-3 -بریگیڈیئرصولت رضا کی انکشاف انگیز یادداشتیں
گفتگو/ترتیب و اہتمام:عبدالستار اعوان
بریگیڈیئر (ر) صولت رضا 6 اکتوبر 1952ء کو سید رفاقت حسین کے ہاں پشاور میں پیدا ہوئے۔ جو ایک سرکاری ملازم کے طور پر وہاں متعین تھے۔ ابتدائی تعلیم ڈی پی نیشنل سکول ٹیونیشیا لائنزکراچی سے حاصل کی۔ماڈل ہائی سکول ماڈل ٹائون لاہورسے میٹرک،اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے انٹرمیڈیٹ، اسلامیہ کالج سول لائنز سے بی اے اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کیا۔1971ء میں پاک آرمی جوائن کی اور پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے تربیت حاصل کی۔ پاسنگ آئوٹ کے بعد توپ خانہ کی ایک یونٹ ’’23 فیلڈ رجمنٹ آرٹلری‘‘میں تعینات کیے گئے۔اکتوبر 1973ء میں ان کی خدمات مستقل طور پر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’’انٹر سروسز پبلک ریلیشنز‘‘ کے حوالے کر دی گئیں۔ جولائی 2003ء میں آئی ایس پی آر سے بطور بریگیڈیئر ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔
صولت رضانے اپنی کتاب ’’کاکولیات‘‘ سے بہت شہرت پائی۔کتاب کا پہلا ایڈیشن 1975ء میں شائع ہوا اور اس کا 27واں ایڈیشن 2012ء میں شائع ہوا۔یہ معلوم ایڈیشنز کی تعداد ہے جو مصنف کے پبلشر نے شائع کیے۔ کہاجاتاہے کہ اس کتاب کے ’’نامعلوم ایڈیشنز‘‘کی تعداد بہت زیاد ہ ہے۔یہ پاکستان ملٹری اکیڈمی میں زیر تربیت ایک کیڈٹ کی دلچسپ آپ بیتی ہے۔ پیش لفظ میں ممتاز ادیب بریگیڈیئر صدیق سالک نے لکھا: ’’کیپٹن صولت رضا سنگلاخ فوجی زمین سے پھوٹنے والا ایک تازہ چشمہ ہے۔ اسی زمین سے پھوٹنے والے کئی چشمے مثلا ً کرنل فیض احمد فیض،میجر چراغ حسن حسرت ، میجر جنرل شفیق الرحمن، کرنل محمد خان اور میجر ضمیر جعفری پہلے ہی دریااور پھر سمندر بن چکے ہیں۔ صولت رضا میں بھی چشمہ سے سمندر بننے کی صلاحیت موجود ہے‘‘۔
آرٹلری سکول نوشہرہ میں باقی وقت آرام اور اطمینان سے گزرا ۔ کورس مکمل ہوا تو ہم تینوں سیکنڈ لیفٹیننٹ واپس سیالکوٹ چھائونی پہنچے جہاں سے ’’اگلے مورچوں ‘‘پر پہنچایا گیا ۔ابھی جنگ دسمبر1971ء کے بعد سیز فائر کا مرحلہ جاری تھا ۔ سورج غروب ہو چکا تھا ۔ زیر زمین مورچے روشن تھے تاہم توپوں کے مورچے کیموفلاج کئے گئے ۔رات کے اندھیرے میں دور یا نزدیک سے ہری بھری جھاڑی کا گمان گزرتا تھا ۔ ہم تینوں باوردی حالت میں سیکنڈ لیفٹیننٹ زیر زمین آفیسرز میس میں داخل ہوئے تو ڈنر کا وقت قریب تھا ۔ یونٹ کے کمانڈنگ افسر لیفٹیننٹ کرنل غلام مرتضیٰ دیگر افسروں کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھے ۔ انہوں نے ہم تینوں کو خوش آمدید کہا اور مجھے مخاطب کرتے ہوئے نرم الفاظ میں شدید اظہار برہمی کیا ۔ یونٹ کو آرٹلری سکول نوشہرہ سے میرے کارنامے کی اطلاع مل چکی تھی ۔فرمانے لگے ’’تمہاری حرکت ایک دھبہ ہے ۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ’’ گنر آ ف واہگہ ،جیسی یونٹ کا سیکنڈ لیفٹیننٹ کسی اور جگہ جانے کا سوچے گا ‘ ‘۔ان کے الفاظ گرم سیسے کی مانند میرے کان میں گر رہے تھے ۔ کمانڈنگ افسر کا یہ موڈ دیکھ کر باعزت خاموشی ہی بہترتھی۔ اچانک سی او کھڑے ہوگئے اور انہوںنے کہا کہ آپ کھانا کھائیے میں اپنے مورچے میں جار ہا ہوں۔ یہ واضح اظہار ناراضگی تھا۔ ان کے جانے کے بعد یونٹ کے دیگر افسروں نے بھی حصہ بقدر جثہ ’’تواضع‘‘کی۔ میرے ساتھ اخبارات اور میڈیا کی شان میں بھی’’سپاس نامے‘‘پیش کئے جارہے تھے ۔ اپنی رجمنٹ ، یونٹ اور آرم (عسکری شعبے جیسے آرٹلری،انفینٹری ، آمرڈ وغیرہ)پر فخر کرنا ہر فوجی کی شان اور فرائض منصبی کا جزو شمارہوتا ہے ۔ یہ کیفیت اسے میدان جنگ اور زمانہ امن میں بے تکاں مصروف عمل رکھتی ہے ۔
چند روز تک میرے ساتھ ’’حسن سلوک‘‘جاری رہا ۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ منفی جذبات سرد پڑ گئے ۔ یونٹ کے کچھ حصے چھائونی منتقل ہونا شروع ہوگئے ۔ میں ایک روز اگلے مورچے سے چھائونی کی جانب آرہا تھا ۔ بارش کے باعث کھیت کھلیان پانی سے بھرے ہوئے تھے ۔ کچے راستے اور پگڈنڈیاں کیچڑ سے اٹ گئے تھے ۔ جیپ ڈرائیونگ دشوار سے دشوار ترہو رہی تھی ۔ میں نے ڈرائیور سے کہا کہ اگر وہ سمجھتا ہے کہ یہ ڈرائیونگ مشکل ہے تو ٹھہر جاتے ہیں۔بارش رکنے کا انتظار کرتے ہیں۔اس کا کہنا تھا کہ ’’سر !آپ نئے آئے ہیں ۔ یہ پنجاب کی بارش ہے ۔ جھڑی لگ گئی ہے ۔ آہستہ آہستہ چلتے ہیں‘‘۔حد نظر تک دیہات کے رہنے والے بھی کام کاج میں مصروف دکھائی دیئے ۔ اس دوران میں نے پگڈنڈی پر ایک بچہ دیکھا ۔ عمر پانچ چھ برس ہوگی۔ وہ ہماری جانب سرپٹ بھاگتا ہوا آرہا تھا ۔میں نے ہاتھ کے اشارے سے ڈرائیور کو بھاگتے ہوئے بچے کی نشاندہی کی ، بچہ پگڈنڈی کے کنارے بمشکل رُکا اور فوجی انداز میں ہمیں سلیوٹ کیا ۔ میں نے بھی سکھلاتے ہوئے طریقے سے ناقابل فراموش سلیوٹ کا جواب دیا ۔ جی چاہا کہ جیپ روک کر بچے سے ہاتھ ملائوں ۔ بات چیت کروں لیکن جیپ آگے نکل گئی تھی ۔ بچہ پگڈنڈی کے کنارے کھڑا ہاتھ ماتھے پر اٹکائے شاید جیپ نظروں سے اوجھل ہونے کا انتظار کررہا تھا۔ یہ سلیوٹ میری نگاہوں میں جم گیا ۔ چھائونی پہنچا ، کام کی مصروفیت کے باوجود بچے کا بلند ہوتا ہو ا ہاتھ اور کیچڑ میں پگڈنڈی پر دوڑ لگا کر آرمی جیپ کے قریب آنا مجھے محسوس ہوا کہ سولہ دسمبر71ء کی ہزیمت عارضی ہے ۔ قوموں کی زندگی میں اتار چڑھائوآتے ہیں۔خیال آیا کہ جنگ اُحد کا نتیجہ جنگ بدر سے مختلف تھا لیکن اس کے باوجود ’’خندق ‘‘کی تیاری ہوئی اور مسلمانوں نے حتمی فتح کے لئے تمام دشواریوں پر قابو پالیا۔ہمیں بھی اپنے حوصلے بلند رکھتے ہوئے جامع حکمت عملی کے ساتھ منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔پاکستا ن بھارت کے درمیان شملہ معاہدے کے بعد افواج کی مرحلہ وار واپسی شروع ہو گئی تھی ، میری یونٹ بھی سیالکوٹ چھائونی واپس آگئی ۔ یوں ’’زمانہ امن‘‘کی مصروفیات میں اضافہ ہو گیا۔صبح صبح پی ٹی کے لئے تیاری ، وقفے کے بعد پیریڈ ، دفتر ی امور کی انجام دہی ، لنچ اور ڈریس تبدیل کر کے سپورٹس گرائونڈ میں خود کو سینئرز اور جونیئرز کے سامنے سے سب سے زیادہ چاق و چوبند ظاہر کرنا۔ مغرب کے بعد میس لائف جہاں ڈسپلن پہلے اور ڈنر بعد میں میسر تھا۔ یہ ایک نوجوان کنوارے افسر کے شب و روز تھے ۔ اس زمانے(1972-1973)میں موبائل فون نہیں تھے ۔ کسی ایک افسر کے پاس موٹر سائیکل ہوتی تھی ۔ ذاتی موٹر کار شاید صرف کمانڈنگ افسر کی تھی۔سیالکوٹ
چھائونی واپس آئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ لیفٹیننٹ کرنل غلام مرتضیٰ ’’پوسٹ آئوٹ ‘‘ہوگئے اور ان کی جگہ لیفٹیننٹ کرنل محمد حسین کو تعینات کردیا گیا۔ کمانڈنگ افسر کی تبدیلی کے باعث یونٹ میں تازہ دم کیفیت عود کرآئی۔ہر کوئی کمانڈنگ افسر کے احکامات کا منتظر تھا۔ انہوں نے یونٹ کے افسروں سے دفتر میں انفرادی ملاقاتیں شروع کیں ، جب میری باری آئی تو میں خاصا پریشان تھا۔ پوسٹ آئوٹ ہونے والے کمانڈ نگ افسر نے خاصی ’’گوشمالی‘‘کر دی تھی ۔ بس یونٹ سے ٹھڈے مار کر نکالنے کی کسر باقی رہ گئی تھی۔سی ا و (کمانڈنگ افسر)کے آفس کے باہر کھڑے چاق و چوبندجوان نے پکارنے کے انداز میں کہا’’سر!سی ۔ا و یاد کر رہے ہیں‘‘۔ یہ سنتے ہی میں نے امید اور غیریقینی کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ خود کو سی ۔او آفس میں ’’دھکیل‘‘دیا۔میں نے سلیوٹ کیا ہی تھا کہ لیفٹیننٹ کرنل محمد حسین نے بلند آہنگ کے ساتھ وعلیکم السلام کہا اور اپنی نشست سے کھڑے ہو کر مجھ سے ہاتھ ملایا ۔ یہ سب میرے لیے غیر متوقع تھا ۔ انہوںنے جب ’’پلیز سٹ ڈائون‘‘کہا تو مجھے یقین نہیں آیا کیونکہ کمیشنڈ افسر بننے کے بعد سی ۔او آفس میں پہلی مرتبہ یہ آواز سنی تھی ۔ میں بیٹھا ہی تھا کہ انہوںنے انگریزی میں پوچھا کہ ’’گرین ٹی ، ملک ٹی یاکافی؟‘‘میں سمجھا کہ اب میراجوا ب سن کر زور قسم کا ’’گیٹ آئوٹ ‘‘بلند ہوگا۔خیر ! گرین ٹی پر اتفاق ہو گیا۔ انہوں نے نہایت اطمینان کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے تمہارے بارے میں سب معلوم ہے ۔ میں سمجھتاہوں کہ تم نے دیانتداری سے بات کی ہے ۔ آئی ایس پی آر ہی تمہارے لیے مناسب رہے گا اور تم زیادہ بہتر انداز میں خدمات انجام دے سکتے ہو لیکن جب تک یونٹ میں موجود ہو اپنے فرائض پوری توجہ اور اخلاص کے ساتھ انجام دینے ہیں ۔ سینئرز سے سیکھنے کی کوشش کرو۔ جونیئرز کے ساتھ ایک معلم کی مانند برتائو کرو۔ اس کے علاوہ یونٹ لائبریری کی دیکھ بھال بھی کرو گے ۔ تازہ بھرتی ہونے والے جوانوں کی تعلیمی استعداد کا جائزہ ضروری ہے ۔ کچھ کے مسائل شاید تمہاری طرح ہوں‘‘۔
یہ جملہ بہت معنی خیز تھا ۔ یوں لیفٹیننٹ کرنل محمد حسین سے پہلی ملاقات نے خوف، بے یقینی اور پیشہ وارانہ تنہائی کا ازالہ کر دیا۔ اب میں یونٹ کا فعال رکن تھا ۔ مجھے توقع تھی کہ ایک روز آئی ایس پی آر سے طلبی کا پروانہ ضرور آئے گا اور بنجارہ اپنی کتابیں اور اخبارات لاد کرراولپنڈی روانہ ہو جائے گا۔کمانڈنگ افسر کی حوصلہ افزائی رنگ لائی۔ میں نے سرحدی گائوں کے بچے کا یادگاری سلیوٹ یاد کیا اور اسے ایک مضمون میں ڈھال کر پاک فوج کے ترجمان جریدے ’’ہلال‘‘کو روانہ کر دیا۔تب یہ ہفت روزہ تھا اور یونٹ میں بآسانی دستیاب ہوتاتھا ۔ صفحات تیس بتیس ہوتے تھے ۔ بلیک اینڈ وائٹ اشاعت تھی ۔ زیادہ تر عسکری نوعیت کی سرگرمیوں کے بارے میں خبریں ، تصاویر اور مضامین نمایاں ہوتے تھے ۔ میرا مضمون’’سلیوٹ‘‘کے عنوان سے شائع ہو ا۔ سیکنڈ لیفٹیننٹ کے رینک کے ساتھ یہ میرا پہلا اور آخری مضمون ہے جو ہلال میں شائع ہوا ۔ لیفٹیننٹ کرنل محمد حسین نے پڑھا اور بہت پسند کیا ۔ انہوں نے پچاس روپے انعام کے ساتھ یونٹ کے اجتماع میں پڑھنے کا حکم بھی صادر کیا۔ بعد ازاں ہلال سے بھی تیس رو پے اعزازیہ موصول ہوا ۔یونٹ اجتماع میں تمام افسر، جونیئر کمیشنڈ افسر اورجوانوں کی موجودگی میں مجھے اپنا مضمون پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا ۔ کمانڈنگ افسر نے اپنی تقریر میں خوب تعریف کی ۔ میں اللہ کریم کا شکرادا کر رہا تھا ۔ چند ہفتے مایوسی اور نا امیدی کے بادل چھائے ہوئے تھے ۔ یونٹ میں ’’گناہ کبیرہ ‘‘کے مرتکب کی مانند شب وروز گزر رہے تھے ۔ اچانک کمان تبدیل ہوئی اور ایک شخصیت کی بدولت پسند کی شاہراہ پر گامزن ہو گیا۔ یونٹ میں میرے دونوں کمانڈنگ افسر لیفٹیننٹ کرنل غلام مرتضیٰ اور لیفٹیننٹ کرنل محمد حسین آج دنیا میں موجود نہیں ہیں ۔ اللہ کریم ان کے درجات بلند فرمائیں ۔ آمین۔
کمانڈنگ افسر لیفٹیننٹ کرنل غلام مرتضیٰ ’’فل کرنل‘‘کے عہدے تک پہنچے ۔ دوتین مرتبہ ان سے روالپنڈی میں ملاقات ہوئی ۔ سراپا گنر آفیسر(Gunner Officer)تھے ۔ پیشہ وارانہ لحاظ سے دیانتدار اور ہر معاملے میں مکمل پروفیکشن چاہتے تھے ۔ بے پناہ خوبیاں تھیں جن سے ان کے سینئرز اور جونیئرز مستفید ہوتے رہے ۔ ریٹائرڈ منٹ کے بعد فیصل آباد میں مقیم تھے ۔ ایک روز گھر سے باہر چہل قدمی کر رہے تھے کہ موٹر سائیکل سوار دو افراد نے چھینا جھپٹی کی کوشش کی۔ ان سے گتھم گتھا ہو گئے ، ایک رہزن نے فائر کیا اور موقع پر ہی واصل بحق ہو گئے ۔ اللہ کریم غریق رحمت فرمائیں ۔ آمین ۔
دوسرے کمانڈنگ افسر لیفٹیننٹ کرنل محمد حسین ریٹائرمنٹ کے بعدآرمی ویلفیئر ٹرسٹ کے ایک پروجیکٹ کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔ڈیوٹی پنو عاقل چھائونی کے گردو نواح میں تھی ۔ انہوں نے پیشہ وارانہ مہارت اور حکمت عملی سے اپنے فرائض انجام دیے۔لیفٹیننٹ کرنل محمد حسین سے براہ راست یا بالواسطہ رابطہ رہا ۔
کراچی سے نوے کی دہائی کے وسط میں واپس آئی ایس پی آرراولپنڈی تعینات ہوا تو کبھی کبھار ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوجاتا تھا۔ عارضہ قلب کے باعث آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی(آرایف آئی سی)راولپنڈی میں زیر علاج رہے ۔ جب کبھی ڈاکٹر سے چیک اپ کے لئے تشریف لاتے تو آئی ایس پی آر بھی آتے تھے۔دفتر کے ساتھیوں کو علم تھا کہ کرنل حسین میرے کمانڈنگ افسر رہ چکے ہیں۔ ان کی آمد کے ساتھ ہی میرے آفس میں ’’ہٹو بچو‘‘کا ماحول ہو جاتا تھا ۔ میں انہیںروز اول کا پروٹوکول دیتا تھا اور محض سیکنڈ لیفٹیننٹ بن کر آداب بجا لاتا تھا ۔ ایک روز آفیسر واش رومز کی جانب گئے ۔ میں ڈی جی آئی ایس پی آر کے آفس میں تھا کہ میرا پی اے بھاگتا ہوا اور ہانپتے ہوئے کہنا لگا کہ ’’سر!آپ کے سی ۔ او صاحب واش رومز میں موجودہیں اور غصے کی حالت میں کہہ رہے ہیں کہ اپنے بریگیڈیئر کو ابھی بلائو ۔ ادھر بلائو‘‘میں سمجھا کہ خدانخواستہ پھسل نہ گئے ہوں۔ لہذا ڈی جی سے اجازت لے کر فورا ًواش رومز کی جانب بھاگا۔ قریب تو منظر ہی کچھ اور تھا ۔ کرنل محمدحسین غصے کے عالم میں تھے ، میں جونہی سیکنڈ لیفٹیننٹ کے انداز میں پیش ہوا توا نہوں نے برسنا شروع کردیا۔ دفتر کے دیگر باوردی اور سول اہلکار بھی سن رہے تھے ۔ الفاظ ایسے تھے کہ کبھی پہلے کمانڈنگ افسر نے نہیں بولے ہوں گے ۔ کہنے لگے: ’’یہ واش رومز کی کیا حالت ہے ۔ تم سارا دن کرسی پر بیٹھے رہتے ہو ۔ کبھی چکر بھی لگا لیا کرو۔ اپنی شکل کبھی وا ش رومز کے شیشے میں بھی دیکھ لیا کرو کہ صحیح دکھائی دے رہی ہے یا نہیں ‘‘۔ میں سر کہہ کر کچھ کہنے کی کوشش کی تو انہوں نے بلند آواز میں خاموش کرادیا ۔ میں سمجھ گیا کہ آج خاموشی سے سن لیاجائے ۔ بزرگ ہیں اور ہر معاملے کو اپنے زمانے کے معیار پر جانچ رہے ہیں ۔ مزید میرا دفتر خالص فوجی بھی نہیں تھا ، یہاں ڈسپلن بھی ’’ملی جلی ‘‘کیفیت میں ہی نافذ رہتا ہے ۔ بہر حال بہت مشکل سے غصہ ٹھنڈا ہوا ۔ مجھے ان کی صحت کی فکر تھی ۔ عارضہ قلب کے مریض کو زیادہ غصہ اور ٹینشن نقصان دہ ہوتی ہے ۔ وا ش رومز سے میرے دفتر تک آتے آتے انہوںنے عسکری دفاتر میں صفائی کی اہمیت پر مختصر مگر جامع نکات بیان کئے۔ بہر حال اس روز موڈ بہت آف تھا ۔ بمشکل سبز چائے کے چند گھونٹ انڈیلے اور واپس واہ چھائونی روانہ ہوگئے جہاں ریٹائرمنٹ کے بعد قیام پذیرتھے ۔
یہ سارا واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ فوج میں سینئرجونیئرکا ربط باہمی صرف ملازمت کے دورانیہ تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ یہ تاحیات ایک بلاعنوان رشتے داری ہے جس سے خون اور پسینے کی مہک آتی ہے ۔
آئیے دوبارہ سیالکوٹ چھائونی چلتے ہیں ۔ یونٹ میں معمول کے شب وروز گزر رہے تھے ۔ ایک دن پی ٹی کا پیریڈ جاری تھا کہ اچانک ایڈجوٹنٹ (کیپٹن)گرائونڈ میں آئے اورمجھے طلب کر کے ’’ناقص کارکردگی‘‘پر ڈانٹ ڈپٹ شروع کر دی۔ میں حیران و پریشان تھا کہ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے اور بھی افسر اٹھک بیٹھک میں مصروف ہیں ۔ فزیکل ٹریننگ جاری ہے ۔ یہ مجھے کیوں بآواز بلند پی ایم اے گرائونڈ کے’’ نقرئی الفاظ ‘‘سے نوازا جارہا ہے ۔ یہ سلسلہ لنچ بریک اور سپورٹس پیریڈ تک جاری رہا ۔ اللہ بھلا کر ے کمانڈنگ افسر لیفٹیننٹ کرنل محمدحسین کا کہ انہوں نے سپورٹس پیریڈ کے اختتام پر جب لیموں پانی کا دور چل رہا تھا مجھے مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ تمہارا آئی ایس پی آر کے ساتھ عارضی ڈیوٹی کا حکمنامہ موصول ہوگیا ہے ۔ اسی ہفتے راولپنڈی رپورٹ کرنی ہے ۔ یہ خوشخبری سن کر اوسان بحال ہوئے جو صبح سے ڈانٹ ڈپٹ کے باعث بار بار خطا ہو رہے تھے ۔ معلوم ہوا کہ حکمنامہ سگنل کی صورت میں صبح موصول ہو گیا تھا۔ ایڈجوٹنٹ عسکری روایات کے مطابق یونٹ سے رخصتی کا’’پہلا بلاوا‘‘پر عمل پیرا تھے ۔ آئی ایس پی آر روانگی کی خوشی اپنی جگہ لیکن 23فیلڈ رجمنٹ سے پیشہ وارانہ علیحدگی کا دکھ اور افسوس بیان سے باہر تھا۔ سیکنڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے یونٹ میں شمولیت اختیار کی ۔ ا ب لیفٹیننٹ تھا ۔ ایک برس سے زائد کاعرصہ گزرا ۔ محاذ پر رہے ۔ ٹریننگ کے لئے شب و روز بھاگ دوڑ کی ۔ عملی مظاہرے ’’ٹلہ رینج‘‘میں ہوئے ۔ سینئر افسروں ، جونیئر کمیشنڈ افسروں او ر جوانوں سے 1965ء اور1971ء کی جنگوں کے واقعات سنے ۔ دل میں خواہش ابھرتی کہ کاش ہمیں بھی ایسے مواقع میسر آئیں کہ پاک سرحدوں کی جانب بڑھتے ہوئے دشمن کے سرپر توپوں سے آگ برسائیں اور اس کے ناپاک عزائم ملیامیٹ کر دیں۔ آئی ایس پی آر میں عارضی تعیناتی کا حکمنامہ موصول ہونے کے بعد چند روز یونٹ میں اس انداز میں گزرے کہ ہر لمحہ ’’الوداعی‘‘تھا۔ یونٹ میں ’’بڑا کھانا‘‘ہوا ۔ مصافحہ اور معانقہ کا دور چلا ۔ گرم جوشی کے یہ لمحات زندگی بھر کا عظیم سرمایہ بن گئے۔ ایک روز سیالکوٹ سے راولپنڈی کی بس میں سوار ہوا۔ ایک ٹرنک رنگ سیاہ اور بستر بند ہمراہ تھے ۔ لیاقت باغ راولپنڈی کے بس اڈے پر پہنچے تو دن ڈھل چکا تھا ۔ ٹرنک پر بستر بند رکھے ہلال روڈ جانے کے لئے کسی سواری کے انتظار میں تھا۔ ایک ٹانگے والا قریب کی سواری سمجھ کر آمادہ ہوگیا۔ صدر بازار سے ہوتے ہوئے ہلال روڈ پہنچے ۔ آئی ایس پی آر کا گیٹ کھلاہوا تھا۔ ابھی مغرب میں کچھ وقت تھا کہ میں دفتر کی حدود میں داخل ہوگیا ۔ صرف دوکمروں سے روشنی آرہی تھی ۔ ایک کمرے میں داخل ہو کر اپنا تعارف کروایاتو جواب آیا بیٹھ جائیں ابھی شبیر صاحب آتے ہیں ۔ دس منٹ کے بعد ایک صاحب کمرے میں داخل ہوئے ۔ انہوں نے آتے ہی پنجابی میں چلانا شروع کر دیا ۔ یہ ٹانگے پر کون آیا ہے؟باہر گھوڑے نے پیشاب کر دیا ہے اور کوچوان بھی غائب ہے ۔ یہ کیا تماشہ ہے (اردو ترجمہ میرا ہے)۔میں نے تعارف کروایا کہ’’ لیفٹیننٹ صولت رضا ،فرام 23فیلڈ رجمنٹ ،رپورٹنگ فار ڈیوٹی اِن آئی ایس پی آر‘‘۔’’کون لیفٹین ، میں نہیں جانتا ۔ ادھر کوئی جگہ نہیں ، کس نے بھیجا ہے ۔ یہ پیشاب کون صاف کرائے گا۔ ابھی ڈائریکٹر صاحب (بریگیڈیئر)آگئے تو کون جوا ب دے گا ‘‘۔ یہ ڈانٹ ڈپٹ سن کر حواس باختہ ہونے کے قریب تھا کہ قریب بیٹھے ہوئے چپراسی نے مجھے کہا کہ’’ آپ کے پاس کوئی کاغذ ہے تو شبیر صاحب کودکھائو‘‘۔اب پتہ چلا کہ یہ شبیر صاحب ڈیوٹی کلرک ہیں اور شام کو دفتر میں ’’آل اِن آل ‘‘ہوتے ہیں ۔ یونٹ سے روانگی کا پروانہ ’’آل اِن آل ‘‘کے سامنے رکھا لیکن مزاج یار پر گھوڑے کی فطری لغزش سوار تھی ۔ چند لمحات شش و پنج میں گزرے ۔ لمبا سانس لیا تو’’ رگ ِ لیفٹینی‘‘ نے پھڑکنا شروع کر دیا ۔’’میری کسی افسر سے بات کروائیں‘‘میں نے کہا۔یہ جملہ تو گھوڑے کی ناگوار حرکت سے بھی زیادہ آتشیں ثابت ہوا۔ شبیر صاحب کا موڈ مزید آف ہوگیا۔ بہر حال ایک قریبی آفس میں ٹیلی فون دکھائی دیا۔ میں نے وہاں سے میجر سید عقیل احمد کو کال ملائی۔ انہوں نے میرا نام سنتے ہی کہا کہ ہاں میاں کب پہنچے؟کیسے پہنچے؟کہاں ہو؟۔ سر! میں آئی ایس پی آر دفترمیں موجود ہوں ۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں ۔ ایک صاحب کہہ رہے ہیں کہ’’ آئی ایس پی آر میں لیفٹین کا کوئی کام نہیں واپس یونٹ چلے جائو‘‘۔ جواب میں قہقہہ بلند ہوا ، کہنے لگے’’ گھبرائو نہیں ۔میں پانچ منٹ میں پہنچ رہاہوں‘‘۔میجر سید عقیل احمد رحمت کا فرشتہ ثابت ہوئے ۔ سکوٹر پر سوار مسکراتے ہوئے جونہی دفتر یں پہنچے میں نے کرایہ دے کر کوچوان کو رخصت کیا ۔ میجر عقیل ابھی کرسی پر بیٹھے ہی تھے کہ شبیر صاحب نے گھوڑے کی ناگوار حرکت کے بارے میں آہ و بکا شروع کر دی۔ میجر عقیل مسلسل مسکراتے رہے اور کہا کہ ’’غم نہ کرو ، جو ہونا تھا ہوگیا، صبح تک سب خشک ہو جائے گا۔ جانور کا کیا ہے۔ پریڈ میں ڈائس کے سامنے تمام تر کوشش کے باوجود گھوڑے لید کر دیتے ہیں ۔اب کیا کریں‘‘۔انہوں نے یہ کہہ کر شبیر صاحب کو رخصت کیا اور میر ی جانب متوجہ ہوگئے ۔ آرڈی ننس لال کرتی میں رہائش کا انتظام کروایا۔ میس پہنچاتو ایک تنگ و تاریک چھوٹا سا کمرہ منتظرتھا۔ چندروز میں یونٹ سے ’’مددگار‘‘بھی باقی ساز وسامان کے ساتھ پہنچ گیاتو رہن سہن بہتر ہو گیا۔ بیس روپے مہینے پر سائیکل کرایہ پر مل گئی ۔ یوں آرڈی ننس میس لال کڑتی سے ہلال روڈ تک باوردی حالت میں سائیکلنگ کالطف اٹھانے لگا۔یہ اکتوبر1973ء کاذکر ہے۔ سائیکل رواں رکھتے ہوئے سینئر ز کو سلیوٹ کرنا اور جونیئر ز کو سلیوٹ کا جواب دینا ایک علیحدہ مشقت تھی ۔ اسے رواں سائیکل پر انجام دینا پریکٹس کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ خیر !اس فرض کی خاصی پریکٹس سیالکوٹ چھائونی میں کر چکے تھے ،لہذا راولپنڈی میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئی۔آئی ایس پی آر میں لیفٹیننٹ کی حیثیت سے ’’دوڑے چل‘‘کی کیفیت طار ی رہی۔اور ہاں سب سے دلچسپ آئی ایس پی آر کے سربراہ بریگیڈیئر فضل الرحمن سے پہلا انٹرویو تھا۔ ان کا تعلق آرمرڈ کورسے تھا۔ انہیں بریگیڈیئر عبد الرحمن صدیقی (اے آر صدیقی)کی جگہ تعینات کیا گیا تھا۔ یہ تبدیلی جنرل ٹکا خا ن نے چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ سنبھالتے ہی کی تھی۔ بریگیڈیئر اے آر صدیقی نے آئی ایس پی آر میں کیپٹن کی حیثیت سے کمیشن حاصل کیا تھا ۔ اس سے قبل اہم اخبارات سے بھی منسلک رہے تھے ۔ انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد متعدد کتابیں بھی تحریر کیں۔ آئی ایس پی آر میں میری آمد سے قبل بریگیڈیئر فضل الرحمن تعینات ہو چکے تھے ۔ مجھے عسکری ضوابط کے مطابق ان کے سامنے پیش کیا گیا ۔ آفس ٹیبل پر میری فائل تھی۔ میں پی ایم اے کاکول کے انداز میں زمین پر پائوں مار کر سیلوٹ پیش کیا جس سے موصوف متاثر ہوئے اور فرمانے لگے کہ ’’تم تو پکے سولجرہو۔ پی ایم اے میں ٹریننگ لی ہے ۔ آرٹلری سکول نوشہرہ سے ینگ آفیسر ز کورس بھی کر لیا ہے ۔ یہ آئی یس پی آر میں کیا لینے آئے ہو۔ فوراًیہاں سے ’’دفع‘‘ہو جائو ، یونٹ واپس چلے جائو۔ یہ بوسیدہ لکڑیوں کا ڈھیر ہے جو کسی کام کا نہیں (سب کچھ بزبان انگریزی اور وہ بھی میدان جنگ کے بادشاہ کے انداز میں)واضح رہے کہ عسکری روایات کے مطابق گھڑ سوار (ٹینک دستہ)بادشاہ اورپیدل دستہ(انفنٹری)ملکہ تصور کئے جاتے ہیں۔ دونوں کا ملاپ میدان میں کامیابی کی کنجی ہے ۔ یو آر مرڈ کور سے تعلق رکھنے والے افسر اور جوان اکثر بادشاہ کا اندازاور مزاج اپنائے رہتے
ہیں ۔ بریگیڈیئر فضل الرحمن مسلسل عسکری فصاحت و بلاغت کے دریا بہا رہے تھے ۔ مجھے محسوس ہوا کہ آفس سے باہر نکلتے ہی مجھے یونٹ واپسی کا حکم نامہ ملک جائے گا۔ موصوف سانس لینے کے لئے رکے تو میں نے کہا کہ سر !میں نے ایم اے صحافت کیا ہوا ہے ، اس لیے آئی یس پی آرکی جانب رخ کیا ہے۔ اس پر انہیں مزید طیش آگیا ، انہوں نے ایک اور لاجواب قسم کی ڈانٹ پلائی اور کہا کہ ایم اے جرنلزم کے بعد فوج میں منہ اٹھائے کیوں آئے ہو ، تمہاری پی ایم اے کا کول اور آرٹلری سکول نوشہرہ میں ٹریننگ پر جو خرچ ہوا ہے وہ تم سے وصول کیاجائے گا ۔ چلو اپنی شکل گم کرو اور مجھے دوبارہ نظر مت آنا (بزبان انگریزی)۔
کاپنتے ہونٹوں اور لڑ کھڑاتی ٹانگوں کے ساتھ باہر نکلا اور سیدھا آئی ایس پی آر کے روایتی افسر سکارڈن لیڈر (بعد میں ونگ کمانڈر)ایم ایم افضل کے آفس میں داخل ہوگیا۔ اب میراپیمانہ صبر بھی لبریز ہوچکا تھا ۔ میں نے بریگیڈیئر فضل الرحمن کے احکامات سے آگاہ کیا ۔ انہوں نے سن کر زور دار قہقہہ لگایااورکہنے لگے :’’اوئے آرام سے بیٹھ ۔بابا ہر ایک سے یہی بات کرتا ہے‘‘۔کل سے کیپ دفتر میں رکھ ، ڈھیلے ڈھالے انداز میں سلام دعا کیا کرو ۔ یہ پائوں اٹھا کر سیلوٹ کرنا بند کرو۔ یہ پبلک ریلیشنز کا آفس ہے کوئی پریڈ نہیں ہو رہی ہے۔اخبار پڑھو، کتاب لائبریری سے ایشو کروائو، مضمون لکھو۔ پرانے پریس ریلیز پڑھو۔ تصویروں کی البم دیکھا کرو۔ خود کو آئی ایس پی آر والا سمجھو۔اب پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا‘‘۔
ونگ کمانڈر افضل کی باتوں سے حوصلہ ہوا۔ میجر سید عقیل احمد بھی معمولی کارکردگی پر اعلیٰ درجے کی تھپکی دیا کرتے تھے ۔ ابھی میری تعیناتی عارضی تھی لہذا ہر لمحہ یہی دھڑکا لگا رہتا تھا کہ آج کوئی غلطی ہوئی یا ڈائریکٹر نے دیکھ لیا تو واپسی کا پروانہ مل جائے گا ۔ اسی شش وپنج میں مبتلا تھا کہ اک روز 1971ء کے جنگی قیدیوں کی واہگہ راستے واپسی کا شور بلند ہوا ۔ آئی یس پی آرلاہور کے آفس کو مزید مضبوط کرنا تھا ۔ مجھے روالپنڈی سے ’’شکل گم کرو‘‘حکم مل گیا اور آخری جنگی قیدی کی واپسی تک لاہور آفس سے منسلک کرد یا گیا۔ لاہور میں آئی یس پی آرکادفتر مین روڈ گلبرگ میںا یک پرائیویٹ بنگلے میں تھا ۔ صبح واہگہ سرحد پر جنگی قیدیوں کی کوریج اہم ڈیوٹی تھی ۔ لاہور آفس کے نگران کیپٹن محمدارشد بعض سرکاری معاملات کے باعث آفس نہیں آرہے تھے ، لہذا دن رات سرکاری’’مشق سخن‘‘جاری تھی ۔ ماڈل ٹائون لاہور میں والدین مقیم تھے لیکن میرا زیادہ وقت آئی یس پی آرآفس میںہی بسر ہوتا تھا۔واہگہ سرحد پر جنگی قیدیوں کے آخری گروپ کی واپسی کے موقع پر خصوصی تقریب ہوئی۔ اس گروپ میں سینئر فوجی اور سول افسر شامل تھے ۔ سب سے آخر میں (سابق)ایسٹرن کمان کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل امیر عبد اللہ خان نیازی نے سرحد پار کی اور استقبالیہ قطار سے ہاتھ ملاتے ہوئے روانہ ہو گئے ۔
میں نے صدیق سالک کو سب سے پہلے واہگہ کی سرحد پر ایک جنگی قیدی کے روپ میں دیکھا تھا۔ انہوں نے چند لمحے پہلے سرحد عبور کر کے طویل قید سے رہائی حاصل کی تھی اور آئی ایس پی آر کا ’’نو آموز لیفٹیننٹ‘‘پی آر او ڈھاکہ میجر صدیق سالک(بعد میں بریگیڈیئر) کا استقبال کرنے میں مصروف تھا۔ وہ اپنے ہمراہ سقوط ڈھاکہ اور بھارتی قید کا آنکھوں دیکھا حال لائے تھے جسے انہوں نے پھر ’’ہمہ یاراں دوزخ ‘‘، وٹنس ٹو سرنڈر اور میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘جیسی کتابوں میں قلمبند کیا۔ان کے نزدیک ابھی مشرقی پاکستان کی کہانی ختم نہیں ہوئی تھی ۔ وہ اسے دوٹوک انداز میں لکھ رہے تھے ۔Pakistan Needs Pliticsاسی سلسلے کی ایک کڑی تھی ، اس انگریزی کتاب کا مسودہ مبینہ طور پر لاپتہ ہو گیا۔اس کے علاوہ سالک صاحب ایک سیاسی ناولٹ’’وارننگ‘‘بھی لکھ رہے تھے ۔ ان کی شہادت کے بعد یہ مسودہ بھی مفقود الخبر ہو گیا۔
اس وقت وفاق اور صوبے میںپیپلز پارٹی کی حکومت تھی ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1970ء کے انتخابات کی بنیاد پر عنان اقتدار سنبھالی تھی ۔ تقریبا ً روزانہ ہی پیپلز کے ایک دو صوبائی وزراء جنگی قیدیوں کے استقبال کے لیے سرحد پر موجود ہوتے تھے ۔
لاہور کی ڈیوٹی انجام دے کر واپس راولپنڈی پہنچا تو اٹک قلعہ میں جاری فیلڈ کورٹ مارشل کی سرکاری کوریج کی ذمہ داری سونپ دی گئی ۔ دو صحافی اے پی پی کے محمد عزیز صاحب اور پی پی آئی کے رمضان عادل صاحب مستقل اٹک قلعہ میں قیام پذیر تھے تاہم آئی یس پی آرکا ایک افسر صبح اٹک قلعہ جاتا تھا ،کورٹ مارشل کی کارروائی کے بعد دونوں صحافی حضرات پریس رپورٹس تیار کرتے تھے جنہیں عدالتی نوک پک پرکھنے کے لئے کسی ایک کورٹ ممبر کے حوالے کر دیاجاتا تھا ۔ ممبر کی منظوری کے بعد یہ پریس ریلیز آئی ایس پی آر کے سربراہ بریگیڈیئر فضل الرحمن دیکھتے تھے ، سب سے آخر میں پریس رپورٹس پرنسپل انفارمیشن آفیسر (پی آئی او)کے سپردکردیاجاتا تھا ۔ دوروزکے وقفے کے بعد یہ رپورٹس جاری ہوتی تھیں۔شنید تھی کہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو متن کی منظور ی دیتے تھے ۔ ایک روز میں تاخیر سے اے پی پی اور پی پی آئی کے نمائندگان کی رپورٹس لے کر پی آئی او افضال زیدی صاحب کے دفتر پہنچا تو وہ تاخیر سے آنے پر سخت برہم ہوگئے ، کہنے لگے :’’پی ایم آفس سے کئی مرتبہ کال آئی ہیں۔ رپورٹس کا انتظا ر ہورہا ہے‘‘ ۔ انہوں نے شدت جذبات میں کچھ نہ کچھ اگل دیا ۔ اب آئیے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی جانب ۔ یہ کارروائی اٹک قلعے میں جاری تھی جہاں گرفتار شدہ فوجی افسرمقید تھے ۔ ان میں بریگیڈیئر ایف بی علی،بریگیڈیئر عتیق احمد ، بریگیڈیئر واجد علی شاہ،کرنل علیم آفریدی، میجر طارق پرویز ،میجر نادرپرویز ، میجر اشتیاق آصف، کیپٹن اظہر سمیت 25کے لگ بھگ افسر تھے ۔ یہ بھٹو صاحب کی حکومت کے خلاف بغاوت کی منصوبہ بندی کے الزام میں کورٹ مارشل کا سامنا کررہے تھے ۔ چند چوٹی کے وکلاء جن میں منظور قادر،بیرسٹر اعتزاز احسن اور ایس ایم ظفر بھی شامل تھے وکلاء صفائی تھے ۔ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے سربراہ میجر جنرل محمد ضیاء الحق(بعد میں چیف آف آرمی سٹاف اورصدرپاکستان) تھے ، دیگر ممبران میں بریگیڈیئر جہانداد،بریگیڈیئر رحمت علی شاہ بخاری،کرنل محمد اقبال اور میجر مظفر حسین عثمانی تھے۔کارروائی کے دوران عسکری انداز میں ٹی بریک کاوقفہ ہو تا اور بعد میں لنچ آفیسر میس میں تھا جس میں میجر جنرل محمد ضیاء الحق اور دیگر کورٹ ممبران اور کبھی کبھار بیرسٹر اعتزاز احسن بھی موجود ہوتے تھے ۔ دونوں صحافی حضرات کے ہمراہ میں بھی ’’لنچ گروپ ‘‘کا باقاعدہ ممبر تھا ۔ یہ فری لنچ نہیں تھا۔ ہر مہینے بل کی ادائیگی ڈائننگ ممبر کی ذمہ داری تھی ۔ صحافی حضرات کے بل کی ادائیگی آئی یس پی آرکے ذمہ تھی۔اٹک ساز ش کیس میں ملوث فوجی افسران ،کورٹ ممبران اور صحافی حضرات کے لئے آئی یس پی آرکاافسر راولپنڈی سے رابطہ کا قابل اعتماد ذریعہ تھا ۔ لنچ ٹیبل پر میجر جنرل محمد ضیاء الحق بے تکلفانہ گفتگو کے باعث سب کا دل موہ لیتے تھے ۔ ایک روز مَیں میس کے برآمدے میں کھڑاتھا تو کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگے کہ راولپنڈی کی ایک ڈیوٹی ہے ، اگر ناگوار نہ گزرے تو انجام د ے دیں ۔ ظاہر ہے ایک لیفٹین کے لئے ناگواری کا آپشن نہیں تھا۔ فرمایا کہ ’’مال روڈ راولپنڈی کے پاس میری وردی موجود ہے ، وہ آپ کل اٹک فورٹ آتے ہوئے لے آئیں‘‘۔میں نے رائٹ سر کہا اور انگشت شہادت پر دھاگہ باندھ لیا کہ کہیں واپسی پر جبپ میں سوتا نہ رہ جائو ں اور ’’ٹو سٹار وردی‘‘راولپنڈی میں ہی رہ جائے۔بہر حال شام کو ہی اسماعیل ٹیلرز سے وردی حاصل کر لی ۔اگلے روز علی الصبح وردی دونوں ہاتھوں سے تھام کرپہلے دفتر پہنچا اور پھر سرکاری جیپ میں اٹک قلعہ روانہ ہوگیا۔لیفٹین کی قسمت میں دوسری جنگ کی دھتکاری ہوئی جیپ تھی جس میں ایک لیفٹین ایک میجر جنرل کی وردی تھامے سوارتھا ۔ جیپ جگہ جگہ رکتی،کھانستی اور ڈولتی ہوئی اٹک قلعہ میں فاتحانہ شان سے داخل ہوئی ۔ میں نے سب سے پہلے وردی کومیجر جنرل محمد ضیاء الحق کے روم میں پہنچایا ، جہاں ان کا اردلی مزید پذیرائی کے لئے موجود تھا۔ یہ ڈیوٹی انجام دینے کے بعد کورٹ روم میں داخل ہوا تو مقدمے کی کارروائی شروع ہو چکی تھی ۔ پریس کے لئے تین کرسیاں وکیل استغاثہ کے ساتھ تھیں۔ملزم لیفٹیننٹ اظہر نے ایک روز سیاہ مارکر سے Pressسے پہلےDeلکھ کر اسے Depressبنادیاجو مقدمے کے اختتام تک جوں کاتوں رہا۔لیفٹیننٹ اظہر سابق کور کمانڈر اور سابق گورنر لیفٹیننٹ جنرل محمد اظہر خان کے صاحبزادے تھے ۔ کامیاب وردی مشن کے بعد اپنی نشست پر بیٹھا ہی تھا کہ میجر جنرل محمد ضیاء الحق سے آنکھیں چار ہوئیں۔میں نے سرجھکا کر کامیابی کااشارہ دے دیا۔ لنچ ٹیبل پر انہوں نے شکریے کے انبار لگا دئیے ۔ اب ہمیں بھی ’’بڑوں ‘‘کی گفتگو میں مصرع’’طرح‘‘اٹھانے اور کبھی ’’مقطع‘‘ٹھونسنے کی ہمت ہونے لگی۔میجر جنرل محمد ضیاء الحق اپنے مخاطب کو ہمیشہ نام کے ساتھ ’’صاحب‘‘کہہ کر گفتگو کا آغاز کرتے۔
پریس رپورٹس کامتن اکثر بریگیڈیئر جہانداد خان چیک کیا کرتے تھے ۔ یہ بعد میں لیفٹیننٹ جنرل کے رینگ تک پہنچے۔کور کمانڈر روالپنڈی اور گورنرسندھ بھی رہے۔ریٹائرمنٹ کے بعد روالپنڈی میں شفاآئی ہسپتال کی بنیاد رکھی اور خود کو اس کے لئے وقف کر دیا ۔ یہ ہسپتال آج آنکھوں کے امراض کا مثالی شفاخانہ ہے ۔ لیفٹیننٹ جنرل جہانداد کی قبر ہسپتال کے احاطے میں موجو دہے ۔ ایک اور بریگیڈیئر رحمت علی شاہ بخاری تھے ، کبھی کبھار وہ بھی متن دیکھتے تھے۔ طویل القامت تھے ۔ ایک روز دونوں رپورٹس پڑھ رہے تھے کہ روشنی کے لئے لیمپ آن کرنا چاہاتو کرنٹ محسوس ہوا ۔ انہوں نے شدت سے آواز بلند کی جسے سن کر باہر گارڈ اندر آگیا۔ قریب تھا کہ مجھ پر حملہ آور ہوتا کہ بریگیڈیئر بخاری نے اشارے سے لیمپ کی طرف اشارہ کیا۔اب الیکٹریشن کی تلاش شروع ہوئی۔ انہوں نے رپورٹس میری طرف پھینکی اور میں چپ چاپ جیپ کی طرف بھاگا ۔ بریگیڈیئر بخاری میجر جنرل کے رینک تک پہنچے ۔ دوران سروس بہاولپور میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے ۔ ایک اور ممبر میجر مظفر حسین عثمانی لیفٹیننٹ جنرل کے رینک میں کور کمانڈر کراچی تعینات رہے ۔ (ان کا حال ہی میں انتقال ہوا)۔
میجر جنرل محمد ضیاء الحق سے اٹک سازش کیس کے زمانے کی علیک سلیک تاحیات قائم رہی۔اس حوالے سے آگے مزید ذکر آئے گا ۔ بہر حال فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے اپنے فیصلے میں ایک ملزم میجر طارق پرویز کوبری کیا اور دیگرتمام ملزم افسران کو مختلف المیعاد سزائیں سنا دیں۔ میجر طارق پرویز لیفٹیننٹ جنرل کے رینک سے ریٹائر ہوئے ۔ کور کمانڈر کوئٹہ رہے ، سزایافتہ اکثر افسرجنگ آزما تھے ۔ فوج میں ان سے منسوب واقعات میں بہادری ، دلیری اور دشمن کو ٹھکانے لگانے کے سوا کچھ نہیں تھا ۔ متعدد کو وار میڈل بھی ملے ہوئے تھے۔ یہ افسر مبینہ طور پر سمجھتے تھے کہ دسمبر1971ء کی ہزیمت کے اصل کردار اور ذمہ دارسیاستدان تھے جنہوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت فوج کو اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے استعمال کیاتھا ۔ ان کا خیال تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کا کردار مجرمانہ ہے ۔ انہوںنے مارچ1971ء میں قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کا بائیکاٹ کر کے مشرقی پاکستان میں بھارتی ایجنٹوں اور علیحدگی پسندوں کو سیاسی لحاظ سے ایک بنیاد فراہم کی تھی جس کے بعد کھل کر بنگالی مخالفین ،اردو پنجابی بولنے والوں اور وفاقی اداروں کے اہلکاروں کا قتل عام شروع ہو گیا تھا۔ عورتوں کو تشد د کانشانہ بنا یا گیا ۔ ملزم افسروں کے خیال میں سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو بھی شیخ مجیب الرحمن کی طرح پابند سلاسل کر کے نئے سرے سے انتخابات کرانے چاہیے تھے۔یہ گروپ جنرل آغا محمد یحیٰی خان اور ان کے ساتھیوں کے بھی سخت خلاف تھا ۔ مقدمے کا لب لبا ب یہ تھا کہ یہ افسر انقلابی حکومت قائم کر کے من مانی کرنا چاہتے تھے۔
اٹک سازش کیس کی ڈیوٹی ختم ہوئی تو کچھ عرصہ راولپنڈی میں ہی سرکاری اور غیر سرکاری مٹر گشت میں صرف ہوا ۔ اس دوران بلوچستان میں آرمی کی پیشہ وارانہ اور اندرونی سلامتی سے متعلق سرگرمیوں کی معمولی کی تشہیر کی ذمہ داری بھی ادا کی ۔ آئی ایس پی آر میں ’’لیفٹین‘‘کو ڈیڑھ برس سے زائد عرصہ ہو گیا تھا ۔ ایک روز معلوم ہوا کہ مجھے کیپٹن کے رینک پر ترقی کے ئے جی ۔ ایچ ۔ کیو کے متعلقہ شعبے سے خط و کتابت شروع کر دی گئی ہے ۔کیپٹن کا رینک ملتے ہی لاہور یا کوئٹہ میں سے کسی ایک شہر میں تعیناتی کی جائے گی۔لاہور کا ذکر آتے ہی بے اختیار’’آمین ‘‘زبان پر جاری ہوجاتا تھا ۔ قسمت کو کچھ اور ہی منظورتھا۔ کوئٹہ کے لئے پہلے میجر محمد غازی الدین کا نام طے شدہ تھا تاہم لاہور کی صحافتی اہمیت کے پیش نظر انہیں لاہور اور مجھے کوئٹہ تعینات کر دیا گیا۔سب سے اہم ذمہ داری کوئٹہ میں آئی ایس پی آرکا مستقل آفس قائم کرنا تھا۔
اس سے قبل راولپنڈی سے افسر اوردیگر اہلکار عارضی ڈیوٹی پر فرائض ادا کرتے تھے ۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان کی صوبائی حکومت برطرف کر دی تھی ۔ وزیراعلیٰ عطاء اللہ مینگل سڑک پر تھے اور پورے بلوچستان میں پیپلز پارٹی کے بانی کی نافذ کردہ ’’جمہوریت ‘‘کا راج تھا۔ مری اور مینگل قبائل سراپا احتجاج تھے ۔ اس مرحلے پر متعدد بلوچ اورپختون رہنمائوں کو گرفتار کر کے مختلف جیلوں میں نظر بند کر دیا گیا ۔ وزیرا عظم ذوالفقار علی بھٹو نے اندرونی سلامتی کی بحالی کے لئے پاک فوج کو مناسب اقدامات انجام دینے کی ہدایت کی۔کراچی کور کا ٹیکٹیکل ہیڈ کوارٹرکوئٹہ منتقل کر دیا گیا۔کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اکبر خان اس آپریشن کی قیادت کررہے تھے ۔
میرے کوئٹہ پہنچتے ہی ابلاغی مصروفیات کا انبار تھا۔ ’’نفسیاتی جنگ‘‘کے دو ماہر افسر بھی ہمارے دفتر سے بالواسطہ منسلک کر دئیے گئے ۔ ایک رینک سینئر تھے لہذا انہیں بھی ’’سر،سر‘‘کہنا پڑتا تھا۔ بہر حال بلوچستان میں آئی ایس پی آرافسر کی حیثیت سے مری ، بگٹی اور مینگل قبائل کے زیر نگیں علاقے دیکھے اور وہاں کے عوام سے ملنے کے وسیع مواقع حاصل ہوئے ۔ شاید عام حالات میں یہ سہولت حاصل نہ ہوتی۔ فوجی دستے دو ر دراز علاقوں میں نامساعد حالات کے باوجود سرگرم تھے ۔ فراریوں اور شورش میں ملوث افراد کی سرکوبی کے ساتھ ساتھ ترقیاتی سرگرمیاں بھی جاری تھیں۔سڑکیں ،سکول ، شفاخانے اور تھانے ناپید تھے ۔ نامساعد حالات کے باوجود فوج کے افسر اور جون دن رات ایک کئے ہوئے تھے۔ آرمی کی کور آف انجینئرز اور میڈیکل کور نے مثالی لگن اور ایثار کے ساتھ اپنے فرائض ادا کئے۔مری ایریا خاص طور سے دشوار گزار مقامات اور سخت کوش افراد پر مشتمل ہے۔ بعض مقامات پر فوجی دستوں اور سول آرمرڈ سروسز کو مشکلات کاسامنا کرنا پڑا تاہم ریاست سے کون کب تک لڑ سکتا ہے؟سیکڑوں کی تعداد میں شورش پسند گرفتار ہوئے ۔ اکثر ’’حالات حاضرہ‘‘سے قطعاًنابلد اپنے سردار کے ’’غلام‘‘تھے۔ جو حکم ملاسر تسلیم خم کر دیا۔میں بھی اپنی ٹیم کے ساتھ’’میدان عمل‘‘کے قریب قریب ہی تھا۔مری علاقے کا اہم قصبہ’’ کوہلو ‘‘بریگیڈہیڈ کوارٹر تھا۔ بریگیڈیئر محمد عثمان حسن(ستارہ جرات)کمان کر رہے تھے ۔ بریگیڈیئر میجر (بی ایم )میجر سلیم حیدر اور سٹاف افسر تھری کیپٹن ضرار عظیم تھے۔برسبیل تذکرہ یہ بھی سن لیجئے کہ بعد ازاں میجر سلیم حیدر اورکیپٹن ضرارعظیم دونوں لیفٹیننٹ جنرل کے رینک پر ریٹائر ہوئے ۔ کمانڈر بریگیڈیئر محمد عثمان حسن ایک دلیر،جفاکش اور پیشہ وارانہ دیانت کے حامل افسر تھے۔میں سب سے جونیئر ’’محو حیرت‘‘ایک چھوٹے سے خیمے میں ’’مقید‘‘تھا۔ اکیلا زیادہ دُور جانا خطرے سے خالی نہیں تھا۔کمانڈر جیپ میںعلاقے کے دورے پر اپنے ہمراہ لے جاتے تھے ۔ فوٹو گرافر اور کیمرہ مین اپنا کام کرتے اور مجھے مقامی افراد سے بات چیت کا موقع مل جاتا تھا۔رات گئے بریفنگ کاسیشن گرین ٹی کے ساتھ جاری رہتا تھا۔اب میں نے بھی گفتگو میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔بریگیڈیئر کمانڈر کے پاس علاقے کے بارے میں وسیع معلومات تھیں۔مقامی افراد بھی ملنے آتے رہتے تھے۔ایک روز میں نے کمانڈر سے کہا کہ آپ روزانہ ڈائری لکھا کریں۔ اردو میں لکھیں تو اور بھی بہتر رہے گا۔کہنے لگے ،لکھنا نہیں آتا ۔ میں نے کہا کہ یہ ناممکن ہے ، آپ ہر ہفتے گھر خط لکھتے ہیں ۔ انہوں نے قہقہہ لگایا اور کہنے لگاوہ لکھنا بہت ضروری ہے ،ورنہ تم سمجھتے ہو۔’’میں نے کہا نہیں سر !میں غیر شادی شدہ ہوں‘‘۔یوں بات چیت ختم ہوگئی۔میں نے اٹھتے ہوئے کمانڈر کو تجویز دی کہ سر!مناسب ہوگا کہ اگر آپ روزانہ خط کے انداز میں ڈائری لکھنا شروع کردیں۔ انہیں یہ تجویز پسند آئی۔بریگیڈیئر عثمان حسن نے تقریباًروزانہ واقعات قلمبند کرنا شروع کر دیئے ۔ آپریشن مکمل ہونے کے بعد یہ ڈائری ایک کتاب بعنوان’’بلوچستان۔ماضی ، حال اور مستقبل‘‘کراچی سے شائع ہوئی۔اس کتاب کو خاصی پذیرائی ملی۔اخبارات اورجرائد میں تبصرے بھی شائع ہوئے ۔ اکثر مبصرین کے نزدیک اس کتاب کی بدولت بلوچستان کے ’’شور ش زدہ ‘‘علاقوں کے حالات اور واقعات براہ راست آگاہی ہوئی۔کمانڈر کی ڈائری لکھنے کے اوقات غیر متوقع ہوئے تھے ۔ شاعر کی مانند جب مصرع ذہن میں آیا لکھنے بیٹھ گئے ۔ یہ صورتحال آپریشن میں سرگرم بریگیڈ کے سٹاف آفیسر کے لئے ناقابل قبول تھی۔ میجر سلیم حیدر اور کیپٹن ضرارعظیم تمام تر شفقت اور ملنساررویے کے باوجود کبھی کبھار مجھ پر ناراض ہوجاتے کہ تم نے کمانڈر کو کس کام پر لگا دیا ہے۔ اچانک ایک رجسٹ کھول کر لکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور ہم فائل پر دستخط کے انتظار میں سوکھ رہے ہوتے ہیں۔میرا اپنے سینئرز کو ایک ہی جواب تھا کہ سر! تاریخ مرتب ہو رہی ہے۔ اطمینان رکھیں۔
یادآیا !بریگیڈیئر عثمان حسن ریٹائرہونے کے بعد بلوچستان میں صوبائی سیکرٹری کے عہدہ پر بھی تعینات رہے اورانہوں نے مزید دو کتب بھی مرتب کیں۔ بلوچستان کے مسائل ،ترقیاتی منصوبہ بندی اور دیگر معاملات پر انہیں خاصا عبور تھا۔ دراصل بلوچستان کا شاید ہی کوئی علاقہ ایسا ہو جسے انہوں نے بچشم خود ملاحظہ نہ کیا ہو ۔ یہ معلومات وفاق کے لیے بہت بڑا اثاثہ تھیں۔مری ایریا میں حالات بہتر ہوئے تو مَیںدوبارہ کوئٹہ و اپس آگیا۔ اس دوران ہفت روزہ ’’ہلال ‘‘راولپنڈی میں ’’بلوچستان نامہ‘‘اور ’’براستہ بلوچستان‘‘کے عنوان سے متعدد مضامین تحریر کیے ۔
اکتوبر 1975ء میں والدین نے مجھے لاہور طلب فرمایا ۔ چندروز کے بعد اپنی بارات کے ساتھ لطیف آباد نمبر3حیدر آباد کی جانب گامزن تھا ۔ میری اہلیہ والدہ گرامی کے بڑے بھائی کی دختر نیک اختر ہیں۔اہلیہ کے ایک بھائی طویل عرصہ تک مینٹل ہسپتال حیدر آباد (المشہور پاگل خانہ گرو بندر)میں میڈیکل افسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے ہیں ۔ ہم بھی بچپن اور لڑکپن میں تعطیلات گزارنے ’’گروبندر‘‘آیا کرتے تھے جہاں ڈاکٹر صاحب کے بنگلے کے ارد گرد وسیع و عریض میدان کھیل کود کے لئے موزوں تھے ۔ ڈاکٹرز کالونی سے آگے وارڈز تھے جہاں ذہنی امراض میں مبتلا افراد کو بیماری کی سنگینی کے مطابق مختلف وارڈز میں رکھا گیا تھا۔ایک وی آئی پی وارڈ بھی تھا۔یہ اعلیٰ خاندانوں اور بااثر افراد کے لئے مخصوص تھا ۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک بھار ی بھر کم شخصیت دس پندرہ افراد کے جلو میں چہل قدمی کرتے ہوئے دکھائی دیتی تھی۔ ہم نے بھائی ڈاکٹر صاحب سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ ایک پیر صاحب ہیں ۔ نامعلوم وجوہات کی بنا پر ان کا ذہنی توازن بگڑ گیا ہے ۔ پاگل خانے میں زیر علاج ہیں۔مریددن میں ’’زیارت‘‘کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔میری اہلیہ کے ایک اور بڑے بھائی نے نیشنل ہسپتال لطیف آباد نمبر3کے قریب ہی گھر خرید لیا تھا۔ میری بارات اسی گھر میں گئی ۔ لاہور واپسی ٹرین سے ہی تھی ۔ شادی کے لئے بمشکل پندرہ روز کی چھٹی ملی تھی‘‘……………………………جاری ہے
https://bit.ly/2M6dsocپہلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
https://bit.ly/3rL7bO9دوسری قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں