سردار عبدالقیوم خان نیازی نے آزادکشمیر کے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اُٹھایاتوتبت کی جنوبی ڈھلوانوں سے لیکر لندن، نیو یارک اور ٹرونٹو کے گلی بازاروں میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ جہلم اور نیلم کی رفتار سست ہوگئی اور منگلا ڈیم کی سطح آب دو فٹ نیچے چلی گئی۔ ایک طرف صف ماتم بچھ گئی اور دوسری جانب فتح کا جشن منایا گیا۔ جو لوگ یورپ اور امریکہ سے ڈالروں اور پونڈوں کی بوریاں بھر کر لے گئے تھے وہ آج کل خالی ہاتھ واپسی کا انتظار کر رہے ہیں۔
پہلے شور ہوا کہ سردار عبدالقیوم خان نیازی کا تعلق میانوالی کے نیازی خاندان سے ہے مگر جلد ہی بات کھل گئی کہ موصوف شاعر ہیں اور اپنے پسندیدہ شاعروں جناب عبدالستار خان نیازی اور منیر نیازی کی نسبت سے اپنا تخلص نیاز ی رکھ چھوڑا ہے۔ علاوہ اس کے جناب عبدالقیوم خان نیازی پیر سید حیدر علی شاہؒ آف پناگ شریف ضلع کوٹلی کے مریدوں میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ کا خاندان غریب پرور ہے اور علاقہ بھر میں صدقہ و خیرا ت اور نذر نیاز کی وجہ سے مشہور ہے۔ بچپن میں آپ حاجت مندوں کے گھروں میں جا کر نیاز تقسیم کرتے تھے جس کی وجہ سے بچہ نیازی مشہور ہو گیا۔ میانوالی کا نیازی ہونا کوئی فخر کی بات نہیں۔ حال ہی میں پنجاب کی بیوروکریسی کے ایک اعلیٰ افسرجن کا تعلق نیازی قبیلے سے ہے کسی سید ہ کے ساتھ ان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر دکھلائی دی جو شاید عمران اللہ خان نیازی کی نظروں کے سامنے نہیں آئی۔
جناب عبدالقیوم خان نیازی کی کامیابی پرساری دنیا میں مغلوں کی خوشی دیدنی تھی۔ ایک بڑے صحافی نے لکھا کہ طویل عرصے بعد ایک مغل کشمیر کا حکمران بنا۔ آزادکشمیر کے جرالوں نے بھی لڈو بانٹے اور مغلیہ دور لوٹ آنے کا خیر مقدم کیا۔ پتہ نہیں کہ ملک چین، ماور اُانہر اور منگو لیا تک یہ خبر پہنچی کہ نہیں؟ دریائے جیوں اور سیوں میں کوئی ہلچل ہوئی یا وہ حسب سابق بہہ رہے ہیں۔ اہلیان میرپور کے لیے اطلاع ہے کہ میرپور اور کوٹلی میں کوئی جاٹ یا جٹ قبیلہ نہیں اور نہ ہی جاٹوں یا جٹوں کی کوئی گوت یہاں آباد ہے۔ 1947ء سے پہلے میرپور میں جاٹو ں کا ایک ہی گھرانہ آباد تھا جنہیں سدا برتی جٹ کہا جاتا تھا۔ ان سدا برتی جٹوں کی کوششوں سے میرپور کو ضلع اور میرپور شہر کو ٹاؤن کا درجہ حاصل ہوا۔اس سے پہلے میرپور، بھمبر اور گجرات گھکھڑوں کی جاگیر میں شامل تھے اور بعد میں میرپور گجرات کی تحصیل تھی۔ میرپور کے سدابرتی جٹوں کا خاندان امیر کبیر اور رئیس تھا۔ان کا لنگر خانہ اور مہمان خانہ سارے ہندوستان اور کشمیر میں مشہور تھا۔ لنگر خانے اور مہمان خانے دو حصے تھے۔ ایک مسلمانوں اور دوسرا غیر مسلموں کے لیے مختص تھا۔ لنگر خانوں اور مہمان خانوں کا انتظام کئی سو ہندو اور مسلمان ملازم چلاتے تھے جنہیں معقول تنخواہ دی جاتی تھی۔اس ہندو جاٹ خاندان کی انسان دوستی اور سخاوت کی وجہ سے ان کا نام سدا برتی مشہور ہوا۔
اس خاندان کے مرد وخواتین تعلیم یافتہ تھے اور ان کا پیشہ وکالت تھا۔ جناب جسٹس (ر) عبدالمجید ملک کے مطابق سدا برتی خاندان 1945میں دلی منتقل ہو گیا تھا۔ کشمیر کا پہلا بیرسٹر بھی اسی خاندان سے تھا جو بعد میں انڈین سپریم کورٹ کا جج بھی رہا۔ جسٹس مجید ملک نے دلی میں ہونے والی جیو رسٹ کانفرنس کے دوران اس خاندان کے ریٹائر ججوں اور نامور وکیلوں سے ملاقات بھی کی۔ جسٹس ملک کو سدا بریتوں نے کھانے کی دعوت دی اور خوشی کا اظہار کیا۔ جسٹس ملک نے بتایا کہ یہ خاندان آج بھی میرپوری زبان بولتا ہے اور اپنے بچوں کو بھی میرپوری روایات برقرار رکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ سدا برتیوں کے مطابق میرپور اور کوٹلی میں کوئی جٹ، جاٹ نہیں۔ ان کی ذاتیں اورگوتیں جرال، امتیال، تیزیال، چمال، الپیال، متیال، روپیال، کلیال، پلا ل اورشیخ ہیں۔ اکھڑپن باہمی جنگ وجدل، روایات سے انحراف گڈریا پن اور علم کی کمی کے باعث یہ لوگ جٹ کہلانے لگے اور پھر جٹ سے جاٹ ہو گئے۔تاریخ شاہان گجر کے مطابق جاٹو ں، راجپوتوں اور گجروں کی پچاس سے زیادہ گوتیں مشترک ہیں۔ پنجاب کے کئی اضلاع میں جٹ راجپوتوں کی کثیر تعداد موجود ہے اور وہ اپنے ناموں کیساتھ جٹ راجپوت ہی لکھتے ہیں۔عہدشیر شاہ سوری کا مصنف کا لکار نچن قانون گو لکھتا ہے کہ سلاطین دہلی کے عہد میں چوہدری، پٹواری اور چوکیدار سرکاری کارندے تھے۔ چوہدری ادنیٰ درجے کا مجسٹریٹ ہوتا تھا جو موقع پر پنچائیت کے روبرو فیصلے کرتا تھا۔ چوہدری جاٹوں، گجروں، راجپوتوں یا کسی دوسری قوم یا قبیلے کا لقب نہ تھا۔ راولپنڈی کا چوہدری نثار الپیال راجپوت ہے اور دینہ ضلع جہلم کا چوہدری فودا بینس راجپوت ہے مگر بوجہ جٹ کہلواتا ہے۔ بقول میاں محمد بخش ؒ کے عملاں اتے ہون نبیڑے کیا سید کیا جٹ۔
تاریخ اقوام پونچھ کی فصل چہارم، تاریخ اقوام کشمیر اور کرنل ایلن بیٹس کے کشمیر گزیٹیر کے مطابق نو منتخب وزیراعظم آزادکشمیر جناب عبدالقیوم خان نیازی کا تعلق پونچھ کے ایک حکمران اور انتہائی شائستہ انسان دوست خاندان دُلی سے ہے۔ جناب محمد دین فوق لکھتے ہیں کہ پونچھ کے دلی راجگان علم وادب اور سخاوت کی وجہ سے سارے کشمیر اور پنجاب میں مشہور رہے ہیں۔ دُلی راجپوت بہادر، دلیر اور جنگجو قبائل میں شمار ہوتے تھے۔ علاوہ اس کے یہ قبیلہ شعرو ادب اور تصوف کی وجہ سے بھی مشہور تھا۔ محمد قاسم خان دُلی کشمیر کے مائیہ ناز شعرا میں شمار ہوتے تھے اور اُن کے والد سائیں بقا محمد مشہور صوفی بزرگ اورمترجمہ تھے۔
جناب عبدالقیوم خان نیازی اپنے قبیلے کے عمدہ اور تاریخی روایات کے امین ہیں اور خود بھی ایک باکردار شخصیت کے حامل ہیں۔ آزادکشمیر میں تین دھائیوں سے کرپٹ، بلیک لیبل اور ٹن سیاسی کلچر کے عادی عوام و خواص کے لیے ایک نیک چلن اور باکردار شخص کا صاحب اقتدار ہونا یقینا باعث حیرت ہے۔ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح پاکستان تحریک انصاف بھی فرشتوں اور ولیوں کی جماعت نہیں بلکہ کرپشن، بد عہدی اور بے مروتی میں سب سے آگے ہے۔ جناب عبدالقیوم نیازی کے سر پر گنڈا پور کا گنڈاسا لہراتا رہا تو شاید وہ بھی ناکام ہو جائیں۔ بیرسٹر سلطان محمود نے صدارت کا عہدہ قبول کر بھی لیا تو وہ سازشوں سے ہرگزباز نہیں آینگے اور پیپلز پارٹی سے ملکر کر کوئی نہ کوئی گل ضرور کھلاینگے۔ تنو یر الیاس کا باغ بریگیڈ بھی آرام سے نہ بیٹھے گا اور سردار قمر زمان کے ملدیال لشکر کے ساتھ ملک کر سردار عبدالقیوم نیازی کے لیے مشکلات پید ا کریگا۔ کرپٹ بیورو کریسی بھی ایک شریف النفس وزیراعظم کے خلاف محاز آرئی سے باز نہ آئے گی۔ تھانوں اور پٹوار خانوں سے ہی تو سیاستدانوں کو عیاشیوں اور بدمعاشیاں قائم ہیں جس کا خاتمہ فی الحال ممکن نہیں۔ مستنصر حسین تارڑ نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ تین مرغابیوں کا خوشی سے کوئی تعلق نہیں مگر آزادکشمیر کے عوام نے سردار عبدالقیوم خان نیازی کی کامیابی پر جوجشن منایا ہے اس کاتعلق کسی نہ کسی مرغابی سے ضروری ہے۔ یقینا اس مرغابی کا تعلق تارڑ کی تین مرغابیوں سے نہیں بلکہ منگلا ڈیم کی مر غابی سے ہے۔میرپور کے جاٹ راجپوت اس خوشی میں شریک کیوں نہیں ہوئے یہ حیرت کی بات ہے۔
کہ خوشی سے مر نہ جاتے
