Tarjuman-e-Mashriq

اسکندر مرزا سے عمران خان تک

اسکندر مرزا 1899ء میں بمبئی میں پیدا ہوئے۔ آپکا پورا نام سیّد اسکندر علی مرزا تھا۔ آپکا تعلق شعیہ سیّد خاندان سے تھا۔ آپ کے جد اعلیٰ سیّد میر جعفر جو1757ء کی جنگ میں حاکم بنگال سراج الدولہ کی شکست کا باعث بنے۔اسکندر مرزا کو یہ اعزازحاصل ہے کہ وہ پہلے ہندوستانی فوجی افسر تھے جنہوں نے سینڈ ہرسٹ سے کمیشن حاصل کیا اور اُن کی پہلی تعیناتی ایک گورا رجمنٹ میں ہوئی۔ بعد میں آپ کی پوسٹنگ پونہ ہارس میں ہوئی اور کچھ عرصہ بعد آپ کو انڈین سول سروسز کا حصہ بنا دیا گیا تب یہ محکمہ انڈین پولیٹکل سروس کہلاتا تھا جسے آجکل ڈی ایم جی گروپ کہا جاتا ہے۔

Wikipedia

انیس سو سینتالیس   میں اسکندر مرزا سیکرٹری دفاع اور1954میں گورنر مشرقی پاکستان تعینات ہوئے۔ وہ محمد علی بوگرہ کی حکومت میں پاکستان کے وزیرداخلہ اور پھر گورنر جنرل غلام محمد کی بیماری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سول اور ملٹری بیوروکریسی کی قربت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ سیاستدانوں کی باہم کشمکش اور محلاتی سازشوں نے سکندر مرزا کے سازشی ذہن کوجلا بخشی تو انہوں نے گورنر جنرل غلا محمد کو ملک میں مارشل لاء نافذ کرنے کی تجویز دی۔ گورنر جنرل نے ایک موقع پر کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان کو ملک میں مارشل لاء نافذ کرنے اور حکومت کی بھاگ ڈور سنبھالنے کی تجویز دی مگر ایوب خان نے انکار کر دیا۔ ایوب خان اور اسکندر مرزا گہرے دوست اور ایک دوسرے کے ہم راز تھے۔ ایوب خان کی حمائیت پر گورنر جنرل غلام محمد کو برطرف کر دیا گیا اور اسکندر مرزا خود گورنر جنرل بن گئے۔ اسکندر مرزا نے ری پبلکن پارٹی کے قیام کی راہ ہموار کی اور1956ء کے آئین کے نفاذ کے بعد ملک کے پہلے صدر بن گئے۔

Wikipedia

اسکندر مرزا کا عہدہ صدارت ملک کے سیاسی نظام کے لیے مہلک ثابت ہوا۔ انہیں کسی وزیراعظم اور سوائے ذوالفقار علی بھٹو کے کسی وزیر پر اعتمادنہ تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو انہیں قائد اعظم سے بڑا لیڈر اورقوم کا نجات دھندہ قرار دے چکے تھے۔ علاوہ دونوں شخصیا ت ہم مسلک اور رشتہ دار بھی تھیں۔ بھٹو صاحب کی دوسری بیگم محترمہ نصر ت اصفہانی اور بیگم ناہید مرزادور کی رشتہ دار اور گہری سہیلیاں تھیں۔ متعدد وزیرائے اعظموں کی تقرریاں اور برطرفیاں سکندر مرزا کا مشغلہ ہوا تو آخر کار سکندر مرزا نے 7اکتوبر1958کو قومی اسمبلی تحلیل کر دی۔ سکندر مرزا نے نئی کابینہ تشکیل دی اور کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو وزیردفاع تعینات کر دیا۔ مئی 1958میں سکندر مرزا نے امریکہ کے سفیر سے ملاقات کی اور اسے اعتماد میں لیتے ہوئے بیان دیا کہ پاکستان میں صر ف ڈکٹیٹر شپ ہی قابل عمل ہے۔ سیا ستدانوں میں ملک چلانے کی صلاحیت نہیں البتہ وہ ایک اچھے ڈیکٹیٹر کے ماتحت فرائض ادا کر سکتے ہیں۔ عام لوگوں کو اگر اچھی سہولیات، تحفظ، روزگار اور آزاد ی دی جائے تو انہیں جاگیردارانہ سیاست سے کوئی دلچسپی نہ ہوگی۔
اسی دوران انہوں نے ایوب خان کو مارشل لاء کے نفاذ کا عندیہ دیا جسے اپنی کابینہ سے بھی خفیہ رکھا۔ مارشل لاء کے نفاذ کے بعد وہ صرف تین ہفتے اقتدار میں رہے۔ ایوب خان نے بحیثیت چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر انہیں برطرف کیا اور لندن بھجوا دیا۔ سکندر مرزا نے لندن میں ہی انتقال کیا اور انہیں تہران میں دفنایا گیا۔ مارچ1969میں ایوب خان برطرف ہوئے اور یحیٰی خان نے حکومت سنبھالتے ہی مارشل لا ء کا نفاذ کر دیا۔


 پانچ جولائی 1977کے دن ضیاء الحق نے آپریشن فیرپلے کے ذریعے بھٹو کا تختہ اُلٹ دیا جبکہ مارشل لاء کا نفاذ خود ذوالفقار علی بھٹو خود کر چکے تھے۔
انیس سو ننانوے میں وزیراعظم نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو انتہائی بھونڈے طریقے سے نہ صرف بر طرف کیا بلکہ سری لنکا کے دورے کے بعد اُن کے جہاز کو ملک میں لینڈ نہ کرنے اور بھارت یا کسی دوسرے ملک میں جانے کا حکم دیا۔ فوج نے نواز شریف کا تختہ اُلٹ دیا اور جنرل مشرف ملک کے صدر بن گئے۔ جنرل مشرف نے ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کے بجائے انتظامیہ کی نگرانی اور درست سمت کے تعین کے لئے مانٹیرنگ سسٹم نافذ کیا جسے عوام میں بے حد پذیرائی ملی۔ جنرل پرویز مشرف اپنی ہر دلعزیزی کا فائدہ نہ اٹھاسکے اور جلد ہی عوام مقبولیت کھو بیٹھے۔ پاکستان میں جتنے مارشل لاء لگے سب کے سب سیاستدانوں نے خود لگائے یا پھر سیاستدانوں کی نااہلیوں اور محلاتی سازشوں کا نتیجہ تھے۔
سکندر مرزا کے اس بیان کی اہمیت ہے کہ پاکستان کے سیاستدان نا اہل، ہوس پرست، کرپٹ،اقربا پرور، قانون شکن اور مجرمانہ ذہنیت کے حامل ہیں۔
پاکستان میں کبھی جمہوری نظام چل ہی نہیں سکا۔ یہاں خاندانی جمہوریت کا ہی نفاذ رہا ہے۔ ایوب، بھٹو اور شریف خاندان آج بھی کسی نہ کسی صورت میں حکمران ہیں اور جمہوریت کے نام پر آمرانہ نظام کے حق میں ہیں۔
پاکستان میں جاگیردرانہ سیاسی نظام رائج ہے۔ ایوب، یحییٰ، ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کو جاگیر داروں، سرمایہ داروں اور سیاسی جماعتوں کی ہمدردیاں حاصل رہی ہیں۔ جماعت اسلامی ضیاء الحق کی حمائیت کرتی رہی جبکہ مولانا مفتی محمود نے مادر ملت فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایوب خان کا ساتھ دیا۔ ہر سیاسی جماعت اور سیاستدان کی اولین سیاسی تربیت فوجی حکمرانوں نے کی اور اُن کی کرپشن، بد عہدی، اقربا پروری، لوٹ کھسوٹ اور قانون شکنی پر آنکھیں بند رکھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اسکندر مرز ا نے سیاست میں متعارف کروایا اور پھر ایوب خان نے ان کی سیاسی پرورش کی۔جبکہ یحیٰی خان نے انہیں سیاسی جماعت پیپلز پارٹی بنانے کا مشورہ دیا۔ بھٹو اور یحیٰی خان کی باہم مشاورت کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوا اور مشرقی پاکستان بنگلا دیش بن گیا۔ نواز شریف کو جنرل ضیاء الحق سیاست میں لائے اور آئی ایس آئی کے سابق چیف جنرل حمید گل نے انہیں ایوان اقتدار کی راہ دکھلائی۔گجرات کا چوہدری خاندان اور دیگر سیاسی خاندان بشمول الطاف حسین، شیر پاؤ اور فضل الرحمن کے جنرل مشرف کی آشیر باد سے ہی آگے بڑھے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے زرداری حکومت کو سہار ا دیکر پانچ سال تک کرپشن اور بد دیانتی کے لئے فری ہینڈ دیا۔ جنرل راحیل شریف اور جنرل باجوہ نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی تو سیاسی جماعتوں نے نہ صرف فوج بلکہ ملک اور مذہب کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ جس کا مقصد ملک میں اسکندر مرزا جیسی افراتفری پھیلانا اور اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے ملک میں مارشل لاء کا نظام قائم کرنا ہے۔

موجودہ سیاسی قیادت کوغیر ملکی اداروں کی بھرپور حمایت حاصل ہے جس کی سب سے بڑی وجہ پاک چین دوستی میں رخنہ ڈالنا اور سی پیک منصوبے کو ہر حال میں روکنا ہے۔ سی پیک منصوبہ جواب تکمیل کے قریب ہے اگر مزید دو سال تک جاری رہا تو انڈو پیسفک منصوبہ اپنی موت آپ مر جائے گا۔ سی پیک منصوبے سے دنیا کی سیاست، معیشت و صنعت جڑی ہوئی ہے۔ دیکھا جائے تو آج پاکستان گریٹ گیم کا اصل میدان ہے جبکہ بھارت اس گیم میں پلیر بھی ہے اورریفری بھی۔ البتہ چین کی کامیابی کی صورت میں جہاں پاکستان، روس، چین، ایران اور ترکی ایک اقتصادی بلاک کی صورت اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہی یورپ اس بلاک کا اہم حصہ بن کر نئی عالمی منڈی اور سیاسی میدان سے بھرپور فائد اٹھا سکتا ہے۔ برطانیہ اس سارے معاملے کو ہمیشہ کی طرح گہری نظر سے دیکھ رہا ہے اور بدلتے حالات سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عالم سطح پر آنیولے سالوں میں مشرقی وسطحی کے ممالک، بھارت آسٹریلیا اور جاپان بڑی حدتک خسارے میں رہیں گے۔ بنگلہ دیش نیپال اورمیانمار اور مشرق بعید کے دیگر ملک چین کے زیر اثرنئی حکمت عمل کا حصہ ہوں گئے۔ سنٹرل ایشیائی ممالک پر چین کی گرفت ہے جبکہ روس کو چینی حکمت عملی سے دوہرا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ ان ممالک کی ترقی اور سیاسی استحکام روس کے لیے فائدہ مند ہے۔ جبکہ افغانستان سے امریکی انخلا ئے کے بعد غیر یقینی صورت حال ہے۔ اگلے چندماہ میں امریکہ، برطانیہ اور بھارت افغانستان میں کئی چالیں چلنے کی کوشش کرینگے مگر پہلا حدف پاکستان ہی رہے گا۔پاکستان میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام اور قیادت کا فقدان کسی حادثے کا باعث بن سکتا ہے۔دیکھا جائے تو اسکند ر مرزا کی سوچ اور نظریہ آج بھی زندہ ہے۔ خود ساختہ قائدین اور اُن کے ہمنوا دانشوروں کے تبصرے اور تجزیے اس بات کا ثبوت ہیں کہ دانشوروں کی سوچ محدود اور قائدین کی صلاحیتیں مفلوج ہیں۔ گورنر جنرل      غلا م محمد کی ترجمان رتھ بورل تھی اورمیاں نواز شریف کی مریم اورنگزیب ہے۔ایک جسمانی لحاظ سے مفلوج تھا اور دوسرا انگنت بیماریوں میں مبتلاء ہے۔ایسے قائدین پر اعتماد کرنے والی قوم کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی۔اسکند ر مرزا سے لیکر عمران خان تک ایک ہی سوچ و فکر کے حامل سیاستدان اس ملک اور قوم پر مسلط ہیں اور اجتماعی شعور سے عاری قوم اپنی تقدیر بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

Exit mobile version