Tarjuman-e-Mashriq

پہاڑ باتیں کرتے ہیں -2

  آخر انڈورا کیوں ؟

یہ میرا   یونیورسٹی میں دوسرا سال تھا ،  اس سال ہمیں  سفر پر جانا تھا ، یہ سفر  ایک فیلڈ ریسرچ   کے لیے تھا جس کا مقصد  یورپ کی اسکینگ سلوپس پر  گلوبل وارمنگ کے اثرات  کے بارے میں صارفین کا نقطۂ نظر حاصل کرنا تھا  

دنیا  کے وجود میں تیزی سے   تبدیلیاں  آ رہی ہیں  اور ان تبدیلیوں  سے جہاں انسانی زندگی متاثر ہو رہی ہے وہیں مختلف شعبہ جات  اور کاروبار بھی  نقصان اٹھا رہے ہیں ، انسان اپنا بویا خود کاٹ رہا ہے . پچھلی آدھ صدی میں  جہاں انسان  نے بہت ترقی کی ہے وہیں اس نے  فطرت کے  حسن کو تباہ کر کہ رکھ دیا ہے . سائنسی علوم کے ماہرین  اب یہ سمجھنے کی کوشش میں لگے ہیں کہ  کیسے اس  دنیا کو تباہی سے روکا جائے. دنیا میں  آج کوئی بھی ملک ایسا نہیں جہاں   انسان     اپنی تباہی کا  سامان خود نہ کرتا ہو . سائنسی  تحقیقات نے جہاں انسانی زندگی میں بہت سی سہولیات کا بندوبست کیا ہے وہیں اس کے ماحول  پر گہرے اثرات    نے  فطرت  کے لائف سائیکل کو  متاثر  کیا ہے . اس میں کوئی شک نہیں کہ  تحقیقات  و ایجادات  کے بغیر  یہ زندگی کچھ نہیں.   ترقی،تبدیلی اور بہتری کا  دوسرا نام  ہے .  ماحولیاتی آلودگی  اس صدی کا اور آنے والے تمام وقتوں کا بہت بڑا مسئلہ ہے  

اپنی ضروریا ت کو پورا کرنے کے لیے ہم نے فطرت کا ضرورت سے زیادہ استحصال کیا ہے اسی لیے آج گلیشیر پگل رہے ہیں ، سیلاب  اور  زمین کے کٹاؤ کا مسئلہ ہے ،  شہروں میں زندگی کی شرح  کم تر ہوتی جا رہی ہے اور دنیا کے بڑے بڑے شہر  بیماریوں کی زد میں ہیں  اور ممکن ہے کہ ایک دور ایسا بھی آئے کہ  سانس کی بیماریاں  انسانی زندگی کی سب سے  بڑی دشمن ہوں . ( یہ تحریر کرونا کی وبا کے وجود سے کئی سال پہلے لکھی گئی تھی )

ہمارے سفر کا مقصد انڈورا   آنے والے  اسکینگ کے دلدادہ خواتین و حضرات سے ان  کا  نقطۂ نظر جاننا اور مختلف لوگوں کے انٹرویو  کرنا تھا .  یہ  میرا  اپنی ٹیم کے ساتھ پہلا سفر نہیں تھا . اس سے پہلے ہم نے  اسی   طرح کا ایک سفر جرمنی کا کیا تھا  جس میں  ہمیں ہیمبرگ اور اس کے آس پاس کے شہروں  سے ڈیٹا اکٹھا کرنے کا موقع ملا اور یہ بہت معلوماتی سفر تھا . اس سفر کی داستان بھی   بہت  دلفریب تھی ، یہاں ہمارے ساتھ ایک  مسٹر ایم  ( رازداری کو برقرار رکھنے کے لیے نام تبدیل کیا گیا ہے)  تھے . ہم سے سینیر تھے ، طالب علم کم اور  ڈنڈے والے مولوی زیادہ  تھے .  میرے روم میٹ تھے اور ان سارے سفر میں وہ مجھے تبلیغ کرتے رہے . میں آج بھی سوچتا ہوں کہ اتنے سال پہلے جب ہم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے تھے اور  ہماری یونیورسٹی میں ایک مخصوص گروپ لیکچر ہال میں کم اور کیفے ٹیریا میں زیادہ پایا جاتا تھا اور صرف تبلیغ کرتا تھا اب کہاں ہو گا .  مسٹر ایم اچھے آدمی تھے ، اردو  اور گجراتی زبانیں بول لیتے تھے مگر  غالبا ان کی پیدائش برطانیہ میں ہوئی تھی.    اس سفر کے دوران کچھ وقت  دنیا کی ایک   مقبول  اور قیمتی کار کمپنی  مرسیڈیز  میں گزارنے کا موقع ملا ، ان کے کام کرنے کا طریقہ دیکھا  جو  خود میں ایک تعلیم سے  کم نہ تھا   

  مسٹر ایم  جب ہمارے ساتھ آئے تھے تو بہت شکستہ دل  تھے ، انھیں ہماری  ایک اور سینیر ساتھی  مس ایس ( رازداری کو برقرار رکھنے کے لیے نام تبدیل کیا گیا ہے)   کے ساتھ محبت  ہوئی تھی   جو مسلکی بنیادوں پر ٹوٹ گئی تھی .  مسٹر ایم  سلفی  مسلک سے  تھے اور مس ایس ایک شیعہ  خاندان سے تھی .  محبت کے  ہنی مون کے دنوں میں ہم اکثر انہیں کیفے ٹیریا میں دیکھتے مگر جب  محبت  میں تھوڑی پختگی آئی تو    مسلکی حقائق ان دونوں سے ایسے ٹکرائے جیسے دیوار سے اندھا ٹکراتا ہے .   رفاقتیں ، محبتیں ، وعدے، قسمیں سب غائب ہو گیا . ایسے لگتا تھا  کہ دونوں  کیفے ٹیریا میں دور دور بیٹھے  دل دل میں کہتے رہے ہونگے

بد لا جو وقت ، گہری رفاقت بدل گئی

سورج ڈھلا تو سائے کی صورت بدل گئی

اک عمر تک میں اُسکی ضرورت بنا رہا

پھر یوں ہوا کہ اُسکی ضرورت بدل گئی

خیر  مسٹر ایم آج کہاں ہیں مجھے کچھ معلوم نہیں ، کچھ سال پہلے    ایس  بی بی  سے رابطہ ہوا تھا جو  سویڈن میں  کسی تعلیمی ادارے سے منسلک  تھیں اور ابھی بھی اس وقت کو یاد کرتی  تھیں   جب ہم سب        کچھ بننے  کی جستجو میں  اس یونیورسٹی میں اکٹھے ہوئے تھے .  جرمنی کا ذکر  اور  مسٹر ایم کا   انڈورا کے سفر سے کوئی تعلق نہیں ہے بس ایسے ہی بات سے بات نکلی تو ماضی کے جھرونکوں میں ہمیں مس ایس کی مسکراہٹیں اور مسٹر ایم کی نصحیتیں یا  آ گئیں . چلیں اب اپنی اپنی سوچ کے . حفاظتی بند باندھ  کیونکہ ہم جا رہے ہیں  پہاڑی سفر پہ  اور آپکو   ملاتے ہیں انڈورا سے  

………جاری ہے …….

پہلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں https://www.tarjumanemashriq.com/2021/07/23/1044/

Exit mobile version