تحقیق و ترتیب:محمد رفیق شاھدؔ ۔۔۔ اسلام آباد
تواریخ حافظ رحمت جانی کے مطابق پانچویں صدی عیسوی میں گوجرقوم ہند و پاک میں آئی ۔گوجر قوم کا اصلی وطن ایران تھا۔
دی پھٹان کے مطابق 600 ق م کے قریب سفید ہن سے یہ قوم ہندوستان میں وارد ہوئی۔
عرب سیاح سلیمان تاجر ے اپنے سفر نامے میں 337 ء اور851 ء میں گجرات کے راجہ کو قوم جذر (یعنی گوجر) لکھا ہے۔ایک اور روایت کے مطابق گوجر قوم موجودہ خطہ پاکستان میں پہلی صدی عیسوی میں آئی۔اکبر بادشاہ کے دور میں گوجر قوم کے آثار ضلع اٹک میں موجود تھے۔
اخبار ریڈ کے حوالے میں ایک مضمون چھپا ڈاکٹر تیانہ کی تحقیق کے مطابق گوجر قوم روس جارجیاء سے 15 وی صدی تمسور جنگ کے زمانے میں ہندوستان آئی۔
ہسٹری آف میڈ پول انڈیا کے صفحہ نمبر83 تا88 پر تحریر ہے ‘ گوجرآریا قوم سے تعلق رکھتے تھے اِن کی جسامت و حرکات آریہ قوم سے ملتی ہیں۔
شاہانِ گوجر (مولوی عبدالمالک مرحوم)نے لکھا ہے گوجر قوم کا تعلق آریاء نسل سے تھا مگر ہندوستان میں آنے کا زمانہ یقین کرنا مشکل ہے ۔وہ مزید اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ پہلی صدی تا پانچویں ق م ہو سکتی ہے۔
شاہانِ گوجر میں ایک اور مقام پر لکھا ہے زمانہ قدیم میں ترکی قوم کے خانہ بدوش قبائل میں سخت جنگ ہوئی ایک قبیلہ یو چی نے شکست کھا کر ہندوستان کی طرف رخ کیا ۔مورخین نے اس جنگ کو 156ق م تحریر کیا ہے۔بعض مقامات پر 174ق م بھی لکھا ہے۔
مہارا جہ ہرشن کے درباری بھٹ نے اپنی کتاب ٬٬ہرشن چرتر‘‘میں بھی بھنسمال کے راجہ کو صاف صاف لفظ گوجر لکھا ہے۔
عرب سیاح ابو جنید نویں صدی میں آریاء ورت (ہندوستان) میں داخل ہوئی اُس نے اپنے سفر نامے میں ہندوستان کے گوجروں کو بہت طاقتور لکھا اور اُس وقت گوجروں کی تعداد 81 لاکھ بتائی۔ابو جنید نے گوجروں کی تاریخ و ثقافت پر تفصیلی تحقیق پر روشنی ڈالتے ہوئے افسوس ظاہر کیا ہے ۔٬٬کاش میں بھی اُس قوم میں پیدا ہوا ہوتا‘‘۔
شاہان گوجر قوم سے ثابت ہوتا ہے کہ گوجر وسط ایشیا سے آئے ۔وہ لکھتے ہیں ‘وسط ایشیا میں خانہ بدوشوں کے درمیان جنگ ہوئی (یہ دوسری ق م کی بات ہے)یہ جنگ مہینوں جاری رہی۔گوجر قوم بحرہ خذر کے ساتھ ساتھ آباد تھی یہ بحیرہ حذر سے ہجرت کر کے ہندوکش کے دشوار گزار پہاڑوں کو عبور کر کے کابل پنجاب کشمیر اورہزارہ میں آباد ہوئے۔اس کے بعد گوجروں کا ہجرت کا سلسلہ جاری رہا۔
صوبہ سندھ میں 700ء میں گوجر قوم کے آثار ملے ہیں‘مومل راف گوجر تھا اور مومل راجہ نند کی بیٹی تھی‘ راجہ نند گوجر قوم سے تھا اُس کی حکومت 600ء ضلع گھوٹکی کے نزدیک میرپور کے مقام پر تھی۔
٬٬ہزراہ تاریخ کے آئینے میں ‘‘چوہدری گلبہار گوجر نے لکھا ہے٬٬ہزارہ میں اکبر بادشاہ 1219ء سے قبل گوجر قوم کے آثار موجود تھے۔
ہزارہ گزیٹر 1907ء کے مطابق ہزارہ میں دلازاک قوم ‘اتمان ذیؤں اور ترینوں سے پہلے گوجر آباد تھی۔
ایک اور مقام پر لکھا ہے گوجر قوم پہلی صدی میں بحیرہ خزر سے نقل مکانی کرکے کشمیر اور ہزارہ میں آباد ہوئی۔
گوجر قوم جب حکمران تھی تو اس نے اپنے دور حکومت میں بہت گہرے نقوش چھوڑے(13ویں صدی میں خصوصاً ذیادہ)جو آج ملک بھر میںگجرات‘گوجر خان ‘گجرانوالہ‘گجر گڑھی‘سمیت تقریباً12سو کے نام آج بھی موجود ہیں۔جب ان پر زوال آیا تو یہ لوگ دیگر قوموں میں مکس ہو گئے اور نقل مکانی کرتے رہے۔موجودہ گوجرزبرادری سے کہیں زیادہ دوسری اقوام یا دوسرے ناموں پر قوم کو وجود میں لایا گیا مثلاً راجپوت‘مغل‘جاٹ‘لورہی‘سدھن‘ وغیرہ وغیرہ۔مگر اب بھی گوجر قوم ورلڈ کی ایک بڑی طاقت ہے۔
میجر مینگی نے گوجروں کو آریاء قرار دیا ہے۔ان کی آمد 242ق م سے500ق م بتائی ہے انھیں ستھین قوم کی شاخ قرار دیا ہے ستھین قوم کی ایک اور شاخ یوچی ہے جس کا ایک قبیلہ گوجر اور دوسرا جاٹ ہے۔
ڈاکٹر صابر آفاقی مرحوم کی٬٬گوجری زبان اور ادب‘‘میںگوجر قوم کے مختلف حوالے ملے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔
اے- وائیکھی نے گوجروںکی آمد تیسری صدی بتائی ہے وہ کہتے ہیں قندھار سے ھندوستان آئے اور کابل ‘کشمیر اور سوات سے ہوتے ہوئے تیسری صدی عیسوی میںیوچی قبیلے نے شمال کی طرف رخ کیا اور جنوب کی طرف پھیل گئے۔
بی- سر اولف کیرو لکھتا ہے ٬٬یہ گوجر سفیدہنوں کے ساتھ ہندوستان آئے۔
سی- اے سمتھ نے انہیں سفید ہنز کی اولاد کہا ہے وہ لکھتا ہے گورجر(گوجر)ہنوں کا ایک طبقہ تھا جس نے قنوج میں اپنی سلطنت قائم کی ۔راجپوتوں کے اکثر خاندان گوجروں کی اولاد ہیں ۔
ڈی- ایس ایس ٹی برنی انصاری نے گوجروں کو ستھین یا سفیدہنس کی اولاد قرار دیا ہے۔
ڈاکٹر سید معین الحق کہتے ہیں گوجر فرقہ جو وسط ایشیا کی کسی نسل سے تھا ہنسوں کے بعد ہندوستان میں داخل ہوا اور کئی صدیوں تک برصغیر کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا۔
پروفیسر سید ابوظفر ندوی لکھتے ہیں پانچویں صدی میں گوجر قوم ہندوستان میں داخل ہوئی یہ قوم گرجستان کی رہنے والی تھی جس کو جارجیا کہتے ہیںیہ لوگ ایران سے ہوتے ہوئے ہند پر حملہ آور ہوئے اور سب سے پہلے پنجاب ،سندھ پر قابض رہے پھر راجپوتانہ، مارواڑ اور مالورہ سے ہوتے ہوئے گجرات،دپونہ اور دکن میں اپنی ذبردست سلطنت قائم کی۔
لالہ رگھوناتھ سہائے لکھتے ہیں انگریز مورخوں کے نزدیک راجپوت،جاٹ،گوجر،شاک اور ستھین ہن قوم کی اولاد ہیں،یہی رائے ٬٬یشودیال بگھت جی،،کی بھی ہے۔
عبدالمالک کھواڑی نے یوچی،جاٹ،راجپوت، کو گوجروں کی شاخیں لکھا ہے۔
مولانا قاضی مہدی الزمان کھٹانہ مرحوم آف بالاکوٹ نے گوجر گونج میں ستھین ،ہن،راجپوت،جٹ،گوجر،یوچی ایک قبیلہ کی نسل ہے۔
عبدالمالک کھواڑی نے گوجروں کو آریاء نسل قرار دیا ہے۔وہ کہتے ہیں یہ ہندوستان کے علاوہ روس،چین،ایران،تبت،افغانستان،مصر،شام،عراق،منییا اور کوہ قاف میں آباد ہیں۔
جارج کنگھم لکھتا ہے ٬٬گوجروں کا آبائی مسکن گجرات ہے مگر نا معلوم وجوہات کی بنا پر اپنا وطن گجرات کاٹھیاواڑ چھوڑکر کشمیر جانا پڑا،،۔
رانا علی حسن چوہان لکھتے ہیں٬٬پرانے کبوتروں کی تحریروں کے تجربے سے یہ ثابت کیا کہ گوجر نہ تو ہونوں کے ساتھ آئے نہ ہونوں کے بعد آئے بلکہ گوجریہاں کے قدیمی باشندے ہیں۔یہاں کے یہ گوجر کشان کشتری تھے جووسط ایشیاء سے لے کر ہندوستان تک حکمران تھے۔راجہ کنشک کشمیر کا باشندہ تھا اور یہ گوجر قوم سے تھا۔
انجمن ترقی گوجری ادب و زبان کوڑگانوہ ہریانہ سے74 19ء میں رام پرشاد کھٹانہ کی یہ کتاب شائع ہوئی گوجروں کے عروج و ارتقاء پر مورخین نے مختلف نظریات پیش کیے۔کچھ مورخین کا خیال ہے یہ قوم وسط ایشیاء سے آئی۔کچھ لوگوں کی یہ رائے ہے کہ یہ ہندوستان کے قدیم باشندے تھے۔انھوں نے کے ایم منشی سابقہ گورنر اتر پردیش کی کتاب ٬٬گلوری ویٹ،،میں ایک عجیب نظریہ پیش کیا جو کہ میرے خیال میں غلط ہے،وہ
لکھتے ہیں ۔٬٬گوجر یا گرجراتر ایک ملک کا نام تھا اُس جگہ کے رہنے والوں کو گورجر کہتے تھے لیکن یہ بات نہیں بتا سکے گورجر سے لفظ گوجر کیسے آیا۔رام کھٹانہ لکھتے ہیں، گوجر قوم کا وجود پانچویں صدی میں ہندوستان میں نمایاں تھا، تیرہویں صدی تک جتنے حکمران ہوئے اُنہوں نے اپنے نام کے ساتھ لفظ گرجر لگانے میں فخر محسوس کیا۔بے شمار ایسی شہادتیں آج بھی موجود ہیں ۔اُنہوں نے بہت سے علاقے،شہر،عالیشان عمارتیں،مندر اور قلعے اپنی قوم ٬٬گوجر،،سے موسوم کیے۔ان ہی عظمتوں کے نشان آج بھی موجود ہیں جن میں گجرات،گوجرواڑہ،گوجر گھر،گوجر خان،گوجرانوالہ،گوجر گڑھی،گوجر باس،چیک گوجر،گرجستان وغیرہ آج بھی موجود ہیں۔
چوہدری ولایت خان آف جہلم کی کتاب گنجینہ گوجراں حصہ اوّل میں بعنوان ٬٬قدیم ہند اور آریہ،،صفحہ نمبر۲۳ اور ۲۴ پر لکھا ہے ٬٬آریاؤں کی آمد سے قبل اس پاک و ہند میں بہت سی قومیں آباد تھیں ۔یعنی دراوڑ،گوندل،بھیل،کول وغیرہ۔
حضرت عیسیٰ ؑکی پیدائش سے تقریباًڈیڑھ ہزار سال پہلے آریہ خاندان وسط ایشیاء سے روس،اور چین کے دشوار گزار پہاڑوں سے ہوتے ہوئے مغربی پاکستان میں پنجاب (گجرات)میں وارد ہوا۔بعد میں یہ لوگ گرہ در گرہ آتے رہے اور مقامی آبادی پر حملہ آور ہوئے بعض کو باہر نکال دیا اور بعض کو غلام بنا لیا اور پورے پنجاب پر قابض ہو گئے اور حکومت کرنے لگے اس بات پر سب مورخین متفق ہیں۔اُن کی آمد پر اختلاف ضرور ہے۔آریہ وسط ایشیاء سے چل کرگرجستان میں آئے کچھ عرصہ وہاں گزار کر چین اور قابل کے راستے پنجاب میں داخل ہوئے۔نوح علیہ سلام ۲۵۰ ق م کے طوفان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ واقعی آریہ گرجستان سے آئے جن کو٬٬ گرجی،،کا لقب دیا گیا۔گرجی لفظ گوجر سے بنا ہے۔
مرزا اعظم بیگ اسسٹنٹ کمشنر نے اپنی کتاب ٬٬تاریخ گجرات،،میں آریہ قوم کی آمد ۱۰۰ ق م میں ہندوستان میں وارد ہونے کو لکھا ہے۔
گجر گونج مصنف چوہدری اکبر خان امبالہ سن اشاعت ۱۹۵۵ء میں لکھتے ہیں۔تاریخ شاہد ہے صرف ہندی اور ایرانی قومیں ہی اپنے تیس الفاظ آریہ سے منسوب کیا ہے۔ ٬٬اُوسنا ،، سے معلوم ہوتا ہے ایرانی اپنے آپ کو آریہ کہتے ہیں۔چوہدری اکبر خان صاحب نے صفحہ نمبر ۱۲،۱۳ (گوجر گونج انڈیا)پر گوجر قوم کو وسط ایشیاء قبیلے کی ہندی طرز لکھا ہے جو سر زمین ہند میں ۷۰ء اور ۵۰۰ء کے درمیانی عرصہ میں وارد ہوئی۔وہ لکھتے ہیں یہ سفید ہن کا ایک ممتاز قبیلہ تھاجو غالباً خذر کہلاتا تھا۔
شیر محمد بالاکوٹی اپنی کتاب٬٬گوجر قوم کا آ ئینہ دانش،، میں صفحہ نمبر ۷ پر لکھتے ہیں۔یہ قوم بمعہ تین قبائل کے کئی صدیوں ق م براستہ بلوچستان برصغیر میں داخل ہوئے۔ جو کہ سفید ہن،جاٹ اور حاشیہ نشین تھے۔ انھوں نے سر زمین بلوچستان پر کچھ عرصہ گزارہ اور یہاں پر زیادہ دیر نہ ٹھہر سکے بعد از قیاس کہ گوجروں کے دو ٹولے ہو گئے۔ایک گروہ یا ٹولا براستہ سندھ ہوتا ہوا کاٹھیاواڑ گجرات پہنچا اور دوسرے ٹولے نے پاکستان کی سر حد کا رخ کیا۔آئین اکبری کی رائے کے مطابق (صفحہ نمبر۱۰۱۸ ۔۱۰۱۹ ۔۱۰۸۵ ۔۱۰۸۷) ان صفحات پر کشان کی تشریح کرتے ہیں کہ اس خاندان کے مشہور راجہ اشوک اور اس کے تین بیٹے ذشک، ہشک،کنشک بہت مشہور تھے۔اکثر مورخین کسانہ گوت کو کنشک سے نسبت دیتے ہیں کہ کسانہ گوت کنشک کشان ہے۔یہ ہر تین بدھ مذہب کے پیرو کار تھے انہوں نے اپنے دور حکومت میں ٹیکسلا اور پشاور وغیرہ میں بہت سی عمارتیں قائم کیں اور پتھروں پر الفاظ کنندہ کیے۔جو آج بھی تحت بھائی،شھباز گڑھی مردان،مانسہرہ ہری پور،ٹیکسلا میں نظر آتے ہیں۔بلکہ بدھ مذہب کی تہذیب کے اثرات بیرونی ممالک میں آج بھی نمایاں ہیں۔
علامہ عبدالمالک چوہان گجراتی نے بھی صفحہ نمبر ۱۹ ،۲۰ پر مانسہرہ اشوک دور کے پتھروں پر کنندہ الفاظ کا ذکر کیا ہے جو کہ سنسکرت زبان کی نشاندہی کی گئی ہے۔
ہزارہ کی ایک عظیم شخصیت سید جلال بابا نے ان کا شجرہ اور آمدسوات کو سترہویں صدی لکھا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ برادریاں تقریباً دو سو پچاس سال پہلے رہائش پذیر تھیں۔مورخین کی تحقیق کے مطابق ترک اور گوجر ایک ہی بڑے کی اولاد ہیں۔
تواریخ ہزارہ میں مرزا اعظم بیگ بندوبست ہزارہ ۱۰۹۴ء ایک اور مقام پر ذکر کرتے ہیں ۔ ٬٬گوجر لوگ مغلیہ عہد سے قبل دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ،دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد اس علاقہ پر قابض ہو گئے مگر ۱۷ ویں صدی میں ان کے اقتدار کا سورج غروب ہو گیا اور افغانوں کے ایک قبیلے سواتی نے اس علاقے پر تسلط قائم کر لیا۔
ایبٹ سن کے مطابق گوجر قبیلہ اپنے آپ کو راجپوت خیال کرتے ہیں جو گجرات میں آباد ہوئے اور پھر اٹک اور دیگر علاقوں میںپھیل گئے۔
محمد پردیس شاھین سیاح سوات نے گوجر قوم کو ستھین کا ایک قبیلہ قرار دیا ہے ان کی پاک و ہند میں آمد کو چھٹی صدی قرار دیا ہے(حوالہ کتاب دیر و کوہستان)
محبوب خان کالس ایڈووکیٹ ندائے گوجر شمارہ اگست ۲۰۰۹ء صفحہ نمبر ۲۵ پر گندھارہ تہذیب کے عنوان سے لکھتے ہیں۔٬٬بدھ مت تہذیب ہندوستان میں بہت جلد پھیل گئی خصوصاً راجہ کنشک اور اشوک کے زمانے میں سرکاری سرپرستی حاصل کر لی تھی۔پانچویں صدی سے قبل کے زمانے کو بلاشبہ بدھ مت کا عہد مانا جاتا ہے جو دریائے سندھ کے مغرب و مشرق میں گندھارہ کے مشہور شہر پشاور (پرشاپورہ)اور ٹیکسلا قدرتی منیاروں کی حیثیت رکھتا ہے۔ہری پور ہزارہ میں جولیاں کے مقام پر اور نالندھ کے مقام پر بدھ مت کی درسگاہیں تھیں۔
کتاب تاریخ سر حد مولوی میر احمد سن اشاعت ۲۰۱۰ء عنوان صوبہ سرحد میں آریہ قوم کی آمد کے حوالے سے صفحہ نمبر ۲۸ پر لکھتے ہیں ۔٬٬یہ معزز اور ممتاز قوم وسط ایشیاء کے سطح مرتفع سے چل کر کوہ ہندو کش سے گزرتی ہوئی کابل کے راستے سرحد میں داخل ہوئی۔یہاں کے قدیم باشندوں کو مغلوب کیا اور دریائے سندھ کے خوشگوار کنارے پر جا بسے اور سندھو کہلوانے لگے ،کچھ وقت رہے پھر پنجاب اور ہندوستان کی طرف بڑھے تو وہاں کے اصل باشندوں نے قدم قدم پر روکا اور سخت سے سخت مقابلہ کیا مگر اقبال رہبر تھا اس قوم کا قدم آگے سے آگے ہی بڑھتا گیا۔جو لوگ مغلوب ہوئے وہ محکوم بن گئے۔اور جنھوں نے محکوم ہونا پسند نہ کیا وہ پہاڑوں اور جنگلوں کی طرف چل نکلے۔صوبہ سرحد کے شمالی پہاڑوں اور کشمیر میں آباد گوجرقوم جن کی اپنی مادری زبان (گوجری)آج تک ہے انہی قدیم لوگوں کی نسل سے معلوم ہوتے ہیں۔یہی سندھو لوگ ہندوستان میں جا کر بڑے اقتدار کے ساتھ رہنے لگے اور ہندو کہلائے۔
البیرونی اپنی کتاب الہند البیرونی کے صفحہ نمبر ۱۳ ،۱۴ پر لکھتے ہیں ۱۰۳۵ء میں اس خطہ یعنی پنجاب میں ہم نے سب خاندانوں سے افضل ایک کٹھانہ خاندان کو پایا۔اس خاندان کے لوگ بہت بہادر اور شریف ہیں۔
چاچنامہ سندھ میں ۱۰۲۵ء کا واقعہ لکھتے ہیں ۔جب محمود نے ۱۰۲۵ء میں گجرات کاٹھیاواڑ کے مندر پر حملہ کیا تو تمام گوجر راجے اور عوام وہاں جمع ہو گئے محمود کی فوج اور گوجر راجاؤں کے درمیان زبردست لڑائی ہوئی آخر گوجر راجا ؤں نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے محمود کے لشکر کو شکست دی۔
تاریخ اسلام میں ۱۲۶۷ء بحوالہ تاریخ فرشتہ بحوالہ ہمایوں نامہ میں گوجروں کی بہادری کے قصے تاریخ کی اب بھی زینت بنے ہوئے ہیں۔
مہتاب سنگھ (فارسی)تاریخ ہزارہ میں لکھتے ہیں ۔گوجر قنوج کے راہنما بنے اور فوج کو براہ لییاں (بالا کوٹ)اور دلولہ مٹی کوٹ (گڑھی حبیب اللہ)کے ڈنہ پر پہنچا دیا۔ہزارہ کی جو فوج شنکیاری میں تھی وہ بھی تمری بالا کے پہاڑ پرآئی راستہ میں جو کہ پانی کے راستے پر نگران بیٹھی ہوئی تھی کے ساتھ جنگ ہوئی چونکہ وہ لوگ بہت تھوڑے تھے گوجروں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
ڈاکٹر شیر بہادر اپنی کتاب ،تاریخ ہزارہ اشاعت ۱۹۶۹ء صفحہ نمبر ۲۴۹ پر لکھتے ہیں ۔گوجر ضلع ہزارہ کی قدیم قوم ہے ماضی بعید میں اس ملک میں قبضہ اور اقتدار کافی عرصہ رہاہے۔ محمود غزنوی کے حملوں کے ساتھ افغان قوم کے ساتھ یہ لوگ وقتاً فوقتاً آتے رہے۔ پنی صاحب مرحوم لکھتے ہیں سرانف کیڑو کی تحقیق کے مطابق سب مورخ متفق ہیں کہ سفیدہن کے ساتھ گرجا (گوجر)آئے ونسئٹ سمتھ کی رائے کے مطابق سفید ہن نے راجپوتانہ اور پنجاب میں رہائش اختیار کی ہنوں کے ساتھ مشہور قوم گوجر بھی آئی راجپوت،جاٹ اور گوجر ایک ہی کی اولاد ہیں۔
بیلیو لکھتا ہے کہ راجپوت اور پٹھان کی عادتیں اور رسومات ایک ہیں۔سفیدہن حاکم قوم تھی اور گوجروں کی رعیت تھے۔
تاج سلیمان نے اپنے سفر نامے ۲۳۷ ھ میں لکھا ہے جس میں اس نے ہندوستان کے چار مشہور مہاراجوں بلہرا(ملاد کوکن کا راجہ) جذر (گوجر) طافن (دکن کا راجہ) اور ہمی راجہ کا ذکر کیا ہے۔راجہ جذر راجہ بلہرا سے کمزور اور مسلمانوں کا دشمن تھا۔راجہ جذر اپنے ایک مقالہ میں لکھتے ہیں جذر اصل میں گوجر ہیں ۔راجہ گجرات گوجر تھا۔ یہ لکھتے ہیں گوجر ۶۰۰ء کے قریب ہندوستان میں سفید ہن کے ساتھ آئے۔
راورتی کے بیان کے مطابق گوجر قوم پشاور کے علاقے اور افغانستان کے پہاڑوں سوات اور ہزارہ میں پائی جاتی ہے ان کی زبان گوجری ہے یہ ان علاقوں کے اصلی باشندے ہیں اور تاجک قوم کے بقایا ہیں۔
منصف خان اپنی کتاب ٬٬وادی کاغان،، میں مختلف مورخیں کے حوالے لکھے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں، میجر منیگلی نے گوجروں کو آریا قرار دیا ہے۔ اور ان کی آمد ۲۴۲ق م اور ۵۰۰ق م بتائی ہے۔گوجر قوم ستھین قوم تھی۔جس کی شاخیں یوچی ہیں۔اس کا ایک قبیلہ گوجر اور دوسرا جاٹ ہے۔یہ لوگ ہن اور گٹائی ستھین قبیلے کے ساتھ جسے یوچی کہتے ہیں قندھار سے ہندوستان آئے اور کابل اور کشمیر میں آباد ہوئے۔تیسری صدی عیسوی میں یوچی قبیلہ نے شمال کا رخ کیا اور کچھ جنوب کی طرف چلے گئے۔ گوجر ہندوستان کے قدیم باشندے ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ سری گرشن کے وقت ہرج دیس میں گوجر موجود تھے بہت معزز اور بہادر لوگ تھے۔ گوجروں نے دوسری صدی عیسوی میں آرمینیا پر قبضہ کر لیا۔ ۴۳۵ء میں دوبارہ ہندوستان آ گئے پھر خذر سے گوجر بن گئے۔
غلام عباس مصری گوجروں کے متعلق لکھتے ہیں۔ گوجر ھند سے اُٹھے اور پوری دنیا پر چھا گئے۔
جتندر کمار ورما لکھتے ہیں۔برصغیر میں جن علاقوں کو گوجروں نے اپنی راجدھانی بنایا ان علاقوں کو گُجر حکمرانوں نے گوجر یاتر ، یا گوجر دیس کا نام دیا۔گجرات (کاٹھیاواڑ) گجرات (قنوج) گجرات (سندھ) گجرات (سہارنپور) گوجرات (ہزارہ) گجرات پنجاب وغیرہ وغیرہ نقوش چھوڑے۔
وادی کاغان کتاب میں فیاض عزیز کی یہ رائے ہے کہ یہ لوگ بہت قدیم ہیں۔بعض روایات میںیہ پتھروں اور دھات کے دور کی پیداوار ہیں۔ سعید احمد کی رائے کے مطابق گوجر قوم کی تاریخ صدیوں پرمحیط ہے۔اس قوم کے مختلف قبائل دنیا میں آباد تھے اور براعظم ایشیاء میں ان کا بہت سنہری دور گزرا ہے۔گجرات اور پنجاب میں ان کی حکومتیں رہی ہیں۔
مولانا مناظرالحسن گیلانی ہزارہ کے متعلق لکھتے ہیں۔تیسری صدی ہجری میں یہ علاقہ تعلیم سے متعارف ہوا اس علاقے کے ایک راجے نے ۲۷۰ ہجری میں ایک مسلمان عالم کو جو عربی کے علاوہ برصغیر کی کئی زبانوں عبور رکھتا تھا ہزارہ بھیجا اور کئی سال اسلامی درس دیا۔
کتاب تاریخ ہزارہ مصنف محمد ارشاد خان اشاعت ۱۹۷۶ء میں لکھتے ہیں (صفحہ نمبر ۵۲)گوجر یا گجر نہ صرف ہزارہ کے قدیم بلکہ مغربی پاکستان بھر کی تمام اقوام میں سے ایک مشہور قوم ہے۔ اس کے اصلی وطن کے بارے میں کچھ اختلاف ضرور ہے ۔سمتھ،راورئی،واٹکلے اور سر اونف کیڑو وغیرہ گوجروں کو گرجار تسلیم کرتے ہیں،جو چھٹی صدی کے اوّل میں ہون یا حیطان قوم کے ہمراہ ہندوستان میں وارد ہوئے۔ہن حکمران تھے اور گوجر ان کے ماتحت کھتی باڑی کا کام کرتے تھے۔بعض مورخین کی یہ رائے ہے کہ لفظ گوجر کٹوچر کی بگڑی ہوئی شکل ہے مگر تاریخ نے اسے غلط ثابت کر دیا ہے۔
وہ آگے لکھتے ہیں ،ضلع ہزارہ میں رواج نامہ بندوبست ۱۸۷۲ء کے بیان کے مطابق گوجروں کی ایک سو سے زائد شاخیں ہیں جن میں زیادہ مشہور مندرجہ ذیل ہیں۔
دھیدڑ، کسانہ، پسوال، کھٹانہ، جاگل، چوہان، بجران، جہارہ، بوکڑہ، باہروال، جنگل، نکیال، گورسی، برکٹ، کالس، بوکل، کھاری، ٹھکری،بانیاں، بڈھانہ، کولی، بردا، تیتروا، سونترہ، مونن، آوان وغیرہ وغیرہ۔
ذاتوں کا انسائیکلو پیڈیا میں رائٹر ای ڈی میکلیکس /ایچ اے روز صفحہ نمبر ۳۸۶ پر لکھتے ہیں۔ گوجر ہند کے شمال مغرب کے ہر حصے میں کافی مقدار میں ملتے ہیں۔دریائے سندھ سے لے کر گنگا تک اور ہزارہ سے لے کر گجرات کے جزیرہ نما تک ،بالائی جمنا کے کناروں پر جگا دھری اور بُریہ کے قریب اور سہارنپور کے علاقے میں بے شمار گوجر آباد ہیں۔دہلی کے جنوب میں دیواڑی کے راجہ بھی گوجر ہیں۔ گوجروں کا آباد کردہ گجرات،گوجرانوالہ، گوجر خان کے علاقے کافی مشہور ہیں۔گجرات کا پرانا نام اُمے نگری ہوا کرتا تھا۔میکسن اس کتاب میں صفحہ نمبر ۳۶۹ تا ۳۷۰ پر انگریز مورخ کے تحقیق کیے بغیر ایک جٹ کے کہنے پر گوجروںپر کچھ الزمات لگائے بلکہ صرف گوجروں پر ہی نہیںدیگر بہت سی قوموں پر الزمات لگائے گئے۔غلط تشریح کی گئی ۔پٹھان قوم کی تشریح کچھ اس طرح کی ٬٬یہ مکئی کے دانے بھوننے والے لوگ ہیں۔ہم حکومت پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ اس کتاب پر پابندی عائد کی جائے۔۔۔۔
کتاب جموں کشمیر کے گوجر مصنف ڈاکٹر آر۔آر۔کھجوریہ / اے این بھارو واج اشاعت جون ۱۹۸۱ء میں لکھتے ہیں کہ گوجر سفید ہونوں کے ساتھ اس ملک میں وارد ہوئے۔اس کی تائید مسٹر سمتھ ،ڈاکٹر ہاٹرنیل،مسٹر بھلہ،لیمفر اور ڈاکٹر بھنڈار نے بھی کی۔مسٹر کنڈی کے خیال کے مطابق یہ لوگ ایران سے آئے ،مگر انھوں نے باوثوق دلیل نہیں دی۔مسٹر جیکسن ان لوگوںکو٬٬ خذر،، کے ساتھ ملاتاہے جس کا حوالہ ممبئی گزیٹر میں بھی ملتا ہے۔شری بھنڈارنے اپنے خیالات کا اظہار بھی مسٹر ہورینل کی تھیوری کی بنیاد پر ہی کیا ہے۔کہ گوجروں کا ہونوں سے ٹھیک ٹھیک ذاتی تعلق صاف دیکھائی نہیں دیتا۔ مسٹر ہورینل کی رائے ہے کہ یہ لوگ چھٹی صدی عیسوی کے پہلے حصے میں ہندوستان میں داخل ہوئے۔
انگریز مورخین اور ماہرین کے خیال کے مطابق گوجر ماضی میں کسی وقت سنٹرل ایشیاء کے جنوبی حصہ ایشیاء اور یورپ کے سرحدی علاقوں میں رہائش پذیر تھے جو کہ سفید ہونوں سے نسلی اور سماجی اعتبار سے بہت مشابہت رکھتے تھے۔یہ خیال بھی کیا جاتا ہے کہ ان کا تعلق ترکوں کے خانہ بدوش قبیلے سے تھا۔
آرگس نام کا ایک گوجر یونان میں مشہور ہوا ہے جس کی اولاد میں سکندر اعظم تھا (سکندر اعظم مقدنیہ میں پیدا ہوا بیس سال کی عمرمیں ایران کا حکمران بنابتیس سال کی عمر میں وفات پائی بارہ سال کے عرصہ میں چار براعظموں کا حکمران بنا۔کابل کے راستے سرحد میں داخل ہوا۔صوابی ہنڈ کے مقام پر اپنے نقوش چھوڑے۔دریائے سندھ عبور کر کے ٹیکسلا کا حکمران بنا اور پھر چین سے دوبارہ ایران واپس چلا گیا۔مگر تاجک سواتی کتاب میں اس کو سواتی قوم سے منسلک کیا گیا ہے جو کہ غلط ہے۔ )جس کی اولاد بعد میں کاٹھیاواڑ گجرات میں بسنے لگی۔جو مقام ان کے نام سے مشہور ہوئے ان کا تعلق متھرا کے بھگوان شری کرشن کے ساتھ ہونے کی نام نہاد کوشش کی ہے۔
مسٹر ایٹلس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جاٹ،گوجر اور اہیر ایک ہی شاخ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی مسٹر پُھلرنے بھی تائید کی ہے۔
مسٹر پی سی باغیچی کی رائے کے مطابق روسن قبیلہ ہون قبیلے کا ایک حصہ ہے جس کا چوتھی صدی عیسوی کا نام گوسر ہے۔جو بعدمیں لفظ کوسر سے گوجر بنا۔روسن یا گوجر تیسری صدی میں ہون قبیلے کے ساتھ آئے ہوں گئے۔
مختلف لوگوں کی مختلف رائے سے اختلاف ضرور پیدا ہوئے مگر شری اوایڈ کے ایم منشی۔ڈاکٹر پوری۔گنگولی اور جستندر ناتو ورما نے ثابت کیا ہے کہ یہ لوگ بیرونی ممالک سے نہیں آئے بلکہ ہر خالص آریاء نسل سے تعلق رکھتے تھے جس کی تائید بہت سے انگریز مورخین نے بھی کی۔
اس میں کسی قسم کا کوئی شک وشبہ باقی نہیںرہا کہ ہمارے اس مضمون اور حوالہ جات کو پڑھ کر ہر گوجر بلکہ دیگر اقوام کے لوگوں کی غلط فہمیاں ختم ہو جائیں گیں اور منہ سے بے اختیار یہ الفاظ ضرور نکلیں گے کہ ٬٬گوجر ایک عظیم قوم ہے،،جو کہ پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ ہزارہ ،کاغان اور کوہستان کے چند خانہ بدوش گوجر یا آجڑ قبیلے کی وجہ سے پوری قوم کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنایا تصور کرنا اچھی بات نہیں۔آ پ اپنی قوم کا بھی موازنہ کریں اور گوجر قوم کی تاریخ بھی پڑھیں توفرق صاف ظاہر ہو جائے گا۔