چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
فیض صاحب کا یہ شعر” گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے ” بہت خوبصورت ہے ، مجھے یہ ساری غزل ہی اچھی لگتی ہے . آج انڈورا میں ہمارا پہلا دن تھا اور آج سے گلشن کے کاروبار کا آغاز تھا . ہم نے ریسرچ کا آغاز کرنا تھا ایسے لگتا تھا ان پہاڑوں سے کوئی کہہ رہا ہے ” چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے”
آج انڈورا کی صبح دیکھنے کا موقع ملا بس سمجھ لیں کہ میں سویا لاماسانا میں تھا مگر آنکھ ایبٹ آباد میں کھلی وہی خوبصورت منظر جو کبھی ایبٹ آباد کا ہوتا تھا ، ہوٹل کے سامنے سے گزر تا ایک نالہ اور اس میں شور کرتا صاف وشفاف پانی ، سامنے والی چوٹی پر برف اور اونچی نیچی ڈھلوانوں پر گھر، سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا میں پیچھے چھوڑ آیا تھا . لاما سانا انڈورا کے ان سات اضلاع، صوبوں یا حصوںمیں سے ایک ہے کہ جن کے باہم ملاپ سے یہ چھوٹا سا ملک وجود میں آیا.صبح کا آغاز خالصتاً دیسی یورپین ناشتے سے ہوا۔ یہاں نہ تو مکئی کی روٹی تھی اور نہ پراٹھے بلکہ انڈورن ناشتہ اور اس ناشتے کے تمام تر اجزائے ترکیبی بہت لذیز . ناشتے سے فارغ ہو کر سب پھر سے باہر کوچ کا انتظار کرنے لگ گئے .کیرو لائن یہاں مجھ سے پہلے کھڑی تھی مجھے دیکھتے ہی ہنستے ہوئے پوچھنے لگی ، رات کو نیند آئی؟ میں کیا کہتا ؟ لہٰذا میں خاموش رہا ، کیرولائن نے اس وقت مجھے بتایا کہ پیٹر ہر چیز کا اشتراک اپنی بیوی سے کرنے کے بارے میں مشہور تھا . کیرولائن کو اس بات کا کیسے پتہ تھا مجھے نہیں معلوم مگریہ سبق زندگی میں بعد میں بہت کام آیا کہ اگر گھر میں بیوی خوش ہو تو گھر کا ماحول جمہوری رہتا ہے ، جہاں خاتون خانہ کا موڈ آف ہوا سمجھ لیں ایمرجنسی کا نفاذ کسی بھی وقت ہو سکتا ہے اور جمہوریت خطرے کا شکار ، کبھی کبھی یہ ایمرجنسی بیرونی چھاتہ برداروں کو بھی گھر میں لے آتی ہے اور پھر یہ قبضہ اقوام متحدہ بھی چھڑوا نہیں پاتی . کیرولائن نے مجھ سے پوچھا ” اسکینگ کے لیے تیار ہو؟” میرے ماتھے پر پڑنے والے بل دیکھ کر وہ سمجھ گئی کہ مجھے اس کے سوال کی سمجھ نہیں آئی . میں نے بھی اسی وقت حیرانگی سے کہا "اسکینگ” تو وہ بولی، جی ہاں ! وہی برف پر پھسلنے والا کھیل لکڑی کے دو تختوں کو پاؤں سے باندھ کر دو ڈنڈے ہاتھ میں پکڑ کر دور پہاڑ کی بلندی سے کرتب دکھانا
میں سمجھا تھا کہ آج ہم صرف انٹرویو کریں گے مگر جب مجھے گروپ کی نیت کا پتہ چلا کہ وہ ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتے ہیں اور سب اپنے اپنے اسکینگ کے سامان کے ساتھ جا رہے ہیں تو میں نے کیرولائن کو بتا دیا کہ پھسلنے والے اس کھیل سے میر ی تو توبہ! اولین مجبوری میری کھیل سے مکمل ناآشنائی تھی اور دوئم ہماری ٹیم کے کچھ ممبران سے غیر ارادی طورپر اکتاہت کا احساس . یہ سچ ہے کہ ہم ایشیائی لوگ انگریز سے اس قدر متاثر ہیں کہ ان کے نسل پرستانہ رویوں کو بھی نعمت سمجھ بیٹھتے ہیں مگر میں نے زندگی میں ایک لکیرایسی بہت سال پہلے کھینچ لی تھی کہ جہاں سے جب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آگے جانا بہت سے سمجھوتوں کے بعد ہو گا تو میں واپس آ جاتا ہوں ، بہت بار اس نے بہت مشکل میں ڈالا مگر آج تک اس کا افسوس نہیں ہے . میں یہاں یہ الفاظ اس لیے نہیں لکھ رہا کہ مجھے اپنے لیے کوئی سند درکار ہے اور نہ ہی میں ایک بہت اچھا مسلمان ہونے کا دعوی کر رہا ہوں بلکہ مجھے اپنی زندگی میں ہر لمحے اپنے گناہوں پر شرمندگی کا احساس ہوتا ہے مگر پھر بھی کہیں نہ کہیں لائن کھینچنی ضروری ہے . اسی لیے میں پیٹر کے ساتھ رہنے میں خوش تھا کیونکہ وہ کم از کم مجھے کہیں کوئی ایسی بات نہیں کہتا تھا جو میرے مزاج کے خلاف ہو
یہاں بس سٹاپ پر سب ریچھ کی طرح بھاری بھرکم اور انتہائی گرم کپڑے پہن کر کھڑے تھے میں بھی پولر پیر بن گیا۔ بس پر سوار ہوکرہم سب ہوٹل سے تقریباً 5سے 7 میل دور مزید اونچائی پر آرینسل پہنچے۔ یہ جگہ وہ جائے صبر اور امتحان تھی کہ جہاں کئی ایک کی ٹانگیں ٹوٹ چکی تھیں بازو ،ہاتھ ، سر اور جسم کے دیگر حصے کئی بار شائد زخمی ہوچکے تھے مگر ہر کھیل کی طرح اس کھیل کی بھی جب کسی کو عادت پڑھ جاتی ہے تو کوئی زخم کوئی چوٹ ان لوگوں کو روک نہیں پاتی یہاں تک کے کئی لوگوں کی اس کھیل نے جان لے لی
موسم سرما کے کھیلوں میں اسکینگ ایک بہت مقبول کھیل ہے ، پاکستان میں اور آزاد کشمیر میں کئی ایسے مقامات ہیں جہاں اس کھیل کی بدولت ان علاقوں کا مقدر بدلا جا سکتا ہے مگر سوچے تو سوچے کون ؟ اسکینگ ایک مقبول کھیل ہونے کے ساتھ ایک ہنر بھی ہے ، ایک مہارت کے بغیر یہ کھیل وبال جان بھی ہو سکتا ہے . ایک ماہر اسکیر برف کی سطح پر ایسے تیرتا یا پرواز کرتا ہے جیسے پرندے ہوا میں . یہ کھیل یورپ کے بہت سے ملکوں میں کھیلا جاتا ہے اور اس کی مقبولیت کے لیے بہت خرچہ کیا جاتا ہے. کینیڈا ، امریکہ ، روس ، اور دنیا کی دیگر ریاستوں میں جہاں برف پڑتی ہے یہ کھیل مشہور بھی ہے اس کی بدولت ان ملکوں کو بہت سے فوائد بھی ہوئے. اسکینگ کی موجودہ قسم کا جنم اسکینڈینیویا (شمال مغربی یورپ) میں ہوا مگر تحقیق سے پتہ چلتا ہے چین اور روس میں یہ کھیل ہزاروں سال پہلے موجود تھا . اب تو یہ اولمپیکس کا حصہ ہے ، اس کے مقابلے دنیا کے تمام ممالک میں دیکھے اور پسند کیے جاتے ہیں اور اس کی مقبولیت ہی ہمیں یہاں انڈورا لائی تھی
آرینسل سے ایک چیر لیفٹ ہمیں مزید اونچائی پر وہاں لے گئی جہاں اسکینگ سلوپ کا اختتام ہوتا تھا ، یہ پہاڑ کا نچلا حصہ تھا . جس روز ہم انڈورا آئے تھے اسی روز یورپ میں سنگل کرنسی کا اجرا ہوا تھا مگر ابھی بھی فرینک میں کاروبار ممکن تھا .میں نے 105فر ینک کا آدھے دن کا پاس خریدا اور اپنے کیمرے کے ساتھ چیر لفٹ پر سوار ہوا،جوں جوں میں زمین سے آسمان کی طرف بلند ہورہا تھا اور پہاڑ ، برف اور سرد ہوائیں کہہ رہی تھیں
آ اور دیکھ محویت بے خودی میری
میں خود سے بھی بے نیاز ہوا جاتا ہوں
یہ معرفت کی وہ سیڑھی ہے کہ جس پر قدم رکھتے ہی انسان دنیا اور اس کی عارضی لذتوں بے نیاز ہو جاتا ہے۔ نور الٰہی میں حضوری ہوجاتا ہے اور پھر اس کے لیے دنیا ایک تماشہءاطفال ہوتا ہے مگر میرے جیسے من مورکھ مٹی کے مادھو کے لیے ابھی تو یہ ہی سفر مشکل تھا جسے دھوکہ، جھوٹ اور کھیل تماشہ کہا گیا ہے . میں شائد جن بلندیوں کا سوچ رہا ہوں وہ ابھی بہت دور ہیں ، نفس ابھی بہت موٹا ہے اور مادیت کا ابھی غلبہ ہے اور سامنے ایک پہاڑ کی بلندی ہے مگر میرے اندر کا پہاڑ اس سے بھی بلند ہے ، جسے میں ابھی سر نہیں کر پایا ، ابھی اسی کے بیس کیمپ میں ہوں اور سانس پھول رہی ہے اور باتیں معرفت کی کر رہا ہوں ہوں . ابھی تو مجھے نا جانے کس سانچے میں ڈھلنا ہے ، ابھی تو بہت کشت کرنا ہے . بس یہ سوچ رہا تھا کہ چیر لفٹ رکی اور چیر لفٹ سے اترتے ہی ہر طرف سفیدی ہی سفیدی برف ہی برف ، لوگ ہی لوگ اور آنکھیں تب چندیا گئیں جب پتہ چلا کہ ابھی ایک اور چوٹی سامنے ہے،یہاں سب سے اونچا مقام کوئی ساڑھے تین ہزار فٹ کی بلندی پر تھا اور انتہائی خوبصورت تھا. میرے لیے یہ اونچائی اتنی حیران کن نہیں تھی کیونکہ میرے وطن کشمیر کے کافی سارے صحت افزا مقامات کی بلندی اس مقام سے کہیں بلند ہے مگر یہ المیہ ہے کہ ان صحت مند مقامات تک رسائی آج بھی اتنی ہی مشکل ہے جتنی سالوں پہلے تھی
اس سفر کا ایک شاندار پہلو اس سفر میں پہاڑی لوگوں ، پہاڑی تہذیب اور پہاڑی مقامات کی ترقی کو سمجھنا تھا . پاکستان اور مادر وطن کشمیر کی کرپٹ حکومتیں اور مفلوج نظام درحقیقت کسی بھی کامیابی اور ترقی کے راستے میں ایک دیوار ہیں . یہ ستم کے افسانے ہیں اور ظلم کی داستانیں ہیں . پاکستان کے نظام کو ٹھیکے دار لے ڈوبے ورنہ پاکستان کے شمال کا حسن اور کشمیر کے بہتے جھرنوں ، گنگناتی ندیوں اور آسمان سے ہمکلام پہاڑوں کی نہ تو کوئی نظیر ہے اور نہ ہی کوئی مقابلہ. میں جب چیر لیفٹ پر سوار ہوا تو اکیلا تھا میرے سارے ساتھی پہلے ہی اسکینگ کے سامان کے ساتھ غائب ہو چکے تھے . میرے لیے جلدی کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی . مجھے اسکینگ آتی نہیں تھی اس لیے ملاکی دور مسجد تک تھی میں اسی چوٹی کا پرندہ تھا آگے جانے والے طائر ڈنڈوں اور تختوں والے تھے یہاں پہلے پڑاؤ سے پہاڑ اور بھی خوبصورت لگ رہا تھا ، یہاں ایک اسکول بھی تھا جہاں اسکینگ کی تربیت دی جاتی تھی ، ایک کیفے ٹیریا تھا اور بہت سے لوگ . میں چونکہ ٹکٹ لینے رک گیا اس لیے میرا گروپ سے رابطہ نہیں تھا ، یہاں پہنچ کر مجھے اپنا کام شروع کرنے میں ذرا دیر نہ لگی . میں نے ایک ٹیبل پر ایک درمیانی عمر کا جوڑا دیکھا جو اپنے اسکینگ بوٹ اتار رہا تھا ، میں نے سوچا انٹرویوز کا آغاز ان ہی سے کرتے ہیں
ہیلو میرا نام راجہ ہے ، میں برطانیہ کی یونیورسٹی آف لوٹن میں ٹورا زم کا طالب علم ہوں ، ہم اسکینگ سلوپس پر گلوبل وارمنگ کے اثرات اور اس کا انڈسٹری پر ہونے والے اثر پر تحقیق کر رہے ہیں ، کیا آپ کے پاس کچھ وقت ہے، میں آپ سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتا ہوں ؟
کیوں نہیں ، خاتون نے جواب دیا . میرا نام کلیر مولی ہے اور یہ میرے خاوند ہیں ہم بھی برطانیہ سے آئے ہیں ، آپ بیٹھیں. اس قدر احترام سے مسز مولی نے میرے سوال کا جواب دیا کہ میں حیران ہو گیا . میں نے جنگلی طوطے کی طرح تمام سوالات پوچھے ، دونوں میاں بیوی نے جوابات دئیے اور جب میں شکریہ ادا کر کے اٹھنے لگا تو مسز مولی نے مجھے بتایا کہ وہ یونیورسٹی آف ایج ہل کے ٹورازم ڈپارٹمنٹ میں پڑھاتی ہیں اور انہوں نے مجھے اپنا ای میل ایڈریس دیا اور ہدایت کی کہ اگر مجھے کبھی کوئی مدد درکار ہوئی تو میں اس سے بلا ججک رابطہ کر سکتا ہوں . میرے منہ میں الفاظ نہیں تھے اور میں حیران اور پریشان یہاں سے اٹھا ، مسز مولی اگر چاہتیں تو میرے تعارف پر ہی مجھے روک کر کہتیں ، جاؤ کسی اور سے بات کرو میں بھی ایک یونیورسٹی لیکچرر ہوں اور یہاں چھٹیوں پر ہوں ، یا وہ اپنے علم اور معلومات سے مجھے متاثر کرتیں مگر دونوں میاں بیوی میرے سامنے ایسے بیٹھے تھے جیسے انھیں کچھ پتہ نہیں اور وہ جاننا چاہتے ہیں کہ میں کتنا بڑا محقق ہوں . پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش اور بہت سے ترقی پذیر ممالک میں استاد اور شاگرد کا جو تصور قائم کر دیا گیا ہے اس میں پیچیدگیاں اور مسائل کا ایک صحرا ہے . ادب کے تقاضوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے مگر جس انداز سے ہماری یونیورسٹیوں ، کالجوں اور سکولوں کا نظام چل رہا ہے اس میں بہتری کی ابھی بہت گنجائش ہے
اس روز میں نے بہت سے انٹرویو کیے اور جب میں تھک گیا تو واپس ہوٹل آ گیا . یہاں خاموشی اور تنہائی تھی ، سب ہوٹل سے غائب تھے . میں یہ سوچ رہاتھا کہ ہماری قوم کو مغرب کی نقل کرنے کا ایک بخار ہے ، اگر ہم لباس ، خوراک ، گھروں کی تزئین و زیبائش میں ان کی نقل کر سکتے ہیں تو تعلیم کے میدان میں ابھی تک ہم پیچھے کیوں ہیں ؟ کیا وہ منزل دور ہے ؟ کیا کبھی اس ہجوم کو کوئی قوم بنا سکے گا جو کچھ خاندانوں کی رعایا ہے ؟ میر کارواں کہا ہے ؟
جیہڑیاں گڈیاں آپے اڈیاں تے او کدی نہ چڑہدیاں اچایاں
اُوہی گُڈیاں چنگیاں اُڈیاں، جیہڑیاں سائیاں آپ اُڈائیاں
اسی سوچ کے ساتھ ایک بار پھر نقشہ ہاتھ میں تھامے میں انڈورا لاویلا کی تلاش میں نکل پڑا
جاری ہے