Tarjuman-e-Mashriq

-5 -بریگیڈیئرصولت رضا کی انکشاف انگیز یادداشتیں

        

 بریگیڈیئر (ر) صولت رضا 6 اکتوبر 1952ء کو سید رفاقت حسین کے ہاں پشاور میں پیدا ہوئے۔ جو ایک سرکاری ملازم کے طور پر وہاں متعین تھے۔ ابتدائی تعلیم ڈی پی نیشنل سکول ٹیونیشیا لائنزکراچی سے حاصل کی۔ماڈل ہائی سکول ماڈل ٹائون لاہورسے میٹرک،اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے انٹرمیڈیٹ، اسلامیہ کالج سول لائنز سے بی اے اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کیا۔1971ء میں پاک آرمی جوائن کی اور پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے تربیت حاصل کی۔ پاسنگ آئوٹ کے بعد توپ خانہ کی ایک یونٹ ’’23 فیلڈ رجمنٹ آرٹلری‘‘میں تعینات کیے گئے۔اکتوبر 1973ء میں ان کی خدمات مستقل طور پر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’’انٹر سروسز پبلک ریلیشنز‘‘ کے حوالے کر دی گئیں۔ جولائی 2003ء میں آئی ایس پی آر سے بطور بریگیڈیئر ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔

صولت رضانے  اپنی کتاب ’’کاکولیات‘‘ سے بہت شہرت پائی۔کتاب کا پہلا ایڈیشن 1975ء میں شائع ہوا اور اس کا 27واں ایڈیشن 2012ء میں شائع ہوا۔یہ معلوم ایڈیشنز کی تعداد ہے جو مصنف کے پبلشر نے شائع کیے۔ کہاجاتاہے کہ اس کتاب کے ’’نامعلوم ایڈیشنز‘‘کی تعداد بہت زیاد ہ ہے۔یہ پاکستان ملٹری اکیڈمی میں زیر تربیت ایک کیڈٹ کی دلچسپ آپ بیتی ہے۔ پیش لفظ میں ممتاز ادیب بریگیڈیئر صدیق سالک نے لکھا: ’’کیپٹن صولت رضا سنگلاخ فوجی زمین سے پھوٹنے والا ایک تازہ چشمہ ہے۔ اسی زمین سے پھوٹنے والے کئی چشمے مثلا ً کرنل فیض احمد فیض،میجر چراغ حسن حسرت ، میجر جنرل شفیق الرحمن، کرنل محمد خان اور میجر ضمیر جعفری پہلے ہی دریااور پھر سمندر بن چکے ہیں۔ صولت رضا میں بھی چشمہ سے سمندر بننے کی صلاحیت موجود ہے‘‘۔

 جناب صولت رضا نے مختلف فوجی اور سیاسی ادوار کو بہت قریب سے دیکھا۔ قومی ڈائجسٹ کو یہ اعزاز حاصل ہورہاہے کہ صولت رضا کی یادداشتیں پہلی بار ان صفحات پر شائع ہو رہی ہیں۔

                                                                          ٭٭٭٭٭

اردن میں پروٹوکول شاہی تھا ۔یوں محسوس ہورہا تھا کہ پاکستان اور اردن جڑواں بھائی ہیں ۔ میزبان اور مہمان یک جان دو قالب دکھائی دیے۔اردن سے اومان جانا تھا۔ کسی نے یہ خبر اڑا دی کہ پہلے عمر ہ کرنے سعودی عرب جائیں گے ۔شام سے پہلے واضح تردید ہوگئی ۔ اومان میں ہمارا قیام مختصر رہا۔بلوچستان سے ملتے جلتے جغرافیائی خدو خال دکھائی دے رہے تھے ۔ پاکستان کے حوالے سے ہر ملک میں خوش آمدید، بھرپور پذیرائی اور عزت و وقار کاسماں تھا۔واپسی پی ۔ آئی ۔ اے کے خصوصی طیارے کے ذریعے تھی۔حسب سابق جنرل محمد ضیاء الحق،بیگم صاحبہ اور سینئر سٹاف ممبرز اگلی نشستوں پر تشریف فرماتھے ۔ جہاز کی پرواز وطن عزیز کی جانب  جونہی ہموار ہوئی توصدرمملکت  جنرل محمد ضیاء الحق نے وفد میں شامل سرکاری اور میڈیا کے نمائندوں سے’’الوداعی‘‘مصافحہ شروع کر دیا۔ایڈیٹر، رپورٹر،کیمرہ مین، لائٹ مین سمیت کوئی شخص چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے تعلقات عامہ کی خصوصی شعاعوں سے محفوظ نہیں تھا۔آئی ایس پی آر کی ٹیم سب سے آخر میں موجود تھی۔میر ی جانب ہاتھ بڑھایا ۔ میں نشست سے کھڑا ہو گیا۔ کہنے لگے ’’تشریف رکھیے۔ سنائیے ، کیسے رہا یہ سفر؟‘‘۔ میں نے حسب معمول دو چار فقروں میں تعریف کر دی۔میری بات ختم ہوئی تو کہنے لگے کہ ’’ہلال‘‘میں تاثرات ضرور لکھیے گا‘‘۔میں نے رائٹ سر کہااور جانے کیوں میں نے کہہ دیاکہ’’ سر!میرے لائق کوئی خدمت ‘‘؟دراصل پبلک ریلیشنز کی ڈیوٹی ادا کرتے ہوئے بعض جملے اور الفاظ روز مرہ بول چال کا حصہ بن جاتے ہیں۔ جانے انجانے میں پی آر او موقع محل دیکھے بغیر گنگناتا رہتا ہے۔ میر ی بات سن کر جنرل محمد ضیاء الحق ایک لمحے کے لیے رکے اور اپنا مخصوص قہقہہ بلند کیا۔کیپٹن کے کاندھے کو تھپتھپایا اور ’’تھینک یو۔تھینک یو‘‘کہہ کر آگے بڑھ گئے۔آئی ایس پی آر میں میرے سینئر اور ’’رہنما‘‘کرنل صدیق سالک(بعد میں بریگیڈیئر)بھی یہ مکالمہ سن رہے تھے۔انہوں نے صدر صاحب کے جاتے ہی مجھے اپنی نشست کے قریب طلب فرمایا اور کہا کہ’’ مسٹر!یہ کیا کہہ رہے تھے آپ؟ایک کیپٹن آرمی چیف اور صدرمملکت کو کہہ رہا ہے کہ سر!میرے لائق کوئی خدمت؟۔تم جانتے ہو کس سے بات کر رہے تھے ،صدر پاکستان، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور آرمی چیف سے۔ ہوش میں تو ہو ؟بریگیڈیئر صدیق سالک بنیادی طور پر ایک ادبی شخصیت تھے۔ان کا بات چیت اور مکالمے کا انداز منفرد تھا۔موقع محل دیکھ کر ہم بھی ’’درباری انداز ‘‘میں لطف اٹھایاکرتے تھے۔ تاہم اس روز وہ مجھے سنجیدہ دکھائی دئیے۔ان کی سر زنش یقینا سبق آموز تھی۔ عسکری زندگی کے سفر میں کئی بار ایسا ہوا کہ ہم نے کسی بڑے سینئر کو جنرل محمد ضیاء الحق سمجھ کر لطیف پیرائے میں گفتگو کی کوشش کی تو منہ کی کھائی۔جس کے بعدمنہ کا زاویہ

 اورذائقہ تبدیل کرنے میں کافی وقت صرف ہوا۔ تب بریگیڈیئر صدیق سالک کی نصیحت یاد آتی تھی۔ہمیشہ کندھے اور کالر پر رینک دیکھ کر ہی ’’مشق سخن‘‘کی جرات کرتاتھا۔

راولپنڈی واپس پہنتے ہی ہم تاثرات لکھنے میں مصروف ہو گئے ۔ ’’اخوت کا سفر‘‘کے عنوان تلے متعدد اقساط میں سفرنامہ ہفت روزہ ہلال میں شائع ہوا۔دوست احباب ،کورس میٹ ،کولیگ حاشیہ آرائی میں مصروف ہوگئے۔اکثر ہماری صدارتی سفرپیمائی سے لاعلم تھے ۔ اس دوران بریگیڈیئر صدیق سالک نے اپنے مخصوص انداز میں تبصرہ کیا کہ لکھا تو تم نے خوب ہے لیکن یہ ’’اخوت کا سفر‘‘صحیح کتابت نہیں ہوا۔میں نے گھبراکر ہر زاویے سے کتابت دیکھی ،اخوت کا سفر ہی لکھا تھا۔ میںسفرنامے میں استنبول میں قیام کا حال لکھ رہا تھا تو آنکھوں کے سامنے جبہ مبارک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لمحات آگئے۔ دعادل سے کئی بار دہرائی گئی۔ہفتے دس روز بعد شمارہ شائع ہوگیاابھی شاید تقسیم کے مراحل سے گزر رہا تھا کہ متعلقہ دفتر سے اطلاع ملی کہ مجھے لاہور تعینات کر نے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔چند روز میں باقاعدہ احکامات جاری ہو جائیں گے۔ یوں میجر کا رینک بھی مل جائے گا۔لاہور میں آئی ایس پی آرکے تجربہ کار اور میرے سینئر افسر میجر محمد غازی الدین تعینات تھے ۔ انہیں پی آر او مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر پنجاب کی اضافی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی تھی۔لاہور پہنچاتو میجر غازی نے ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ یہ آپ کا شہر ہے۔ میڈیا میں پہلے سے آپ کی علیک سلیک ہے ۔ آپ پنجاب یونیورسٹی شعبہ صحافت سے فارغ التحصیل ہیں ۔ کلاس فیلوز اور ڈیپارٹمنٹ فیلوز کے دائرے موجود ہیں لیکن ایک بات یاد رکھنا کہ کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل سردار ایف ایس لودھی اپنے نام کے انگریزی ہجوں کے بارے میں بہت حساس واقع ہوئے ہیں ۔ میں نے کئی مرتبہ بہت مشکل سے اپنی گردن بچائی ہے ۔ میجر محمد غازی الدین ہمارے ڈائریکٹر بریگیڈیئر تفضل حسین صدیقی کے پسندیدہ افسر تھے۔لیفٹیننٹ کرنل کے رینک سے ریٹائر ہوئے۔بہت محتنی ،فرض شناس اور ملنسارطبیعت کے مالک تھے۔بدقسمتی سے راولپنڈی میں بریگیڈیئر صدیقی کے ساتھ بعض غلط فہمیوں کے باعث نیوی کے پبلک ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ میں تعینات کر دیئے گئے ۔ کراچی یونیورسٹی کے جرنل ازم ڈیپارٹمنٹ سے فارغ التحصیل تھے ۔ یوں ان کا بھی وسیع حلقہ احباب تھا۔ان میں ایک اہم خوبی معمول کی تقریبات کے پریس ریلیز کی قبل از وقت تیاری تھا۔ وہ غیر سرکاری پریس نمائندوں کو پیشہ وارانہ لحاظ سے ہمیشہ ’’زیر دام‘‘ہی رکھتے تھے ۔ یہ نمائندے تقریب کے چائے کھانے یا خوش گپیوں میں مصروف ہوتے تو میجر غازی الدین پہلے سے تیار شدہ پریس ریلیز کی نوک پلک زمانہ حال کے مطابق درست کر کے اسے اخبار یا نیوز ایجنسی کے سپرد کر دیا کرتے تھے۔ ہم نے ان سے بہت سیکھا لیکن دفتر کے ڈرائیورز یا نائب قاصد وغیرہ کے سامنے سینئر موسٹ افسر کی ’’زبانی گوشمالی‘‘سے ہمیشہ پرہیز کیاکیونکہ یہ عادت میجر غازی کے لیے باعث آزار ثابت ہوتی۔

بات جنرل لودھی کی ہورہی تھی ۔ لیفٹیننٹ جنرل سردار ایف ایس لودھی انگریزی میں لودھی کے بجائے لودی لکھا کرتے تھے ۔ ان کا اصرار تھا کہ اخبارات میں بھی ان کے پسندیدہ ہجے کے ساتھ نام شائع ہونا چاہیے۔ میرے لیے یہ بھی ایک بہت بڑا امتحان تھا ۔ خاص طور سے ’’پاکستان ٹائمز ‘‘ میں ڈیسک پر موجود قد آور صحافیوں کولودی لکھنے پر آمادہ کرنا ممکن نہیں تھا ۔ مجھے معلوم ہوا کہ دو تین مرتبہ اگر پسندیدہ ہجے شائع نہ ہوئے تو لاہور سے چھٹی ہو جائے گی۔ اللہ خوش رکھے پاکستان ٹائمز کے نیوز ایڈیٹرزاور سب ایڈیٹرز کو ۔انہوں نے کبھی مایوس نہیں کیا ۔ ان میں سے چند ایک مارشل لاء سے ذہنی لحاظ سے ’’برسرپیکار‘‘بھی تھے۔لیفٹیننٹ جنرل سردار ایف ایس لودھی کچھ عرصہ بعد گورنر بلوچستان تعینات ہو گئے ۔یوں تعلقات عامہ کا ایک بڑ اامتحان جس میں تما م تر کوشش اور کاوش کے باوجود فیل ہونے کے خدشا ت لاحق تھے ہمارے کورس سے ’’منہا‘‘ہو گیا۔

   لیفٹیننٹ جنرل لودھی زیادہ عرصہ گورنر نہیں رہے ۔ انہوں نے حلف اٹھانے کے بعد مجھے کوئٹہ سے لاہور فون کیااو ر ہدایت کی کہ کوئٹہ میں جو بھی سیٹ اپ ہے انہیں بتاد وکہ میرے نام کے ہجے درست شائع ہونے چاہئیں۔کوئٹہ میں چار برس سے زائد ڈیوٹی ادا کی تھی۔بلوچستان کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز ممتاز شاعر ، ادیب عطا شاد تھے ۔ میں نے انہیں فون کیا ، حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ ابھی گونر ہائوس سے آرہا ہوں ۔ کسی نے نام کے  ہجے کا ذکر نہیں کیا۔میں نے کہا کہ’’ سر!عسکری راز  ہے ۔ اپنوں سے ہی کہلوانا تھا‘‘۔آپ کی مہربانی ہوگی ورنہ مجھے لاہور سے کوئٹہ طلب کر لیں گے۔جنرل لودھی کو منصب سنبھالے ابھی

 زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ایک روز ضروری میٹنگ کے لئے اسلام آباد آرہے تھے کہ خرا ب موسم کے باعث طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔جہاز کا عملہ اور گورنر بلوچستان کے اے ڈی سی جاں بحق ہوگئے ، لیفٹیننٹ جنرل لودھی زندہ بچ گئے لیکن شدید زخمی تھے۔علاقے میں موجود ایک چرواہابچے نے جہاز کو گرتے ہوئے د یکھ لیا ، وہ گائوں سے بھاگا اور چند بڑو ں کو بلالایا۔انہوں نے شدید زخمی گورنر کو ٹرالی میں ڈالا اور قریبی شفاخانے کی جانب روانہ ہوگئے۔ راستے میں انہیں تیل اور ہلدی کا محلول پلاتے اور زخموں پر لگاتے رہے ۔قصہ مختصر موسم ٹھیک ہوتے ہی ہیلی کاپٹر پہنچا اور جنرل لودھی کو ملٹری ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔مدت کے بعد مکمل صحت یاب ہوئے ۔ کراچی میں قیام پذیر ہوگئے اور مختلف تعلیمی اداروں میں انٹرنیشنل ریلیشنز پر لیکچر دیا کرتے تھے۔دو برس ہوئے ان کا انتقال ہوا ۔ حق مغفر ت کرے۔

لاہور میں قیام کے دوران لیفٹیننٹ جنرل اسلم شاہ کے زمانے میں بھارت کی جانب سے حملے کا خطرہ بڑھ گیا۔افواج چھائونی سے سرحدی علاقوں کی جانب کوچ کر گئیں۔بھارتی آرمی چیف جنرل سندرجی نے حملے کے لیے تہیہ کیا ہوا تھا۔راجیو گاندھی بھارت کے وزیر اعظم تھے ۔ لاہور میں مشہور تھا کہ 1965ء کی مانند بھارت لاہور پر قبضے کی پوری کوشش کرے گالیکن اس مرتبہ اصل ہدف سندھ ہے ۔ بھارت کے خیال میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے باعث سندھ کے بعض علاقوںمیں ریاست مخالف جذبات موجود ہیں جن سے مشرقی پاکستان کی مانند فائدہ اٹھا یا جا سکتا ہے ۔ بہر حال طویل داستان ہے ۔ پاکستان کے حکمران جنرل محمدضیاء الحق تھے جنہوںنے دہلی میں راجیو گاندھی کو حملے کی صورت میں تاقیامت بربادی کا مژدہ سنا دیا تھا ۔ یوں حملے کی کیفیت میں کمی آگئی ۔لاہور میں مورچہ زن پاک فوجیوں کے جذبات ہمیشہ کی طرح سربلند تھے۔ انہیں علم تھا کہ اس علاقے کی ایک ایک انچ کی حفاظت جزو ایمان ہے۔

بھارتی حملے کا خطرہ ٹل گیا۔ دونوں ممالک کی افواج زمانہ امن کی پوزیشن پر واپس آگئیں تو لاہور چھائونی میں بھی معمول کی سرگرمیاں، تقریبات اور چہل پہل کاآغازہوگیا۔فورٹریس سٹیڈیم میں ہر سال منعقد ہونے والے ہارس اینڈ کیٹل شو کی پبلسٹی، گرائونڈ کمنٹری اور مجموعی میچ کی شب و روزحفاظت آئی ایس پی آر کی ذمہ داری تھی۔کہنے کو یہ میلہ مویشیاں تھا لیکن اس میں انسانوں کی شرکت تعداد کے لحاظ سے مویشیوں سے کہیں زیادہ ہوتی تھی۔جانوروں کی مانند ہر ٹائپ کا انسان اپنے وجود کا احساس دلانے کے لئے موجود ہوتا تھا۔ ظاہر ہے اخبارات کب تک روزانہ ایک ہی انداز کی خبر فرنٹ پیج کی زینت بنائیں گے۔راولپنڈی کی یوم پاکستان پریڈ 23مارچکے بعد ذہن سے اترجایا کرتی تھی لیکن لاہور کا میلہ مویشیاں دس روز تک شب و روز پیشہ وارانہ صلاحیتوں اور تعلقاتِ عامہ کا ایک امتحان تھا۔گرائونڈ کمنٹری کی نگرانی کے لئے لازم تھا کہ کمنٹری کرنے والے حضرات ہماری مرضی کے ہوں۔اس میدان میں ریڈیو پاکستان کے عزیز الرحمن کمال کی شخصیت تھے، بھاری بھر کم آواز ،میلہ مویشیاں کے تمام صوتی اور بصری تقاضے پورے کرتے ہوئے جب فورٹریس سٹیڈیم میں گونجتی تو ہر طر ف سناٹا چھا جاتا تھا۔میلے کے تماشے کئی گھنٹوں پر محیط تھے۔عزیز الرحمن کی انرجی بحال رکھنے کے لئے ہم چائے ، کافی اور سینڈ وچ وغیرہ سکرپٹ کے ساتھ ساتھ حاضر رکھتے تھے ۔ ایک حد تک یہ سلسلہ چلتا تھا لیکن سٹینڈ بائی کمنٹریز کو بھی لانچ کرنے کی نوبت آجاتی تھی۔یہ مرحلہ خاصا اعصاب شکن تھا۔ ہم چند لمحوں کے لئے چُوک گئے تو ڈائس کے سامنے سے گزرنے والے گھوڑے ، خچر کی بجائے دوآبہ کی بھینس کی خصوصیات پڑھنا شروع کردیتے تھے ۔ ایک مرتبہ تو کمال ہی ہوگیا ۔ انتظامیہ کی ایک اہم ترین شخصیت نے دبائو ڈال کر ایک مشہور ٹی وی اداکار کو کمنٹری باکس میں بھیج دیا۔ان کا اصرار تھا کہ وہ آئی ایس پی آر کاسکرپٹ نہیں پڑھیں گے اور رو اں تبصرہ کریں گے ۔ کھلی آنکھ کے ساتھ ہم نے بہت منت سماجت کی کہ جناب آپ فلم ڈرامے میں بھی سکرپٹ کے مطابق ہی ڈائیلاگ بولتے ہیں۔ یہ بھی زندہ ڈراما ہی سمجھ لیں ۔ سٹیڈیم میں اہم ترین ملٹری اور سول شخصیات اور شہر لاہور کے اکابرین ،رئوسا اور اخبارات کے نمائندے موجود ہیں۔ بہر حال انہوں نے جب واک آئوٹ کی دھمکی دی تو ہم بھی خاموش ہو گئے ،میلہ مویشیاں کاایک اہم ایونٹ ڈاگ ریس تھی۔اس میں تربیت یافتہ کتے ، اپنے مالک کے اشاروں پر تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے تھے ۔ ریس کادورانیہ مختصر ، لہذا رواں تبصرہ کرنے والے کو پلک جھپکنے کی ہی فرصت نہیں ہوتی تھی۔اداکار کمنٹریز کو ہر طرح سے بریف کیاگیا۔ سٹیڈیم کے بائیں جانب سے کتے نکلے ، اب کمنٹریٹر کو بھی ان کے ساتھ آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے رہنا چاہیے تھا۔ریس میں شریک کتے کی کمر پر شوخ رنگ کا کپڑ اپہنا دیا جاتا ہے جس پر مخصوص نمبر لکھا ہوتا ہے ۔ اچانک کمنٹریٹرنے نمبر کے بجائے کمر پر رنگدار پہناوے کو ’’واسکٹ‘‘کہنا شروع کر دیا۔تقریباً چلانے کے انداز میں:’’ نیلی واسکٹ والا آگے،باواجی !واسکٹ دوسرے نمبر پر اور یہ کالی واسکٹ نے بھی زور لگایا اور سب سے آگے ، کمال کر دیا‘‘۔اور اسی سے

 ملتے جلتے دیگر فقرے بھی بولتے چلے گئے ۔ ہم نے اشاروں سے بات سمجھانے کی کوشش کی تو آواز مزید اونچی کر کے پکارنے لگے :’’تین نمبرواسکٹ سب سے آگے، چھ نمبر واسکٹ مشکل میں ہے ‘‘۔ نیچے وی آئی پی سٹینڈ سے قہقہے بلند ہورہے تھے ۔ شکرہے کہ خاکی رنگ کے پہناوے کے ساتھ کوئی دوڑ میں شریک نہیں تھا ورنہ ہم فورٹریس سٹیڈیم سے سیدھا ملٹری ہسپتال ہی جاتے۔بہر حال تقریب ختم ہوتے ہی ہماری طلبی ہوگئی۔اس مرتبہ سول ملٹری کی مشترکہ ڈانٹ ڈپٹ نے دن میں تارے دکھا د یئے ، جنرل محمد ضیاء الحق کی حکومت تھی ۔ تقریبات میں اکثرصف اول کے مدعوئین کو شلوار،قمیض اور واسکٹ ہی زیب تن کرتے تھے ۔ ہمیں وارننگ کے ساتھ یہ مژدہ بھی سنایا گیا کہ واسکٹ والی بات بہت ا وپر تک جائے گی ، تم اپنی خیر منائو ۔ میں نے دفتر پہنچتے ہی بریگیڈیئر تفضل حسین صدیقی کو روداد سنائی ۔ پہلے تو انہوں نے خوب انجوائے کیا ،جب قہقہہ ختم ہوا تو فرمانے لگے کہ دیکھو بھئی!ذمہ داری تو آپ کی تھی ، اچھا جو ہو گیا وہ ہوگیا ۔ اب کل کی تیار ی کرو اور کمنٹر باکس کو بند کر کرے تالالگا دیا کرو تاکہ سفارشی اندر نہ آئے ۔ رات گئے معلوم ہوا کہ کسی وی آئی پی نے کور کمانڈر کو بھی تحریری رپورٹ کی ہے ۔ یوں صورتحال بہت سنگین ہے۔ چندروز کھینچا تانی رہی ۔ عزیزالرحمن کے منظور شدہ  اعزازیہ کے حصول میں بھی دشواری آئی۔معاملے میں ویٹو کور ہیڈ کوارٹرز کے پاس تھا لہذا انہیں ادائیگی کر دی گئی ۔

کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اسلم شاہ دھیمی طبیعت کے حامل تھے۔کھرے عسکری ، معاملہ فہم اور مشفقانہ انداز میں برتائو کے قائل تھے۔ایک روز ابھی میں اخبارات کا مطالعہ کر رہاتھا کہ دفتر میں ڈائریکٹ فون کی گھنٹی گونجنے لگی۔ یہ ہیڈ کوارٹرکااندرونی مواصلاتی نظام کا حصہ تھا۔لائن پر کور کمانڈر تھے ۔ پوچھنے لگے کہ کوئی خاص خبر ہے ؟۔میں نے دو تین معمول کی خبریں پڑھنا شروع کیں تو ٹوکا۔نہیں کئی او رخبر ۔ میں نے کہا کہ نہیں سر۔دوسری جانب سے آواز آئی۔ کمال ہے مجھے آپ سے یہ توقع نہیں تھی ۔ آج کی سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ فیض احمد فیض گزر گئے ۔آپ میرے دفتر میں آئیے۔ کور کمانڈر کی فیض احمد فیض کی وفات میں دلچسپی سے میرے اوسان خطا ہو گئے ۔ الٰہی ماجرا کیا ہے ۔ میں سمجھا کہ شاید دور نزدیک کے رشتہ دارہوں۔بہر حال دو تین اخبار تھامے ، حاضر ہوا تو بات آگے بڑھاتے ہوئے کہنے لگے کہ آپ کے آئی ایس پی آر کے افسر تھے۔آپ کا اخلاقی فرض ہے کہ جنازہ میں شرکت کریں۔میں نے کہا کہ سر!اس معاملہ میں راولپنڈی سے حکم موصول نہیں ہوا۔دفتری اوقات میں ممکن نہیں ۔میری بات مکمل ہوئی تو کہا کہ میں شرکت کرنا چاہتا ہوں ۔آپ کی کیارائے ہے؟میری رائے کیا ہو سکتی تھی ۔ میں نے صرف اتنا کہ کہ سر!وردی میں مناسب نہیں ہوگا اور بہتر ہوگا کہ راولپنڈی میں بات کر لیجیے۔ کور کمانڈر کچھ دیر خاموش رہے ’’اچھا وردی تبدیل کریں۔ آدھ گھنٹے بعد ہم دونوں پرائیویٹ کار میں ماڈل ٹائون لاہور جائیں گے ۔ ایک پھولوں کی چادر کا بھی انتظام کر  یں ، قبر پر رکھنے کے لیے‘‘۔

اب یہ ایک نیا امتحان تھا۔ سٹاف کی مدد سے انتظامات مکمل کئے۔گھر سے شلوار قمیض اور واسکٹ منگوائی ۔کور کمانڈر کے اے ڈی سی نے پرائیویٹ کار کا انتظام کردیا تھا۔میں کور کمانڈر کے ہمراہ جی بلاک ماڈل ٹائون گرائونڈمیں تھا ۔ ابھی نماز شروع نہیں ہوئی تھی ۔ ہم ایک جانب کھڑے تھے۔میرے کچھ دوست احباب علیک سلیک کر رہے تھے ۔ کچھ دیر بعد گورنر پنجاب کے ملٹری سیکرٹری کرنل یعسوب ڈوگر نے جو باوردی تھے مجھے ہاتھ کے اشارے سے طلب کیا۔مجھے ساکت دیکھ کر وہ خود آگے بڑھے تو کور کمانڈر کو دیکھ کر سیلوٹ کیا اور انہیں پہلی صف میں لے جانے پر اصرار کرنے لگے ۔ شرکاء کی اکثریت کے لئے کور کمانڈ راسلم شاہ کو عام لباس میں پہچاننا ممکن نہیں تھا۔مجھ سے چند ایک رپورٹرز نے دریافت کیا تو میں نے بتا دیا ۔ اگلے روز اخبارات میں کور کمانڈر کی فیض احمد فیض صاحب کے جنازے میں شرکت کی خبریں شائع ہوئیں تو لیفٹیننٹ جنرل اسلم شاہ نے کہا کہ یہ ٹھیک نہیں ہے، میں تو ذاتی حیثیت سے گیا تھا۔

ماڈل ٹائون سے واپسی کے دوران کور کمانڈر ن فیض احمد فیض کی شاعری اور زندگی کے بارے میں معلوماتی گفتگو کی۔میں نے راولپنڈی سازش کیس میں مرحوم کی شرکت کا قصہ چھیڑا تو کہنے لگے کہ شاید: ’’محفل آرائی‘‘کے باعث وہ دھر لئے گئے تھے ۔ اصل میں اہم ترین کردار میجر جنرل اکبر خان آزادی کشمیر کے حوالے سے ایک اہم اور نمایاں نام تھا۔ان سے فیض احمد فیض ملتے جلتے ہوں گے ‘‘۔لیفٹیننٹ جنرل اسلم شاہ نے ریٹائرڈ منٹ کے بعد راولپنڈ ی میں سکونت اختیار کی ۔ اہم مواقع پر انگریزی اخبارات میں معلوماتی مضامین لکھتے رہے۔ اللہ کریم ان کی مغفرت فرمائیں ۔آمین

لاہور میں سرکاری فرائض کی ادائیگی کے علاوہ ذاتی مصروفیات بھی تھیں۔ اخبارات اور جرائد میں کبھی بغیر کام کے چلے جانا ، اپنے کلاس فیلوز اور دوستوں کے

 ساتھ گپ شپ ،عزیز رشتہ داروں سے ملاقاتیں ،میل جول وغیرہ۔سب سے بڑھ کر والدین اور بھائی بہن ماڈل ٹائون میں مقیم تھے ۔ ان کے ہاں بھی کبھی تنہا اور اکثراپنی فیملی کے ہمراہ حاضر ی ایک مستقل فریضہ تھا۔عموماًنماز جمعہ والد گرامی کے ہمراہ ماڈل ٹائون میں ہی ادا کی جاتی تھی۔لاہور آئے ابھی ایک برس ہی ہواتھا کہ والد محترمہ شدید علیل ہوگئیں۔بہت تاخیر سے ذیا بیطس تشخیص ہوئی۔چندماہ کی مسلسل علالت کے بعد انتقال فرماگئیں۔ یہ میرے لیے شدید جذباتی دھچکہ تھا۔انہیں جی بلاک ماڈل ٹائون لاہور کے قبرستان میں سپردخاک کیا گیا۔والدہ محترمہ کے انتقال کے بعد کافی عرصہ تک مجھے پیدل سڑک پار کرنے میں دشواری کا سامنا رہا۔ دورسے آتی ہوئی گاڑی اپنے قریب محسوس ہوتی تھی۔یوں سڑک پر بے چارگی کے عالم میں کھڑ ا رہتاتھا۔کسی نے گلبرگ لاہور کے ایک ڈاکٹر کا ایڈریس دیا ۔ ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ آپ والدہ کے انتقال کے بعد شدید ذہنی صدمے سے دوچار ہوگئے ہیں۔انہوں نے کچھ ادویات اور چند مشورے دیئے ۔ بہرحال زندگی کے معمول پر آنے میں کچھ و قت لگا تاہم والدہ کی کمی آج بھی روز اول کی مانند محسوس ہوتی ہے۔

لاہور میں مجیب الرحمن شامی صاحب کے آفس کا بھی دس پندرہ روز کے بعد چکر لگتارہتا تھا۔ اب یاد نہیں کہ شامی صاحب کے جریدہ ’’بادبان‘‘میں کالم لکھنے کا خیال کیسے آیا کہ قلمی نام سے مہینے میں دو تین کالم شائع ہونا شروع ہوگئے۔عنوان تھا’’تادم تحریر‘‘اور قلمی نام رضی بن رفاقت تھا۔ رضی کے نام سے والدین اور قریبی عزیز بلاتے تھے اور رفاقت میرے والد گرامی کا نام تھا۔یہ راز صرف شامی صاحب کو ہی معلوم تھا ۔ کبھی کبھار شائع شدہ متن میں ’’گڑ بڑ‘‘ہوجاتی تو شامی صاحب سنبھال لیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ جنرل محمد ضیاء الحق لاہور تشریف لائے ۔ ان کے چند روزہ دورے میں فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (رشیدصدیقی گروپ)کی تقریب میں شرکت میں شامل تھے۔دراصل صحافتی یونینز دو تین گروپوں میں تقسیم تھیں۔ایک کی قیادت رشید صدیقی کر رہے تھے ، اس گروپ کے متحرک اراکین میں چودھری غلام حسین اور شاہد اسلم شامل تھے۔ دوسرا بااثرگروپ منہاج برنا سے منسوب تھا۔اس میں نثار عثمانی ایسے سرکردہ صحافی شامل تھے۔رشید صدیقی نے جنرل محمد ضیاء الحق کو الحمراء آرٹس کونسل کے وسیع وعریض ہال میں خطاب کی د عوت دی تھی جس کو بھرنے کے لیے غیر صحافتی افراد کو بھی مدعو کیاگیا گیا۔میں اور بریگیڈیئر تفضل حسین صدیقی ایسے ہی غیر صحافتی افراد کی صف میں بیٹھے تھے۔جنرل محمد ضیاء الحق مصروفیات کے باعث تاخیر سے تقریب میں پہنچے تو ہال تالیوں اور نعروں سے گونج اٹھا۔ ایک دو مقررین نے مہمان خصوصی کی تاخیر سے آمد کو بھی موضوع بنایا۔ ایک صاحب نے یہاں تک کہہ دیا کہ آپ کے انتظار میں ہم پیشاب تک روکے بیٹھے ہیں۔ کیونکہ ہمارے قائد رشیدصدیقی کسی کو ہال سے باہر جانے کی اجازت نہیں دے رہے۔بہر حال تقریب ختم ہوئی۔میں نے اگلے روز ایک کالم جسے مزاحیہ ہی کہا جا سکتا تھا لکھ کر مجیب الرحمن شامی صاحب کے حوالے کردیا۔اس کالم میں تقریب کے حوالے سے بقول شخصے’’غیر سنجیدہ‘‘سطور رقم کی گئی تھیں۔چند جملے میزبان اور کچھ مہمان خصوصی کے شایان شان نہیں تھے۔’’بادبان‘‘کا شمارہ شائع ہوا تو میرے کالم کے حوالے سے صحافتی حلقوں میں ’’آہ وفغاں‘‘سنائی دینے لگی۔دراصل منہاج برنا اور نثارعثمانی کے ہم نوا صحافیوں نے کالم کی فوٹو سٹیٹ کاپیاں وسیع پیمانے پر تقسیم کیں۔اب رشید صدیقی کے ساتھی ’’رضی بن رفاقت‘‘کی تلاش میں تھے۔کسی طور کُھرا مجھ تک پہنچ گیا ۔انہوں نے بریگیڈیئر تفضل حسین صدیقی اور کرنل صدیق سالک(بعد میں بریگیڈیئر)کو میری شکایت کی اور کالم کو جنرل محمد ضیاء الحق کی شخصیت پربراہ راست حملہ قرار دے دیا۔مجھے تفضل حسین صدیقی نے راولپنڈی سے کال کی اور کالم کے بارے میں افواہوں کی تصدیق چاہی۔بریگیڈیئر انتہائی نستعلیق اور رکھ رکھائو والی شخصیت تھے۔کہنے لگے کہ ’’یہ کالم آپ نے لکھا ہے؟‘‘۔میں نے بھی احترام کے ساتھ عرض کی کہ ’’سر!آپ سرکاری طور رپر پوچھ رہے ہی؟‘‘فرمایا:’’جی۔سرکاری طور پر ہی پوچھ رہاہوں۔معاملہ بہت سیریس ہے‘‘۔

میرا جواب تھا کہ’’ سر!یہ میں نے نہیں لکھا۔ کسی رضی بن رفاقت کی تحریر ہے‘‘۔ان کی آوازگونجی ’’سید صاحب سنیے ، ذاتی طور پر بتائیے‘‘۔ یہ مختلف انداز تھا ۔ میں نے فوراً اقرار کیا اور کہا کہ سر!آپ کو یاد ہوگا کہ ہال میں کیسی گفتگو ہو رہی تھی۔کیا وہ سب کچھ مہمان خصوصی کے شایان شان تھا؟۔بریگیڈیئر تفضل حسین صدیقی نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے صدر مملکت کو مشور ہ دیا تھا کہ وہ صحافیوں کے ایک گروپ کی تقریب میں شرکت نہ کریں ،وغیرہ وغیرہ۔تھوڑی

 دیر بعد صدر مملکت کے پریس سیکرٹری صدیق سالک فون پر تھے۔’’ میجرصولت رضا، آپ نے تو کما ل کر دیا۔امام (جنرل ضیاء الحق)نے بھی پڑھا ہے اور محظوظ ہوئے ہیں‘‘۔

میں چند روز پریشن اور گومگو کی حالت میں رہا۔ دس پندرہ روز کے بعد جنرل محمد ضیاء الحق دوبارہ لاہور آئے ۔ میں بھی آئی ایس پی آر ٹیم کے ہمراہ ایئرپورٹ پر موجود تھا۔ صحافیوں میں چودھری غلام حسین بھی دکھائی دے رہے تھے۔علیک سلیک ہوئی۔اتنے میں جنرل ضیاء الحق آگئے۔ ہم دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر کہنے لگے:’چودھری صاحب آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہمارے پاس وردی میں بھی کالم لکھنے والے موجود ہیں‘‘۔

  یہ ذومعنی جملہ سن کر میں نے باوردی سول کالم نگاری سے توبہ کر لی۔یہ حقیقت ہے جنر ل محمد ضیاء الحق مارشل لاء حکمران ہونے کے باوجود کافی حد تک آزادی اظہار برداشت کرتے تھے۔ اخبارات اور کتب کا مطالعہ ان کی عادت ثانیہ تھی۔ یوں ان میں ایک بااخلاق سامع کی خصوصیات بھی موجود تھیں۔انہیں بریگیڈیئر تفضل حسین صدیقی اور بریگیڈیئر صدیق سالک کی صورت میں اعلیٰ پائے کے صحافتی اور ادبی پس منظر رکھنے والی شخصیات کی مخلصانہ آرا ء سے مستفید ہونے کا موقع بھی ملتا تھا تاہم وہ خود بھی فن ابلاغ کے ماہر تھے۔ انہوںنے اپنے دورِ حکومت میں عسکری ، سیاسی اور ابلاغی محاذ پر منفرد کارنامے انجام دیئے جنہیں محض مارشل لاء حکومت کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔بدقسمتی سے سانحہ بہاولپور کے بعد جنرل محمد ضیاء الحق کے ’’غیر سیاسی‘‘کارنامے پس پردہ چلے گئے ۔ میاں محمد نواز شریف نے جنرل محمد ضیاء الحق کے سیاسی ورثے کو اپناتے ہوئے متعدد عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی ۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ عرصے سے انہوں نے دیگر آرمی چیفس کیساتھ اپنے مربی اور محسن کو بھی آڑے ہاتھوں لینا شروع کردیا ہے۔میں سمجھتاہوں کہ بیرونی محاذ پر بھارت جنرل محمد ضیاء الحق سے سب سے زیادہ خائف تھا۔شاید ان کے پاس پاک افواج کی تیاری کے حوالے سے رپورٹس موجود ہوں گی۔

افغانستان میں سوویت یونین کی براستہ پاکستان شکست کے بعد بھارت کو اندیشہ تھا کہ اب ’’تربیت یافتہ‘‘مسلمان جتھے کشمیر سمیت متعدد ریاستوں کو بھی آزاد کرائیں گے یا کم از کم بھارت کے زیر اثر نہیں رہنے دیں گے ۔ بنگلہ دیش میں بھی اس حوالے سے خوش آئند سیاسی اور عسکری تبدیلیاں آرہی تھیں۔ ڈھاکہ میں پاکستان کا اثرو نفوذ بڑھ رہا تھا۔بھارت میں سکھ برادری کے ساتھ جنونی ہندوئوں نے جو کچھ کیا۔ اس کے اثرات بھارت کے حق میں نہیں تھے۔ جنرل محمد ضیاء الحق خطے کی صورتحال کا مکمل ادارک رکھتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ انہوں نے متعدد بار پاک افواج کی تربیتی مشقوں کے معائنہ کے بعد افسروں اور جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے واضح الفاظ  میں کہا کہ’’ ہم نے سقوط ڈھاکہ کا بدلہ لینا ہے۔ آج نہیں تو کل،اور کل نہیں تو پرسوں ، یہ ہو کررہے گا۔اور بھارت کے ساتھ وہی کچھ کیاجائے گا جو اس نے ہمارے ساتھ مشرقی پاکستان میں کیا‘‘۔

انہوںنے علمی سطح پر بھی سٹیک ہولڈرز کو مطمئن رکھنے کی پالیسی اختیار کی ہوئی تھی۔ یوں پاکستان کو معاشی،سیاسی اورعسکری شعبوں میں مدھم ہی سہی تاہم تسلسل کے ساتھ آگے بڑھنے کے مواقع میسر تھے۔میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ جنرل محمد ضیاء الحق کو منظر سے ہٹانے میں دشمن کا ہاتھ تھا۔ ایسے قتل عموما ً اس انداز میں کئے جاتے ہیں کہ لہو کی لکیر تک باقی نہیں رہتی ۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے ۔

بات لاہور سے شروع ہوئی اور جنرل محمد ضیاء الحق کی شخصیت، کارنامے اور سانحہ بہاولپور کا ذکر درمیان میں آگیا۔ان کی قومی خدمات کو محض ’’مارشل لاء حکمران‘‘کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

لاہور میں فرائض منصبی معمول کے مطابق جاری تھے۔زندہ دلوں کے شہر میں چھ برس سے زائد ہو گئے تھے ۔ کسی اور شہر میں پوسٹنگ کی آرزو تھی اور نہ ہی امید۔ہمارا بھی لاہور سے جی بھرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ایک روز بریگیڈیئر صدیق سالک کی کال آئی کہ آپ گورنر ہائوس لاہور تشریف لائیے ، ضروری بات ہے۔ وہ جنرل ضیاء الحق کے ساتھ لاہور آئے ہوئے تھے ۔ میں سمجھا کہ رات گئے کوئی ابلاغی ڈیوٹی ہوگی یا تقریری وغیرہ کے لیے ٹاکنگ پوائنٹس کی تیاری ہو سکتی ہے۔ بھاگم بھاگ پہنچاتو مغرب ہو چکی تھی۔بریگیڈیئر صدیق سالک لائونج میں بیٹھے اخبارات کا مطالعہ کر رہے تھے ۔ ’’آپ نے کل کراچی جانا ہے دو تین ہفتے کے لئے ۔ پھر ہم مستقل انتظام کر لیں گے‘‘۔ انہوںنے رسمی گفتگو میں وقت ضائع کیے بغیر بات واضح کردی۔ میں حیران ہو ا۔ کراچی میں

 ہمارے ایک کہنہ مشق ساتھی میجر بشیر کیانی بخیر وخوبی اپنے فرائض انجام دہے رہے تھے ۔ سالک صاحب نے بتایا کہ پی آر او آفس کی گاڑی میں ایک کلرک ملٹری ڈیری فارم سے دودھ کے کوپن خریدنے گیا تھا۔ گاڑی ڈیری فارم کے گیٹ پر دودھ تقسیم کرنے والے سرکاری خچر ریڑھے سے جاٹکرائی ۔ خچر زخمی ہو گیا اور اس بنیاد پر انتہائی اہم اور فوری رپورٹ جاری کی گئی ہے ۔ کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل احمد شمیم خان نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے آئی ایس پی آر افسر کو کراچی سے فوری تبدیل کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

اس وقت بریگیڈیئر صدیق سالک ڈائریکٹر آئی ایس پی آر کے فرائض ادا کررہے تھے ۔ بریگیڈیئر تفضل حسین صدیقی مدت ملازمت پوری کر کے ریٹائرڈ ہو گئے تھے۔ قصہ مختصر ، زبانی آرڈر لے کر گھر واپس آیا تو اہلیہ نے پوچھا خیریت سے طلبی ہوئی تھی؟میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔’’میرا لاہور گواچا‘‘۔ میری اہلیہ کا تعلق لطیف آباد حیدر آباد سے ہے ، لہذا انہیں کراچی جانے کی خوشی تھی۔ بہر حال حکم کی تعمیل میں اگلی شب کراچی ایئر پورٹ کے باہر کھڑا گاڑی کا انتظار کررہاتھا ۔ میجر بشیر کیانی نے ہلکے پھلکے انداز میں واقعہ کی تفصیل بیان کی اور میرے لیے نیک خواہشات کاا ظہار کیا۔ کراچی میر ے لیے انجان شہر نہیں تھا۔ روشنیوں کا شہر ہمارے قائد اعظم کا شہر ۔ میرا بچپن،لڑکپن اسی شہر میں بسر ہواتھا ۔ اب بھی لاتعداد رشتہ دار ، دوست احباب اور خیر خواہ اس شہر میں مستقل رہائش پذیر ہیں۔ یہ سوچ کر دل کو تسلی دیتا ہوا آفس میں حاضر ہوگیا۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شمیم خان کی شہرت ایک سخت گیر اور عسکری نظم و ضبط کے پابند کمانڈر کی تھی۔ ان سے پہلی رسمی ملاقات یک طرفہ ہی تھی۔ دراصل کراچی کور کے چیف آف سٹاف بریگیڈیئر ظفر اقبال قریشی لاہور میں بریگیڈیئر کمانڈر رہ چکے تھے ۔ مجھے جانتے تھے لہذا انہوںنے کور کمانڈر کو بریف کر دیاتھا۔دو تین دن ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھا رہا ۔ ویسے بھی عارضی ڈیوٹی پر تھا ۔ ایک روز کراچی کے اخبارات سے اپنی دانست میں اہم خبریں اور کالم وغیرہ ایک فائل میں پریس بریف لکھ کر کور کمانڈر کی خدمت میں پیش کردیئے۔چند روز کے بعد حکم ملا کہ نو بجے پریس بریف کی فائل کے ساتھ خود حاضر ہوا کرو۔یوں اخبارات کے ساتھ کراچی کور کی ’’ہائی کمان‘‘سے بھی براہ راست علیک سلیک کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ چند روز بعد وزیر اعظم محمد خان جونیجو کوٹری کے قریب تربیتی مشقیں دیکھنے آرہے تھے ۔ یہ پہلا امتحان تھا۔ کور کمانڈر کی خواہش تھی کہ بھرپور کوریج ہونی چاہیے ۔ا س زمانے میں صرف پی ٹی وی کا نیوز بلیٹن ہی نوکری بنانے یا بگاڑنے کا سبب ہوتاتھا۔اخبارات میں کوریج کا وزن علیحدہ تھا۔ بہر حال ٹیم کے ساتھ کوٹری پہنچا۔وزیرا عظم تشریف لائے اور ایک ٹینک نما گاڑی میں سوار ہو کر مشقوں کا معائنہ کیا۔ہمارے کیمرہ مین اور فوٹو گرافر چابکدستی کا مظاہرہ کر رہے تھے ۔ میں نے پی ٹی وی پر سپیشل رپورٹ کے لئے ان کے پریس سیکرٹری سید انور محمود سے سفارشی رقعہ یا اور واپس کراچی روانہ ہو گیا۔اس روز وزیر اعظم جونیجو کی اور بھی بہت سی مصروفیات تھیں۔ سید انور محمود کی چند سطور نے کام دکھایا جس میں وزیر اعظم کی خواہش کا ذکر تھا۔رات خبر نامہ کے بعد پی ٹی وی پر نصف گھنٹہ کی سپیشل رپورٹ آرمی کی تربیتی مشقوں کے بارے میں تھی۔ رپورٹ کیا ٹیلی کاسٹ ہوئی ۔ کور کمانڈرنے بھرپور شاباش کے ساتھ آئی ایس پی آر ٹیم کو نقد انعام سے بھی نوازا۔

اس اعلیٰ کارکردگی کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے کراچی کے ساتھ آئی ایس پی آر افسر کے طور پر مستقل تعینات کر دیاگیا۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شمیم خان کا عرصۂ کمانڈنسبتا ًپرسکون ہی رہا۔ہفتے میں اکا دکا واقعات رپورٹ ہوتے تھے ۔ ظاہر ہے صوبہ سندھ سے اطلاعات موصول ہوتی رہتی تھیں۔پنو عاقل چھائونی کی تعمیر کے حوالے سے معاملات زیر بحث رہتے تھے ۔ اس کے علاوہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر ایک ایسا موضوع تھا جس پر سندھ کے بعض رہنما توتکار پر اترآئے تھے۔بدقسمتی سے فنی نالج بہت کم تھا ، صرف ایک نان ایشو کو ہی ایشو بنا لیا گیا تھا۔سندھی زبان میں شائع ہونے والے اکثر اخبارات اور جرائد بھی اس حوالے سے یکطرفہ مضامین ہی شائع کر تے تھے۔ کبھی کبھار صوبے کے مسائل پر سندھی اخبارات یکساں اداریہ بھی شائع کرتے تھے ۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شمیم خان مدت ملازمت مکمل کر کے راولپنڈی روانہ ہوگئے ا ور ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل آصف نواز کو تعینات کر دیاگیا۔

 لیفٹیننٹ جنرل آصف نوازکو راولپنڈی میں قیام کے دوران جوائنٹ سروسز ہیڈ کوارٹر میں دیکھا تھا۔تب وہ فل کرنل یا بریگیڈیئر تھے اور جنرل رحیم الدین خان سینئر سٹاف افسرتھے۔انہوںنے چارج سنبھالتے ہی انفرادی ملاقاتیں اور زیر کمان یونٹس کے دورے شروع کر دیئے ۔ لیفٹیننٹ جنرل آصف نواز کرکٹ کے شیدائی تھے ،خود بھی ہفتے میں ایک دوبار سپورٹس کٹ میں گرائونڈ میں نظر آتے تھے۔بائولنگ نامور فاسٹ بائولرفضل محمود کی مانند کرتے تھے۔واک وغیرہ اس

 کے علاوہ تھی۔انہیں بے جا پروٹوکول سے بھی ’’عقیدت‘‘نہیں تھی۔گھر سے صرف ایک سٹاف کار ، ساتھ ملٹری پولیس کی جیپ اور کوئی ہٹو بچو کی صدا نہیں ہوتی تھی۔راستے میں تمام ٹریفک سگنلز پر کار رکتی تھی۔

شاہراہ فیصل پر ملٹری پولیس جنرل ضیاء الحق کے موقع پر دکھائی دیتی تھی۔سانحہ بہاولپور کے موقع پر لیفٹیننٹ جنرل آصف نواز کور کمانڈر کراچی تھے۔مجھے یاد ہے کہ سہ پہر کے وقت مجھے زاہد حسین (سینئر رپورٹر ) روزنامہ جنگ کی کال آ ئی اور پاکستان ون ایئر کرافٹ کے بارے میں دریافت کیا۔مجھے صحیح صورتحال کا علم نہیں تھا۔آئی ایس پی آر فون کیاتو پتہ چلا کہ بریگیڈیئر صدیق سالک بھی جنرل محمد ضیاء الحق کے ہمراہ بہاولپور کے قریب عسکری مشقوں کے علاقے میں ہیں ۔ کچھ دیر بعد کورہیڈ کوارٹرز سے ہدایت آئی کہ فوراًآفس پہنچیں۔کور کمانڈر بھی اپنے آفس میں موجود تھے۔سورج آہستہ آہستہ غروب ہورہا تھا ، حکم ملا کہ تمام افسر اپنے دفاتر میں موجود رہیں اور لائٹس آف نہیں کی جائیں گی ۔جنرل محمد ضیاء الحق کی المناک رحلت پر پوری قوم اور خاص طور پر افواج پاکستان حددرجہ سوگوار تھیں۔باوردی افراد ہی جنرل محمد ضیاء الحق کی عسکری خدمات کا صحیح ادارک کر سکتے تھے۔اس کے علاوہ غیر فوجی افراد بھی انہیں عقیدت کے ساتھ یاد کر رہے تھے۔رات گئے تک لیفٹیننٹ جنرل آصف نواز اپنے آفس میں مقیم رہے۔ ظاہر ہے ہمیں بھی ڈیوٹی پر رہنا تھا۔ خواہ رات ایسے ہی بیت جائے۔ جنرل محمد ضیاء الحق کی رحلت کے بعد وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل مرزا اسلم بیگ آرمی چیف تعینات ہوگئے۔صدر مملکت کا عہدہ جناب غلام اسحاق خان نے سنبھال لیا۔عام انتخابات قریب آگئے۔ کراچی میں مقامی جماعتوں نے پر پُرزے نکالنے شروع کر دیئے۔الطاف حسین کی زیر قیادت ایم کیو ایم خاص طور سے سرگرم تھی۔ان کے کارکنان اپنے اپنے علاقوں میںسیاسی کم انتقامی روپ میں زیادہ دکھائی دے رہے تھے۔اس طرز عمل سے دیگر سیاسی جماعتیں خاص طور سے پاکستان پیپلز پارٹی سب سے زیادہ مشتعل تھی۔الزام تھا کہ ایم کیو ایم ’’سرکاری سرپرستی‘‘میں کراچی ، حیدرآباد اور دیگر بڑے شہروں میں پیپلز پارٹی کی برتری کو چیلنج کر رہی ہے۔خاص طور سے لسانی تفریق کی بنیاد پراقدامات کیے جا رہے ہیں۔ متعدد بار امن وامان کے مسائل پیدا ہوئے۔فوج کو سول انتظامیہ کی مدد کے لیے طلب کیا گیا۔اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے قوم پرست سندھی بعض اوقات پیپلزپارٹی کے کندھے پر بندوق رکھ کر مخالفین کو زک پہنچاتے تھے۔لسانی بنیاد پر لڑائی جھگڑے معمول بن گئے۔خاص طور سے تعلیمی اداروں میں یہ روگ پریشان کن حد تک سرایت کر گیا تھا۔پیپلز پارٹی میں تقریباًتمام لسانی اکائیوں کی نمائندگی تھی۔ لیفٹیننٹ جنرل آصف نواز کے دور میں سندھ کے شہروں میں بڑھتے ہوئے تشدد کی روک تھام کے لیے متعدد اقدامات کئے گئے ۔ کور ہیڈ کوارٹرز میں سیاسی رہنمائوں کی آمد و رفت بڑھ گئی۔

کراچی میں اے پی ایم ایس او(آل پا کستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن)اور پی ایس ایف (پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن)کی باہمی آویزش سے تعلیمی اداروں کا ماحول پراگندہ ہو چکا تھا۔ایک مرحلے پر دونوں تنظیموں نے ایک دوسرے کے حامی اور سرکردہ نوجوانوں کو اغوا ء کرنا شروع کردیا۔اغواء کنندگان کو مخصوص ٹارچر سیلز میں پہنچایاجاتھا تھاجہاںانتہائی اذیت کے لیے سازو سامان موجود تھا۔شہر میں آہ و بکا مچی ہوئی تھی۔والدین اور اساتذہ سخت پریشان تھے۔اس مرحلے پر لیفٹیننٹ جنرل آصف نواز نے سول انتظامیہ کی امداد کرنے کا فیصلہ کیا۔دونوں متحارب گروپوں اورا ن کی سرپرست سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے سینئر رہنمائوں کو کم از کم ’’زخمی قیدیوں‘‘کے تبادلے پر آمادہ کر لیا۔اس نیک کام کے لئے آئی ایس پی آر آفس کے سامنے پارکنگ کی جگہ منتخب کی گئی ۔

اس سے قبل رات بھر مذاکرات ہوتے رہے۔ شرائط پیش ہورہی تھیں۔یقین دہانیاں مانگی جارہی تھیں،کورکمانڈر نے بات چیت کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے بریگیڈیئر معید کو ذمہ دار ی دے دی تھی۔میں بھی بھاگ دوڑ یں میں مصروف تھا،کیونکہ پریس کو خبر مل گئی تھی کہ کور ہیڈ کوارٹرزمیں رات گئے لائٹس آن ہیں۔ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی سینئر قیادت جمع ہے۔اس زمانے میںموبائل فون کی افراط نہیں تھی، پیغام رسانی کے لیے ’’پیجر‘‘استعمال ہوتے تھے۔میں نے فجر تک تو ’’نو کمنٹس‘‘سے کام چلایا۔چند ایک کی منت سماجت کی۔ اگلے روز صبح کے اخبارات میں چونکا دینے والی خبرتھی۔اس دوران حتمی تحریری معاہدہ تیا ر ہوگیا۔دونوں مقبول سیاسی جماعتوں کے سینئر رہنما آپس میں ہنسی مذاق کرتے ہوئے میرے دفتر میں جمع ہو گئے جہاں ان کے لیے گرما گرم ناشتہ تیار تھا۔ان

 رہنمائوں میں پیپلز پارٹی کے راشد ربانی صاحب اور ایم کیو ایم کے ایم این اے اسلم صاحب تھے ۔ یہ شخصیات آج دنیامیں نہیں ہیں۔ اللہ مغفر ت فرمائیں۔ آمین

معاہدے کے مطابق ’’زخمی قیدی‘‘کور ہیڈ کوارٹرز پہنچنا شروع ہو گئے۔میرے کولیگ مسرور عباس جعفری فوٹوگرافرنے ریکارڈ کے لیے تصاویر اتارنا شروع کر دیں۔پہلے اعتراض ہوا کہ یہ معاہدہ کی خلاف ورزی ہے لیکن سورج نکل چکا تھا اور باوردی فوجی بھی ارد گرد دکھائی دے رہے تھے۔ لہذااحتجاج خود بخود دم توڑ گیا۔لیفٹیننٹ جنرل آصف نواز نے دفتر طلب کر کے کہا کہ ’’پی آر او۔کوئی خبر ،تصویر وغیرہ اخبار میں نہیں آنی چاہیے‘‘۔ یہ کہہ کر وہ کچھ دیر کے لئے رہائش گا ہ پر چلے گئے ۔ رات بھر جاگتے رہے ۔ صبح کے اخبار جماعتوں کے ’’قیدیوں‘‘کے تبادلے کی خبر سے خالی تھے۔اب کراچی کے شام کے اخبارات کی باری تھی جو دوپہر تک شائع ہو جاتے تھے۔میں نے از خود خبر تیار کی اور چند تصاویر کے ساتھ صرف ’’قومی اخبار‘‘تک پہنچادی۔یہ کراچی کا مقبول ترین شام کا اخبار تھا۔الیاس شاکر صاحب اور مختار عاقل کی ادارت میں یہ اخبار شائع ہوتا تھا۔چند گھنٹوں بعد چیختی ،چنگھاڑتی سرخیوں کے ساتھ اخبار جب عام ہوا توکراچی دم بخودرہ گیا۔روشنیوں کے شہر میں سیاست کے نام پر اس قدر نفرت آمیز واردات جس کے باعث سینکڑوں نوجوان زندہ نہ مردہ حالت میں ہسپتالوں میں کراہ رہے تھے۔ ایم کیو ایم اپنے زخمیوں کو عباسی شہید ہسپتال اور پیپلز پارٹی نے قریب ہی جناح ہسپتال کا رخ کیا۔میں نے تمام زخمی نوجوان طالب علموں کو اپنے دفتر کے سامنے پارکنگ ایریا میں اترتے دیکھاتو کلیجہ منہ کو آگیا۔ایسا ہولناک منظر شاید کبھی دیکھا ہو۔ زیادہ تر اردو بولنے والے بچے تھے۔ایم کیو ایم کے علاوہ کچھ پیپلز پارٹی کی ذیلی تنظیم پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سرگرم کارکن تھے۔چند ایک کے مخصوص اعضا ء مخالفین نے ٹارچر سیل میں ڈرل کردیئے تھے۔ اس کے علاوہ مخالف کی کمر اور چھاتی پر ڈرل مشین سے من پسند تنظیم کانام کندہ کر دیا ۔اس عمل سے تکلیف کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔

شام کے اخبار’’قومی اخبار‘‘میں خبر کی اشاعت کو بات چیت میں شریک سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں اور مصالحت کنندہ کا کردار اداکرنے والے فوجی افسروں نے پسند نہیں کیا۔اب میری ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں دوڑ لگ گئی۔میں سکھلائے ہوئے طریقہ کار کے مطابق ’’سر!چیک کرتاہوں‘‘کی گردان جاری کئے ہوئے تھا۔ کچھ دیر بعد کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل آصف نواز کے آفس میں طلبی ہوگئی۔ کورہیڈ کوارٹرز کے سینئر افسر بھی موجود تھے۔میںپہنچاتو فضا’’ابر آلود‘‘تھی۔ ظاہر ہے کہ سب متفق تھے کہ میجر صولت رضا نے خبر رکوانے کا فرض دیانت داری سے ادا نہیں کیا۔جنرل آصف نواز نے ذرا تلخ اونچی آواز میں کہا’’پی آر او !یہ سب کیا ہے؟‘‘۔ میرا جواب واضح تھا کہ ’’سر! یہ خبر میں نے تصویروں کے ساتھ خود پہنچائی ہے‘‘۔کور کمانڈر نے سوال کیا’’کوئی ٹھوس دلیل؟‘‘۔ میں نے جواب دیا ’’سر !یہ میرا ایک پروفیشنل کے طور پر آرمی کے امیج کی سربلندی کی خاطر مناسب فیصلہ تھا۔ تشدد اور لاقانونیت میں ملوث افراد اور گروہوں کی پردہ پوشی بھی شریک جرم ہونے کے مترادف ہوگی۔دونوں جماعتوں کے بات چیت میں شریک رہنمائوں نے میرے دفتر میں پر تکلف ناشتہ کیا ہے ۔ آپس میں دوستانہ ہنسی مذاق دیکھ کر میں اس نتیجے پر پہنچاتھا کہ دو تین روز کے وقفے سے ان دونوں جماعتوں نے یہ سانحہ بھی فوج کے ذمہ ڈال دینا ہے کیونکہ بچے ہمارے عقوبت خانوں سے برآمد ہوئے ہیں۔ ہم نے کورہیڈ کوارٹرز سے اٹھائے ہیں وغیرہ وغیرہ‘‘۔ لیفٹیننٹ جنرل آصف نواز نے میری معروضات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ’’ ٹھیک ہے خبر روکنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔تم نے درست فیصلہ کیا ہے ۔ حقیقت لوگوں کے سامنے آنی چاہیے‘‘۔

 میٹنگ برخاست ہو گئی ۔ میں اپنے آفس واپس پہنچا ہی تھا کہ رپورٹرز کی یلغار ہو گئی اور اگلے روز صبح کے اخبارات سیاسی جماعتوں کی ذیلی تنظیموں کے کارہائے نمایاں سے بھرے ہوئے تھے۔اداریے اور کالم اس کے علاوہ تھے۔شہر کی صحافت ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی سے لرزہ بر اندام تھی لیکن مذکورہ ٹارچر سیل کے حوالے سے خبروں کی اشاعت کے لیے صحافیوں کی استقامت قابل تحسین تھی۔

سانحہ بہاولپور کے بعد پاک فوج کی کمان جنرل مرزا اسلم بیگ نے سنبھال لی تھی۔سینٹ کے چیئرمین غلام اسحاق خان صدر مملکت کے عہدے پر متمکن ہو گئے۔عام انتخابات کی تیاری عروج پر تھی اور تمام سیاسی جماعتیں کمر کس رہی تھیں۔ایسے عالم میں سندھ کی سیاست میں الائو روشن ہونا شروع ہوگئے۔متعدد لسانی،نظریاتی، علاقائی اور فقہی دائرے پھیلتے اور ایک دوسرے میں ضم ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔کراچی میں الطاف حسین کی ’’زیر نگرانی‘‘ایم کیو ایم ہر لحاظ

 سے سیاسی اور انتظامی پنجے گاڑھ چکی تھی۔تعلیمی اداروں کی دیواریں اور کلاس رومز میں ’’مہاجر سیاست‘‘کا بو ل بالا تھا۔ دوسری جانب سندھی بلوچی پنجابی اور پختون اپنے وجود کااحساس دلانے کے لئے کارنر میٹنگز وغیرہ کر رہا تھا۔پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کی سیاست کے منفردانداز تھے۔اس جماعت کے اجتماعات میں لسانی یا فرقہ وارانہ نمودو نمائش نہیں تھی۔ پیپلز پارٹی کراچی اوردیگر شہری علاقوں میں اپنا’’سراپا‘‘غیر لسانی رکھتی ہے تاہم سندھ کی حد تک بھرپور سندھی دکھائی دینا سیاسی ضرور ت بھی ہے۔یہ کیفیت اندرون سندھ کے ووٹرکو پارٹی نشان’’تلوار‘‘یا’’تیر‘‘کے ساتھ منسلک رکھتی ہے اور وہ آنکھ بند کر کے’’ٹھپہ‘‘لگا دیتا ہے۔کراچی اور حیدر آباد میں خاص طورسے تنائو میں اضافہ ہو رہا تھا۔قانون نافذ کرنے والے ادارے بالخصوص آرمی اندرونی سلامتی کی ڈیوٹی کی بنیاد پر کسی ناگہانی صورتحال اور شورش کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھے۔جنرل مرزا اسلم بیگ متعدد بار سندھ کے دورے پر آئے ۔ انہوں نے کراچی ، حیدرا ٓباد اوردیگر مقامات پر تعینات جوانوں سے ملاقات کی اور خطابات کیے ۔ انہیں دھیمے لہجے میں سخت بات کہنے کا ملکہ حاصل ہے۔ان کی پیشہ وارانہ امور پر گفتگو بھی عالمی تناظر میں ہوتی ہے۔ ان کے دور میں ’’ضرب مومن‘‘نامی بھرپور عسکری مشق کی بدولت پاک افواج کے پیشہ وارانہ امیج کومہمیز ملی۔مشن میں شریک افسروں اور جوانوں کی صلاحیت ، اہلیت اور اعتماد میں قابل تحسین حد تک اضافہ ہوا۔آرمی چیف نے مشق کے دوران اپنی تقاریر میں ’’دشمن ‘‘اور پاکستان کے بد خواہوں کو واضح پیغام دیا کہ کسی قسم کی ’’نان سینس‘‘برداشت نہیں کی جائے گی۔’’ضرب مومن‘‘کی ایک بات ذرائع ابلاغ کے سینئر اور نوجوان نمائندگان کی بھرپور شرکت تھی۔اس حوالے سے آئی ایس پی آر نے اپنے سربراہ بریگیڈیئر ریاض اللہ کی زیر صدارت وسیع انتظامات کئے تھے۔بریگیڈیئر صدیق سالک کی سانحہ بہاولپور میں شہادت کے بعد جنرل مرزا اسلم بیگ نے انفینٹری رجمنٹ کے بریگیڈیئر ریاض اللہ کو آئی ایس پی آر کا ڈائریکٹر مقرر کیا۔یہ ایک غیر متوقع فیصلہ تھا جبکہ فوج میں ’’لنگر گپ‘‘کچھ اور تھی۔            

 یہاں بتاتا چلوں کہ آئی ایس پی آر سربراہ بریگیڈیئر تفضل حسین صدیقی کی ریٹائرڈ منٹ کے بعد بریگیڈیئر صدیق سالک نے ڈائریکٹر آئی ایس پی آرکا چارج سنبھالا تومیں اس وقت آئی ایس پی آر لاہور میں تعینات تھا۔ پورے دفتر میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی۔یہ کیفیت غیر متوقع نہیں تھی ، سٹاف کو معلوم تھا کہ مزاج یار پچپن سے ’’عاشقانہ‘‘ہے۔ میرے ایک رفیق کار نے راولپنڈی سے کانپتی ہوئی آوا ز میں اطلاع دی کہ بریگیڈیئر سالک نے آئی ایس پی آر کی کمان سنبھال لی ہے اور انہوںنے بڑے سخت احکامات جاری کیے ہیں۔’’اچھا ٹھیک ہے ۔ ابھی یہ احکامات لاہور نہیں پہنچے‘‘میرا جواب سن کر موصوف بولے’’آپ خوش نہ ہوں ۔ عن قریب ریجنل دفاتر کی شامت آنے والی ہے‘‘۔میں نے جواب دیا کہ بھائی ہمارا کیا ہے ، پہلے ایک گگلی بالر کاسامنا کرتے رہے ۔ اب فاسٹ بالر آگیا ہے تو سر پر ہیلمٹ پہنچ لیتے ہیں اور باہرجاتی ہوئی تیز گیند سے فاصلہ رکھیں گے ۔ دوچار روز کی بات ہے ، پھر سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔اگلے روز ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے صبح ڈائریکٹر کے پی اے کی فون پر آواز سنائی دی ۔ ’’سالک صاحب آپ سے بات کریں گے‘‘۔پی اے نے لائن تھرو کی تو سالک صاحب فون پرتھے ۔ میں نے تقریباًنعرہ لگاتے ہوئے کہا ’’السلام علیکم سر، بہت بہت مبار ک ہو‘‘۔دوسری جانب سے آواز آئی ۔’’ وعلیکم السلام ،شکریہ ۔ میجر صولت رضا آپ نے ہیلمٹ خرید لیا ہے ؟‘‘ایک لمحے کے لیے تو میں سناٹے میں آگیا ۔ جی سر ، جی سر۔ ساڑھے سات بجے سے پہن کر بیٹھا ہو ںسر۔میر اجواب سن کر ادیب صدیق سالک ڈائریکٹر آئی ایس پی آر پر حاوی ہوگیا ۔ فون پر ہلکا سا قہقہہ سنائی دیاتو میرے اوسان بحال ہوئے ۔ میں نے خوشامدانہ لہجے میں ایک اور فقرہ آگے بڑھایا۔’’ سر!آپ کی کمان میں آغاز سے ہی مخبری کا نظام بہت اعلیٰ دکھائی دیتا ہے ‘‘سالک صاحب کب چوکنے والے تھے ۔ فوراً بولے’’ فی الحال اس شعبے میں پہلے سے تعینات سٹاف سے استفادہ کر رہا ہوں ، لہذاآپ زیادہ محتا ط رہیں‘‘۔بریگیڈیئر صدیق سالک نے فوج میں کمیشن سے شہادت تک مثالی محنت،جذبے اور جوان مردی کے ساتھ اپنے فرائض ادا کئے۔انہوںنے زندگی کا ہر لمحہ بھرپور انداز میں بسر کیا۔صدیق سالک بنیادی طور پر ایک دیانت دار قلم کار تھے ۔ سرکاری ملازمت کے مخصوص تقاضوں کے باوجود انہوں نے قاری سے کبھی بھی بے وفائی نہیں کی ۔ وہ محنت پر یقین رکھتے تھے ، فوج میں ترقی کی منازل طے کرتے رہے ۔ کیپٹن ، میجر،لیفٹیننٹ کرنل ، فل کرنل اور بریگیڈیئر۔ اس کے بعد بھی مزید ترقی کی راہیں کھلی تھیں لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا اور وہ 17اگست1988ء کو جام شہادت نوش کر گئے۔صدیق سالک کی پوری سروس ایک ڈٹ جانے والے پروفیشنل کی ہی رہی۔ان کی شہادت کے بعد آئی

 ایس پی آر ایک ’’بے بس یتیم ‘‘کی مانند تھا۔ سب کی نظریں صدیق سالک کی کرسی پر تھیں لیکن محض کرسی پر بیٹھنے سے کوئی صدیق سالک نہیں بن سکتا تھا۔ عبوری دور میں چند ایک نے کوشش کی لیکن منہ کے بل گرے ۔ کچھ عرصہ بعد بریگیڈئر ریاض اللہ ڈائریکٹر آئی ایس پی آر تعینات کر دیئے گئے ۔ ان کا بنیاد ی تعلق فوج کی ایک پیادہ رجمنٹ سے تھااور عہدہ سنبھالنے کے لیے پوری سروس میں پہلی مرتبہ آئی ایس پی آر کے دفاتر تشریف فرماہوئے۔ان کی تعیناتی سے پیشہ وارانہ بے بسی کا دورانیہ طویل تر ہو تا گیا اور میڈیا کی نظروں میں آئی ایس پی آر باوردی مزاح(ہیومر ان یونیفارم)کا سب سے اہم منبع بن گیا۔ان حالات میں صدیق سالک کی کمی بے حد محسو س کی گئی ۔

 آئی ایس پی آر کے سربراہ بریگیڈیئر ریاض اللہ خان بعد میں میجر جنرل کے عہدے پر ترقی پا گئے ۔ ریاض اللہ خان راولپنڈی سازش کیس کے مرکز ی کرداری سابق میجر جنرل محمد اکبر خان سے بے حد متاثر تھے ۔ ان کیا خیال تھا کہ بری فوج نے جو نمایاں لڑاکا آفیسر پیدا کیے ہیں ، ان میں سب سے نمایاں میجر جنرل اکبر خان اور جنرل ٹکا خان ہیں ۔ ریاض اللہ خان مرحوم ان دونوں جنرل آفیسرز کے بارے میں ٹی وی اور سینما کے لیے فلم بنانے کاارادہ بھی رکھتے تھے۔میں میجر جنرل ریاض اللہ خان مرحوم کے دور میں آئی ایس پی آر کراچی میں تعینات تھے ۔یہ1988ء سے1991ء کاذکر ہے ۔  میجر جنرل ریاض اللہ خان جب کراچی تشریف لاتے تو صحافیوں ، قلم کاروں اور جنرل صاحب کے درمیان دلچسپ اورمعنی خیز گفتگو سے لطف اندوز ہونے کی سعادت نصیب ہوتی۔ ایک مرتبہ کسی تیکھے قلم کار نے سرآہ بھرتے ہوئے کہا کہ ’’کاش! لیاقت علی خان کے خلاف راولپنڈی سازش کیس میں ملوث تمام افراد کو فائرنگ سکواڈ کے حوالے کر دیاجاتا تو وطن عزیز سیاسی لحاظ سے صراط مستقیم پر گامزن رہتا‘‘۔ پرکشش شخصیت اور دھیمے لب و لہجے کے مالک  میجر جنرل ریاض اللہ خان سے یہ قیمتی مشورہ برداشت نہ ہو سکا اور انہوں نے پھر اپنے مخصوص’’ عسکری انداز‘‘میں اس قلم کار کی خوب خبر لی۔ میجر جنرل ریاض اللہ خان بنیادی طور پر انفینٹری سے تعلق رکھتے تھے ۔صدیق سالک کی شہادت کے بعد جنرل اسلم بیگ نے آئی ایس پی آر کی کمان انہیں سونپ دی۔انفینٹری کے ٹو سٹارجنرل اور کراچی کے تیکھے قلم کار کے درمیان بحث سے مجھے کراچی میں فوج کا تعلقات عامہ بھسم ہوتا دکھائی دیا۔ بہر حال بڑی مشکل سے فائر بندی ہوئی۔اس روز مجھے اپنے ڈائریکٹر جنرل کی روالپنڈی سازش کیس کے مرکزی کردار کے ساتھ دلی عقیدت کا احساس ہوا۔ بہر حال میجر جنرل ریاض اللہ خان کی رحلت تک مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کے درپے عسکری شخصیت میجر جنرل اکبر خان کو جنرل ٹکا خان کے ساتھ ایک فلم میں کیسے پیش کیاجا سکتا ہے ۔ خیر جگر کے جان لیوا سرطان نے میجر جنرل ریاض اللہ مرحوم کو مہلت نہ دی اور ان کی المناک وفات کے ساتھ ہی مجوزہ فلم داخل دفتر کر دی گئی ۔میجر جنرل ریاض اللہ خان مرحوم کی رحلت کے بعد چند روز اسی شش وپنج میں گزرے کہ اب ان کی جانشینی کا شرف کون حاصل کرتا ہے ۔ ایک رائے یہ تھی کہ آئی ایس پی آر کے بریگیڈیئر ایس ایم اے اقبال کو سربراہ تعینات کر دیاجائے گالیکن آخر کار قرعہ فال میجر جنرل جہانگیر نصراللہ کے نام نکلا جو بنیادی طور پر کورا ٓف انجینئرز سے تعلق رکھتے تھے۔

  پرکشش شخصیت کے حامل میجر جنرل جہانگیر نصراللہ کو انگریزی لکھنے اور بولنے میں مہارت حاصل تھی۔ شستہ اردو میں مافی الضمیر بیان کرتے، البتہ اردو لکھنے اورپڑھنے کی جانب طبیعت مائل نہ تھی۔جنرل آصف نواز نے آرمی چیف کا عہدہ سنبھالتے ہی اپنی پیش رو جنرل مرزا اسلم بیگ کی میڈیا پالیسی میں خاصی ترامیم کیں۔انہوںنے سیاسی حکومت کے متوازی ابلاغی نظام کو ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے پبلسٹی میں ٹھہرا ئو کی ہدایات جاری کیں۔یوں آئی ایس پی آر میں بھی قدرے سکون آگیا۔ میجر جنرل جہانگیر نصراللہ کو ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر تعینات ہوئے تھوڑے ہی دن ہوئے تھے کہ ایک روز دفتر پہنچتے ہی مجھے طلب فرمایا۔عموماًگفتگو اور ہدایات کے لیے لہجہ میں نرمی ہوتی تھی لیکن اس صبح ناگواری نمایاں تھی۔فرمانے لگے کہ یہ تمہارے اخبارات والے دوست رات کوآرام کیوں نہیں کرنے دیتے ،رات کو کیوں فون کرتے ہیں۔گزشتہ رات کوئی صاحب مجھے نیند سے بیدار کرنے کے بعد گپ شپ پر اصرار کر رہے تھے ۔ جب میں نے پوچھاکہ آپ کیا کام کرتے ہیں توفرمانے لگے کہ اگلے ہفتے پڑھ لینا کہ میں کیا کام کرتا ہوں سب معلوم ہو جائے گا۔ان صاحب کا نام جنرل صاحب کے ذہن سے محو ہو چکا تھا ۔ بات آئی گئی ہو گئی ۔ چند روز بعد کراچی کے ہفت روزہ تکبیر میں سعود ساحر کی ڈائری شائع ہوئی جس میں انہوںنے یہ بھی لکھا کہ ’’آئی ایس پی آر کے نئے سربراہ صحافیوں سے پوچھتے ہیں کہ آپ کیا کام کرتے ہیں‘‘۔

8جنوری1993ء کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل آصف نواز دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے ۔ یہ اتوار کا دن تھا ۔ میں نے ڈی جی آئی ایس پی آر کو اطلاع دینے کی کوشش کی ۔ تب موبائل فونز کا زمانہ نہیں تھا ۔ڈی جی آئی ایس پی آر اسلام آباد سے بمشکل دستیاب ہوئی جہاں وہ کسی تقریب میں شریک تھے ۔ اطلاع سنتے ہی سکتے میں آگئے ۔ آدھے گھنٹے کے بعد وہ دفتر تھے۔ ان کے پاس آرمی چیف کے انتقال کی مصدقہ خبر تھی۔ اب پریس ریلیز کی تیاری اور دیگر امور کو ترتیب دینے کا مرحلہ تھا۔آرمی ہائوس کے دروازے کھول دیئے گئے ۔ رات بھر تعزیت کرنے والے آتے رہے ۔ رات گئے قائمقام آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل محمدا شرف چودھری نے چارج سنبھال لیا۔چندروز بعد صدر پاکستان غلام اسحاق خان نے لیفٹیننٹ جنرل عبد الوحید کاکڑ کو جنرل کے رینک پر ترقی دے کر چیف آف آرمی سٹاف تعینات کر دیا۔جنرل عبد الوحید کاکڑنے کمان سنبھالتے ہی سندھ میں جاری اندرونی سلامتی کے آپریشن پر مرحلہ وار نظر ثانی شروع کر دی جس سے آپریشن کی رفتار دھیمی ہوگئی۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل جہانگیر نصراللہ نے بری فوج کے وقار کو برقرار رکھنے کے لیے بھرپور کوشش کی ۔انہوں نے صحافیوں اور ایڈیٹروں سے رابطوں کے ذریعے عسکری موقف پیش کیا ۔

آمد برسرمطلب۔میں بات کر رہاتھا کہ بریگیڈیئرصدیق سالک کی شہادت کے بعد بریگیڈیئر ریاض اللہ کو آئی ایس پی آر کا ڈائریکٹر مقرر کر دیا گیا۔ایک افواہ یہ بھی تھی کہ ہو سکتا ہے کہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی نافذکردہ روایت کی پیروی کرتے ہوئے کسی سینئر جرنلسٹ کو اس عہدے پر تعینات کر دیاجائے۔واضح رہے کہ نامور صحافی اور ’’پاکستان ٹائمز‘‘کے ایڈیٹر جناب زیڈ اے سلہری کو فیلڈ مارشل ایوب خان نے کرنل کا عہدہ دے آئی ایس پی آر کا سربراہ مقرر کر دیا تھا۔ہمارے سینئرز کے بقول سلہری صاحب زیادہ عرصہ اس عہدہ پر قائم نہیں رہے کیونکہ اس زمانے کی ’’ہائی کمان‘‘کو لمبے بال رکھے اوروکٹورین انگریزی لکھنے اور بولنے والا ’’کرنل‘‘ایک جنرل یا فیلڈ مارشل سے براہ راست ہدایات لیتے پسند نہیں تھا۔شاید کرنل سلہری بھی ذہنی لحاظ سے ’’یس سر‘‘کے پابند نہیں تھے۔

  بریگیڈیئر ریاض اللہ نے عہدہ سنبھالتے ہی جنرل مرزا اسلم بیگ کی ہدایات کے مطابق میڈیاسے قریبی تعلقات استوار کرنے کا چیلنج قبول کر لیا۔کراچی میں اولین دورے پر تشریف لائے تو میں ایئر پورٹ پر استقبال کے لیے موجود تھا۔مجھے دیکھتے ہی مخصوص لہجے میں کہنے لگے ’’صولت صاحب ! میں عارضی ہوں ، سالک کے بعد اب تمہارا نمبر ہے‘‘۔ بریگیڈیئرریاض اللہ کا یہ فصیح و بلیغ جملہ آج بھی کان میں گونجتا ہے تو دنیا کی بے ثباتی پر یقین اور بھی گہرا ہوجاتاہے۔دراصل موصوف یہ کہنا چاہتے تھے کہ بریگیڈئر سالک کے بعد اب آئی ایس پی آر آپ ’’لوگوں‘‘کے سپرد ہے۔میں محض عارضی طور پر سربراہ ہوں۔پہلی’’شنوائی‘‘کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا کہ کسی خاکی وی آئی پی کے ساتھ سی ون تھرٹی (C-130)میں بیٹھا کلمہ شہادت کا ورد کر رہاہوں۔وقت گزرنے کے ساتھ بریگیڈیئر ریاض اللہ بھی ہم جیسے ہوگئے۔صحافیوں سے براہ راست ملاقات کے حوالے سے بہت حساس تھے۔ کراچی جب بھی تشریف لاتے تو کمانڈر روشن (پی آر او پاک نیوی)کے ساتھ مل کر مجھے ڈائریکٹرآئی ایس پی آرکو ’’مصروف‘‘رکھنے کے لئے دن رات ایک کرنا ہوتا تھا۔اخبارات کے دفاتر میں میل ملاقات ،سیمینار اور دفتر میں بالمشافہ ملاقاتیں ترتیب دینا ’’مشق سخن‘‘سے زیادہ مشقت تھی۔ہم ایسے ڈائریکٹر صاحبان کے عادی تھے جو ہمیں اپنے دوستوں کے روبرو پیش کرتے تھے۔اب حالت یہ ہوگئی تھی کہ آئی ایس پی آر کے سربراہ کو میڈیا میں لئے لئے پھر رہے ہیں۔تعارف کے لیے ان کے ایک قابل فخر فوجی ہونے کی حیثیت سے زمانہ امن و جنگ میں کارہائے نمایاں مزید نمایاں کر کے بیان کرتے تھے۔ اب قلم کار یا صحافی کبھی ہمارا منہ تکتے تھے اور اکثر ’’باس ‘‘کا جو کسی لمحے بھی دو رس نتائج کے حامل سوال یا  جواب کا منبع بن سکتے تھے۔بریگیڈیئر ریاض اللہ صاف گو،دیانتدار اور لگی لپٹی بغیر دو ٹوک گفتگو کے عادی تھے، ظاہر ہے کہ ایک باوقار اور باصلاحیت سینئر فوجی افسرکو ایساہی ہونا چاہیے۔کراچی کے اخبارات میں بذات خود جانے پراصرار کرتے تھے۔میں سٹاف کار میں جاتے ہوئے انہیں یاد کرایا کرتاتھا کہ جس اخبار میں جائیں اس کی تعریف ضرور کریں۔میری درخواست پر بہت مشکل سے راضی ہوئے ۔کہنے لگے کہ:’’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں کسی اخبار کا مطالعہ ہی نہ کروں اورا س کی تعریفیں شروع کر دوں‘‘۔ ایک مرتبہ سخت لہجے میں مجھے خاموش کروانے کی کوشش کی۔میں نے دوبارہ کہا کہ’’ سر!یہ ہماری ڈیوٹی ہے کہ ہم ہر صحافی،ادیب اور میڈیا سے منسلک شخص اور ادارے کی تعریف کرتے رہیں خواہ ’’دل ‘‘راضی نہ بھی ہو‘‘۔ یہ سن کر وہ خاموش ہوگئے۔ چند لمحے توقف کے بعد کہا :’’یہ بات مجھے پہلے معلوم ہوتی تو کبھی تمہارے ڈائریکٹوریٹ میں نہ آتا۔مجھے چیف (جنرل اسلم بیگ)نے یہ

 نہیں بتایا جو تم کہہ رہے ہو‘‘۔اس کے بعد انہوں نے سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے میڈیا کے ’’کاروباری‘‘کردار پر تفصیلی لیکچر دیا ۔بریگیڈیئر ریاض اللہ کی ’’جارحانہ ‘‘تعلقات عامہ مہم کا نتیجہ یہ نکلا کہ اندرون سندھ کے پریس کلبز میں پہلی مرتبہ فوج کا موقف توجہ کے ساتھ سنا گیا اور یہ تاثر کہ فوج صرف پنجابی اور اردو بولنے والوں کے پریس کو فوقیت دیتی ہے بہت حد تک ختم ہو گیا۔سندھی اخبارات سے براہ راست تعلق استوارہوا۔ا ن کے نوک دار رویے میں کمی آگئی۔میں نے اپنے دفتر میں مدد گار کے طور پر ایک سندھی بولنے والے سپاہی کو اٹیچ کیا ہواتھا جو مجھے سندھی اخبارات سے اہم خبریں پڑھ کر سناتاتھا۔ یوں کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل آصف نواز کو سندھی پریس سے آشنائی میں مدد ملی۔کبھی کبھار کسی اجتماع میں جنرل آصف نواز سندھی اخبارات کے مالکان سے ان کے اخبارات میں شائع ہونے والے مواد کے بارے میں گفتگو کرتے توحیرانی قابل دید ہوتی۔بعد میں سب کو معلوم ہو گیا کہ آئی ایس پی آر کراچی انگریزی اردو کے ساتھ سندھی اخبارات و جرائد سے بھی متاثر ہو چکا ہے۔میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ قومی سطح پر تمام پاکستانی زبانوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔کاش فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے زمانے میں قائم کردہ نیشنل پریس ٹرسٹ کو یہ مشن سونپا جاتا کہ سندھی،بلوچی،براہوی، پنجابی، سرائیکی ، ہندکو ،پشتواور دیگر زبانوں میں شائع ہونے والے جرائد اور کتابوں وغیرہ کو ٹھوس مالی امداد کے ذریعے توانا رکھا جائے ۔ این ، پی ٹی نے منافع بخش اخبارات کو تحویل میں لے کر نظری لحاظ سے ’’بد دیانتی ‘‘پر مبنی اقدامات کئے جس کے باعث روز اول سے ہی ایک اہم قومی ادارہ مشکوک ہو گیا اور آخر کار اپنے ساتھ مقبول ترین اخبارات کو بھی لے ڈوبا۔

’’ضرب مومن‘‘مشق کے لئے کراچی سے نامور ایڈیٹر،سینئر صحافی اورتعلقات عامہ کے شعبے سے منسلک شخصیات شریک ہوئیں۔ ’’میدان جنگ‘‘پہنچنے سے قبل ہی ناگہانی صورتحال کاسامنا ہوا ۔ ہم کراچی سے فیصل آباد جانے کے لیے پی آئی اے کے مسافر بردار طیارے میں سوار ہوئے ۔ ابھی بمشکل پندرہ بیس منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ پائلٹ نے اعلان کیا کہ بعض آپریشنل وجوہات کے باعث ہم واپس کراچی جار ہے ہیں۔اس اعلان کے ساتھ ہی جہاز کے عملے میں بھگدڑ مچ گئی ۔ بوڑھے مسافروں کو آگے آنے کی ہدایت کی گئی ،اب ایک اور اعلان ہوا کہ ہم بہت جلد نیچے اترنے والے ہیں۔ آپ سب پائوں سے جوتے اتاردیں۔نکٹائی کھول دیں ، کالر اونچے کر لیں ، منہ سے مصنوعی دانت نکال لیں۔ایمرجنسی لینڈنگ ہوگی۔ہاتھ ٹانگوں کے نیچے لے جائیں ۔ سرگھٹنوں پر رکھ دیں (مرغا پوزیشن)، بچوں کو باندھ لیں وغیرہ وغیرہ۔اور ساتھ ہی جہاز ڈگمگایا ۔ مسافروں کی چیخیں نکل گئیں۔بچوں نے رونا شروع کردیا۔ایک ایئر ہوسٹس نے ایمرجنسی گیٹ کے پاس قاضی اسد عابد (عبرت)اورسجاد میر(حریت)کو بٹھایا اور یہ ہدایت کی کہ جہاز رکتے ہی ایمرجنسی گیٹ کھول دیں۔مجھے یاد ہے کہ پورے جہاز میں آہ و بکا تھی اور تیز ی سے لینڈنگ کی طرف گامزن تھا ۔جہاز کے پہیے زمین پر لگے تو سکون ہوا۔اب رخ ویران رن وے کی جانب تھا ۔ جہاز رکاتو شوٹ کھل گئیں اور مسافر پھسل کر نیچے اترنے لگے ۔ ایک اورا یمرجنسی گیٹ کھلا تو ہم نے ونگ پر چھلانگ لگا دی ، مجھ سے پہلے بیرسٹر ثمن خان(کالم نگار)بھی اسی راستے سے نکل کر جہاز کے ونگ پر کھڑے تھے۔بعد میں معلوم ہو اکہ کسی نے کال کر کے اطلاع دی تھی کہ جہاز میں ’’بم ‘‘ہے ،لہذا یہ سار ی کارروائی کی گئی ہے ، یوں ہماری ’’عسکری‘‘مشق کا آغاز دوران پرواز ہی ہو گیا۔تین چارگھنٹے کراچی ایئرپورٹ پر ہی قیام کیا گیا۔جہا ز کلیئر ہوا تو د وبار ہ روانگی کا حکم ملا۔ہمارے گروپ میں شامل میرے سابق ڈائریکٹر بریگیڈیئر(ر)تفضل حسین صدیقی اور سینئر کالم نگار ایم ۔ایچ ۔عسکری نے دوبارہ سفرسے معذرت کر لی۔رات گئے فیصل آباد ایئرپورٹ پر اترے ، وہاں سے آرمی کوچز میں ’’میدان جنگ‘‘کی جانب روانہ ہوگئے۔علاقے میں ابتدائی بریفنگ کے بعد ایک سپیشل ٹرین میں سوار کرایا گیا تاکہ دونوں متحارب افواج بلیو لینڈ اور فاکس لینڈ کے مابین جنگ کے حوالے سے نقل و حرکت اور مختلف زاویے سے عسکری اقدامات کا بچشم خود معائنہ کرسکیں۔یہ حقیقت ہے کہ اہل قلم کے لئے یہ ایک منفرد تجربہ تھا۔مشق کے دوران صحافیوں کو مختلف نوعیت کے ہتھیاروں اور عسکری آلات سے بھی روشناس کروایا گیا۔ ضرب مومن کی کہانی بہت طویل ہے تاہم ایک واقعہ کا ذکر کر کے آگے بڑھتے ہیں۔کراچی سے ہمارے دوست رپورٹر قیصر محمود صاحب بھی ر پورٹنگ ٹیم کا حصہ تھے۔انہیں ایک انفینٹری یونٹ کے ساتھ منسلک کیا گیا تھا تاکہ اگلے مورچوں سے آنکھوں دیکھا حال رپورٹ کر سکیں۔ ان کا بیان ہے کہ رات گئے کسی مقام پر مورچہ زن تھے۔ انہیں ایک انفرادی خیمہ ملا ہوا تھا کہ تھکن کے باعث آنکھ لگ گئی۔یونٹ کو جنگی احکامات کے تحت سورج نکلنے سے قبل کہیں اور منتقل ہونے کے احکامات مل گئے ۔ یونٹ کے اہلکاروں نے قیصر محمود صاحب کو جگانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے ۔ وہ اپنے چھوٹے خیمے جس میں ایک شخص ہی

 سماسکتا ہے، سوئے رہ گئے۔جب زیادہ دھوپ نکلی تو آنکھ کھلی تو ہرطرف ویرانہ تھا ۔ بہر حال انہیں میری ہدایت یاد تھی کہ ’’ایمرجنسی یا گم ہوجانے کی صورت میں زمین پر بچھائی گئی ٹیلی فون تار کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کر دیں۔ کوئی نہ کوئی ’’برسرپیکار‘‘آرمی یونٹ مل جائے گی۔ قیصر محمودصاحب بھی گرتے پڑتے سہ پہر کے بعد ایک آرمی یونٹ جاپہنچے جہاں انہیں متحارب فوج کا ایک اہلکار سمجھ کر تحویل میں لے لیا گیا۔بہر حال افسر کے روبرو پیش کیا گیا تو راز کھلا کہ یہ فرائض منصبی میں بری طرح ملوث صحافی ہے۔ جب ہمیں اطلاع ملی تو بریگیڈیئر ریاض اللہ کی اجازت سے قیصر محمود کی پوسٹنگ اسی یونٹ میں کر دی گئی جس نے انہیں تحویل میں لیا تھا۔ضرب مومن مشق کو منعقد ہوئے کئی برس بیت گئے ہیں ، قیصر محمود صاحب کا یہ واقعہ اس لیے ذہن میں دوبارہ نمایاں ہو گیا کہ چندہفتے قبل ہی قیصر محمود صاحب کینسر کے موذی مرض کے باعث انتقال کر گئے ہیں۔مرحوم زندہ دل،بااصول اور ملنسار شخصیت تھے ۔ اللہ کریم مغفرت فرمائیں ۔ آمین

جنرل اسلم بیگ کی ریٹائرڈ منٹ قریب آرہی تھی ۔ نئے آرمی چیف کے لیے اسمائے گرامی کے مابین دوڑ شروع ہو گئی۔فیصلہ وزیر اعظم محمد نواز شریف کی تجویز پر صدر مملکت غلام اسحا ق خان نے کرنا تھا۔صاحب الرائے شخصیات کے خیال میں لیفٹیننٹ جنرل حمید گل ہی مناسب چوائس تھے۔ تاہم لڑاکا عسکری شعبے سے تعلق رکھنے والے تمام تھری سٹارز ’’امیدوار‘‘تصور کئے جاتے ہیں۔یعنی انفینٹری ، آرٹلری اورآرمرڈ کور وغیرہ براہ راست لڑاکا شعبے تصور ہوتے ہیں۔(یہ اور بات ہے کہ میاں محمد نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو بیرون ملک سفر کے دوران منصب سے ہٹانے کے بعد لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الدین کاانتخاب کیا تھا جوکہ انجینئرز کور(یعنی غیر لڑاکاگروپ)سے تعلق رکھتے تھے ۔ یہ فیصلہ بھی روایات سے ہٹ کر تھا اور اسی سے ایک نئی بحث نے جنم لیا)۔

جنرل مرزا اسلم بیگ کی ایکسٹینشن کی افواہ بھی پھیلی لیکن یہ بات واضح کی گئی کہ آرمی چیف اس کے حق میں نہیں ہیں ، دوسری جانب سیاسی حلقے وثوق سے یہ بات کہہ رہے تھے کہ وزیر اعظم نیا آرمی چیف تعینات کرنا چاہتے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ بریگیڈیئر ریاض اللہ کا خیال تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل آصف نواز کے آرمی چیف تعینات ہونے کے امکانات زیادہ ہیںکیونکہ لیفٹیننٹ جنرل حمید گل مخصوص پس منظر رکھتے ہیں ، ہو سکتا ہے کہ سیاسی قیادت ایک خالص پیشہ وارانہ پس منظر رکھنے والے جنرل آفیسر کو ترجیح دے ۔ ایک روز چند سینئر افسروں کی موجود گی میں کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل آصف نواز نے یہ سوال مجھ سے دریافت کیا کہ میں نے بریگیڈیئر ریاض اللہ کی بات کو آگے بڑھایا توماحول خوشگوار ہو گیا۔مجھے یاد ہے کہ فضا ء میں تنائو موجود تھا ۔ شاید اسی وجہ سے نئے آرمی چیف کا اعلان جنرل اسلم بیگ کی ریٹائرمنٹ سے کافی پہلے کر دیا گیا۔ لیفٹیننٹ جنرل آصف نواز کے دفتر اور گھر میں مبارکباد دینے والوں کا تانتا بند ھ گیا۔ کراچی کور میں الگ مسرت و انبساط کی کیفیت تھی۔ جنرل آصف نواز کو آرمی چیف کا منصب سنبھالنے سے قبل کچھ مدت کے لئے چیف آف جنر ل سٹاف کے آفس میں فرائض انجام دینے تھے۔انہوں نے جنرل ہیڈ کوارٹرز پہنچتے ہی جن افسران اور عملے کو رپورٹ کرنے کی ہدایت کی ان میں میر انام بھی شامل تھا۔کراچی میں کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عارف بنگش مقرر ہوئے تھے، انہوں نے میری راولپنڈی روانگی کا ’’حکمنامہ ‘‘پڑھتے ہی کہا کہ فوراً روانہ ہو جائو۔ایک مرتبہ پھر آئی ایس پی آر ڈائریکٹوریٹ کے د ر ودیوار منتظرتھے۔اس برس میرا نام میجر سے لیفٹیننٹ کرنل کے لئے پروموشن بورڈ میں بھی شامل تھا۔یہ آرمی کیرئیر میں کسی افسر کے لئے بہت اہم اور قیمتی لمحات ہوتے ہیں۔معمولی کوتاہی یا لغز ش برسہا برس کی دن رات محنت پر پانی پھیر سکتی ہے۔میں سمجھتا تھا کہ کراچی میں معاملات کافی حد تک ازبر ہوگئے ہیں ، آرمی چیف اور وہ بھی جنرل آصف نواز کے ساتھ ’’پریس رابطہ افسر‘‘کی نوکری دودھاری تلوار کے مترادف ہے۔میری حیدرآباد ’’ڈومی سائیلڈ ‘‘بیگم اور کراچی میں پلے بڑھے ’’اردو سپیکنگ‘‘بچے اور کچھ نہیں تو راولپنڈی کی سردی کو تو تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔بہر حال پہلے میں اکیلا ہی ’’رپورٹنگ فار ڈیوٹی‘‘گنگناتا نئے آرمی چیف کے آفس جاپہنچا۔ٹیم ترتیب دی جارہی تھی۔مجھے جنرل آصف نواز نے کرنل عزیز احمد خان کے ساتھ فرائض انجام دینے کی ہدایت کی۔کرنل عزیز آرمی ایجوکیشن کور میں انگلش لینگوئج کے انسٹرکٹر تھے اورطویل عرصہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں گراں قدر خدمات انجام دے چکے تھے۔جنرل مرزااسلم بیگ سرکاری رہائش گاہ سے اپنے ذاتی گھر میں شفٹ ہو گئے تھے ۔لہذا جنرل آصف نواز منصب سنبھالتے ہی آرمی چیف کی سرکاری قیام گاہ میں رہائش پذیر ہو گئے جہاں ایک مختصر سی تقریب ہوئی۔دستے نے سلامی دی اور جنرل آصف نواز نے مختصر خطاب کیا۔انہوں نے بتایا کہ اس عمارت میں انہوں نے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دور میں ایک کیپٹن کی حیثیت سے فرائض انجام دیئے تھے۔جنرل آصف نوا ز کا تعلق بھی پنجاب رجمنٹ کی شیرل دل بٹالین سے تھا۔پہلے دن

 فرمان امروز جاری کیا گیا جس میں نئے آرمی چیف نے واضح کہا کہ’’ ایک سپاہی کی شان صرف اس کے اپنے پیشے میں مہارت حاصل کرنے میں ہے۔ہمیں صرف سپاہی بن کر رہنا ہے ، اس میں کسی اور کردار کی گنجائش نہیں ہے۔یہ میر اایمان ہے کہ پاکستان صر ف ایک ملک ہی نہیں ایک نظریہ ہے اس لیے اس کی حفاظت ایک قومی اور پیشہ وارانہ فریضے سے بڑھ کر ایک مذہبی فریضہ ہے۔یہ ہم سب کا ایمان ہے‘‘۔ جنرل آصف نواز نے مزید ہدایت کی کہ اپنی زندگیوں کوقرآن اور رسول کریم ﷺ کی سنت کے مطابق گزارئیے۔اسلام کو اپنی زندگی بنا لیجیے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہؓ کا قول یاد رکھیں :’’خبردار ایک لمحے کے لیے بھی کسی انسان کی خوشنودی کے لئے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول نہ لو‘‘۔

یہ فرمان امروز آرمی یونٹس اور دیگر اداروں میں خصوصی اجتماعات کے دو ران پڑھ کر سنایاگیا۔ جنرل آصف نواز علی الصبح بیدارہونے کے عادی تھے اور آٹھ بجے صبح اپنے آفس میں موجود ہوتے تھے۔ یوں ایک لحاظ سے سٹاف اور دیگر عملے کوتیاری کے لیے ایک گھنٹہ قبل ہی چوکس رہنا ضروری تھا۔یہ طریقہ کار کراچی میں کور کمانڈر کی حیثیت سے دیکھاتھا۔میں ساڑھے آٹھ بجے صبح تک پریس بریف اور اخبارات سے اہم خبروں کے تراشے ’’بقلم خود‘‘تیار کر کے پہنچا دیتا تھا۔بعض ’’شب بیدار‘‘افسر نیم خوابیدہ حالت میں آنکھ ملتے ہی بھاگم بھاگ دفتر پہنچا کرتے تھے۔ دوسری جانب دوپہر دو بجے گھر واپسی کے لیے سٹاف کار تیارہو جاتی تھی۔

ان کا خیال تھا کہ دفتر میں مقررہ وقت سے زیادہ ٹھہرنا نظام میں پیچیدگی لاتا ہے۔ افسر کو چاہیے کہ فیملی اورسپورٹس کے لیے بھی وقت نکالے۔زیادہ ضروری کام ہے تو گھر سے دوبارہ آفس آجائے۔آرمی چیف کے اے ڈی سی نے مجھے کہا کہ آپ مشورہ دیں کہ جی ایچ کیو آٹھ بجے کے بعد آیا کریں کیونکہ آرمی چیف کے آفس اور دیگر ملحقہ دفاتر کی صفائی ساڑھے سات بجے شروع ہوجاتی ہے۔یہ برسوں سے مقررہ وقت ہے اب متعلقہ عملہ چھ بچے آنے سے رہا ۔ خاص طور سے سردیوں میں ۔لیکن آفس میں جنرل آصف نواز کی آمد اور روانگی کے اوقات تبدیل نہ ہوئے البتہ اس کے باعث بیسیوں کو صبح خیزی کی عادت ہوگئی۔آرمی چیف اخبارات کے سرسری مطالعہ کے بعد روز مرہ سرکاری فرائض ادا کرتے تھے۔دن بھر بھرپور انداز میں مصروفیت ان کی عادت ثانیہ تھی ۔ کچھ عرصہ بعد یونٹس کے دورے اور عسکری مشقوں کا معائنہ بھی شروع ہوگیا۔جنرل آصف نواز کے دور میں کئی اہم واقعات پیش آئے جن میں کراچی آپریشن سرفہرست ہے ۔ ایک روز’’کیفیت‘‘جسے مصروفیت کہنا درست نہیں ہوگا۔اس کیفیت نے آرمی چیف کی توجہ کو بھی متاثر کیاتھا۔یہ میاں محمد نواز شریف کا عمومی رویہ تھا جس سے یہ ظاہر ہوتاتھا کہ وہ آرمی چیف سے جس ’’قرب‘‘کے آرزو مند ہیں وہ انہیں حاصل نہیں ہو رہا۔تاثر یہ ہے کہ آرمی چیف صدر پاکستان غلام ا سحاق خان کے زیادہ قریب ہیں۔اس تاثر کی اطلاع جنرل آصف نواز کو بھی تھی لہذا انہوں نے یہ تا ثر زائل کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے۔وزیر اعظم کو اپنے ہمراہ آرمی مشقوں ،عسکری تقریبات اور دیگر بریفنگز وغیرہ پر لے کر جاتے تھے۔ کئی مرتبہ بریفنگ وغیرہ میں بار باریہ بات دہراتے تھے کہ فوج کی ملکی سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور ماضی کے تجربات کی روشنی میں ہم اس کے متحمل بھی نہیں ہو سکتے۔اس کے باوجود نواز شریف اور ان کے چند قریبی ساتھی کسی نہ کسی حوالے سے مکمل تعاون کی ’’عدم دستیابی‘‘کا تاثر قائم رکھنا چاہتے تھے ۔ شاید انہیں ہر دس پندرہ دن کے بعد آرمی چیف سے یہ الفاظ سننا پسند تھے کہ فوج کو سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ تاثر برقرار بھی ان کے وسیع ترسیاسی عزائم کا حصہ ہو۔بہر حال کچھ واقعات بھی ہوئے جو منظر عام پر بھی آئے ۔ چند ایک شاید زبانی گفتگو اور سرکاری فائلز میں ہی دب گئے۔

جنرل آصف نواز کا ایک اہم فیصلہ چندبااثر سیاسی خاندانوں سے تعلق رکھنے والے فوجی افسروں  (کیپٹن /میجر)کو سو ل سروس کے امتحانات میں شرکت کی اجازت دینا تھا۔ان میں سے شاید کچھ کی سول ملازمت میں براہ راست تقرری بھی تھی ۔ جنرل آصف نواز نے واضح کہا کہ بااثر اور متمول سیاسی خاندانوں کے چشم و چراغ فوج میں رہیں گے تو اس سے جوانوں کے مورال اور استعداد کار پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے ۔ اس زمانے میں مشہور تھا کہ نوازشریف نے اپنے حامی قومی اسمبلی کے بعض اراکین کو یقین دلا یا تھا کہ ان کے بیٹے،بھتیجے اور بھانجے وغیرہ جو فوج میں خدمات انجام دے رہے ہیں سول سروس جیسے پولیس، ڈی ایم جی ، کسٹم ، انکم ٹیکس وغیرہ میں ٹرانسفر کر دیئے جائیں گے لیکن جنرل آصف نواز نے دو ٹوک الفاظ میں ’’اعتراض ‘‘اٹھا دیا اور یہ ’’حکم عدولی ‘‘حد درجہ منفی

 تاثر کے ساتھ محسوس کی گئی۔شاید اسی زمانے کا ذکر ہے کہ ایک روز آٹھ بجے کے قریب آئی ایس پی آر پہنچاہی تھا کہ دو تین نائب قاصد ایک ہی بات بار بار دہرا رہے تھے کہ چیف آفس سے فون پر فون آرہے ہیں ۔آپ کو فوراً بلایا ہے۔ میں نے ابھی تمام اخبارات نہیں دیکھے تھے پھر بھی ’’دوڑے چل‘‘انداز میں اے ڈی سی کے پاس پہنچا تو انہوں نے سانس بحال کرنے کے لیے پانی پینے کی مہلت نہیں دی ۔آرمی چیف آفس کا درواز کھلا اور میں جنرل آصف نواز کے سامنے تھا۔ انہوں نے مخصوص انداز میں پوچھا کہ ’’تم رات کہاں تھے؟‘‘۔ میرے لیے یہ مانوس جملہ تھا۔ اس سے مراد یہ تھا کہ اخبارمیں کچھ ناپسندیدہ متن خبر ، ادایہ یا کالم کی صورت میں شائع ہو گیا تھا ۔ اور اب اس کی جواب طلبی ہوئی ہے۔ہر پی آر ا و کا رٹا رٹایا جواب ہوتا ہے کہ ’’سر !میں رات کو پریس کلب میں یا فلاں اخبار کے دفترمیں تھا‘‘۔جنرل آصف نواز کے ساتھ نوکری میں رٹارٹایا جواب نہیں چلتا تھا ۔سچ کہنے میں کافی عافیت تھی اور یہ میرا تجربہ بھی تھا۔لہذا میں نے بتایا کہ ! رات گھر پر ہی تھا ۔اب جنرل صاحب کی مزید آواز اونچی ہوگئی۔’’ تم گھر میں رہو اور اخباروں میں فضول باتیں شائع ہوتی رہیں‘‘۔ (بزبا ن انگریزی)۔جنرل آصف نوازسرکاری غصے کا اظہار بیک وقت انگریزی ، اردواور پنجابی زبان میں کیا کرتے تھے۔ان کی یہ کیفیت دیکھ کر میں دو قدم آگے بڑھا اور کنکھیوں سے میز پر رکھے اخبا ر کودیکھا۔لے آئوٹ سے ’’نوائے وقت ‘‘کا ادارتی صفحہ دکھائی دیا۔میں نے ایک اور رسک لیا اور چیف کے سامنے رکھا ہوا اخبار اٹھالیا۔جنرل آصف نواز کو اس حرکت کی توقع نہیں تھی۔ وہ ابھی خاموش ہی تھے کہ میں نے ’’تم رات کدھر تھے‘‘کے انداز میں دریافت کیا کہ ’’سر ! یہ اخبار کس نے رکھا ہے‘‘۔کیا مطلب ہے تمہارا ؟انہوں نے جوابی سوال کیا۔ میں نے کہا کہ’’ سر !مطلب یہ ہے کہ صبح آٹھ بجے چیف آف آرمی سٹاف کے سامنے نوائے وقت کاایڈیٹوریل صفحہ کس نے رکھا ہے؟سر!آپ آرمی چیف ہیں ، ساری فوج آپ کے احکامات کی منتظر ہے ، اخبارات کا مطالعہ ہمارا کام ہے ۔ آپ صرف ایک انگریزی اور ایک اردو اخبار صبح دیکھا کریں۔اس کے بعد آئی ایس پی آر کا پریس بریف ۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔ اردواخبار کی ہیڈ لائینز اور انگریز ی اخبار کا سپورٹس پیج‘‘۔

اللہ کا شکر ہے کہ میرا’’ناگہانی‘‘عمل کارگر ثابت ہوا ۔ جنرل آصف نواز کہنے لگے ،’’ان کو سمجھا دو جو صبح صبح پیلے نیلے نشان لگا کر اخبار میز پر رکھ دیتے ہیں‘‘۔میں سمجھ گیا ۔ آفس سے باہر نکل کر سیدھا بریگیڈیئر سکندر شامی کے پاس گیا جو سینئر سٹاف افسر تھے ۔ ان سے درخواست کی کہ آرمی چیف کو صبح صبح صرف ہیڈ لائنز اور سپورٹس پیج تک ہی رہنے دیں۔یہ اخبارات کے ادارتی صفحے پڑھناآئی ایس پی آر کے افسروں کا کام ہے ۔ انہوں نے خاموشی سے میری گزارش سنی ۔ اور شاید سنی ان سنی کردی۔بریگیڈیئر(بعد میں میجر جنرل )سکند ر شامی کے بارے میں مشہور تھاکہ وہ چوبیس گھنٹوں میں تیس گھنٹے کام کرتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ انتہائی جفاکش ،محنتی ،فرض شناس اوراپنے کام سے کام رکھنے والے ایک مثالی افسر تھے۔جنرل آصف نواز بے پناہ خصوصیات کی وجہ سے ان پر ا عتماد کرتے تھے۔بریگیڈیئر سکندر شامی 65ء کی جنگ میں کھیم کرن کے محاذ پر شہید ہونے والے بہادر بریگیڈیئر شامی کے صاحبزاد ے ہیں۔1971ء کی جنگ میں ایک بہادر باپ کا یہ بہادر  بیٹا شدید زخمی ہوا اور ان کا ایک پائوں اڑ گیا ۔کافی عرصہ تک موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہے ۔ اللہ کریم نے صحت یاب فرمایااور روز مرہ ڈیوٹی انجام دینا شروع کردی۔مصنوعی پائوں لگا یا گیا۔سخت محنت اور مثالی لگن کے ساتھ فرائض انجام دیتے تھے۔پی ایم اے میں میجر کی حیثیت سے پلاٹوں کمانڈر رہے ۔ ترقی پاکر لیفٹیننٹ کرنل کے رینک پر پہنچے ۔ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اپنی یونٹ کے ساتھ لانگ مارچ میں سب سے آگے چلتے ہیں۔مختصر یہ کہ اس قدر خصوصیات کے حامل افسر کو یہ کہنا ہے کہ ’’مجھے میرا کام خود کرنے دیں ‘‘آسان بات نہیں تھی ۔

بریگیڈیئر (بعد میں میجر جنرل )ریاض اللہ خان کی وفات کے بعد جنرل آصف نواز نے میجر جنرل جہانگیرنصر اللہ کو آئی ایس پی آر کا سربرا ہ مقررکیا۔یہ کراچی کور میں بریگیڈیئر کے رینک میں کمانڈر کورانجینئرزتھے۔پاکستان آرمی کے قابل فخر کور آف انجینئرز کے مایہ ناز افسر اورانتہائی خوش اخلاق شخصیت تھے۔ میں نے انہیں لیفٹیننٹ کرنل کے رینک میں شاہراہ قراقرم پر فرائض انجام دیتے دیکھا تھا۔ میں چین اور پاکستان کو ملانے والی عظیم شاہراہ پر ایک دستاویزی فلم کی تکمیل کے لیے آئی ایس پی آر کی ٹیم کے ساتھ محوسفر تھا کہ لیفٹیننٹ کرنل جہانگیر نصر اللہ کی یونٹ میں کچھ دن کے لیے سرکاری پڑائو کیا۔وہ چند روز ہم سب کے دل میں گھر کر گئے دراصل ہم ایک اور یونٹ کے کمانڈنگ افسر کے’’حسن سلوک‘‘سے سردی میں لرزہ براندام تھے۔ شدید بارش میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ ٹینٹ

 میں رہائش اور چائے پانی کی فراہمی کمانڈنگ افسر کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں ۔ ہم آئی ایس پی آر کے کیپٹن تھے ، جنرل محمد ضیاء الحق نے ویسے ہی ’’صولت صاحب‘‘کا اعزازی رینک عطا کیاہواتھا۔کپکپی کے ساتھ انتظار کی گھڑیاں طویل ہو گئیں تو پتہ چلا کہ موصوف (کمانڈنگ افسر)عبادت میں مصروف ہیں۔فی الحال کسی کو خلل کی اجازت نہیں۔دراصل شاہراہ قراقرم کی تعمیر کے دوران مشہور زمانہ کتاب’’موت کا منظر (مرنے کے بعد کیا ہوگا)عرف حسن پرستوں ‘‘کا انجام متعدد افسروں اور جوانوں کے پاس موجود رہتی تھی۔بلند وبالاپہاڑ،ایک پتلی پگڈنڈی پرخیمہ زن ، نیچے رسی کی مانند بل کھاتا ہوا دریا۔ سورج ڈھلتے ہی ہر طرف سناٹا اور ہو کا عالم ۔ کسی کو پہاڑ کی چوٹی پر جنات دکھائی دیتے تو کوئی دریا کنارے پریوں کے وجود کی قسمیں اٹھاتا دکھائی دیتا تھا۔شاہراہ قراقرم کی تعمیر کے بعد متعدد بار خنجراب تک سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔جنات اور پریوں کے وجود کااحسا س دراصل آکسیجن کی کمی کے باعث رونما ہوتا ہے۔عبادت گزار اورپرہیز گار کمانڈنگ افسر کی یونٹ کو خیرباد کہا۔ کچھ فاصلہ طے کر کے شاہراہ قراقر م پر خیمہ زن ایک اور یونٹ میں پہنچے جہاں لیفٹیننٹ کرنل جہانگیر نصر اللہ پذیرائی کے لیے موجود تھے۔ کراچی میں بھی ان سے بالواسطہ رابطہ رہا۔آئی ایس پی آر کے سربراہ مقرر ہوئے تو جنرل آصف نواز نے مجھے انتباہ کیاکہ’’ یہ میری سلیکشن ہے ۔ تم آئی ایس پی آر والے اپنے آدمی کے سواکسی کو ’’تسلیم ‘‘نہیں کرتے ۔جہانگیر نصراللہ کو کامیاب کرانا تمہاری ذمہ داری ہے‘‘۔ انہیں ڈی جی آئی ایس پی آر تعینات ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا کہ کراچی آپریشن کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ انہیں سندھ میں دفاعی اور غیر دفاعی مقاصد کے لیے تعمیر کی گئی سڑکیں،خفیہ راسے،دشمن کے لیے مستقل اور عارضی رکاوٹیں سمیت مزید آپریشنل اقدامات کی تفصیلات کا علم تھا لیکن سندھ کے میڈیا کا آپریشن میں کردار کا تعین ایک دشوار چیلنج تھا۔بنیادی شرط میڈیا مالکان اور صحافیوں کے نظریات اور خیالات سے آگاہی تھی۔بہر حال میجر (بعد میں لیفٹیننٹ کرنل)عبد الخالق چشتی پی آر او کراچی کو ر کو یہ اہم فرض سونپا گیا ۔جب آپریشن لانچ ہو گیا تو مجھے بھی کراچی کور سے منسلک کیا گیا۔کچھ عرصہ بعد جی ایچ کیو سے سائیکلو جیکل وار فیئر ڈائریکٹوریٹ کے سربرہ بریگیڈیئر آصف ہارون بھی کراچی تشریف لائے۔ ان کے ہمراہ ان کے سٹاف افسر لیفٹیننٹ کرنل ارشد علوی بھی تھے جو ایم اے صحافت پنجاب یونیورسٹی میں میرے ہم جماعت رہ چکے تھے۔کراچی آپریشن ایک طویل د استان ہے جس کا ذکر گاہے بہ گاہے ہوتارہتا ہے ۔ اس حوالے سے سول انتظامیہ نے جب آرمی کی مددطلب کی تو مکمل چھان بین کے بعد منصوبہ بندی کی گئی۔بھارت کی کراچی کو نشانہ بنانے کی کوشش کے بارے میں تمام معلومات موجود تھیں ۔مشرقی پاکستان میں شورش کے انداز پروسیع پیمانے کی گڑ بڑ کا پروگرام تھا۔ الطاف حسین کی جماعت سے منسلک بعض افراد نے رضاکارانہ طور سے معلومات فراہم کیں۔ ایم کیو ایم کی بھاری اکثریت کا ان افراد سے کوئی تعلق نہیں تھا۔بہر حال ایم کیو ایم وقت گزرنے کے ساتھ لسانی بنیاد پر شہری سندھ کی مضبوط ،توانا اور ناقابل چیلنج سیاسی حقیقت کا روپ دھار چکی تھی۔ہر ملٹری آپریشن کی مخصوص جہتیں ہوتی ہیں۔ خاص طور پر شہری علاقوں میں سو چ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے۔آپریشن لانچ ہوگیاتو سب سے پہلے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دو قریبی ساتھیوں چودھری نثار علی خان اور غلام حیدر وائیں نے اعتراضات اٹھانے شروع کر دیئے۔یہ صورتحال فوج اور بالخصوص آرمی چیف کے لیے خاصی ناخوشگوار تھی۔

  یہ حقیقت ہے کہ آپریشن کے حوالے سے ہر قدم جمہوری حکومت کی مکمل آشیر باد سے ہی اٹھایا جا رہاتھا ۔ صدر اور وزیر ا عظم نے ہر بریفنگ میں شرکت کی تھی۔اخبارات میں ایم کیو ا یم کے حامی موجود تھے ۔ انہوں نے چودھر ی نثار علی خان اور غلام حیدر وائیں کے بیانات کو خوب اچھالا اور حاشیہ آرائی کی۔دونوں بیانات میں آرمی کی آپریشن میں شرکت کے حوالے سے آئین کی شق 147اور245میں درج تفصیلات کی تکمیل کا مطالبہ کیاگیا تھا۔آپریشن بھی چلتا رہا اور بیانات دربیانات کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔

بیس جولائی1992ء کو جنرل ہیڈکوارٹرز میں ایک اہم کانفرنس ہوئی جس میں صدر غلام اسحاق خان ،وزیر اعظم نواز شریف،وزیر داخلہ چودھری شجاعت حسین ، وزیراعلیٰ سندھ مظفر حسین شاہ،چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل شمیم عالم خان ، چیف آف آرمی سٹاف جنرل آصف نواز ،چیف آف نیول سٹاف ایڈمرل سعید محمد خان، چیف آف ایئر سٹاف ایئرچیف مارشل فاروق فیروز خان ،کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل محمد نصیر اختر اور دیگر متعلقہ سینئر سول اور آرمرڈ فورسز افسروں نے شرکت کی۔اس میٹنگ میں آپریشن کے بارے میں کھل کر گفتگو ہوئی۔ جنرل آصف نواز نے واضح طور پر کہا کہ فوج کا کوئی سیاسی کردار

 نہیں، ہم جمہوری حکومت کے مکمل تابع ہیں۔تین گھنٹے طویل میٹنگ کے بعد پریس ریلیز تیار کیاگیا جس میں سب نے اپنا حصہ ڈالا ۔ آرمی چیف بار بار کہتے تھے کہ کسی طورسمجھائو کہ ہمیں سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں۔ہمیں ان کاموں میں مت الجھائو ۔ خود حل کرو اپنے مسائل ۔غیر رسمی بات ہورہی تھی۔پریس ریلیز تیار ہو گیا۔آرمی چیف نے منظوری دے دی تو کہنے لگے کہ وزیر داخلہ چودھری شجاعت حسین سے منظوری ضروری ہے۔میں پریس ریلیز لے کر چودھری صاحب کے ہاں پہنچا تو انہوں نے کہا کہ کرنل صاحب آپ پڑھ کر سنا دیجیے۔ان کے سٹاف افسر ساجد چٹھہ بھی موجود تھے۔سماعت کے بعد کہنے لگے کہ’’ میرا خیال ہے کہ وزیر اعظم صاحب کو بھی دکھا دیتے ہیں‘‘۔یوں چودھری صاحب کے ہمراہ وزیرا عظم صاحب کی منظوری کے لیے روانہ ہوئے۔معلوم ہواکہ میاں نواز شریف کسی تقریب میں ہیں۔بہر حال چودھری صاحب نے پریس ریلیز ان کے ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر(بعدمیں لیفٹیننٹ جنرل )عبد القیوم کو دیا جنہوں نے سٹیج پر فائل وزیراعظم کو دکھائی ۔ انہوں نے سرسری نگا ہ ڈالی اور ملٹری سیکرٹری سے کہا کہ حتمی منظوری کے لیے صدر صاحب سے رابطہ کریں۔ادھر میڈیا سے ٹیلی فون کالز کا تانتا بندھا ہواتھا۔آئی ایس پی آر آفس سے کرنل (بعد میں بریگیڈیئر)ایس ایم اے اقبال لہجے میں پوچھ رہے تھے کہ آپ کہاں ہیں؟جلد ی واپس آئیے۔منظور ی کیوں نہیں ملی؟وغیرہ وغیرہ۔میں انہیں کیسے سمجھاتا کہ ایک معمول کا پریس ریلیز آرمی چیف،وفاقی وزیر داخلہ اور وزیراعظم سے ہوتاہوا اب صدر مملکت کی خدمت میں پیش ہونے جا رہا ہے۔ملٹری سیکرٹری نے جب صدر مملکت سے منظوری کی شرط عائد کی جو دراصل وزیراعظم نواز شریف کے احکامات تھے تو وزیر داخلہ چودھری شجاعت حسین نے کہا کہ ’’کرنل صاحب!بابے کول تُسی آپے جائو ، مینوں کجھ نئیں‘‘۔بابے کے پاس آپ خود جائیں،مجھے کچھ کام کرنے ہیں)۔

میں ایوان صدر پہنچاتو اے ڈی سی ٹو صدر مملکت نے بتایا کہ جنا ب غلام اسحاق خان عصر کی نماز اداکرکے تشریف لائیںگے۔آپ انتظار کریں۔میں نے میڈیا ،پریس گلوبل ویلج وغیرہ کی اصلاحات سے اپنی بات کی اہمیت واضح کی لیکن موصوف ٹس سے مس سے ہوئے کہنے لگے ’’سر!آپ میری پوزیشن سمجھیں ، میں فیملی ایریا میں داخل نہیں ہو سکتا‘‘۔خیر نماز عصر ادا کر کے صدر مملکت تشریف لائے ۔ اے ڈی سے پریس ریلیز لے کر چلا گیا ۔چائے کا ایک اور دور شروع ہوگیا۔آدھ گھنٹہ ، ایک گھنٹہ مزید بیت گیا ۔ پتہ چلا کہ صدرمملکت ابھی تک پریس ریلیز کو ہی ’’دیکھ‘‘رہے ہیں ۔ مغرب کی اذان ہوئی تو اے ڈی سی وزیٹر روم میں آئے اور ترمیم شدہ پریس ریلیز میرے حوالے کردیا۔جناب صدر نے باریک پنسل سے صفحہ دو پر متعدد جملے تبدیل کیے تھے ۔ایک باریک بین ایڈیٹر کی مانند کہیں تیر کا نشان تھا اور ایک دو جگہ پر’’ڈبے‘‘بنے ہوئے تھے جن میں کچھ تحریر تھا۔کاغذکا حاشیہ بھی خالی نہیں تھا۔میں نے اے ڈی سی سے کہا کہ کسی ایسے  ٹائپسٹ کو بلائیں جو صدر کی تحریر پڑھ سکتا ہو۔انہوںنے فرمایا کہ سر!مغرب ہو گئی ہے اور سب لوگ چلے گئے ہیں۔ میں نے آئی ایس پی آر اطلاع دی کہ صفحہ اول پر صرف دو ترامیم ہیں ، یوں لگتا ہے کہ ایک پر خط تنسیخ ہے البتہ صفحہ دو ’’اٹھاون بی‘‘بنا ہوا ہے۔میر ا خیال تھا کہ کرنل ایس ایم اے اقبال مزاح سے مستفید ہو ں گے لیکن انہوں نے اپنی طبیعت کے برعکس بے نقط سنانا شروع کر دیںکہ آپ مذا ق پر تلے ہوئے ہیں ۔

بہرحال اسلا م آباد سے راولپنڈی جانے والی سڑک پر ’’حد رفتار‘‘کو توڑتا ہوا آئی ایس پی آر پہنچا تو موقع پر موجود افسروںنے صدر مملکت کی باریک کچی پنسل سے لکھی ہوئی تحریر کو’’ڈی کوڈ‘‘کیا۔پی ٹی وی کے خبر نامے کا وقت قریب تھا۔چندلائن ٹائپ ہوتے ہی فیکس مشین کے حوالے ہوجاتی تھیں۔عجب گھمسان کارن تھا۔ایک سیدھا سادہ پریس ریلیز جو زیادہ سے زیادہ آئی ایس پی آر اور وزارت ِ داخلہ کے پی آر او کے باہمی اشتراک سے جاری ہونا تھا ۔1973ء کے آئین کے تناظر میں آرمی چیف اور وزیرا عظم سے ہوتا ہوا صدرمملکت تک پہنچا جنہوںنے اپنی تمام تر صلاحیتیں اور تجربہ بروئے کار لاتے ہوئے اسے نشرو اشاعت کے قابل بنایا۔قصہ مختصر کراچی آپریشن بھی مذکورہ پریس ریلیز کی مانند ہی رواں دواں رہا۔فوجی دستے کراچی کور کی نگرانی میں اپنی آئینی ذمہ داریاں مکمل کر رہے تھے ۔ متعدد افسر اور جوان شورش پسندوں کا نشانہ بنے ۔ مجھے آج بھی دو آرمی کیپٹن کی نعشیں یاد ہیں جنہیں بھارت کے تربیت یافتہ دہشت گردوں نے اغواء کر کے ٹارچر کیااور پھر انہیں شہید کر دیا۔آئی ایس پی آر نے بھرپور انداز میں بحالی امن کے لیے فوج کی شب وروز خدمات کو اجاگر کیا۔یہ ایک بہت مشکل فریضہ تھا۔ظاہرہے کہ اندرون سلامتی کے آپریشن کے دوران بعض بے گناہ معصوم افراد بھی نادانستہ طور پر زد میں آتے ہیں۔ان کی دلجوئی اوردیکھ بھال کے لیے

 خصوصی ہدایات تھیں ۔ ایم کیو ایم بھی انتشار کا شکار ہوگئی۔ آفاق احمد نے ایم کیو ایم حقیقی کی داغ بیل ڈالی۔پارٹی چیئرمین عظیم احمد طارق پراسرار انداز میں قتل کر دیئے گئے۔روشنیوں کا شہر خوف،دہشت اور بے یقینی کے اندھیروں میں ڈوب گیا۔آرمی آپریشن کے ساتھ سیاسی عمل بھی ضروری تھا لیکن اس حوالے سے میاں نواز شریف کی حکومت گومگو کا شکار تھی۔محض چند ارب کے ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات کافی نہیں تھے۔کراچی والے اپنا کراچی واپس مانگ رہے تھے ۔ سب کو اس مطالبے سے اتفاق تھا لیکن حصول کے لیے’’سیاسی عزم‘‘کا فقدان تھا۔پیپلز پارٹی کا اصل حوالے سے ظاہر اور باطن ایک نہیں تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ اندرون سندھ کا ووٹر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ان کے ساتھ ہے۔سیاستدانوں کی باہمی ریشہ دوانی اور سطحی سوچ کے باعث آپریشن کے حوالے سے فوج دبائو کا شکاررہی۔جنرل آصف نواز کی تشویش میں بھی اضافہ ہورہاتھاجس کا اظہار انہوں نے متعدد میٹنگز میں کیا۔صدر مملکت،وزیر اعظم اور آرمی چیف کے متعدد مشترکہ اجلاس ہوئے ۔ اس کے باوجود فضا سیاسی لحاظ سے گرد آلود رہی۔

 کراچی کی مخصوص جغرافیائی اور معاشی اہمیت کے باعث بھارت کی مداخلت کے ثبوت بھی موجود تھے، یہ صورتحال سیکورٹی ایجنسیز کے لئے ہمیشہ چیلنج رہی ہے۔خاص طور سے جب دشمن کے ایجنٹ ریاست کے ستونوں میں سرگرم دکھائی دیں تو معاملات کو سنبھالنا آسان نہیں ہوتا۔بھارت نے سندھ کو ہمیشہ ٹارگٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔1965ء اور71 ء کی جنگوں میں بھرپور حملے کیے گئے جنہیں پاک افواج نے کامیابی سے پسپا کیا۔ پاک بحریہ کا انتہائی اہم بیس ہونے کی وجہ سے بھارت کراچی کو امن دشمن کارروائیوں کے لیے’’ مناسب‘‘ سمجھتاہے۔بدقسمتی سے کراچی سیاسی،معاشی اورسماجی لحاظ سے بھی تقسیم درتقسیم کاشکار رہا ہے۔فرقہ واریت ایک اور عفریت ہے جس میں اضافہ ہی ہوا ہے۔معاشی لحاظ سے طاقتور اقلیتی برادری جن میں پارسی اور ہندو سرفہرست ہیں دنگا فساد اور بے یقینی کی فضا سے بہت جلد پریشان ہوجاتے ہیں۔اس لیے ان میں ترک وطن کرنے والے زیادہ تعداد میں ہیں۔کراچی آپریشن کے دوران مہاجر کارڈ کی دعوے دار صرف الطاف حسین کی ایم کیو ایم ہی نہیں تھی بلکہ آفاق احمد، ڈاکٹرسلیم حیدر اور دیگر جماعتوں میں شامل اردو بولنے والے سیاسی رہنما بھی اپنا حصہ ڈالتے رہے۔مجھے یاد ہے کہ آپریشن کے دوران متعددایسے افراد بھی گرفتار ہوئے جو بھارت سے تخریبی کارروائیوں کی تربیت حاصل کر کے آئے تھے۔ایم کیوایم الطاف حسین کا دفتر نائن زیرو سیاست کم اور امن دشمن کارروائیوں کے لئے زیادہ استعمال ہوتا رہا۔اس کے باجود کور ہیڈ کوارٹرز میں یہ رائے موجود تھی کہ ایم کیو ایم کی سیاسی بنیاد کو ختم کرنا دشوار ہے ،مناسب ہوگا کہ اسے صحیح راستے پر گامزن کیاجائے تاکہ ماضی کی طرح مہاجر برادری پاکستان کی ترقی اور فلاح میںاہم کردار ادا کر سکے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس فوج کو تھپکی دینے کے سوا کوئی لائحہ عمل نہیں تھا۔اندرون سندھ سے تعلق رکھنے و الے سیاسی رہنما ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتے تھے۔اوّل یہ کہ فوج کراچی میں اردو بولنے والی مہاجر کمیونٹی کی نظر میں متنازع بن جائے اور دوم ایم کیو ایم کو سیاسی لحاظ سے زندہ درگور کر دیاجائے ۔جماعت اسلامی ایم کیو ایم سے سیاسی زک اٹھانے کے باعث گوشہ تنہائی میں تھی۔محض اکا دکا بیانات سے سیاست چل رہی تھی۔زمینی حقائق کے مطابق کراچی میں برسوں سے مقیم پختون ،پنجابی اور دیگر برادریاں ایم کیو ایم کی لسانی سیاست سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے آپریشن کی حمایت کررہی تھیں۔اس پس منظر کے ساتھ آپریشن نے خاطر خواہ کامیابی حاصل کی۔معاشی ، تعلیمی اور سماجی گہما گہمی واپس آگئی اور لوگوں نے سکھ کاسانس لیا۔فوج کی تجویز پر سول آرمرڈ فورسز کی تشکیل کافیصلہ ہوا اور ’’مہران فورس‘‘کے نام سے نیم فوجی دستے تیار کئے گئے جو سندھ پولیس کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار تھے۔مہران فورس کی بعد میں پاکستان رینجرز سندھ کے نام سے تشکیل نو کی گئی ۔ یہ فورس آج بھی سندھ صوبے میں امن و امان کی بحالی کے لیے امداد میں مصروف ہے ۔بدقسمتی سے سندھ پولیس افرادی قوت اور مناسب سازو سامان کے باوجود اپنی بنیادی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے سے قاصر رہی ہے۔خاص طور سے بڑے شہروں میں رونما ہونے والے جرائم پرکنٹرول کرنادشوار تھا۔ اس تساہل کے متعدد اسباب تھے۔خاص طور سے افرادی قوت کی غیر منصفانہ بھرتی اور سیاسی مداخلت اہم ترین نکات تھے۔جن کاہر اہم میٹنگ میں ذکر ہوتاتھا لیکن میٹنگ میں شامل اکثر سیاسی رہنما زیر لب مسکرا کر موضو ع بدل دیتے تھے۔عسکری قیادت ایک حد تک اصرار کرسکتی تھی، ملیر چھائونی میں ایلیٹ فورس کے قیام کے لیے سنٹر بنایاگیا ۔ا تفاق سے میرے ایک کورس میٹ میجر احتشام کی خدمات حاصل کی

 گئیں جوپاکستان آرمی کے سپیشل سروسز گروپ(ایس ایس جی )کے مایہ ناز کمانڈو افسر تھے۔انہیں سندھ پولیس کے چنیدہ اسسٹنٹ سب انسپکٹرکو خصوصی ٹریننگ دینے کی ذمہ داری سونپی گئی ۔ میجر احتشام سے  کراچی میں ملاقات ہوئی تو موصوف پولیس کی وردی میں خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے ۔ میں رائے دی کہ پولیس کے ساتھ مختصر وقت گزارنا ورنہ آپ کسی کے نہیں رہو گے ۔ پولیس قبول نہیں کرے گی کہ ایک فوجی افسر ہم پر ’’مسلط‘‘ہو گیا ہے اور جب واپس فوج میں جائو گے تو وہاں ’’دل ‘‘نہیں لگے گا۔پولیس سروس میں بسر کیے شب و روزیاد کر کے ٹھنڈی آہیں بھرو گے ۔ میجر احتشام نے حسب معمول ایک زور دار قہقہہ لگیا اور میر بات سنی ان سنی کردی۔چند ہفتے ہی گزرے تھے کہ ایک روز ٹیلی فون پر میجر احتشام پریشانی کے عالم میں کہہ رہے تھے کہ’’ یار صولت رضا !ملیر سے پولیس والے جلوس کی صورت میں کراچی سی پی او آفس کی طرف آرہے ہیں ۔ انہیں سخت ٹریننگ پر اعتراض ہے ، کہتے ہیں ہم سے فوجی تربیت نہیں ہوتی ہے‘‘۔ میجر احتشام مسلسل بات کررہے تھے۔اب زور دار قہقہہ بلند کرنے کی باری میری تھی ۔ میں نے کہا کہ ’’برادر عزیز میں نے پہلے دن ہی گزارش کی تھی کہ سندھ پولیس کے موجودہ اے ایس آئی ایک مخصوص خاندانی پس منظر اور سیاسی تال میل کے باعث بھرتی ہوئے ہیں۔انہیں آپ نما ز فجر کے بعد دو میل بھگاتے ہیں ، پریڈکراتے ہیں اور پھرکلاسز کا اہتمام ہوتا ہے ۔یہ بے چارے اگر اتنے ہی تندرست و توانا تھے تو فوج میں بھرتی ہوجاتے‘‘۔

میجر احتشام کا اصرار تھا کہ اخبار میں نہیں آناچاہیے ۔ بہرحال اگلے دن اچھا برا شائع ہو گیا اور ایک نئی بحث چھڑ گئی کہ آیا موجودہ افرادی قوت میں سے انتخاب کیاجائے یا ایلیٹ فورس کے لیے خصوصی بھرتی ہونی چاہیے۔سند ھ پولیس کے اعلیٰ افسر ان بھی ’’تربیت‘‘کا معیار ایک حد تک ہی رکھنے کے حامی تھے ۔ا ن کاخیال تھا کہ کچے کے علاقے میں برسوں سے مقیم ڈاکو ہوں یا کراچی کے مختلف اضلاع میں سر گرم جرائم پیشہ ’’معززین ‘‘ان سب سے نبردآزما ہونے کے لیے روایتی طریقہ کار موجود ہے۔ میجر احتشام کی نافذ کردہ عسکری تربیت سے سندھ پولیس کا مورا ل انتہائی متاثر ہونے کا خطر ہ ہے ۔احتجاج کرنے والے پولیس اہلکار’’ شدت تربیت‘‘ سے نڈھال تھے۔بہر حال نامساعد حالات کے باوجود میجر احتشام نے پیشہ وارانہ لحاظ سے بہترین تربیت دی ۔ پاسنگ آئوٹ کے موقع پر پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف بھی تشریف لائے  ہوئے تھے۔انہوںنے سندھ پولیس کے چاق و چوبند دستے دیکھے تو ٹریننگ انچار ج سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے میجر احتشا م کو پنجاب پولیس میں ایلیٹ فورس کو قائم کرنے اور تربیت دینے کی دعوت دی۔نسبت روڈ لاہور سے آبائی تعلق رکھنے والے میجر احتشام کو اور کیا چاہیے تھا۔ انہوں نے سندھ حکومت سے اجازت طلب کی جو بادل نخواستہ عطا کر دی گئی ۔ میں ابھی کراچی آئی ایس پی آر میں ہی تھا۔لاہور روانگی سے پہلے ملاقات ہوئی تو میں نے دوستانہ انداز میں مشورہ دیا کہ پنجاب پولیس سے بچ سکتے ہو تو بچ جائو ۔ سندھ کی’’سائیں پولیس‘‘کے ساتھ ’’تعلقات عامہ ‘‘استوارہوگئی تھی۔پنجاب پولیس سے انگریز بھی پناہ مانگتا تھا۔وردی میں ’’سائیں‘‘نے صرف جلوس نکانے پر اکتفا کیا ہے پنجاب پولیس والے سبق سکھانے پر یقین رکھتے ہیں۔میجر احتشام کے ساتھ وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔انہوں نے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایلیٹ فورس پنجاب کو تربیت دینا شروع کر دی۔پولیس سروس کے چند افسر بھی ہمراہ تھے ۔ یہ ایس ایس جی کا کمانڈو دن رات فیلڈ میں زیر تربیت اہلکاروں کے ساتھ مصروف عمل تھا۔دفتری معاملات اور مالی امور کی دیکھ بھال غیر روایتی تھی لہذا کچھ عرصے بعدتربیت پس منظر میں چلی گئی اور انکوائریاں شروع ہو گئیں۔یہ طویل کہانی ہے۔میجر احتشام کی رودادِ جوانمردی کو سمیٹتے ہوئے یہ کہنا ہی کافی ہوگا کہ ایس ایس جی افسر جو نیک نیتی کے ساتھ پولیس کو اعلیٰ تربیت پیشہ وارانہ تربیت سے سرفراز کرنا چاہتاتھا پولیس نظام کے ہاتھوں جکڑا گیا۔اس دوران جنرل پرویزمشرف برسراقتدار آگئے ۔ احتشام ایس ایس جی کے زمانے میں ان کا عزیز ترین جونیئر افسر تھا ۔ لہذا وہ ساری فائلز بغل میں دابے راولپنڈی آگیا ۔ جنرل مشر ف سے ملاقات کے بعد مجھے ملاتو کہنے لگا کہ آرمی چیف نے رات کے کھانے پربلایا ہے اور ایس ایس جی کے زمانے کی یادیں تازہ کی ہیں۔شہیدوں کے کارنامے دہرائے ،جب میں نے اپنی کہانی بیان کی تو جنرل مشرف نے کہا کہ تمہیں کس نے کہا تھاکہ تم پولیس میں جائو۔اگر گئے تھے تو پھر پولیس والے بن جاتے ، اب قانونی لڑائی وکیل کے ذریعے لڑنا ہوگی۔یوں جنرل مشرف نے براہ راست مداخلت سے معذرت کر لی ۔ کچھ عرصہ بعد احتشام تعزیرات پاکستان کی زد میں آگیا ، مدت تک قید و بند کی صعوبت برداشت کی ۔سیاستدان ہوتا تو یہ بات کریڈٹ میں جاتی ، ادھر صورتحال یکسر مختلف تھی ۔ اس پر جو گزری وہ ہمارے سرکاری ،سماجی اور سیاسی کلچر کو بے نقاب کرتی ہے۔

خیر میں نے بات جنرل آصف نواز کے زمانے میں جاری کراچی آپریشن سے شروع ہوئی تھی۔اس آپریشن کے حوالے سے لاتعداد ذیلی واقعات بھی ہیں ۔ کچھ امانت کے طور پر دفن رہیں گے البتہ ایسے حالات جن کا مستقبل میں بھی سامنا ہو سکتا ہے انہیں بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

کراچی آپریشن میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا کہ جب چیف آف آرمی سٹاف جنرل آصف نواز آٹھ جنوری1993ء کو حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے۔انہوں نے16اگست1991ء کو پاکستان آرمی کی کمان سنبھالی تھی ۔ وہ بظاہر ہشاش بشاش تھے اور معمول کے مطابق اپنے فرائض انجام دے رہے تھے ۔ کور کمانڈر کراچی تعینات ہو گئے تو میں آئی ایس پی آر کراچی آفس میںتھا۔یوں ان سے تقریبا ً روزانہ ہی ملاقات کا موقع میسرآتاتھا۔ وہ ایک سچے کھرے اور پیشہ وارانہ معاملات کو ہر قیمت پر ترجیح دینے والے ایک باوقار افسر تھے۔سپورٹس اورذاتی فزیکل فٹنس پر خاص توجہ دیتے ۔آرمی  چیف کی حیثیت سے بھی جاگنگ اور واک وغیرہ جاری رکھے ہوئے تھے۔مجھے یادہے کہ انتقال سے چند روز قبل ایک ’’ٹی بریک‘‘کے دوران’’اِن ڈور‘‘جاگنگ مشین کی تعریف کر رہے تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ موسم خراب ہونے کی صورت میں بھی رننگ جاری رکھی جا سکتی ہے ۔ا س موقع پر کسی افسر نے کہا کہ جاگنگ مشین کو زیادہ استعمال کرنے کے نقصانات بھی ہیں۔ شنید ہے کہ جنرل آصف نواز کو یہ مشین کچھ زیادہ ہی پسند آگئی تھی ۔ اس کے علاوہ بھی متعدد افواہیں گردش میں تھیں۔کراچی آپریشن کے حوالے سے بھی خفیہ رپورٹس مل رہی تھیں کہ امن دشمن بھارت کی اعانت سے آرمی کی سینئر قیادت کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔کچھ دور کی کوڑی لائے کہ ناراض سیاست کار کچھ بھی کر سکتے ہیں۔واقعہ کچھ یوں ہوا کہ چھٹی کے دن جنرل آصف نواز حسب معمولی آرمی ہائوس کے کشادہ لان میں جاگنگ اورواک کررہے تھے کہ اچانک دل میں درد اٹھا اورزمین پر ہی لیٹ گئے ۔ کسی کی نظر پڑی تو یہ سمجھا کہ آرام یا ایکسرسائز کررہے ہیں۔کچھ دیر بعد بیگم آصف نواز نے دریافت کیاتوپتہ چلا کہ لان میں نیم بے ہوش پڑے ہیں۔فوری طور پر سٹاف کار میں ہی آرمرڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پہنچایاگیا۔ایمبولینس گھر پر موجود نہیں تھی ۔ ڈیوٹی ڈاکٹر ز نے ابتدائی طبی امداد دی ۔ سینئر ڈاکٹر بھی پہنچ گئے ۔ تمام تر طبی کوششوں کے باوجود جنرل آصف نواز جانبر نہ ہوسکے ۔اگلے روز انہیں آبائی گائوں چکری راجگان کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیاگیا۔کور کمانڈر لاہور لیفٹیننٹ جنرل اشرف چودھری سب سے سینئر لیفٹیننٹ جنرل تھے لہذا انہوں نے کمان سنبھال لی۔ چند روز بعد صدر غلام اسحاق نے کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ عبد الوحید کاکڑ کو چیف آف آرمی سٹاف مقرر کردیا۔

نئے آرمی چیف کے ساتھ بھی میری پریس را بطہ افسر کی حیثیت سے ڈیوٹی جاری تھی کہ ایک روز عجیب واقعہ ہوگیااورمجھے دوبارہ اسی انداز میں کراچی جانا پڑاجیسا کہ لاہور سے بریگیڈیئر صدیق سالک شہید نے مجھے لاہور سے کراچی روانہ کیا تھا۔چھٹی کا دن تھا اور ابھی تمام اخبارات میز پر ہی موجود تھے کہ ملازم نے اطلاع دی کہ باہر ایک صاحب کار میں موجود ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ صولت صاحب کو فوراًبھیجو۔میں پریشان ہو گیا۔ملازم سے حلیہ ،گاڑی کارنگ وغیرہ پوچھتے ہوئے گیٹ سے تانک جھانک کی تو ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل جہانگیر نصر اللہ اپنی ذاتی کار میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے دکھائی دیتے ۔میں معمول کی شلوار قمیض اور سلیپر پہنے ہوئے تھا۔جونہی گیٹ کھولا انہوں نے گاڑی میں بیٹھنے کاحکم دیا ۔ تیزی سے گاڑی ریورس کی اور باہر مین روڈ پر آگئے۔بات سلام دعا سے شروع ہوئی تھی۔ میں بھی پریشان تھا ، انہوں نے نصرت فتح علی خان کی آواز میںقوالی’’علی مولا ۔ علی مولا‘‘اونچی آواز میں آن کر دی۔یہ صورتحال مزید پریشان کن تھی ۔ میں نے بھی اونچی آواز میںپوچھا سر! خیریت تو ہے ، آپ ٹھیک ہیں؟۔انہوںنے سٹیرنگ مضبوطی سے تھامے ہوئے بولنا شروع کردیا۔تمہیں معلوم ہے کہ مجھے 102درجے کا بخار ہے اور آرمی چیف نے مجھے آدھا گھنٹہ کھڑا کیے رکھا ہے۔بے نقط سنائی ہیں۔ایسے الفاظ میں نے پوری سروس میں نہیں سنے ۔ کاش میں تمہارے آئی ایس پی آر میں نہ آیا ہوتا۔کراچی میں گڑ بڑ ہوگئی ہے ۔

کراچی میں آئی ایس پی آر کے لیفٹیننٹ کرنل عبدالخالق چشتی نے کسی کارچور کی پریس کانفرنس کروادی ہے۔اس نے کہا ہے کہ میں صدر غلام اسحاق خان کے داماد عرفان اللہ مروت کا آدمی ہوں۔وغیرہ وغیرہ۔یہ آج اخبارات میں شائع ہو اہے۔ صدر مملکت نے آرمی چیف سے پوچھاکہ ’’تمہارا آئی ایس پی آر مجھے ’’ڈائون‘‘کرنے پرلگاہوا ہے، آخر کیوں؟‘‘آرمی چیف عبدالوحید کاکڑنے مجھے صبح صبح بلالیا۔اب ہم دونوں دفتر جارہے ہیں۔تم نے فوراً کراچی جانا ہے اور چشتی سے چارج لینا ہے۔چیف بہت ناراض ہیں۔ انہوں نے مجھے واضح احکامات دیے ہیں۔میجر جنرل جہانگیر نصر اللہ خود گاڑی چلاتے ہوئے دفترداخل

 ہوئے تو چھٹی کے روز موجود دوتین افراد پر مشتمل عملہ پریشان ہوگیا۔جنرل صاحب واقعی پریشان تھے ۔ ساری سروس کور آف انجینئرز سے منسلک رہے۔اب میڈیا سرکس کا سامنا تھا۔بہر حال میس سے کافی منگوائی۔میں نے بھی ساری خبر اونچی آواز میں پڑھی کیونکہ جنرل صاحب کے لیے اس وقت مطالعہ ممکن نہیں تھا۔کراچی میں لیفٹیننٹ کرنل عبدالخالق چشتی سے بات کی تو وہ حسب معمول مطمئن اوراپنے کارنامے پر شاداں تھے۔جب میں نے انہیں صورتحال سے آگاہ کیا تو پریشان ہوگئے ۔ ان کا اصرار تھا کہ مبینہ کار چور کی پریس کانفرنس متعلقہ حکام کی اجازت سے کی گئی ہے اور یہ سارا معاملہ کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل نصیر اختر کے علم میں بھی ہے۔ بہت بڑا کارچور ہے ۔یہ سرکاری گاڑیاں بھی چوری کرتا ہے اور صوبہ سرحد(خیبر پختونخواہ)بھجواتا ہے۔ چند اردو اخبارات نے خبر سپر لیڈ کے طور پر نمایاںکی تھی۔اب معاملہ چشتی صاحب کی گردن ماپنے کا تھا۔میرااصرارتھا کہ اگر ہمارے کولیگ کو اس بنیاد پر ’’فارغ ‘‘کیا گیا تو آئی ایس پی آر کی تاریخ میں ذکر ہو گا کہ ادارے کا سربراہ اپنے ایک بہترین اور باصلاحیت افسر کا پیشہ وارانہ انداز میں دفاع نہیں کرسکتا۔میں نے تجویز دی کہ فی الحال سب کو غصہ ہے۔ شام تک کوئی اور خبر اس خبر پر بازی لے جائے گی۔آپ آرمی چیف کے احکامات کے مطابق لیفٹیننٹ کرنل عبدالخالق چشتی صاحب کو کراچی آفس سے تبدیل کر کے روالپنڈی یا ملتان تعینات کردیں۔اس دوران میجر جنرل جہانگیر نصر اللہ بھی مزید ٹیلی فون کالز کی ’’زد‘‘میں تھے۔بہر حال مجھے ایک بار پھرکراچی کا’’سامنا‘‘تھا۔اُدھر ہمارے دوست چشتی صاحب کی کیفیت بھی ڈی جی آئی ایس پی آر سے کم نہیں تھی۔وہ اپنے کارنامے پر متعدداخبارات سے ادارتی نوٹ اور کالم وغیرہ شائع کروانے کی درخواست کر چکے تھے۔رہی سہی کسر پی ٹی وی کے خبر نامے پوری کر رہے تھے ۔ البتہ کار چور کے مبینہ بااثرا فراد سے رابطے کا ذکر نہیں تھا۔رات گئے کراچی پہنچاتو میں آفس میں خاصی چہل پہل تھی۔آفس ٹیبل کی ایش ٹرے چشتی صاحب کے پھونکے ہوئے سگریٹ سے بھری ہوئی تھی۔ لیفٹیننٹ کرنل عبدالخالق چشتی سراپا صحافی تھے۔انہیں اردو انگلش زبان میں خبرسازی پر خاصا عبور تھا۔آئی ایس پی آر میں شمولیت سے پہلے متعدد اردو اور انگریزی اخبارات سے منسلک رہے ۔ موصوف بریگیڈیئر تفضل حسین صدیقی کی دریافت تھے۔چشتی صاحب نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل مرزا اسلم بیگ کے پی آر او کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی تھیں۔ان کی تیار کردہ خبر راولپنڈی /اسلا م آباد کے صحافتی معیار پر پورا اترتی تھی لہذا اسے ہاتھوں ہاتھ لیاجاتا تھا۔پاکستان ٹائمز،مسلم،جنگ ، نوائے وقت،سمیت دیگر اخبارات میں ان کے عزیز و اقارب ، دوست احباب اور شاگردان عزیز کثیر تعداد میں تھے لہذا ایک ٹیلی فون ہی کافی تھا اور آئی ایس پی آر کی خبر کو صفحہ اول پر چار چاند لگ جایا کرتے تھے۔خاص طور پر جنرل مرزا اسلم بیگ کے قومی اورعالمی امور پر فصیح و بلیغ ارشادات عالیہ زبردست کوریج حاصل کرتے تھے۔خیالات آرمی چیف کے ہوتے تھے لیکن اخبار ی زبان میں منتقل کرنا چشتی صاحب کا ہی کارنامہ ہوتاتھا۔جنرل اسلم بیگ بھی آئی ایس پی آر کے کسی اور افسر سے مطمئن نہیں ہوتے تھے۔ جنرل مرزا اسلم بیگ سے پہلے وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل کے ایم عارف بھی معمول کی عسکری تقریبات میں طویل گفتگو فرماتے تھے۔ان کی تقاریری کواخبارات میں شائع کرانا بھی کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا تھا۔نیوز روم میں موجود ہمارے دوست جلی کٹی سناتے تھے۔خیر!جنرل آصف نواز نے کمان سنبھالتے ہی ابلاغ عامہ کے سارے معاملات آئی ایس پی آر کی صوابدید پر چھوڑ دیئے ۔ مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے کبھی اپنی خبر یا تصویر کی مناسب یا غیر مناسب کوریج کے حوالے سے کبھی ڈانٹ ڈپٹ کی ہو۔ البتہ ہم حفظ ماتقدم کے طور پر مناسب کوریج کے انتظامات کرتے تھے۔لیفٹیننٹ کرنل عبد الخالق چشتی کراچی سے تبدیل کر کے ملتان تعینات کر دیئے گئے تاہم انہیں جلد ہی راولپنڈی بلالیا گیا۔اس وقت آرمی چیف عبد الوحید کاکڑ کے پریس رابطہ افسر کی حیثیت سے میجر شاہد کرمانی فرائض انجام دے رہے تھے ۔ میجر شاہد کوئٹہ میں آئی ایس پی آر آفس کے انچار ج تھے۔ مجھے امید تھی کہ کراچی میں میری تعیناتی عارضی ہوگی لیکن کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل نصیر اختر نے اصرار کر کے باقاعدہ پوسٹنگ کے احکامات جاری کروادئیے۔کچھ عرصہ بعد لیفٹیننٹ جنرل نصیر اختر کو جی ایچ کیو میں تعینات کر دیا گیا اور کراچی کورکی کمان لیفٹیننٹ جنرل لہراسب خان کے سپردکر دی گئی ۔ ان کی شہرت ایک سخت گیر منتظم اور پیشہ وارانہ امور پر کامل توجہ مرکوز رکھنے والے فرض شناس افسر کی تھی۔

 انہوں نے تمام غیر ضروری پروٹوکول اور اسراف وغیرہ سے فوری گریز سے احکامات صادر کیے۔سب سے اہم فیصلہ آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑکی اجازت سے کراچی شہر سے فوج کی اندرونی سلامتی کی ڈیوٹی سے فراغت تھی۔یہ فیصلہ دوررس نتائج کا حامل تھا۔جس کی ہر سطح پر تعریف کی گئی۔متعدد فارمیشنز

 کراچی کے گنجان آباد علاقوں میں امن و امان کی بحالی کی ڈیوٹی انجام دے رہی تھیں۔لیفٹیننٹ جنرل لہراسب خان نے تمام یونٹس کو کراچی سے نکالا اور ایک آپریشنل نوعیت کی مشق کے لیے سندھ کے صحرا میں لے گئے۔عسکری مشقیں جاری تھیں البتہ آئی ایس  پی آر کا عملہ کراچی میں ہی تھا۔ایک روز آئی ایس پی آر آفس کو بھی تمام مال واسباب کے ساتھ صحرامیں رپورٹ کرنے کے احکامات مل گئے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ کور کمانڈر کے حکم پر جاری عسکری مشق میں شرکت ایک دلچسپ تجربہ تھا۔جنرل اسلم بیگ کے زمانے میں ضرب مومن مشق کی یادیں تازہ ہوگئیں۔مشق کے اختتام پر کراچی واپس آئے۔ آرمی یونٹس ملیر چھائونی میں مقیم ہوگئیں اور میرے سمیت آئی ایس پی آر کے دیگر اہلکاروں کے چہرے دھوپ اور ریت میں بسر کئے گئے ایام کے باعث سندھی رنگت میں رنگے گئے۔ادھر آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل جہانگیر نصراللہ کارچور کی پبلسٹی کے واقعہ کے بعد بد دِ ل سے ہوگئے تھے۔ شاید انہوں نے آرمی چیف سے درخواست کی ہوگی۔ایک روز معلوم ہوا کہ میجر جنرل جہانگیر نصراللہ کو رآف انجینئرز میں واپس چلے گئے ہیں اور ان کی جگہ کورآف سگنلز بریگیڈیئر خالد بشیر کو میجر جنرل کے رینک پر ترقی دے کر ڈی جی آئی ایس پی آر مقرر کردیاگیا۔بریگیڈیئر صدیق سالک کی شہادت کے بعد ہم عادی ہوگئے تھے کہ دو تین برس کے بعد ایک نئے ’’ٹوسٹار‘‘کو آئی ایس پی آر سے روشناس کرانا ہے تاکہ وہ اس ادارہ کی سربراہی کا فرض ادا کرسکیں۔میجر جنرل خالد بشیر شائستہ طبیعت کے حامل پیشہ وارانہ سوچ رکھنے والے ایک سینئر افسر تھے۔ان کی قیادت میں مجھے ’’عوامی جمہوریہ چین ‘‘کی پیپلز لبریشن آرمی کے ’’شعبہ تعلقات عامہ‘‘کا جائزہ لینے کا موقع ملا۔یہ ایک معلوماتی دورہ تھا تاہم چین سے انتہائی قریبی تعلقات کے باعث معلوماتی کے ساتھ خیر سگالی پہلو زیادہ نمایاں ہوگیا۔تین رکنی وفد میں میجر (بعدمیں بریگیڈیئر ریٹائرڈ)شاہد کرمانی بھی تھے جو آئی ایس پی آرلاہور میں تعینات تھے ۔ یوں میجر جنرل خالدبشیر کے ساتھ کراچی اور لاہور میں تعینات آئی ایس پی آر افسرتھے۔ہمیں مختلف اداروں سے روشناس کرایا گیا ۔ ظاہرہے کہ عوامی جمہوریہ چین میں مختلف نوعیت کا سیاسی نظام رائج ہے ۔ اور اس کے تابع صحافت بھی فروغ پذیر ہے۔چینی افواج کے لیے ابلاغ کا موثر ترین نظام ہے۔ ان کے ہاں عوام سے زیادہ افواج میں خدمات انجام دینے والے افسروں اور دیگر باوردی اہلکاروں کی ابلاغی کیفیت پر توجہ مرکوز ہے۔ہم عظیم دیوارچین پر’’چہل قدمی‘‘کر رہے تھے کہ کسی نے میرے شانے پر تھپکی دی ۔ پی ایل اے(پیپلز لبریشن آرمی) کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ ٹوسٹار جنرل تھے۔ مجھے کہنے لگے کہ یاد رکھو کامیابی کے لیے افواج سے منسلک تمام افراد میں یکسوئی ضروری ہے۔ میرے اپنے فوجیوں کے لیے ’’آرمی ڈیلی‘‘تیار کرتاہوں جو وہ کمیونسٹ پارٹی کے اخبار ’’پیپلز ڈیلی‘‘سے پہلے پڑھ لیتے ہیں۔یوں میری ڈیوٹی مکمل ہوگئی۔دشمن سب سے پہلے من گھڑت خبر وغیرہ کے ذریعے فوج میں بد دلی پھیلاتا ہے۔اس پر نظر رکھنی چاہیے ۔ میں دیوار چین پر کھڑا چینی جنرل کی گفتگو توجہ سے سن رہاتھا جو اپنے تئیں دشمن کے بیانیے کے آگے روزانہ ایک نئی دیوار تعمیر کرنے کا عزم رکھے ہوئے تھے ۔ ہم واپس آگئے۔خفیہ رپورٹس ارسا ل کی گئیںاور ہم نے ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل خالد بشیر کو بھی ’’عسکری میڈیا‘‘کے قیام کی کوششوں پر راضی کر لیاتھا۔بریفنگز کا دور چلا ، تخمینے لگائے گئے کہ کم از کم ایک روزنامہ اخبار افواج کے لیے تیار کیاجائے ۔ خاص طور پر اگلے مورچوں پر خدمات انجام دینے والے صورتحال سے سے بھرپور آگاہی حاصل کر سکیں۔بہر حال یہ منصوبہ ابتدائی گرم جوشی کے بعد طویل سردمہری کا شکا ر ہوگیا۔

جنرل عبدالوحید کاکڑ کی مدت کماند مکمل ہونے کے بعد لیفٹیننٹ جنرل جہانگیر کرامت کو  ترقی دے کر جنرل کے رینک میں چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیاگیا۔ان کا تعلق آرمرڈ کور سے تھا۔ آئی ایس پی آر کے ڈی جی میجر جنرل خالد بشیر کے بعد میجر جنرل سلیم اللہ خان تعینات کیے گئے ۔ ان کا تعلق انفینٹری رجمنٹ سے تھا۔ میجر جنرل سلیم اللہ نے مختلف شہروں کے صحافیوں سے قریبی تعلقات استوار کر لیے ۔ آئی ایس پی آر سے قبل میجر جنرل سلیم اللہ ایک حساس ادارے کے ساتھ منسلک رہے تھے ۔ یوں انہیں سرکردہ صحافتی شخصیات کے پس منظر سے بخوبی ا ٓگاہی تھی۔کبھی کبھار ہم’’ مستقل ‘‘آئی ایس پی آر والے بھی ڈی جی سے گفتگو کے دوران اکثر زیر ہو جاتے تھے۔انہوںنے اپنے دور میں پاک افواج کے ترجمان ہفت روزہ ہلال(آج کل ماہنامہ ہلال)کو روزنامہ میں تبدیل کرنے کے لیے کافی ہوم ورک کیا۔ میں نے اس ضمن میں مکمل بریفنگ دی ۔ لیفٹیننٹ کرنل عبد الخالق چشتی کو مدیر بنانے پر اتفا ق تھا لیکن آرمی چیف جنر ل

 جہانگیر کرامت نے آخری مرحلے پر تجویز پر عمل درآمد موخر کر دیا۔میں ابھی کراچی آفس میں ہی تعینات تھا ۔ معمول کے فرائض جاری تھے۔ ایک روز میجر جنرل سلیم اللہ نے فون پر دریافت کیا کہ پاک افواج کا ایک دستہ یوگوسلاویہ میں امن دستے کے طورپر یو این ڈیوٹی انجام دینے جا رہاہے کیا تم دلچسپی رکھتے ہو؟میں نے فون پر ہی رضا مندی کا اظہار کر دیا ، یوں چند ہفتے کے بعد لاہور سے پاک افواج کے ایک دستے کے ساتھ کروشیا کے صدر مقام زغرب روانہ ہوگیا۔اس دستے میں انفینٹری (11بلوچ رجمنٹ)آمرڈ کور کا سکارڈن ، آرٹلری کی بیٹری کے علاوہ انجینئرز ، سگنلز اور میڈیکل کور کی نمائندگی بھی تھی۔ہم ا پریل1996ء سے اگست 1997ء تک کروشیا اور سربیا کے مابین متنازع علاقے برانیہ میں امن و امان کی ڈیوٹی انجام دیتے رہے۔پاک فوج کے دستے کی قیادت بلوچ رجمنٹ کے کرنل (بعد میں بریگیڈیئرریٹائرڈ)کررہے تھے۔ہم سے قبل بلجیم  کی فوج کا دستہ اس علاقے میں تعینات تھا ۔ مشرقی یورپ کا یہ خطہ بدستور جنگ کی لپیٹ میں تھا۔ایک بہت بڑی مملکت یوگوسلاویہ کو منصوبہ بندی کے تحت چھ ملکوں میں تقسیم کردیاگیا۔پاک افواج کا دستہ جس علاقے میں پہنچا وہاں سربیاکے حامیوں کی اکثریت تھی۔یہ وفاق کے حامی تھے اور یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے پر سخت دل گرفتہ تھے۔اس علاقے کے باشندے ’’آرتھوڈوکس کرسچن‘‘مذہب کے ماننے والے تھے ۔ پاکستان کے فوجی ان کے نزدیک ’’ناپسندیدہ‘‘تھے۔بہرحال انتہائی نامساعد حالات میں پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کاآغازہوا۔ایک شب افسررہائشی بلڈنگ میں عشائیہ کے لیے جمع ہو رہے تھے کہ باہر سے پتھر برسنا شروع ہوگئے ۔ خیر یہ سلسلہ جلد ہی رک گیا اور ہماری جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔اگلے روز کمانڈر نے میڈیکل ٹیم کو ہدایت کی کہ وہ ہاتھوں میں ادویات اور ڈاکٹر سٹیتھو سکوپ نمایاں کئے’’سوشل پیٹرولنگ‘‘شروع کریں۔اقوام متحدہ کی جانب سے مہیا کیے گئے ترجمان ہمراہ تھے۔آئی ایس پی آر کی ٹیم بھی ساتھ تھی ۔ مقامی ناراض شہریوں کے لیے یہ ایک منفرد نظارہ تھا۔کچھ نے نعرے بلند کیے تاہم اس بہانے قصبہ کے گلی کوچوں میں ہماری رسائی ممکن ہوگئی۔آہستہ آہستہ مریض پاک آرمی کے میڈیکل سنٹر آنا شروع ہوگئے۔ زیادہ تر بوڑھے مرد ،خواتین اور بچے تھے۔نوجوان جنگی سرگرمیوں میں مصروف تھے یا مخالفین کے ہاتھوں مارے جانے کے خوف سے ’’گمشدہ ‘‘ہو گئے تھے۔میں نے مقامی صحافیوں سے راہ ورسم بڑھانے کی کوشش کی تو سخت مزاحمت کا سامنا ہوا۔پاکستان کے بارے میں ان کے خیالات میں منفی عنصر زیادہ نمایاں تھا۔یہ صحافی زیادہ تر ’’سربیئن ‘‘تھے، روس نواز تھے یا سمجھ لیجیے کہ مارشل ٹیٹو کے فلسفے کے حامی اور بلغراد حکومت کے تابع سمجھے جاتے تھے ۔ اب یہ علاقہ متنازع تھااور یہ فیصلہ ہونا تھا کہ اسے کیتھولک اکثریت کے ملک کروشیا میں شامل کیاجائے یا سربیا میں رہنے دیاجائے ۔دراصل مارشل ٹیٹو کے انتقال کے بعد یوگوسلاویہ میں مذہبی،علاقائی اور نسلی تضادات نے سراٹھانا شروع کر دیا۔میڈیا نے بھی اس سلسلے میں منفی کردار ادا کیا اور ہر علاقے میں موجود لاتعداد ٹی وی ، ایف ایم ریڈیو اور اخبارات نے تضادات کو مزید ہوا دی۔۔مغربی دنیا پہلے ہی تاک میں تھی ، انہیں یورپ میں طاقت ور ترین سوشلسٹ ملک کو جمہوریت کے نام پر تہہ وبالا کرنے کا بہترین موقع میسرا ٓگیا۔سیاسی دھڑے بندیوں میں تشدد کاعنصر نمایاں ہوا تو مسلح جتھے وجود میں آگئے۔کیتھولک کروئٹ کی زیادہ تر جرمن میں مقیم کروئٹ باشندے مددکرتے رہے ۔آرتھوڈکس کرسچن وفاق کی پناہ میں تھے اور ان کا موقف یہ تھا کہ دیگر علاقوں میں شورش پسند باغی ہیں اور ان کے خلاف فوجی کارروائی ہونی چاہیے۔بوسنیا کی مسلم آبادی کاعلیحدہ تشخص ہے ۔ انہوںنے پہلے سرب اور کروئٹ دونوں کی  جانب سے روا رکھے گئے مظالم کا سامنا کیا۔کچھ عرصے بعد مسلمانوں نے اپنی آزادی کے لئے مسلح جدو جہد کاآغاز کردیا۔ہم سے پہلے بھی پاک افواج کے متعدد دستے اقوام متحدہ کے پرچم تلے شورش زدہ علاقوں میں قابل تعریف خدمات انجام دے چکے تھے۔ہمارا دستہ بوسنیا کے صدر مقام سرائیوو سے تقریبا ً تین سو کلومیٹر فاصلے پر مورچہ زن تھا۔یوگوسلاویہ میں قیام کے دوران تین مرتبہ سرائیوو جانے کاموقع ملا۔ایک مرتبہ ذاتی حیثیت میں اور دوبار دورہ سرکاری نوعیت کا تھا۔ ہماری وردی پر اقوام متحدہ  کے نشان کے ساتھ پاکستان کاپرچم بھی آویزاں تھا۔بوسنیا کے حدود شروع ہوتے ہی مردو زن اور بچے جونہی پاکستان کا پرچم دیکھتے تو اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کرتے۔ہم چند افسر ایک کرافٹ کے ذریعے دریا عبور کررہے تھے کہ اچانک دریا کی لہروں سے اللہ اکبر اور پاکستان پاکستان جیوے پاکستان کی آواز یں سنائی دیں۔ غور سے دیکھا تو چند بچے اور جوان نعرے بلند کرتے دکھائی دیئے۔دریا میں ڈبکی لگا رہے تھے ۔ کنارے پر اترے تو کچھ عمر  رسیدہ افراد بیٹھے تھے ۔ ہم جونہی قریب ہوئے تو انہوں نے ہمارے ہاتھ چومنا شروع کر دیئے۔پاکستان آرمی ، پاکستان آرمی پکارتے ہوئے وکٹر ی کا نشان بلند کرتے ۔ یہ سب کچھ ہم

 سے پہلے خدما ت انجام دینے والے پاک فوج کے امن دستے کی بدولت تھا جنہوںنے بے لوث انداز میں ملی جذبے کو سربلند رکھتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیئے اور پورے علاقے کو اپنا گروید ہ بنا لیا تھا۔ہمیں بتایاگیا کہ پاک فوج کے افسر اور جوان ماہ رمضان میں باقاعدگی سے روزے رکھ رہے تھے تو اقوام متحدہ کی جانب سے ملنے والا راشن اور دیگرا شیائے خوردو نوش کا فی مقدار میں بچ جایاکرتا تھا ۔ بعد ا زاں راشن پیکٹ جنگ سے متاثرہ خاندانوں میں تقسیم کرتے تھے۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاک فوج کی بدولت بوسنیا کے مسلمانوں کو امید اور کامیابی کی ایک نوید ملی۔ایک مرتبہ بوسنیا کے ’’مسٹر جناح‘‘جناب عزت بیگووچ سے ملاقات بھی ہوئی۔انہوں نے پاکستان کی امداد اور پاک فوج کی خدمات کا اعتراف انتہائی جذباتی اندازمیں کیا۔

 سرائیوو شہر عظیم تاریخی ورثے کا حامل ہے۔رہن سہن اور ظاہری شناخت کے لحاظ سے یورپ کا شہر ہی دکھائی دیتا ہے لیکن اس کے رگ وپے میں مسلم قومیت اور ترک ثقافت رواں دواں ہے۔سٹی سنٹر میں کھڑے تھے کہ مغرب کی اذان سنائی دی۔قریب ہی جامع مسجد کی جانب مردعورتیں ایک ساتھ رواں دواں تھے۔ یہ منظر ہمارے لیے غیر مانوس تھا ۔ اکثر جوان خواتین مغربی لباس زیب تن کئے ہوئے تھیں۔ان کی منزل بھی جامع مسجد تھی۔ ہم مسجد پہنچے تو دیکھا کہ خواتین کے لئے علیحدہ انتظامات ہیں جہاں وہ گائون اوڑھ کر نماز کے لیے تیار ہوجاتی ہیں اور ا ن کی صف مردانہ صف کے پیچھے تھی۔امام صاحب نے نماز مغرب کے بعد دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے اور رقت آمیز انداز میں دعائیہ کلمات پڑھنے لگے ۔ شاید ان کی نظر میں ہم بھی تھے۔ یواین آرمی کی وردی اور اس پر پاکستان کا پرچم سجائے ہم بھی سربسجود تھے ۔ا نہوں نے دعامیں خاص طور سے پاکستان کی سلامتی اور کشمیر کی آزادی کا بھی ذکر کیا۔ یوں جب تک بوسنیا کی حدودمیں رہے بازار ،کیفے ،مساجد ، دفاتر اور پارکس وغیرہ میں جہاں کہیں عوام ہمیں دیکھتے تو ’’پاکستان۔پاکستان‘‘کی صدائیں بلند کرتے تھے۔

 ہم جس علاقے میں مورچہ زن تھے وہ سربیا سے جڑا ہوا تھا اور کروشیا سے بھی جغرافیائی رابطہ تھا۔مارشل ٹیٹو کے دورِ حکومت میں بین الامذاہبی شادیاں عام تھیں ، میسیحیوں کے فرقے ہو ں یا مسلمان آپ میں شادی کی سرکاری طور پر حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ ہمارے علاقے میں کئی ایسے خاندان تھے جنہیں لڑائی کے باعث منتشر ہونا پڑا۔یعنی شوہر سرب بیو ی بچوں کوچھوڑ کر کروشیا ء کی ’’مذہبی‘‘فوج میں شامل ہوگیا۔حالات معمول پر آئے تو پاک فوج کے زیر انتظام علاقے میں منتشر خاندانوں کی ری یونین کے لیے ہفتہ وار انتظامات کیے گئے ۔ ماں بیٹی ، شوہر بیوی اور معمر افراد کی باہمی ملاقات کے مناظر انتہائی رقت آمیز تھے۔ بظاہر جب ملک ٹوٹتا ہے تو عام شہریوں کو بے شمار سماجی،معاشی اور خاندانی مسائل کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ایسے موقع پر سرب اور کروئٹ صحافی بھی آپس میں ملاقات  کے لیے درخواست دیا کرتے تھے۔ میں نے اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور دونوں جانب کے صحافیوں سے میل جول بڑھانے کے ساتھ اخبارات اور ایف ایم ریڈیوز کے ذریعے پاکستان کے بار ے میں عمومی معلومات کی خوب تشہیر کی۔ایک مرتبہ سرب ٹی وی کے ذریعے یوم پاکستان کے بارے میں فلم ٹیلی کاسٹ کرادی۔اس میں کشمیر کا بھی ذکر تھا ۔ سربیا میں موجود بھارتی سفارت کاروں نے اظہار برہمی کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے مقامی دفتر کو احتجاج نوٹ کرایا تاہم سرب ٹی وی کا نگران اس بات سے انکاری ہو گیا کہ یہ فلم ہمیں پاک فوج کے پریس رابطہ افسر نے مہیا کی تھی۔میں نے محسوس کیا کہ سرب فوج،میڈیا اور سیاسی رہنمائوں کا کرب سقوط مشرقی پاکستان کے سانحہ سے ملتا جلتا ہے ۔ لہذا میں نے اسی بنیاد پر ان سے راہ و رسم بڑھائی۔آغاز میں اکثرنالاں تھے تاہم جب ’’وفاق‘‘کی عظم اور سر بلندی کے لیے جاری جنگ میں یکساں کردار کو نمایاں کیا تو دوستی کی راہ ہموار ہوگئی۔ایک اخبار کے ایڈیٹر سے زیادہ بے تکلفی ہو گئی۔ موصوف سرب تھے اور وفاق کے حامی تھے۔متحدہ یوگوسلاویہ کے لیے زور قلم صرف کر رہے تھے ۔ امریکہ نے اقوام متحدہ کے ذریعے یورپ کے مضبوط ترین سوشلسٹ ممالک کو پار ہ پارہ کر دیا تھا۔سانحہ مشرقی پاکستان کا ذکر آیاتو بھارت کی زبان بولنے لگے ۔ میں نے بتایاکہ اسلام آباد بھی بلغراد کی مانند وفاق کی علامت ہے۔بھارت نے لسانی اور جغرافیائی پہلوئوں کو بھرپور انداز میں استعمال کرتے ہوئے پہلے شورش کو ہوا دی اور اس کے بعد اپنی افواج کے ذریعے عسکری برتری حاصل کرلی۔ہماری افواج وفاق کی علامت تھیں جیسے بلغراد یوگوسلاویہ کے وفاق کو بچانے کے لیے عسکری حکمت عملی پر کار بند تھا لیکن بین الاقوامی سازش کے تحت اسے شکست دی گئی۔یہ بیانیہ ان کے ذہن میں پیوست ہوگیا۔اب اسلام آباد اور بلغراد ان کی نظر میں ’’جڑواں بھائی‘‘تھے ۔ چلتے چلتے میں نے ازراہ تفنن باور کروایا کہ متحدہ یوگوسلاویہ بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے والے پہلے دوتین ملکوں میںشامل تھا۔یہ دسمبر1971کاذکر ہے اورآج (1996ء)میں پچیس

 برس بعد پاکستان کی فوج یوگوسلاویہ کے حصے بخرے کرنے میں مصروف ہے۔ان کی آنکھیں آبدیدہوگئیں۔کہنے لگے کہ مارشل ٹیٹوواقعی بھارت کے بہت قریب بلکہ تابع تھا۔سرب صحافی کافی حد تک ہمارے’’ ہمنوا ‘‘ہوگئے تھے۔البتہ انہیں ایک شکایت رہی ۔دراصل پاک فوج کے زیر انتظام علاقے ’’برانیہ‘‘کی سرخ  شراب ذائقے او ر دورس اثرات کے باعث بے حد مقبول تھی۔یہ مشروب ہی ’’کشیدگی‘‘کا سبب تھا۔کچھ عرصے بعد انہیں یقین ہوگیا کہ پاک فوج کے پی آر اوکی رسائی صرف دودھ پتی تک محدود ہے ۔سرخ  شراب کے تحفے کی توقع وقت کاضیاع ہوگا۔علاقے میں حد نظرتک انگور کے باغات تھے۔دودھ اورشہد کی ’’سوشلسٹ‘‘انداز میں فارمنگ تھی۔جنگ سے پہلے لوگ ہشاش بشاش اورمعاشی لحاظ سے مطمئن تھے کہ اچانک بلغراد اور زغرب سے اٹھنے والے سیاسی طوفان نے جس کی بنیاد مذہبی عصبیت تھی سب کچھ تہہ بالا کردیا۔دیکھتے ہی دیکھتے گلی محلے اور شہر میدان جنگ میں تبدیل ہوگئے۔پادری مسلح جتھے ترتیب دینے لگے ۔کروشیاء میں مسلم املاک کو بہت نقصان پہنچا۔مردشہید کئے گئے ،عورتیں بڑی تعداد میں اغواء کر لی گئیں۔بچے لاپتہ ہوگئے۔سابق یوگوسلاویہ میں باہمی لڑائی جھگڑے اور جنگ و جدل کے دوران انسانیت سوز مظالم کابازار گرم رہا۔اس بارے میں بہت کچھ شائع ہوچکا ہے۔ہمار ے انتظام علاقے کے قریب ہی کروشیاء کا ایک خوبصورت قصبہ ’’اوسیک‘‘تھا جہاں ہم کبھی کبھار جمعہ کی نماز پڑھنے جایاکرتے تھے۔اکثر اپنے ہیڈکوارٹرز میں ہی افسر اورجوان پنجگانہ نماز ادا کرتے تھے۔ایک مرتبہ دو تین افسروں کے ہمراہ’’اوسیک‘‘گئے جہا ں ایک مسلمان نے اپنے گھر کے ایک کمرہ میں نمازکاانتظام کیا ہواتھا۔مارشل ٹیٹو کی حکومت قائم ہونے سے پہلے ’’اوسیک‘‘میں دس سے زائد مساجد تھیں۔ترکی کمزورہوا۔فوج بکھر گئی تو مسلمانوں پربھی عرصہ حیات تنگ ہوگیا۔سویت یونین کی مانند یوگوسلاویہ میں بھی فوٹوسیشن کے لئے چند مساجد برقرار رکھی گئی تھیں۔کروشیاء کے علاقے میں مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔تبدیلی مذہب کارجحان بھی چل نکلا،اکثر لامذہب ہوگئے۔خیر!نماز جمعہ کے بعد امام صاحب نے اقامت گاہ میں ہی کافی پرمدعو کیااور مسجد کے بارے میں گفتگو شروع کی۔ان کاخیال تھاکہ مالی امداد کے بغیر مسجد کی بحالی ممکن نہیں۔مالک مالکان کی بیٹی جو انگلش سمجھتی تھی ترجمانی کے فرائض انجام دے رہی تھی۔اس نے امام صاحب کی بات کاترجمہ بیان کرنے کے بعد کہا کہ آپ مسجد کی انتظامیہ کو چندہ نہ دیں۔ہم مسلمان نوجوانوں کے لیے ویک اینڈ کلب نہیں ہے جس کی وجہ سے بہت پریشانی ہورہی ہے۔امام صاحب نے مسکراتے ہوئے کچھ کہنا چاہالیکن ’’اوسیک ‘‘کی مسلمان طالبہ نے معذرت کر کے بات جاری رکھی۔اس نے کہا کہ دو ہفتے قبل میرے باپ نے اپنی بہن کارشتہ ایک غیر مسلم نوجوان سے کردیا ہے۔کیونکہ مسلمان لڑکے لاپتہ ہیں۔ کچھ بوسنیا چلے گئے ، چند ایک کروشیاء میں ہیں لیکن اپنی شناخت ظاہر نہیں کرتے۔اگر ہمارا ایک ویک اینڈ کلب قائم نہ ہواتو میرے والد مجھے بھی کسی غیر مسلم نوجوان کے حوالے کر دیں گے۔میںہر ’’ویک اینڈ‘‘گھر  پر ہی گزار رہی ہوں۔دوسری طرف میری کیتھولک دوست اپنے کلب میں جاتی ہیں۔ان کی شادیاں ہورہی ہیں۔بچی نے توقف کیا تو امام صاحب نے دریافت کیا کہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟۔اب طالبہ نے اپنی زبان میں امام صاحب کو خلاصہ بیان کیا۔جس پران کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہوگئے تاہم سر کے اشارے سے تسلیم کا اظہار کرتے رہے۔قصہ مختصر!میرے ساتھ گئے افسر گومگو کی کیفیت میں تھے۔مسجد کے لیے پیسے لائے تھے۔اب مسلم نوجوانوں کے لیے ’’ویک اینڈ کلب‘‘کا مطالبہ سامنے تھا۔میں نے دریافت کیا کہ یہ جگہ کہا ں قائم ہوسکتی ہے؟تو  طالبہ نے کہا کہ جس مکان میں آپ نے نماز پڑھی ہے۔اس مکان کی بیس منٹ موجود ہے جہاں لکڑی کا فرش ہے جو ڈانس کے لیے بہت موزوں ہوگا۔بارش کی وجہ سے مٹی جم گئی ہے۔ اگر یہ مٹی ہٹادی جائے اور میوزک سسٹم لگ جائے تو مسلم نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے لیے ویک اینڈ کلب بن سکتاہے۔یوں ہم آپس میں ملیں گے اور شادی بھی کرسکتے ہیں۔نوجوان طالبہ نے گلوگیر آواز میں بات ختم کردی۔ہم پاکستانی سکتے کے عالم میں تھے۔ہنس مکھ میجر خٹک نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے اردومیں کہا کہ سر!آپ رینک میں سینئر ضرورہیں لیکن یہ معاملہ عسکری نوعیت کانہیں ہے،اس کے باوجود فیصلہ آپ نے ہی کرنا ہے کیونکہ آپ سید ہیں۔قیامت کے دن آپ ہی جوابدہ ہوںگے۔میجر خٹک کی بات ختم ہوتے ہی میں نے مالک مکان سے درخواست کی کہ ہمیں مکان کی بیس منٹ دکھائے تاکہ فیصلہ کرسکیں۔یہ مسجد کے لیے مختص کمرے کے نیچے ہی خاص بڑی جگہ تھی جسے صفائی کے بعد مزید بہتر بنایا جاسکتا تھا۔بہرحال پہلے ویک اینڈ کلب کی تشکیل کے لیے مناسب رقم مہیا کردی گئی تاکہ مسلم نوجوانوں کے ’’عائلی‘‘بحران پرقابو پایاجاسکے۔دوہفتے بعد ہم دوبارہ’’اوسیک‘‘گئے تو شہر کی واحد مسجد جو ایک کمرہ پر مشتمل تھی کے نیچے ویک اینڈ کلب قائم ہو چکاتھاجہاں

 ہفتہ اوراتوار کو شہر کے مسلمان لڑکے اور لڑکیاں جمع ہو کر ڈانس وغیرہ کرتے تھے ۔ یوں ان کے مابین میل جول بڑھنے لگا۔کئی دہائیوں سے یوگوسلاویہ کی سماجی روایات میں شادی سے پہلے فرینڈ شپ کا عمل ضروری تھا۔یہ تمام فرقوں میں رائج تھا۔مسلمان ابتداء میں ہچکچاتے رہے تاہم خلافت عثمانیہ کے خاتمے اورمسلم سماج کے زوال کے بعد وہ بھی علاقائی رسومات اختیار کرنے پرمجبور ہوگئے۔

پاک فوج کے یواین مشن دستے کا ہیڈ کوارٹر’’داردا‘‘قصبے کے قریب واقع تھا۔اس کے ساتھ ہی فٹ بال گرائونڈ تھی جسے چاروں جانب سے باڑلگا کر محفوظ بنایا گیا تھا۔جنگ کے دوران بھی یہ جگہ سپورٹس تقریبات کے لیے استعمال ہوتی رہی۔ہمارے دستے کو پہنچے ابھی چند روز ہی گزرے ہوں گے کہ قصبے کے میئر نے کمانڈر بریگیڈیئر طارق رسول سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔میئر سرب قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ان کے ہمراہ وفد بھی تھا۔ملاقات کے دوران انہوںنے درخواسست کی کہ پاکستان آرمی کے افسران اور جوان فٹ بال گرائونڈ میں صرف سپورٹس شوپہن کرداخل ہوں کیونکہ بڑے بوٹوں سے گھاس کونقصان پہنچنے کااندیشہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ گرائونڈ ہمار ے بچوں اور نوجوانوں کے لیے مخصوص ہے۔غیر متعلقہ شہری داخل نہیں ہوسکتے۔وہ صرف سیڑھیوں پر بیٹھ کر ہی میچ دیکھتے ہیں۔ہم نے قیام کے دوران دیکھاکہ عمر کے لحاظ سے تین مختلف ٹیمیں تھیں جو مختلف اوقات میں باقاعدگی سے پریکٹس کرتی تھیں۔سب سے پہلے چھوٹے بچے آتے تھے۔جنہیں چکس کہاجاتا تھا۔یہ کھیلتے کم اور شور زیادہ کرتے تھے۔ ایک مستعد کوچ مسلسل ان کی نگرانی پر مامور تھا ۔ ان کے بعد لڑکے لڑکیاںگرائونڈ میںفٹ بال کے پیچھے بھاگتے دکھائی دیتے ۔ سب سے آخر میں باقاعدہ ٹیم کے کھلاڑی گرائونڈ میں پیشہ وارانہ کھلاڑی کی مانند پریکٹس کرتے نظرآتے تھے۔ہفتے ،پندرہ روز میں باقاعدہ میچ بھی ہوتا تھا۔فٹ بال کے متعدد کوچ بھی گرائونڈ میںہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے تھے۔جنگ نے ا ن کی مصروفیات ختم کر دی تھیں۔انہیں ملازمت کی ضرور ت تھی۔پاکستان اطلاع بھجوائی گئی کہ سستے داموں فٹ بال کے بہترین کوچ دستیاب ہیں۔کافی انتظار کے بعد جواب آیا کہ’’ تمہیں جس کام کے لیے بھیجا گیا ہے اس پر توجہ دو۔فٹ بال کے فروغ کے لیے فٹ بال فیڈریشن پاکستان موجو دہے‘‘۔بہرحال ہم نے علاقے میں پاکستا ن ساختہ فٹ بال تقسیم کیے ۔ یہ سرب کھلاڑیوں کے لیے ایک بہترین تحفہ تھا ۔ یوں ’’تعلقات عامہ‘‘مزید خوشگوار ہوگئے۔

سابق یوگوسلاویہ میں گزرے شب و روز میری زندگی کا ایک منفرد تجربہ تھا۔سب سے اہم پہلو پاک فوج کی بے مثال پیشہ وارانہ صلاحیت،اہلیت اور فرض سے لگائو کا بین الاقوامی سطح پراعتراف تھا۔یواین مشن کے سربراہ امریکی تھی جب کہ تیس سے زائد ممالک پر مشتمل یو این آرمی کی قیادت بیلجیم فوج کے میجر جنرل شکوپس کررہے تھے۔یہ دونوں اعلیٰ شخصیات ہمیشہ پاک فوج کی خدمات کابرملا اعتراف کرتیاراور دیگرممالک کی افواج کے سامنے بھی پاک فوج کے دستے کو ’’مثالی‘‘قرار دیتے تھے۔واقعات کاایک طویل سلسلہ ہے جنہیں ایک نشست میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔آج کل’’جزوی‘‘فرصت کے ایام میں سابق یوگوسلاویہ کے عروج و زوال اورپاک افواج کے ساتھ بسر کئے گئے شب ورو ز پر مبنی یادداشتیں مرتب کررہاہوں۔یہاں قیام کے دوران سرکاری تعطیلات کی بدولت مشرقی یورپ کے دیگر ممالک کے علاوہ جرمنی،بیلجیم،ہالینڈ اور برطانیہ کی سیر کے مواقع بھی میسر آئے۔سابق یوگوسلاویہ سے واپسی کے لیے ہمیں کروشیاء کے صدرمقام زغرب سے روانہ ہونا تھا۔یہ شہر ایک زمانے میں یوگوسلاویہ کاحصہ تھا۔یہ بات مشاہدے میں آئی کہ طاقت ور ممالک ہمیشہ اپنے مخالف ملکوں میں نسلی قومیت،مقامی اشتراکیت ،مغربی جمہوریت ،فقہی مملوکیت اورعسکری آمریت کے بل بوتے پر عوام کو بیوقوف بناتے ہیں۔سب سے پہلے سیاسی قیادت میں باہمی سرپھٹول کوفروغ دیاجاتاہے۔اس کے بعد فوج کوکمزور کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ابلاغ کے ذرائع بھی سیاسی قیادت بشمول حکمرانوں کے آلہ کار بن کر بیرونی بیانیہ کو مضبوط بنیاد فراہم کرتے ہیں۔اس صورتحال میںبڑے سے بڑا ملک بھی لڑکھڑا جاتاہے۔

سابق یوگوسلاویہ امن مشن کے ساتھ خدمات انجام دینے کے بعد واپس آئی ایس پی آرڈائریکٹوریٹ روالپنڈی میں تعیناتی کر دی گئی۔جنرل جہانگیر کرامت کے بعد جنرل پرویز مشرف چیف آف آرمی سٹاف مقررکر دیئے گئے تھے۔لائن آف کنٹرول ،ورکنگ بائونڈری اور سیاچن کے علاقے میں کشیدہ صورتحال پر خاص نظر رہتی تھی۔جی ایچ کیو میں بریفنگ وغیرہ کا زورتھا۔ایک دومرتبہ وزیر اعظم میاں نوازشریف بھی تشریف لائے۔بعدازاںکارگل کامحاذ کھل گیا۔مجھے یاد ہے کہ ابھی ابتدائی اطلاعات آرہی تھیں ۔آئی ایس پی آرکے سربراہ بریگیڈیئر(بعدمیں میجر جنرل ریٹائرڈ)راشدقریشی نے مجھے حکم دیا کہ فوری طورپر آئی ایس

 پی آر کی ٹیم ایک افسر کی نگرانی میں سکردو بریگیڈ ہیڈ کوارٹرزمیںرپورٹ کرے ۔ٹیم تیار ہوگئی۔اب سینئر صحافیوں کی ایک ٹیم کے ساتھ اگلے مورچوں کا دورہ تھا۔ان میں بی بی سی ،وائس آف امریکہ،وائس آف جرمنی وغیرہ کے نمائندے بھی تھے۔ہم ہیلی کاپٹر کے ذریعے سکردو پہنچے۔اندھیرا پھیلتے ہی دریا کے ساتھ ساتھ ہماراقافلہ آگے روانہ ہوگیا۔آرمی جیپوںمیں سینئرصحافی سوارتھے۔سب سے آگے میری جیپ تھی۔شنید تھی کہ یہ راستہ بھارتی توپوں کی زد میں ہے لہذا لائٹس آن کرنے کی اجازت نہیں تھی۔جیپ کے آگے ایک جوان سفید قمیض پہنے تیز قدموں کے ساتھ چل رہاتھا تاکہ جیپ ڈرائیور کااندازہ درست رہے۔سفر کئی گھنٹوں پر محیط تھا۔دوتین مرتبہ چند منٹ کے لیے رکے تاکہ قافلے کی ترتیب بگڑنے نہ پائے۔نصف شب سے کچھ زیادہ وقت ہوگیا تھا کہ ایک پہاڑی کے دامن میںپڑائو کیا۔گرم چائے کادورچلا۔مقامی کمانڈرنے عسکری صورتحال پر روشنی ڈالی۔انہوںنے نقشے پر موجود نشانات کی مدد سے وضاحت کے ساتھ سوالات کے جواب بھی دیئے۔بعدمیںمعلوم ہوا کہ صبح تفصیلی بریفنگ ہوگی۔اس دوران بھارتی فوج کی آرٹلری گولہ باری کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔قریب ہی پاک فوج کی توپیں نصب تھیں۔انہوںنے بھی جوابی کارروائی شروع کردی۔ا ب محفوظ پنا ہ گاہ پہاڑ کے قرب و جوار میں موجود بڑے بڑے پتھر ہی تھے۔دن نکلا تو جنگی طیاروں کی گھن گرج سنائی دینے لگی۔سراٹھاتے تھے توبلند وبالا پہاڑوں کا وسیع سلسلہ تھا۔ صورتحال واضح نہیں تھی۔ادھر صحافیوں کے تذبذب کاسامنا بھی آسان نہیںتھا۔میرے اصرار پر بریفنگ کاوقت پہلے کر دیاگیا۔معلوم ہواکہ دوبھارتی لڑاکاطیارے گرادیئے گئے ہیں۔ایک پائلٹ مارا گیا جبکہ دوسراگرفتار کیاگیااور باقی باتیں جہازوں کے بچے کھچے کباڑ پرہوں گی۔کچھ دیر بعد ہم موقع پر موجودتھے۔بھارتی لڑاکاطیارے کی دُم تمام نشانات کے ساتھ جارحیت کے ثبوت کے طور پرنمایاںتھی۔اور بھی پرزے بکھر ے ہوئے تھے۔بھارتی سکارڈن لیڈرہلاک تھا جبکہ فلائٹ لیفٹیننٹ نے جہاز ہٹ ہوتے ہی پیرا شوٹ سے کودنے میںعافیت سمجھی اور اسے برسر پیکار مجاہدین نے گرفتار کر کے پاک فوج کے حوالے کردیاتھا۔گرائے گئے بھارتی لڑاکا طیارے کی دم کے ساتھ صحافیوں نے جی بھر کر فوٹوگرافی کی۔ٹی وی کے لیے موویز بھی بنائی گئیں ۔یوں یہ سب کچھ چند لمحوں کے بعد دنیا بھر میں نشر ہوگیا۔

اب جنگ کارگل ایک عالمی خبر بن گئی اوردنیا بھر کا میڈیا اس جانب متوجہ ہوگیا۔کشمیر ایک بار پھر خبروں میں تھا اور تجزیہ نگار جاری جنگ کا تعلق بھی 1947 ء کے تقسیم ہند فارمولے سے جوڑرہے تھے۔ہم نے ایک رات مزید اگلے مورچوں پر پاک فوج کی مہمان نواز ی کا لطف اٹھایا۔جنگ کارگل کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیاہے ۔چند ایک عسکری فیصلے ہیں اور کچھ سیاسی عوامل کی ترجیحات وتوضیحات وغیرہ ۔ جنگ کسی طور اپنے اختتام کو پہنچی تو تجزیے شروع ہوگئے۔وزیر اعظم نواز شریف سے منسوب یہ بیانیہ عام کیا جانے لگا کہ معرکہ کارگل ان کی اجازت کے بغیر شروع کیا گیاتھا۔اب دونوں جانب سے دلائل اور واقعات کے انبار لگنا شروع ہوگئے ۔یہ ’’را ج نیتی‘‘کے حوالے سے ایک تشویش ناک بات ہے۔اول تو یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وزیر اعظم کی مرضی کے بغیر اس قسم کی کارروائی عمل میں لائی جاسکتی تھی۔اس زمانے کی ہائی کمان میں یہ تاثر عام تھا کہ نواز شریف عسکری معاملات اورخاص طور سے بھارت سے نبردآزمائی کی تاریخ سے مکمل آشنائی کاتاثر نہیں دیتے تھے۔انہیں سطحی اور سرسری گفتگو زیادہ مرغوب ہے۔جنر ل پرویز مشرف کے علاوہ بھی متعدد سینئر افسر اس حقیقت کی گواہی دے رہے تھے کہ وزیر ا عظم کو متعدد بار ’’حساس‘‘امور سے آگاہ کیا گیا۔ماضی میں بھی ہم نے اہم واقعات کی بنیاد پر باہمی آویزش کو ’’پوائنٹ آف نوریٹرن‘‘تک پہنچتے دیکھا۔جنگ71ء اور سقوط مشرقی پاکستان کا تجربہ کرتے ہوئے ساراملبہ فوج پر ڈال دیاجاتاہے۔اس المیے کے سیاسی کردار پھولوں کے ہار ڈال کرعوام کے نعروں کا جواب دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔شیخ مجیب الرحمن ’’بنگلہ بدھو‘‘بن گئے اورذوالفقارعلی بھٹونے’’قائد عوام‘‘اور’’فخرایشیاء‘‘کے القاب اپنا لیے۔جواب دہی کے لیے فوج کو کٹہرے میں کھڑ اکر دیاگیا۔ایک عام فہم شخص بھی سمجھتاہے کہ شیخ مجیب الرحمن اور بھٹو نے ’’ادھر ہم ، اُدھر تم‘‘کے سیاسی بیانیہ کو فروغ دیااوراپنے اپنے سیاسی مقاصدحاصل کرلیئے اور ڈٹ کر حکومت کرتے رہے۔

کارگل کے واقعہ نے بھی تشویشناک رخ اختیا رکرلیااور وزیراعظم نے آرمی چیف کو ہٹانے کے لیے جوطریقہ اپنایا وہ ہرلحاظ سے ملکی سلامتی اور پاک افواج ایسے ادارے کے عزت ووقار کے منافی تھا۔میاں نواز شریف نے یہ حقیقت فراموش کردی کہ وہ چند برس پہلے جنرل جہانگیر کرامت کو بھی مدت ملازمت مکمل ہونے سے قبل محض روایتی گفتگو کرنے کی ’’پاداش ‘‘میں رخصت کر چکے ہیں۔جنرل پرویز مشرف بھی چوکس تھے۔انہیں سری لنکا کے سرکاری دورے پر روانہ

 ہوناتھا۔اس سے قبل وزیراعظم نے انہیںچیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدہ کی اضافی ذمہ داریاں سونپ دی تھیں۔جنرل پرویز مشرف کوفارغ کرکے اگراپنی مرضی کاایک اور آرمی چیف تعینات کرنا مقصود تھاتو اس کا ایک ’’شریفانہ‘‘طریقہ بھی موجودتھا۔میاںنواز شریف نے آرمی چیف کو سری لنکا سے واطن واپسی پر ’’دوران سفر‘‘برطرف کرنے کا فیصلہ کیا اوربچگانہ انداز میں احکامات صادر کردیئے۔نیاآرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الدین کو تعینات کیاگیا۔جنرل ضیاء الدین آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل تھے اور ان کا تعلق کورآف انجینئرزسے تھا۔ان کاشمار اعلیٰ پیشہ وارانہ صلاحیت کے حامل افسروں میں ہوتاتھا۔موصوف سابق آرمی چیف جنر ل مرزا اسلم بیگ کے پرنسپل سٹاف افسربھی رہ چکے تھے۔کمانڈ،سٹاف اوراہم انسٹرکشنل خدمات بھی انجام دیں۔ہرلحاظ سے اس عہدے کے لیے موزوں تھے۔تاہم انہیں غیر تقریبی اندازمیں جنرل کے رینک آویزاں کرنے سے پہلے ضرور غورکرنا چاہیے کہ اس عمل سے وطن عزیز بالخصوص آرمی کے افسروں اور جوانوں پرکیااثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔اوروہی ہوا جس کاخدشہ تھا۔چند گھنٹوں میں فوج پر ’’محوپرواز‘‘آرمی چیف کی ہی گرفت بدستور قائم تھی۔دوسری جانب وزیراعظم ہائوس میں براجمان ایک اور’’آرمی چیف‘‘اپنی  تعیناتی کو تسلیم کروانے کے لیے ادھر ادھر دیکھ رہاتھا۔

میں اپنے گھر پہنچاہی تھا کہ آئی ایس پی آرسے میجر(بعد میں بریگیڈیئر ریٹائرڈ)عتیق الرحمن کی کال آئی جس میں انہوں نے نئے آرمی چیف جنرل ضیاء الدین کی تعیناتی کے بارے میں پی ٹی وی پر ٹیلی کاسٹ ہونے والی خبر کے بارے میں بتایا۔میں نے بریگیڈیئر(بعد میں میجر جنرل)راشد قریشی کو اطلاع دی ۔ وہ حیران ہوگئے اور مجھے فوراًآفس پہنچنے کے لیے کہا۔ہم دفتر پہنچے تو جی ایچ کیو سے بھی کالز آرہی تھیں۔میجر جنرل راشد قریشی مجھے اپنے آفس میں بٹھا کر خود چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل(بعد میں جنرل ریٹائرڈ)محمد عزیز خان کے پاس چلے گئے۔چندمنٹ ہی گزرے تھے کہ وزیراعظم ہائوس سے اے ڈی سی نے بتایا کہ نئے آرمی چیف جنرل ضیاء الدین جی ایچ کیو آرہے ہیں۔آئی ایس پی ا ٓر کوریج دے۔میں نے اوکے کر کے فون بند کردیا۔اب ہمارے دوست لیفٹیننٹ کرنل عبد الخالق چشتی سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے میرے پاس آئے اورفرمانے لگے کہ سر !بات ہوگئی ہے جنرل ضیاء الدین کے ساتھ پی آر او کی ڈیوٹی میں کروں گا۔وہ مجھے خوب جانتے ہیں۔میں نے کہاتو پھر آپ آرمرڈ کورمیس میں چلے جائیں ٹیم کے ساتھ ، کیونکہ جنرل صاحب آرہے ہیں۔

اسی دوران ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل راشد قریشی نے مجھے’’ہائی کمان‘‘کے فیصلے سے آگاہ کیااور ضروری ابلاغی ہدایت کی۔ہائی کمان کے مطابق جنرل پرویز مشر ف ہی آرمی چیف ہیں اوران کا ہر قیمت پر دفاع کیاجائے گا۔بدقسمتی سے نواز شریف،جنرل پرویز مشرف اور جنر ل ضیاء الدین نے وطن عزیز کو شدید ترین بحران سے دوچار کردیا تھا۔اب سوچتاہوں توپہلے سے زیادہ پریشان ہوجاتا ہوں کہ اگر خدانخواستہ فوج کی مختلف فارمیشنز متضادا حکامات کی پیروی کرتے ہوئے آپس میں الجھ جاتی تو کیا خوف ناک صورتحال پیش آتی ۔

جنرل ضیاء الدین وزیر اعظم ہائوس سے سینئر افسروں کی تعیناتی کے احکامات جاری کررہے تھے ۔ان میں سے ایک تھری سٹار جنرل نے مجھے بعد میں بتایا کہ وہ خود حیرا ن تھے کہ آرمی چیف بیرون ملک دور ے پر ہیں،یہ نواز شریف اور جنرل ضیاء الدین کو کیاہوگیاہے؟سیاستدان تو خیر سیاستدا ن ہوتا ہے کم از کم جنرل ضیاء الدین کوتو باوقارفیصلہ کرنا چاہیے تھا۔انہیں ڈی جی آئی ایس آئی کی حیثیت سے نواز شریف کی فوج کے افسروں اور جوانوں میں مقبولیت کی سطح کا بخوبی علم ہوگا۔جنرل پرویز مشرف ہمیشہ اعلیٰ سپاہیانہ اقدار کے حامل رہے ہیں۔ ان کی شہرت ایک باوقار پیشہ وارانہ صلاحیت کے حامل افسر کی تھی۔انہیں اگر شک بھی ہوگیا تھا کہ وزیر اعظم انہیں آرمی چیف کے طور پر’’برداشت‘‘نہیں کر رہے ہیں تو ایک اچھے سپاہی کی مانند دستبردار ہو جاتے ۔بہر حال بڑے لوگ ہی بڑے فیصلے کرتے ہیں۔ہمارے ہاں ایک انکریمنٹ کے لیے اللہ کو حاضر ناظر جان کر جھوٹے حلف نامے داخل کیے جاتے ہیں۔میاںنواز شریف کے بارے میں کچھ بے کار ہوگا۔موصوف کی نظر میں جنرل محمدضیاء الحق کے بعدکوئی آرمی چیف ٹھہراہی نہیں۔اقتدارمیںہو یاحزب اختلاف میں۔ہر مرتبہ بقول شخصے دھواںچھوڑتے ہوئے بم کو لات مارتے ہیں۔یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس حرکت کی ملک کتنی بھاری قیمت اداکرتا ہے۔میں سوچتا ہوں کہ 12اکتوبر1999ء کو کسی ’’نیک روح‘‘چاہیے تھا کہ نواز شریف،پرویز مشرف اور ضیاء الدین کو اڈیالہ جیل کے ایک کمرے میں ون ڈش ،ون واش اور ون لوٹا کی سہولت دے کر ایک  ساتھ بند کردیتے تو کم از کم ربع صدی تک وطن عزیز میں سکون ہی سکون رہتا۔برسبیل تذکرہ‘ یہی فارمولہ 16دسمبر1971ء کوبھی آزمانا چاہیے تھا۔شیخ

 مجیب الرحمن 162نشستوں کے ساتھ پہلے مغربی پاکستان کی ایک جیل میں تھے۔ان کے ساتھ زیڈ اے بھٹو 81نشستیں لے کر شریک ہوجاتے ۔اور اب رہ گئے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل آغا محمد یحییٰ خان ۔انہیں بھی شیخ مجیب الرحمن اور بھٹو کے ساتھ ایک ہی کمرے میں نظر بند کرنا چاہیے تھا۔اس زمانے کی کمان جنرل گل حسن کی قیادت میںبھٹوصاحب پرفریفتہ تھی۔حالانکہ سب جانتے تھے کہ مشرقی پاکستان کی ابتری میں بھٹو اہم ترین کردار ہے کیونکہ مجیب الرحمن تمام تر فسادی سوچ اور بے رحمانہ قتل و غارت کروانے کے باوجود سیاسی لحاظ سے لاجواب بیانیہ کا مالک تھا۔یہ بیانیہ متحدہ پاکستان قومی اسمبلی میں 160سے زائد نشستیں تھیں اور صدر پاکستان نے اسے وزیر اعظم بھی نامز د کر دیاتھا۔

خیر!بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔آج جب مڑ کر دیکھتاہو ں تو سیاست کے میدان اور حکمرانی کے ایوانوں میں پورے قد کے رہنما بہت کم اور ’’بونے‘‘زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ان حالات کے  باوجود مملکت خدادا د پراللہ کریم کا رحم، کرم اور فضل ہے ۔

جنرل پرویز مشرف کے برسراقتدار آتے ہی آئی ایس پی آر کے شب و روز بھی مصروف ہوگئے۔ہمیں جنرل محمد ضیاء الحق کے دورِ حکومت کا تجربہ تھا لیکن اس مرتبہ مصروفیات کا مرکز پہلے سے مختلف تھا۔ جنرل مشرف اکثر میٹنگز میں بھرپور تیاری کے ساتھ خود شریک ہوتے تھے۔ موصوف ذاتی طور پر ایک روشن خیال،دور اندیش اور معاملہ فہم شخصیت کے حامل تھے۔جنرل پرویز مشرف بھی جنرل ضیاء الحق کی مانند’’دہلوی‘‘تھے۔دہلی میں پیدا ہوئے تھے ،ان کے والدین قیام پاکستا ن کے بعد کراچی تشریف لائے۔انہوںنے ابتدائی تعلیم کراچی میں ہی حاصل کی۔جنرل ضیاء الحق کے والد دہلی میں سرکاری ملازم تھے لہذا انہوںنے زیادہ تر تعلیم دہلی میں ہی حاصل کی۔خاص طور سے سینٹ جوزف کالج کے اساتذہ کرام کواکثر یاد کرتے تھے۔مارشل لاء حکمران کے حوالے سے دیکھاجائے تو ازراہ تفنن بقایا دوعسکری حکمران فیلڈ مارشل محمد ایوب خان اور جنرل آغا محمد یحییٰ خان بھی ’’دہلوی‘‘ تھے۔ایوب خان علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طالب علم رہے اور جنرل یحییٰ خان انڈین ملٹری اکیڈمی ڈیردون(بھارت)سے فارغ التحصیل تھے۔

بہر حال آمدم برسرمطلب۔جنرل پرویز مشرف کے حکم پر مانیٹرنگ سیل قائم کیا گیا جس کا مرکز ہمارادفتر ہی تھا۔دیگر دفاتر میں بھی عوامی شکایات موصول ہوتی تھیںجنہیں چھانٹی کے بعد متعلقہ دفاتر میں ارسال کر دیاجاتاتھا۔آئی ایس پی آرمیں مانیٹرنگ سیل کی ہفتہ وار بریفنگ میں اکثرمیجر جنرل شاہد عزیز بھی تشریف لاتے تھے۔ اس وقت ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کی ذمہ دار ی بھی ادا کرر ہے تھے۔ موصوف کی گفتگو میں اکھڑ پن نمایاں تھا۔میں نے میجر جنرل راشد قریشی سے درخواست کی کہ ایسے شخص کو میڈیا کے سامنے پیش نہ کیاجائے جوالجھائو کو سلجھائو پر ترجیح دیتاہو۔معلوم ہوا کہ موصوف کسی حوالے سے جنرل مشرف کے رشتہ دار بھی ہیں۔یہ سن کر ہم نے اپنی سابقہ رائے پر نظرثانی کا ارادہ کرلیا۔میجر جنرل شاہد عزیز بعد میں چیف آف جنرل سٹاف اور لاہور کے کور کمانڈر بھی رہے ۔فوج سے ریٹائر ہوئے تو نیب کے چیئرمین بھی تعینات کیے گئے ۔ جنرل پرویز مشرف کے آخری ادوار میں ہتھے سے اکھڑ گئے اور ’’حق گوئی وبے باکی‘‘پر اتر آئے۔جنرل مشرف کے اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد مزید راز ہائے درون ِ خانہ بے نقاب کرنے لگے تو مجھے انداز ہ ہوا کہ میری اولین رائے درست تھی۔آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل راشد قریشی جنرل مشرف کے پریس سیکرٹری کے فرائض بھی ادا کررہے تھے۔لیفٹیننٹ حسن عماد مہدی پی آر او تھے ،وہ اسلام آباد کے آفس میں ہی فرائض ادا کرتے تھے۔البتہ میجر جنرل راشد قریشی دونوں د فاتر کی نگرانی کررہے تھے ۔ میں لیفٹیننٹ کرنل سے ترقی حاصل کر کے کرنل کے رینک پرتعینات ہواتو دوبارہ کراچی کا غلغلہ مچ گیا۔جنرل مشرف نے ایم کیوایم کو بغلی تنظیم کے طور پر دوبار ہ استو ار کرنے کی سعی کی۔ان کے سرکردہ بھگوڑے جب کراچی واپس آئے توا نہوںنے سابقہ آپریشنز میں شریک پولیس افسروں اہلکاروں اورمقامی ’’سہولت کاروں‘‘سے دل کھول کر بدلے لیے۔یہ انتہائی افسوسناک صورتحال تھی۔الطاف حسین کی مخالف متعدد شخصیات لاہورراولپنڈی آگئے۔اس طرح عام شہریوںمیں بھی عدم تحفظ کا احساس بڑھنے لگا۔تشدد ور یکطرفہ کارروائیوں کی رپورٹس کے باوجود جنرل مشرف کے ہمراہیوں پر کوئی اثر نہ ہوا۔انہیں کراچی کو ’’پر امن شہر‘‘بنانے کے لیے ایم کیو ایم(الطاف گروپ)پر ہی بھروسہ کرنا تھا۔

جولائی2001ء میں مجھے بریگیڈیئر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔آغا زمیں امید کم تھی کیونکہ اعلیٰ ترین سطح پر یہ طے ہو گیا تھاکہ آئی ایس پی آر کے ’’بنیادی‘‘افسروں کو لیفٹیننٹ کرنل یا کرنل تک ترقی دی جائے کیونکہ یہ پرفارمنس کے لحاظ سے افسر کم اور صحافی زیادہ ہوتے ہیں۔آئی ایس پی آر کی کارکردگی کو موثر بنانے کے لیے لازم ہے کہ ایسے افسروں کو سینئر رینک میں تعینات کیا جائے جنہوں نے ابتدائی ملازمت آئی ایس پی آر میں نہیں کی ، یوں وہ فوج کے رجحانات کی بہتر عکاسی کر سکتے ہیں۔میں سمجھتاہوں کہ یہ اللہ کریم کی خاص مہربانی تھی کہ والدین کی دعائیں ،اساتذہ کرام کے احسانات، اہل خانہ کی نیک خواہشات ، دوست احباب کی حوصلہ افزائی اور سب سے بڑھ کر میرے تمام سینئرز کی شفقت تھی کہ انہوں نے فرائض کی انجام دہی میں میرے تساہل اور خامیوں کو نظر انداز کیا او رتمام جونیئرز جو مجھے کامیاب کرنے کے لیے دیانتداری سے فرائض ادا کرتے رہے۔

اہم بات یہ ہے کہ جس روز میجر جنرل راشد قریشی اور میرے کولیگ کرنل منصور رشید نے بریگیڈیئر کے رینک کندھے پر لگائے اگلے رو ز راولپنڈی اسلام آباد شدید طوفان ِ بادو باراں کی لپیٹ میں تھا۔شدید بارش سے نالہ لئی میں طغیانی آگئی ،مجھے چکلالہ سکیم تھری میں عسکری فائیو کے ایک گھر میں رہنا تھا۔ یہ گھر بھی سیلاب کی زد میں آگیا۔ گرائونڈ منزل  میں پانی بھر گیا ۔ میری اہلیہ اور والد گرامی گھر میںتھے۔پوری کالونی میں آرمی کے ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسرقیام پذیر تھے ۔ میں نے دفتر سے گھر تک پہنچنے کی پوری کوشش کی لیکن سیلابی پانی کے سامنے ایک نہیں چلی ۔ ریسکیو ٹیموںاور کچھ اپنی مد د آپ کے تحت کالونی کے مکینوں کو بمشکل باہر نکالا گیا ۔ ہم کرنل منصور رشید کے گھر آرڈی ننس روڈ شفٹ ہوگئے۔پانی اترنے کے بعد گھر گئے تو صرف بالائی منزل کا سامان محفوظ تھا ۔ باقی سب نالہ لئی کی نذر ہو چکا تھا۔

دفتر اور گھر میں مبارک سلامت کا سلسلہ جاری تھا۔اکثر ناگہانی سیلاب کے باعث بے پناہ نقصان سے بھی آگاہ تھا۔لہذا اکثر یہ جملہ دہراتے  ہوئے ملاقات کرتے تھے کہ :’’بہت بہت مبارک ہو۔ بہت افسوس ہوا‘‘۔اورمیں بہت بہت شکریہ کہہ کر خاموش ہوجاتاتھا۔

ڈائریکٹرآئی ایس پی آر کی حیثیت سے معمول کے مطابق فرائض تھے۔میں اس دفتر میں لیفٹیننٹ کی حیثیت سے 1973ء میں آیا تھا۔ تب سربراہ بریگیڈیئر رینک کے افسر تھے۔ اٹھائیس برس کے بعد اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا ۔ چند ماہ بعد نائن الیون کا ’’معرکہ‘‘شروع ہو گیا۔لندن میں ایک ہفتے کے دورانیہ کے کورس کے لیے نامز د ہوگیا۔’’گورنمنٹ سپوکس پرسن‘‘حکومتی ترجمان کی اہلیت بڑھانا مقصود تھی۔وفاقی محکمہ اطلاعات کی جانب سے جناب اشفاق گوندل تھے۔ہم دونوں ایک ہفتے برطانوی وزارت دفاع کے مہمان رہے۔ اس دوران ہمیں 10ڈائوننگ سٹریٹ بھی لے جایا گیاجہاں وزیر اعظم برطانیہ (ٹونی بلیئر)کے ڈائریکٹر کمیونی کیشن نے اپنے سیٹ اپ سے آگاہ کیا۔ہم دونوں کے علاوہ دس اور ممالک کے سول اور عسکری ابلاغی محکموں کے سرکاری افسر بھی کورس میں شریک تھے۔

31جولائی2003ء کو بخوشی ریٹائرمنٹ آرڈر وصول کیے ۔ دراصل ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل راشد قریشی کو اچانک تبدیل کر دیاگیا۔ان کی بریگیڈیئر شوکت سلطان کو میجر جنرل کے رینک پر ترقی دے کر ڈی جی آئی ایس پی آرتعینات کر دیاگیا۔نئے ڈی جی میرے کورس میٹ ہیں۔ ہم نے ایک ساتھ پی ایم اے کاکول میں ٹریننگ حاصل کی ۔عسکری روایات کے مطابق کورس میٹ یا جونیئر کی کمان میں فرائض منصبی اداکرنے کی مخصوص خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں۔میری نظر خامیوں پر زیادہ تھی کیونکہ آئی ایس پی آر میں منفرد طریقہ کار سے خدمات انجام دی جاتی ہیں۔یوںمیں نے میجر جنرل شوکت سلطان کو سلیوٹ کیا اور اجازت طلب کی۔ انہوں نے متعدد بار نظرثانی کے لیے کہا تاہم میرے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔یوں19اگست1972ء کو پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں پاس آئوٹ ہونے کے بعد 31جولائی2003ء کو آئی ایس پی آر سے بطور بریگیڈیئرریٹائر ہوگیا۔یوں میری زندگی کی کہانی کا ایک اہم ترین باب اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔

ریٹائرمنٹ میں ابھی ایک ہفتہ باقی تھا کہ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز (نمل)اسلام آباد کے ریکٹر بریگیڈیئر عزیز احمد خان نے اپنے دفتر طلب کیا اور یونیورسٹی میں ماس کمیونی کیشن ڈیپارٹمنٹ قائم کرنے کی ذمہ داری سونپ دی۔بریگیڈیئر عزیز احمد خان پی ایم اے کاکول میں میرے انسٹرکٹر بھی رہے تھے۔ریٹائرمنٹ کے بعد متعدد اہم اداروں کی جانب سے ملازمت کی پیشکش ہوئی تھی۔میر ی عمر 51برس تھی ، یوں مزید نو برس سرکاری ملازمت بھی ہوسکتی تھی

تاہم میرے والد گرامی نے یونیورسٹی کی ڈیوٹی کو ترجیح دینے کی ہدایت کی ۔ 31جولائی2003ء کو فوج سے ریٹائرہوااور پانچ اگست2003ء کو یونیورسٹی میںبانی ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ تھا۔ 1970ء کا پنجاب یونیورسٹی کاشعبہ صحافت کادور واپس آگیا لیکن اب فرائض کی ترتیب بدل چکی تھی ۔ طالب علم کے بجائے فیکلٹی کا’’طالب علم‘‘رکن بن گیا ۔یونیورسٹی کی ملازمت 2011ء تک جاری رہی کہ اچانک ایک روز ایک نجی ٹی وی چینل (سچ نیوز چینل) کے سربراہ کی کال آئی ۔ انتہائی

 شائستہ لہجے میں اپنائیت سے گفتگو فرما رہے تھے ۔ کہنے لگے کہ ہمیں پہلے بتایاگیا تھا کہ آپ کا انتقال ہو گیا ہے ۔ اب ایک برس بعد پتہ چلا کہ آپ زندہ ہیں۔ دراصل وہ مجھے بریگیڈیئر صولت عباس سمجھتے رہے جو میرے سینئر تھے اور فریضہ حج ادا کرتے ہوئے انتقال کر گئے تھے۔بہر حال ٹیلی فون کے بعد آمنا سامنا ہوا اور میں یونیورسٹی کی ملازمت کو خیرباد کہہ کر نجی ٹی وی میں چیف آپریٹنگ افسر کی خدمات انجام دینے لگا۔ تقریبا ًایک برس ہونے کو آیا کہ میں نے اب تمام تر توجہ ’’ریٹائرڈ‘‘لائف کو محفوظ رکھنے پر مرکوز کی ہوئی ہے۔ یونیورسٹی اورٹی وی میں لاتعداد واقعات اور مشاہدات پیش آئے جنہیں کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔

میں آخر میں سینئر صحافی جناب مجیب الرحمن شامی، سینئر ایڈیٹر قومی ڈائجسٹ جنا ب خالد ہمایوں اور نوجوان صحافی عبد الستار اعوان کا تہہ دل سے ممنون ہوں کہ ان حضرات کی بے حد محبت کے طفیل مجھے زندگی کے ان اہم شب و روز کو محفوظ کرنے کاموقع ملا۔اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائیں۔ آمین۔

                  ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

                                                                                          

Exit mobile version