تحریر: طاہرہ ناصر
میں ایک عورت کو جانتی ہوں ۔۔ذرا میرے جملے پر غور کیجیے ۔ میں نے لفظ ” عورت ” کہا ہے ۔ میں نے ماں ،بہن ، بیٹی یا بیوی جیسے رشتوں کی بات نہیں کی ہے ۔ کیوں کہ یہ تو رشتے ہیں ۔ اصل کام تو عورت ہی کرتی ہے ۔ خود کو ہر روپ میں ڈھال کر اسے ثابت کرنے میں جُٹ جاتی ہے ۔اسی لیے قرآن میں پوری سورہ ” النساء ” کے نام سے ہے ۔ ۔اس لیے کیوں کہ عورت خدا کی بہترین تخلیق ہے ۔اسے اپنی اس تخلیق پر ناز ہے تب ہی تو اس تخلیق کی کوکھ سے ساری دنیا کے
مردو زن جنم لیتے ہیں اور اس کی اہلیت اور قابلیت پر سوال اٹھاتے ہیں ۔اس کےکردار کی دھجیاں بکھیرتے ہیں ۔
لیکن میں جس عورت کو جانتی ہوں وہ بہت عجیب عورت ہے ۔ اس کا صبر اور اس کی ہمت دیکھ کر مجھے جب سڑک پر اپنے حقوق کے لیے ناچتی گاتی حدود سے تجاوز کرتی بدحال عورتیں نظر آتی ہیں ،تب میں سوچتی ہوں کہ یہ کیسی عورت ہے جس نے پہلے اپنے باپ کو کینسر سے لڑتے اور اس سے زندگی ہارتے دیکھا ،پھر اپنے جواں سال بھائی کو موت کی آغوش میں جاتے دیکھا ۔ یہ کیسی عورت ہے جو بھری جوانی میں بیوہ ہوئی تو سب سے چھوٹی بیٹی ایک سال کی تھی ۔
تین بچوں جن میں ایک بڑی بیٹی جو لگ بھگ اس وقت کچھ نہیں تو شایدسات آٹھ سال کی ہوگی ،اکلوتا بیٹا تین سال کا اور سب سے چھوٹی ایک سال کی۔معصوم جانیں کیا جانیں کہ کتنا بڑا نقصان ہو گیا ہے ۔ پر وہ جانتی تھی کہ گو کہ نقصان کی بھرپائی ممکن نہیں لیکن ان تین معصوموں کی زندگیاں خدا نے میرے حوالے کی ہیں
کیوں کہ میں ایک عورت ہوں ۔

وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔ اپنے دل کا درد بھلا کر چہرے پر مسکان سجا کر اس نے میڈیکل کی دنیا میں اپنے قدم جمائے ۔ اکلوتا صاحب زادہ سارے خاندان کا لاڈلا اسکول داخل کر وا دیا گیا ۔ بیٹیاں کب عاجز کرتی ہیں لیکن یہ تو ابنِ آدم ہے جسے کسی پل چین نہیں اور وہ ان ہی میں سے تھا ۔ سیماب فطرت اور چلبلا ۔ دیکھنے میں بظاہر نازک مزاج پر شرارتوں میں الامان الحفیظ ۔ مونس مشتاق !
جونیئر سیکشن پہنچا تو اس کی شرارتوں کے چرچے طشت از بام ہوئے ۔ گھر کا واحدچشم و چراغ ہمہ وقت ہیڈ مسٹریس کے دفتر کے سامنے پایا جاتا ۔ عموما ً اس کی غلطی ہوتی بھی نہیں تھی ۔ دو لڑکوں میں لڑائی ہوئی اور یہ محترم کود پڑے کہ ان میں سے ایک ان کا دوست تھا ۔ اب وہ دونوں تو الگ ہو گئے لیکن یہ ماتھے پر نیل کا نشان سجائے بڑے فخر سے ماں کا دل دہلانے کا سامان کیے گھر پہنچتے تھے ۔کیوں کہ یاروں کایار تھا ۔
اب وہ پتلا دبلا ،لمبا ہوتا چلا جارہا تھا ۔ دودھیا رنگت اور گھنگھریالے بال پھر چہرے پر پھیلی شرارتی سی مسکان ۔اس کے شناخت کے لیے یہ نشانیاں کافی تھیں ۔ میرے تدریسی سال کے ابتدائی دن تھے ۔ اور اس کی حرکتیں مجھے باور کرارہی تھیں کہ مجھے یہ ٹف ٹائم دینے والا ہے ۔نچلا بیٹھنا اسے آتا ہی نہیں تھا لیکن بلا کا ذہین تھا۔
چوٹیں کھانا اس کے لیے معمول کی بات تھی ۔ ایک بار فریکچر کے ساتھ آیا تو میں نے ہول کر پو چھا
” مونس ! یہ کیا ہوا ؟
”وہ چھت سے گر گیا تھا ”
کیسے ؟
” چھلانگ ماری تھی تو نیچے سریے پڑے تھے ۔ اطمینان سے جواب آیا
تمھیں کچھ احساس ہے کہ تمھارے گھر والوں کو کتنی تکلیف ہوئی ہوگی ۔گھر میں کوئی نہیں تھا جو تمھیں روکتا ؟ کوئی انسانوں والے کام بھی آتے ہیں ؟ ” میں نے چبا چبا کر کہا
ارے ٹیچر ! کچھ نہیں ہوا ۔ دادا تھے ۔لیکن انھیں دکھائی نہیں دیتا نا ! اس کی شرارت بھری نظر مجھے بھلائے نہیں بھولتی ۔تکلیف کا شائبہ تک اس کے چہرے پر ڈھونڈنے سے نہیں ملتا تھا ۔
وہ کبھی ایک پیر پر کھڑا ہوتا کبھی دوسرے پر ۔ صاف ظاہر تھا کہ میرے لیکچر سے بور ہورہا تھا اور جان چھڑانا چاہتا تھا ۔
جس عورت کا میں نے ذکر آغاز میں کیا وہ اسی بچے کی ماں تھی ۔ اس کی شرارتوں سے سخت عاجز ۔ پیرنٹس ٹیچنگ میٹنگ میں اکثر روتی ہوئی گھر آتی کہ بیٹیوں کی طرف سے سب اچھا ہے کی رپورٹ ملتی ہے یہ پتا نہیں کیا کرے گا ۔
پر اس عورت کو کیا پتا تھا کہ وہ کیا کر جائے گا ۔ وہ ایک شیرنی کی طرح اسے پال رہی تھی ۔ وہ کہتی تھی کہ سب کے بچے بڑے ہوگئے یہ پتا نہیں کب بڑا ہوگا ۔ میں تو اسے نظروں ہی نظروں میں بڑا ہوتے دیکھتی رہتی ہوں ۔سارے خاندان کا لاڈلا ،بہنوں کا پیارا ،خالہ کا عزیز بھانجا ،چچاوں کا دوست بھتیجا ماں کو امتحان میں ڈال گیا
” مجھے فوج میں جانا ہے ”

اس عورت کا دل دہل گیا ۔ اپنی نظروں سے اسے ایک پل دور رکھنا گوارا نہیں تھا یہاں وہ اس شعبے میں جانے کی بات کر رہا تھا جہاں یا تو غازی یا شہید ۔۔۔
” نہیں ! سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ تم آئی بی اے میں داخلہ لو اور وہیں پڑھو ” اس عورت نے صاف انکار کر دیا ۔ٹھیک ہی تو کہا تھا ۔ اکلوتا چشم و چراغ اور فرمائش بھی ایسی جو کلیجہ چیر دے ۔
میں دونوں جگہ اپلائی کروں گا ۔ اگر دونوں میں نام آگیا تو؟؟؟؟ اس کی بھی اپنی ہی ضد تھی
تو جیسا تم چاہو گے ۔ اس عورت نے ہتھیار ڈال دیے ۔
خدا کو مونس کی ادا زیادہ بھاگئی ۔ عورت کے ابھی کئی امتحان باقی تھے ۔ وہ ٹیسٹ میں پاس ہو گیا ۔اور اسے فوج میں منتخب کر لیا گیا ۔PMA کے گیٹ پر جب وہ اسے چھوڑنے گئی تو اپنا دل بھی جیسے وہیں چھوڑ آئی ۔
ایک بیٹی کی شادی کے فرض سے سبکدوش ہو چکی تھی ۔ ابھی عید سے پہلے وہ اپنی پہلی تربیت کامیابی سے مکمل کر کے گھر کو لوٹا تو گھر پہنچ کر بتایا کہ ائر پورٹ پر اسے الٹی ہوئی ہے ۔ ماں نے سرزنش کی ” سب کے سامنے قے کرتے ہوئے شرم نہیں آئی ”
” لو الٹی آگئی تو آگئی ۔اب جہاں آئے گی وہیں کروں گا نا ”
سب نے سمجھا کہ سفر اور سخت تربیت کی وجہ سے طبیعت میں گرانی ہے ۔لیکن اس عورت کا دل ایک انجان دھڑکے سے لرز رہا تھا ۔ ڈاکٹر کے کہنے کے باوجودوہ اسکین کروانے پر آمادہ نہ ہوئی۔
لیکن اسے اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔ اسکین کی رپورٹ نے اس کی دنیا تہہ و بالا کر دی ۔وہ مجاہد معدے کے کینسر میں مبتلا تھا ۔ 21 سال کا ہنستا کھیلتا نوجوان ایک ایسے موذی مرض کا شکار تھا جو انتہائی خطرناک اسٹیج پر تھا ۔

اللہ تعالیٰ کی جو چنیدہ بندے ہوتے ہیں نا وہ ہی ان تمام ازمائشوں سے گزرتے ہیں ۔ مونس کی خالہ بتاتی ہیں کہ تربیت سے واپسی پر اس کے پیروں کے چھالے ان سے دیکھے نہیں جاتے تھے اور وہ ایسا ظاہر کرتا تھا کہ ” ابے یار آنی کچھ بھی نہیں ہے ۔” جب کہ وہ بے چاری ممتا کی ماری اس کے پیروں پر مرہم لگائے جائے کہ اسے کسی طرح آرام آجائے ۔
ہم اساتذہ پر یہ خبر بجلی بن کر گری اور اس عورت نے دعا کی اپیل کی ۔ آگہی بہت بڑا عذاب ہوتی ہے ۔ ڈاکٹر تھی نا ۔ جانتی تھی کہ کیا ہونے والا ہے ۔
اس کی کیمو شروع ہوئی تو لوگوں کے بال جھڑ جاتے ہیں وہ گھنی داڑھی اور گھنے بالوں کے ساتھ ایک انتہائی وجیہہ شخص کے روپ میں سامنے آیا ۔ کسی جاننے والی نے کہا ” مونس تم پر یہ داڑھی بہت جچتی ہے ” تو پتا ہے کیا جواب دیا گیا
” ارے معاف کر دیں ! میں بہت جلد اسے شیو کر لوں گا ۔ گھر سے باہر نکلتا ہوں تو لوگ ہاتھ چومتے ہیں کہ شیخ صاحب ہمارے لیے دعا کیجیے ”’
اپریل ، مئی ، جون ، جولائی ۔۔۔۔۔۔۔۔اگست کا مہینہ آن پہنچا ۔ تکلیف کی شدت بڑھ گئی تھی ۔ ڈاکٹر مایوس ہو گئے تھے ۔ وہ عورت ایک ہی بات کہتی تھی کہ میرا بیٹا بس یہ ہی کہتا ہے ” الحمداللہ ! تو بس میں اللہ کی رضا میں راضی ہوں ۔
ایک دن کا واقعہ سناتی ہیں کہ مجھے دیکھ کر کہنے لگا ” آپ رو رہی تھیں ”
میں بولی ! نہیں یار تھک گئی ہوں ۔

” ہاں ۔آخر آپ بھی تو انسان ہیں نا ” اس نے جواب دیا ۔ خالہ کے گھر سے اپنے گھر جانے کی خواہش کا اظہار کیا ۔
اسے اپنے گھر شفٹ کر دیا گیا ۔ ڈاکٹر کے کہنے کے باوجود خوراک کی نالی نہیں لگوائی ۔ خالہ سے کہا ” یار! حضرت ایوب کا بھی کیا صبر ہو گا نا ۔مجھے ان کی دعا سکھا دیں ” خالہ نے دعا پڑھی اس نے دہرائی ۔ مجال ہے ایک مرتبہ بھی کہا ہو کہ مجھے درد ہو رہا ہے ۔یا میں کس کرب سے گزر رہا ہوں ۔
گن ،رائفل کلاشنکوف ہر طرح کا اسلحہ اس کی کمزوری تھا ۔اسی لیے اس نے فوج کے شعبے کا انتخاب کیا ۔۔۔نہیں نہیں ایسا بالکل نہیں تھا ۔ اس کی PMA جانے سے پہلے یہ دعا تھی
”اے زمین و آسمان کے بنانے والے ۔۔میں التجا کرتا ہوں
میری اس مشکل کو آسان بنادے
تو ہی دونوں جہانوں کا مالک ہے
تو ہی راستے اور منزل کو آسان بنانے والا ہے
اس مشکل کو آسانی میں بدل دے
مجھے کسی تاج و تخت کی تمنا نہیں ہے
میں تیرے نام کی لاج رکھنے نکلا ہوں
اور تیرے نام کی سر بلندی ہی میرا مقصد ہے
اے خدا! اگر میں بھٹک جاؤں تو میری مدد فرمانا
اے میرے پروردگار ! مجھے بھٹکے ہوئے لوگوں کے راستے سے بچانا
اور دنیا کے شر اور آفتوں سے محفوظ فرما
شیطان کی پیروی سے بچا
اور ذلت کی زندگی سے میری حفاظت فرما
اور اللہ !
مجھے حق اور سچ کے راستے میں شہادت کی موت عطا فرما
وہ عورت کہتی ہے کہ اس کی دعا خدا نے قبول کر لی ۔ اسے شہید کا درجہ مل گیا ۔ 24 اگست کی سہہ پہر وہ اپنی ماں ،اور دو بہنوں کو ہی نہیں بلکہ پوری قوم کو افسردہ کر گیا ۔ وہ چلا گیا ۔ اسے پورے فوجی اعزاز کے ساتھ اپنی مٹی کے سپرد کیا گیا ۔

وہ عورت عام عورت نہیں ہے ۔ وہ بہت خاص ہے ۔ وہ اپنے جوان سال بیٹے کی شہادت پر پورے مان کے ساتھ آنے والے مہمانوں سے اس کی باتیں کرتی تھکتی نظر نہیں آرہی تھی ۔ اس کے چہرے پر ایک وقار ایک غرور تھا ۔ شہید کی ماں کا غرور ۔ ایک ایسے بیٹے کی ماں کا جس کی اس نے اکیلے تربیت کی تھی ۔ جس کی صحت یابی کے لیے ہزاروں لوگ دعا گو تھے ۔ جس کی موت نے غیروں کو بھی رلا دیا تھا ۔ اس نےمجھے اس کے اتنے قصے سنائے کہ شاید ساری زندگی بھی بولتی رہے تو وقت ختم ہوجائے لیکن مونس کے لیے اس کی باتیں ختم نہ ہوں ۔

یہ ہوتی ہے اصل عورت ۔ یہ ہے خدا کی تخلیق۔ یہ ہے اس کا اصل مقام ۔ کون ہیں وہ جو سڑکوں پر اپنے حقوق کا رونا روتی ہیں ۔ جنھیں دنیا جہان کی نعمتیں میسر ہیں پھر بھی ناخوش ہیں ۔ جنھیں شوہروں کا ساتھ میسر ہے جو اولاد کی نعمت سے مالا مال ہیں پھر بھی ناخوش ہیں ؟
ڈاکٹر لینا خان ! آپ ہم سب عورتوں کے لیے ایک مثال ہیں ۔ ہم سب اپنے اپنے دکھوں کو بہت بڑا بنا کر پیش کرتے ہیں لیکن وہ تمام مائیں بشمول آپ کے جنھوں نے اس دھرتی کے لیے اپنی اولادوں کا نذرانہ دیا ،ہم ان کے قرضدار ہیں ۔ اللہ تعالیٰ مونس مشتاق بیٹے کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے ۔ آپ اہل خانہ کو ہمت و حوصلہ دے اور اس پختہ یقین پر قائم رکھے کہ وہ آپ کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں لے جائے گا ۔ انشاء اللہ