڑی ہے ۔ اسکی زیادہ سے زیادہ لمبائی 490 میٹر ہے جبکہ زیادہ سے زیادہ چوڑائی مشرق سے مغرب کے رخ 360 کلومیٹر ہے جو کہ جنوبی جانب کم ہو کر صرف 190کلو میڑ رہ جاتی ہے ۔ جھیل جنوبی جانب آخر میں ایک چھوٹے تکون یا چونچ کی شکل اختیا ر کر لیتی ہے جہاں سے جھیل کا پانی بہہ کر نیچے گجر ناڑ کی طرف جاتا ہے ۔ ۔ جھیل کا پیری میٹر1400میٹر ہے ۔ یعنی جھیل کے گرد ایک مکمل چکر لگانے کے لئے چودہ سو میٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے ۔ جھل کا پانی 0;46;12اسکوائر کلو میٹر )رقبہ پر پھیلا ہوا ہے ۔ اس جھیل کے گرد کوئی بڑا ساحل نہیں بلکہ اس کے تین اطراف سے یکدم پہاڑاپنے قدم اٹھانا شروع کر دیتے ہیں ۔ تین اطراف سے بلند و بالا پہاڑوں میں گھری جھیل دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ کسی بلا سٹ کی صورت میں اس کے گرد یہ پہاڑ کھڑے ہوگئے ہیں اور وسط میں یہ جھیل اس بلاسٹ کی نشانی کے طور پر باقی رہ گئی ہے ۔ مشرقی پہاڑ کی بلند ترین چوٹی 4302میٹر سطح سمندر سے بلند ہے ۔ مغربی چوٹی 4530میٹر اور شمالی جانب کی چوٹی 4380میٹر سطح سمندر سے بلند ہے اس پہاڑ کے ٹاپ پر ایک ہموار قطع ہے جس پر گلیشئر اس وقت بھی موجود رہتا ہے جبکہ اطراف میں برف ختم ہو جاتی ہے ۔ اس شمالی پہاڑ کی دوسرے طرف دوبنڑ ناڑ بہتا ہے جو پھلاوئی جانے والے نالے سراں والا ناڑ کا منبع ہے اورپہاڑ کے دامن میں جا کراپنے بلمقابل آنے والے ایک اور نالے کے ساتھ مل کر دومیل کی صور ت میں سراں والے ناڑ کی ابتداء کر تا ہے ۔ جبکہ جھیل 3878میٹر یعنی 12725فٹ سطح سمندر سے بلندی پر واقع ۔ ہے اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جھیل کے اطراف کے پہاڑ اس جھیل سے 400سے لے کر 700میٹر تک بلند ہیں ۔ اکثر جھیل کا پانی گہرے نیلمی رنگ میں دکھائی دیتا ہے اطراف کے پہاڑوں کی برف اور پانی بہہ کر اس جھیل میں جمع ہوتا ہے ۔ وسط سے اس جھیل کی گہرائی زیادہ سے زیادہ اٹھارہ میٹر تک ہے جبکہ اطراف میں یہ گہرائی کم ہو کر صرف دوسے تین میٹر رہ جاتی ہے ۔ جھیل کے نیچے بھی چٹانیں ہیں ۔ جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ کسی زمانہ پہاڑوں میں بلاسٹ کی وجہ سے یہ جھیل معرض وجو د میں آئی ہے ۔
واپسی پر فلائننگ مارچ:
جھیل دیکھنے کے بعد ہمارے پاس صرف ڈھائی سے تین گھنٹے تھے جس کے بعد رات کا اندھیرا چھا جا نا تھا ۔ گزرنا بھی ہمیں بڑے بڑے پہاڑی ٹکروں پر سے تھا ۔ بکروال جس ڈھوک میں تھے وہ بھی جھیل سے کم وبیش چار کلو میٹر کے فاصلہ پر تھے اور دوسری طرف جس ڈھوک میں ہماری سبز علی سے ملاقات ہوئی تھی اور جس سے آگے مقامی افراد کی تمام ڈھوکیں ابھی غیر آباد تھیں ۔ یہ جگہ گجر ناڑ وادی کے ابتدائی حصہ میں تھی ۔ مقابلہ سخت تھا اور وقت کم تھا ۔ وآپسی پر اللہ تعالی نے خصوصی فضل کیا ایسا لگا زمین سمٹنا شروع ہو گئی ہے ۔ ہمارے بھائی زعفران اعوان صاحب جو آتے ہوئے کافی سست رفتا ر تھے یکدم ان کی جسم میں جیسے بجلی سرائیت کر گئی ۔ وہ آگے ہوئے اور فلائینگ مارچ شروع کر دیا ان کے قدموں پر ہم بھی تیز رفتار چلنا شروع ہو گئے اور عین اندھیرے نے جب ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے ۔ زعفران بھائی نے بعد میں بتایا کہ میری تیز رفتاری کی وجہ جو آپ کے بھی کام آئی اصل میں وہ خوف تھا کہ آپ جاتے ہوئے مشورہ کر رہے تھے کہ ہم رات بیس کیمپ پر جو غیرآباد ڈھوک ہے اس میں ہی ٹہر جائیں گے ۔ سبز علی صاحب نے پر خلوص استقبال کیا ۔ رات ’’کلاڑی ‘‘ سے ضیافت کی ۔ دیسی گھی میں بنی انتہائی لذیذ تھی لیکن تھکاوٹ کی وجہ سے ہم اتنی نہ کھا سکے جتنی ہ میں کھانی چاہیے تھی ۔ رات سبز علی صاحب کی ڈھوک ون میں گزاری اور دوسرے دن واپس مظفرآبا د کا رخت سفر باندھا ۔