Tarjuman-e-Mashriq

تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں

فقیر اللہ کا راز ہے اللہ کا امر ہے اس لیئے فقیر بننے یا اس خواہش کی تکمیل کے لیئے تگ و دو کرنے والا  ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ میں بغیر پروں کے اڑوں گا۔ اللہ نے جس کو کوئی اعلی مقام دینا ہوتا ہے اس کے کسی عمل یا کردار کی وجہ سے نہیں دیتا بلکہ اللہ کی رحمت کا یہ فیصلہ اس کے ارادہ ازلی میں شامل ہوتا ہے۔ اس لیئے فقیری کی خواہش رکھ کر اچھا عمل اور کام اگر آپ کسی خواہش کی تکمیل کے لیئے کر رہے ہیں تو آپ کی یہ خواہش پوری نہ ہونے کی صورت میں نفس کی  اکتاہٹ کا شکار ہو کر آپ محبت کی راہ سے ہٹ کر گمراہی کا شکار ہو سکتے ہیں ۔ ہم گمراہی کا شکار کیونکر ہو سکتے ہیں ؟ اور کس راہ سے گمراہ ہو سکتے ہیں اس کے لیئے دیکھنا یہ ہے کہ سیدھی راہ ہے کونسی؟ 

 راہ ہے کیا جس سے ہم گمراہ ہوسکتے ہیں ؟ ہم پانچ وقت کی نماز میں اللہ سے سورہ فاتحہ میں دعا مانگتے ہیں کہ اے اللہ ہمیں سیدھی راہ پہ چلا ۔ان لوگوں کی راہ پہ جن پہ تو نے انعام فرمایا۔ اب انعام یافتہ ہیں کون ؟ سورہ النساء آیت ۶۹ میں ارشاد باری تعالی ہے ” اور جواللہ  اور رسول کی اطاعت کرے تو وہ ان لوگوں  کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ  نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ کتنے اچھے ساتھی ہیں ”۔  

اللہ سے محبت اللہ کا انعام ہے جوکہ اللہ نے بطور  انعام اپنے بندوں پہ کیا ہوتا ہے اور وہ انبیا ، صدیقین ، شہدا اور صالحین کی صورت ہم میں موجود رہے ہیں محبت والے لوگ وہ ہیں جنہوں نے اختیاری طور پہ انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین کے منصب کو نہیں چنا اور نہ ہی اس کی طلب رکھی وہ بس اللہ کی محبت میں گم لوگ تھے۔ محبت اللہ کا انتہائی مکرم و مقدم ترین انعام ہے اس کی ظاہری شکل ماں کی اولاد سے محبت ہے ماں سے پوچھو کہ وہ اپنی اولاد سے کیوں محبت کرتی ہے جان تک سے گزر جاتی ہے اولاد کے لیئے ، تو اس کے پاس اس شدت محبت کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔ اس کی محبت ماں کے منصب پہ فائز ہونے یا فائز رہنے کے لیئے نہیں ہوتی۔ اگر یہ شرط رکھ دی جائے کہ پہلے اولاد محبت ثابت کرو پھر ماں بنائیں گے تو ماں بننے میں کوئی بھی عورت کامیاب نہ ہو۔ رب کریم نے یہ محبت عورت کے دل میں اولاد کی درست پرورش کے لیئے ماں کے دل میں اولاد کے لیئے اولاد کے آنے سے پہلے ہی رکھ رکھ دی ہوتی ہے مجنوں، مجنوں کے منصب پہ فائز ہونے کے لئیے لیلی سے محبت نہیں کر رہا وہ تو بس محبت کر رہا تھا اگر وہ لیلی سے اختیاری طور پہ محبت کو اس لیئے اختیار کرتا کہ رہتی دنیا تک اس کا نام عشق کی داستانوں میں رہے گا تو وہ بہت جلد اپنی محبت سے بدظن ہوجاتا اور لیلی اس کے خیال تک میں نہ رہتی۔ محبت اللہ کا انعام ہے اللہ کریم سورہ انفعال آیت ۶۳ میں ارشارد فرماتا ہے  ,” اور اس نے مسلمانوں  کے دلوں  میں  الفت پیدا کردی۔ اگر تم زمین میں  جو کچھ ہے سب خرچ کردیتے تب بھی ان کے دلوں  میں  الفت پیدا نہ کرسکتے تھے لیکن اللہ  نے ان کے دلوں  کو ملادیا، بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ”.

اور اگر آپ کسی منصب پہ فائز ہونے کے لیئےمحبت کو اختیار کریں گے تو منصب نہ ملنے کی صورت میں آپ صراط مستقیم سے بھی گمراہ ہونے کے خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ آپ اپنی واجبی عبادات سے بھی جائیں یہ سوچ کر کہ 

جو مری ریاضت نیم شب کو سلیمؔ صبح نہ مل سکی 

تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے 

 اس لیئے کہ کسی مقام یعنی فقیری کی لالچ میں کی گئی عبادت اور ریاضت اور بے غرض محبت میں زمیں آسمان کا فرق ہے کہ محبت ذوق و شوق کو بڑھاتی ہے جبکہ کسی منصب کا متلاشی تھکاوٹ اور اکتاہٹ کا شکار ہو کے راہ گم کر دیتاہے مایوس ہو جاتا ہے شیطان کو اس کا منصب ہی تو لے ڈوبا تھا اگر وہ عشق کی راہ کا مسافر ہوتا تو منصب کے غرور میں حکم عدولی نہ کرتا حکم کی تکمیل کے لیئے منصب تو کیا جان تک نچھاور کرنے سے گریز نہ کرتا ، جبکہ اللہ کی محبت میں اللہ کریم کے بندوں نے جانیں تک ہنستے کھیلتے نچھاور کیں ہیں اور یہی انسانیت کی عظمت کی نشانی ہے۔ 

عشرت خلد کے لیے زاہد کج نظر جھکے 

مشرب عشق میں تو یہ جرم ہے بندگی نہیں 

تیرے سوا کروں پسند کیا تری کائنات میں 

دونوں جہاں کی نعمتیں قیمت بندگی نہیں

 مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آپ اللہ کی راہ میں جد و جہد چھوڑ دیں کہ اللہ کی راہ میں سعی کرنے اور قرب پانے کے لیئے کوشش کرنے والے سے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ اسے نوازا جائے گا۔ ”اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھادیں گے اور بےشک اللہ نیکوں کے ساتھ ہے”۔ سورہ کہف آیت ۶۹

 اب رب کس کو کس چیز سے نوازتا ہے یہ فیصلہ رب پہ چھوڑ دینا چاہیے کہ “جو کرتا اللہ کرتا ہے اور اللہ جو کرتا ہے بہترین کرتا ہے“  اللہ کی راہ تسلیم و رضا والوں کی راہ ہے اس کی راہ میں گم ہو جانے والوں کی راہ ہے رب کی راہ میں فنا ہونے والے کو اس عارضی دنیا میں ایک دن کے قیام کے دوران کسی مقام سے قطعاً کوئی غرض نہیں ہوتی وہ تو بس سراپا محبت کا عنوان ہوتا ہے اور محبت ہی بانٹتا پھرتا ہے اور محبت میں ہی گم ہوتا ہے تاریخ گواہ ہے کہ اللہ کے کسی دوست نے کبھی فقیری کا دعوی نہیں کیا بس اپنی ذات کو کمترین گنا اور اللہ کی ذات کو اعلی ترین جانا اپنے سے ذیادہ دوسروں کو مکرم و محترم جانا اور ہر  چہرے میں رخ یار ہی دیکھا اور ہر ایک کی عزت و تعظیم ہی کرتے رہے اور ہر ملنے والے کو اپنے عمل سے یہ احساس دلاتے رہے کہ وہ ملنے والا ان سے بہتر ہے ۔محبت کی راہ میں علم لدنی سے مزین ذات حضرت خضر علیہ سلام سے بھی اس راہ محبت کے مسافروں نے اعراض ہی کیا ہے کہ کہیں نگاہ میں کوئی اور عکس نہ ٹہر جائے ۔ عام انسان فقیر کی زندگی کا شاید ایک لمحہ بھی نہ گزار سکے اور پھٹ جائے جل کر بھسم ہو جائے مگر جب اللہ کا امر عمل میں آتا ہے تو عام انسان آگ میں سے نہ صرف گزرتا ہے بلکہ آگ میں مستقل رہ کر بھی محفوظ و ماموں ہوتا ہے کہ مصائب و آفات  دنیا کو نار ابراہیمی کی طرح حکم ہو جاتا ہے کہ اے آگ ٹھنڈی اور سلامتی ہو جا۔ اللہ پاک سے اہل ایماں ہی شدت سے محبت کر سکتے ہیں اور کامل ایمان کے لئے شہنشاہ دو جہاں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کائنات کی ہر شے سے بڑھ کر جب تک نہ ہو کامل ایمان کا تصور بھی ناممکن ہے اور کامل ایمان شدت عشق کی بنیاد رکھتا ہے کامل ایمان اللہ کی دوستی کی خلعت فاخرہ پہناتا ہے وہ بھی رب کی مرضی ہے کہ وہ ایسا چاہے یا نہ چاہے ۔ اہل محبت اپنی آخری سانسوں سے ماورا بھی بحر محبت سے باہر نہیں نکلتے کہ ان کی سانس بحر محبت سے نکلتے ہی مچھلی کی مانند رک جاتی ہے اور نزع کا عالم شروع ہو جاتا ہے اور کای انسان کی بحر محبت کی چاہ اور قرب حق سے محبت بھی کسی ارادہ ازلی ہی کا نتیجہ ہے ۔ 

ایک بندہ مسجد میں انتہائی ذوق و شوق سے دعا مانگ رہا تھا اور دنیاوی معاملات کی ایک پوری لسٹ تھی جو مانگ رہا فرشتہ حاضر ہو اور بولا کیا چایئے اس نے زوق و شوق سے پوری لسٹ گنوا دی۔ فرشتہ بولا ٹھیک ہے میں اللہ سے جا کر کہوں گا تیرا بندہ تیرے سوا ہر چیز مانگ رہا تھا  

بس ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اللہ کو چھوڑ کر منصب اور جاہ و حشمت تک ہر وہ چیز مانگتے ہیں جو کہ اللہ سے دوری کا سبب بھی بن سکتی ہیں مگر ہم اللہ سے پانچ وقت کی نماز میں مانگی جانے والی دعا حقیقی معنوں میں دل سے نہیں مانگتے کہ اے اللہ ہمیں صراط مستقیم پہ چلا انعام کیئے گے لوگوں کی راہ پہ، محبت کی راہ پہ ۔ اللہ سے اللہ کی محبت مانگیں اور یہی مانگنے کی چیز ہے 

 حضرت واصف علی واصف رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ کریم  سے شہنشاہ دو جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت مانگیں اور دربار رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اللہ کریم کی محبت مانگیں ۔ اور یہی مانگے جانے کے قابل دعا ہے اور یہی انعام یافتہ بندوں کی راہ ہے اور اس دعا کی قبولیت اور محبت کے انعام کے عطا کے بعد بھی اللہ کی جانب سے منصب کے عطا کے بعد بھی یہ گمان اور یقین رکھنا لازم و ملزوم ہے کہ سب کچھ اللہ کی مرضی اور اس کی عطا ہے کہ ہمارا صراط مستقیم پہ چلنے کا ارادہ بھی کسی بڑے کے ارادے کا متیجہ ہے – ساری بات ایک بات پہ جا کے ختم ہوتی ہے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیئے ہیں

Exit mobile version