Tarjuman-e-Mashriq

پہاڑ باتیں کرتے ہیں – 4

پہاڑ بھی باتیں کرتے ہیں

تولوز ایئرپورٹ  سے نکلے تو ٹھنڈ نے اپنی آغوش میں لے لیا ، گہری دھند اور   ہوا کے سرد جھونکے ، ایک جان لیوا  امتزاج تھا .  سوزی اور کلوئی  کا سامان گم کر کے ان  کی لٹیا تو  ایزی جیٹ نامی  ہوائی کمپنی نے ڈبو دی تھی اور باقی لوگ نیند سے نڈھال تھے . میرے پاس  تھوڑا سا سامان تھا ، مجھے نہ تو سکینگ آتی تھی اور نہ ہی میرے پاس کوئی اضافی سامان تھا  اس لیے میں نے اپنا رک سیک اٹھایا اور سیدھا کوچ کی طرف بھاگا . ہماری سیٹیں  ریزرو تھیں  کوچ کے اندر ہیٹر چل رہا تھا . میں نے اپنا کونا تھاما اور جھٹ سے سو گیا  

میں کوئی  دو  یا تین  گھنٹے  سویا ہونگا جب میری آنکھ کھلی  تو میرا  چہرہ کوچ کی کھڑکی کے شیشے سے چپکا ہوا تھا .    میرے ساتھ والی سیٹ پر ڈین بیٹھا تھا  اور کچھ حساب کتاب کر رہا تھا .  میں نے آنکھوں کو ملتے ہوئے جب باہر  دیکھا تو   میرے سیدھے ہاتھ ایک گہری کھائی تھی اور سامنے پہاڑ برف سے   ڈھکے تھے  

 ایک لمحے کے لیے لگا کہ میں بابو سر ٹاپ پر ہوں ، تھوڑا سر کو جھٹکا  دیا اور پھر حیرت زدہ  آنکھوں سے اس خوبصورتی  کو اپنے ذہن کے  خالی کینوس پر   منعکس کیا تو محسوس ہوا کہ میں علی آباد سے درہ حاجی پیر کی طرف سفر کر رہا ہوں ، مجھے   انتظار تھا کہ ابھی میرے سامنے با با حاجی پیر کا مزار آئے گا ، ایک فوجی چوکی سامنے ہو گی، نو گزی پہاڑ کے دامن میں گاڑی رکے گی اور میں  حاجی پیر ویو پوا ئنٹ  سے   سامنے  فرید رج دیکھوں گا، میری پشت میں  علی آباد کا صحت افزا مقام ہوگا   اور پھر زوزردار بارش ہو گی اور میں بھاگ کر  اسی فوجی چوکی میں پناہ لوں گا جہاں کچھ جوان  ایک بڑے سےبرتن  میں چائے  بنا رہے ہونگے اور   میں ان کے ساتھ  دنیا کی سب سے  لذیذ چائے  پیوں گا  مگر نہیں میں    فرانس کی سرحد  پار کر رہا تھا اور میرے سامنے  گھاٹیوں والی ریاست انڈورا تھی .  میں  پچھلے دو تین گھنٹے سے سو رہا تھا  اور  اس تمام وقت میں باہر کا لینڈ سکیپ  بلکل بدل گیا 

سرحد عبور کر نا  خود میں ایک تجربہ ہوتا ہے .  زمین کی چھاتی پر انسان کے کھینچے  ہوئے خط ، وہ لکیریں  جو  عبور کرتے ہی سب کچھ بدل جاتا ہے ، سب کچھ نیا نیا لگتا ہے .  سرحدی علاقوں میں رہنے والے لوگ اس تبدیلی سے سب سے زیادہ واقف اور متاثر ہوتے ہیں .  انسان نے دنیا  کو   بانٹا اور یہ تقسیم کا عمل  اس نے تسخیر کے ذریعے کیا . انسانی  سوچ  کے کئی قطب ہوتے ہیں ، جو جس سمت کا سفرکرتا ہے وہ  وہاں پہنچ جاتا ہے مگر اس کے لیے ارادہ ، ہمت  اور  رضائے ربی پر  غیر متزلزل ایمان و یقین ضروری ہے 

ہم سرحد پار کر رہے تھے ، بادل بہت پاس پاس نظر  آرہے تھے ، بارش ابھی ابھی تھمی تھی اور سب کچھ اجلا اجلا سا تھا . نا جانے کیوں انڈورا میں  داخل ہوتے ہی کانوں میں  عجیب عجیب سی دھنیں بج رہی تھیں ، ہوا   سرگوشیاں کر رہی تھی  اور لگتا تھا  کسی وادی   میں  کوئی حسینہ  کہہ  رہی ہے 

یہ وادیاں یہ پربتوں کی شہزادیاں

پوچھتی ہیں کب بنے گی تو دلہن

میں کہوں جب آئیں گے میرے سجن

میرے سجن چلا بھی آ ، چلا بھی آ

اس سرحد کی کو کھ سے ایک  نئی تہذیب جنم لے رہی تھی ہم اب کیتلونیا میں تھے . انڈورا اور سپین کا    بارسلونا   ایک قدیم تہذیب  کا تاج اپنے سر پر سجانے   کا امتیاز رکھتے ہے  . جیسے انسانوں کی کہانیاں ہوتی ہیں ویسے ہی ملکوں کی بھی  داستانیں ہوتی ہیں کیونکہ یہ ملک ان انسانوں نے ہی آباد کیے اور پھر وہ اس بڑی تصویر کا حصہ ہوتے ہیں جسے ہم معاشرت کہتے ہیں     

muhammadasharphotography

مجھے اپنے کانوں میں  مانوس سی آوازیں سنائی دے رہی تھیں اور میرے  چہرے پر مسکراہٹ تھی . ڈین نے میری طرف دیکھا اور بولا ” آر یو او کے ؟” میں نے اس کو کوئی جواب نہ دیا . ڈین ہمارا  کلاس فیلو تھا مگر   اسے یونیورسٹی والے میچیور  سٹوڈنٹ  کہتے تھے کیونکہ  ڈین عمر کے اس حصے میں تعلیم حاصل کرنے واپس یونیورسٹی آیا تھا جب لوگ  ریٹائرمنٹ کی تیاری کرتے ہیں . اس میچیور شخص نے پھر سے  مجھ سے پوچھا کہ میں ہنس کیوں رہا ہوں . میں نے  جواب دیا  ،پہاڑ مجھ سے باتیں کر رہے ہیں . ڈین بولا ،کیا خرافات بکتے ہو ، پہاڑ کیسے بات کر سکتے ہیں  ؟پہاڑ باتیں کرتے ہیں ڈین ، میں نے وضاحت کی  ، پہاڑ آپ سے مخاطب ہوتے ہیں اور جب تک آپ کو ان پہاڑوں سے پیار نہ ہو آپ کو ان کی آواز سنائی نہیں دیتی. میرے ساتھ   بھی پہاڑ باتیں کرتے ہیں جیسے عمران مہدی  سے کرتے تھے . وہ کون ہے ؟ ڈین نے پوچھا!   عمران کا بلتستان   سے تعلق تھا مگر میری اس کی ملاقات میرپور میں ہوئی تھی . گورنمنٹ کا لج میرپور کے نیو ہاسٹل کا     میں  اکیلا  رہائشی تھا  جس کے مہمان بہت آتے تھے .  ان مہمانوں میں اکثر وہ لوگ ہوتے جو آج تک  میری  علمی میراث کا حصہ ہیں .   عمران مہدی خپلو کا رہنے والا تھا ، میں نے جب پہلی بار عمران کو دیکھا تو اس کے ہاتھ میں فیض صاحب کی نسخہ وفا  تھا  اور وہ  لفظ پولو کا مطلب میرےایک پہاڑی بھائی کو سمجھا رہا تھا . عمران  بلتی زبان بولتا تھا اور میرپور میں پہاڑی زبان بولی جاتی تھی اس لیے عمران کی اردو  بھی یہاں کے مقامی طلباء کے لیے سمجھ سے باہر تھی کیونکہ وہ اردو بھی بہت اچھی بولتا تھا . عمران کے ساتھ تین سال  گزرے  اور  ان تین سالوں میں بہت بار عمران نے اپنی آنکھوں سے مجھے بلتستان دکھایا . بہت بار  ساتھ چلنے کو کہا مگر  مجھے فرصت نہ ملی مگر جب بھی عمران اپنے بلتستان کو یاد کرتا تو لگتا کہ  رسول حمزہ توف  اپنے داغستان کے پہاڑوں سے مخاطب ہے اور کہہ رہا ہے  

” سوچوں اور خیالوں کے آسمانوں سے آگے

برفانی چوٹیوں اور اتھاہ سمندروں سے پرے

سچ کی آبادی میں

دل کی آنکھ سے

دیکھتا ہوں

وہ سامنے میرا داغستان ہے

میری محبت کا اہرام

میری زندگی کا ورقہ

جہاں میری ماں رہتی ہے

ایک پرانے کمرے میں

میں اس کمرے کی اینٹ ہوں

یہ اینٹ اس وقت تک قائم رہے گی

جب  تک میرا داغستان قائم رہے گا

میرے محبت کا نشان ”  ( نظم  محبت ، ترجمہ  حنیف چوہدری   )

muhammadasharphotography

عمران مہدی  کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا اب وہ   سرمو  ، خپلو میں رہتا ہے اور  یہاں کسی تعلیمی ادارے میں پڑھاتا  ہے . میرا جواب سن کر ڈین  نے پوچھا  ”   بلتستان کدھر ہے  ؟ خپلو اور  سرمو کدھر ہیں ؟”  میرے پاس اس کے کئی سوالات کا ایک جواب تھا جس نے اسے لا جواب کر دیا  . میں نے ڈین کو بتایا کہ عمران کا وطن کے ٹو اور براڈ پیک   والا حسین خطہ جنت ارضی ہے. ڈین ٹھوڑی دیر خاموش رہا اور بولا ” راجہ  تم ٹھیک کہتے ہو   اگر میں کے ٹو کے دامن میں رہتا اور بلتستان میرا وطن ہوتا تو  تو پہاڑ مجھ سے بھی  باتیں کرتے” . ڈین نے مجھے بتایا کہ اس کی بڑی خواہش تھی کہ وہ کبھی کے ٹو سر کرتا، ڈین نے پھر سے اپنی کاپی کھولی اور حساب کتاب میں لگ گیا اور میں   پہاڑوں  کی  باتیں سنتا رہا  اور یہ  سفر جاری رہا

—–جاری ہے ——

Exit mobile version