دو ہزار اکیس کا سال بھی کرونا کی نظر ہوتا چلا گیا ۔۔چھوٹی موٹی آوارہ گردی چلتی رہی لیکن وہ جو کہتے ہیں ناں آوارگی میں حد سے گزر جانا چاہیے ۔۔وہ کیفیت ابھی تک حاصل نہیں ہو پائی تھی ۔۔ایک ہفتہ کے لیے سکول بند تو دوسرے ہفتہ کو امتحانات اور سب بچوں کے امتحانات کی تاریخیں بھی میاں بیوی کی طرح ایک دوسرے سے الگ تھیں ۔۔۔وقت گزر رہا تھا نکل نہیں رہا تھا اور مسلسل گزرتا جارہا تھا ۔۔۔ستمبر آخری مہینہ ہوتا ہے جب آپ آوارگی کی تسکین حاصل کرسکتے ہیں ۔۔۔اس کے بعد تو بس آوارگی کی یادوں پر ہی گزارہ کیا جاتا ہے ۔۔۔
بچوں خصوصاً عائشہ اور عبداللہ سے رواں سال دودی پت سر جھیل کا وعدہ تھا۔۔۔میری آوارگی عموماً بچوں کے ہمراہ ہوتی ہے ۔۔بچوں کی پریشانی دیکھ کر ماہ ستمبر کے درمیانی عشرہ میں اچانک خانہ بدوشی کا فیصلہ ہوا اور قرعہ فال اب کی بار نکلا بیسر کے نام ۔۔ اور منزل مقصود تھی جھیلوں کی ملکہ دودی پت سر ۔۔۔۔
بابو سر پاس کے ذریعے گلگت بلتستان کا سفر کرنیوالے احباب نے بیسر کا نام یقیناً سن رکھا ہوگا ۔۔۔آج سے پانچ سال پہلے یہ ایک گمنام سا گاؤں تھا جو کہ ناران سے چالیس کلو میٹر دور 10,800فٹ کی بلندی پر آج بھی واقع ہے۔۔۔لیکن آج کے بیسر اور گزرے اور کل کے بیسر میں بہت فرق ہے ۔۔ماضی کا بیسر سڑک سے نیچے دریائے کنہار کے پار بیس پچیس کچے مکانات پر مشتمل ایک گاؤں کا نام تھا جہاں گرمیوں کے تین مہینے اس گاؤں کے باسی اپنے مال مویشی سمیت وارد ہوتے ۔۔سڑک پر بیسر کی جگہ بیسل کا بورڈ کافی پرانا لگا ہے لیکن یہاں سڑک کنارے پڑے لکڑی کے بکسوں پر بھنبھناتی شہد کی مکھیوں ،اور ان مکھیوں کی رکھوالی پر مامور جھریوں بھرا چہرہ لیے ایک بابے کے سوا کچھ بھی موجود نہ ہوتا تھا۔۔۔لیکن آج کے بیسر میں مون ریسٹورنٹ جیسا خودساختہ معروف ہوٹل اور ضروریات زندگی کی عام سہولتیں لیے دس بارہ کھوکھے موجود ہیں ۔۔۔لیکن بیسر کی وجہ شہرت ہے جھیلوں کی ملکہ دودی پت سر جھیل ۔۔۔۔
جی ہاں بیسر ہی دودی پت سر جھیل کا بیس کیمپ ہے ۔۔دودی پت سر کی ٹریکنگ پر جانے والے حضرات کے لیے بیسر ایک روحانی درگاہ کا درجہ رکھتا ہے اور جھیلوں کی ملکہ کے دیدار کو جاتے وقت اس درگاہ کی حاضری بہت ضروری ہے ورنہ ملکہ جھیل دودی پت سر قطعا دیدار کی اجازت نہیں دیتی اور عموماً عشاق کو آدھے راستے سے ہی واپس کردیا جاتا ہے ۔۔۔۔
موٹر وے نے سفر بہت آسان بنا دیا ہے ۔۔حویلیاں سے مانسہرہ تک جو صبر آزما سفر گزشتہ برسوں میں ہوا کرتا تھا وہ اب نہیں ہے ۔۔اور نہ ہی مانسہرہ کی بدتمیز ٹریفک پولیس سے پالا پڑتا ہے ۔۔۔جو پانچ پانچ سو کے چکر میں سیاحوں کا وقت اور جہنم کے ٹکٹ ہمہ وقت خرید رہے ہوتے تھے ۔۔۔آج کل سنا ہے بیکار ہیں اور مقامی افراد کے ہاتھوں ذلیل ہو رہے ہیں ۔۔
مانسہرہ انٹر چینج سے نکل کر تقریبا بیس کلو میٹر بعد ایک بورڈ پر دائیں جانب بالاکوٹ کی جانب تیر کا نشان لگا ہے ۔۔۔ممکن ہے مستقبل کے منصوبہ سازوں کا یہ متوقع راستہ ہو لیکن حقیقت سے آنکھیں چرانا کسی طور ممکن نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر معاملہ میں منصوبہ سازی کا نہایت فقدان ہے ۔۔اور اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس نشان کی جانب سفر کرنا ذلیل ہونے کے مترادف ہے ۔۔۔اس لیے خواری سے بچنے کے لیے بالاکوٹ کی جانب اشارہ کرتے تیر سے صرفِ نظر کرتے آگے نکل جائیں اور دو کلومیٹر بعد ایک اور سائن بورڈ پر شاتے لکھا نظر آئے گا وہاں سے دائیں جانب شاتے کو مڑ جائیں جب تک منصوبہ ساز خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوتے ۔۔۔پانچ سے چھ کلو میٹر سفر کے بعد شاتے والا یہ راستہ بالا کوٹ کی جانب اترتی سڑک پر جا نکلتا ہے اور پرانا راستہ کہیں دور نگاہوں سے اوجھل پہاڑوں میں گم ہوجاتا ہے ۔۔۔۔
بالا کوٹ کے بعد وہی پرانا سفر کیوائی ،پارس،مہانڈری ،کاغان اور دیگر قصبوں سے ہوتے ہوئے ایک بار پھر ناران ۔۔۔۔۔لیکن ناران سے محبت قصہ پارینہ بن چکی ۔۔۔ناران میں ایک پٹرول پمپ سے ڈیزل ڈلوایا اور فوراً ناران سے رخت سفر باندھا ۔۔۔کیونکہ ناران میں اب آوارہ گردی کو کچھ نہیں بچا ۔۔۔ناران اب حقیقی عشاق کا مسکن نہیں بلکہ فیس بکی سیاحوں کی آما جگاہ ہے ۔۔۔جو غل غپاڑے کو سیاحت کے نام پر کرکے دل کی تسکین حاصل کرتے ہیں ۔۔۔پختہ تعمیرات نے جہاں ناران کا حسن برباد کیا ہے وہاں مجھ جیسے آوارہ گرد کے دل سے ناران کی محبت کو بھی کھرچ ڈالا ہے ۔۔۔یہ پہلا موقع تھا جب میں نے اپنی پہلی محبت سیف الملوک کو جاتے راستے پر ایک نگاہ غلط تک نہ ڈالی ۔۔۔یقینا محبوب نے اس بے رخی کو محسوس کیا ہوگا ۔۔۔لیکن ہماری محبت سماج کے ظالمانہ رویہ کی نظر ہوچکی تھی ۔۔۔ہزاروں قیدو ہماری محبت کے قتل عام کو سیف الملوک کے گرد ننگی تلواریں لیے گھوم رہے تھے ۔۔۔کچھ کو میں نے جدید ہندوستانی گانوں پر ناچتے چشم تصور سے دیکھا اور کچھ جابجا قدرتی پانی کی پلاسٹک کی بوتلوں اور دیگر غلاظتوں سے میرے محبوب سیف الملوک کو پراگندہ کررہے تھے ۔۔۔۔ایک جھرجھری لیکر میں ناران پل پر سے گزر گیا ۔۔۔۔
بچے بے چین تھے کہ شاہد ہمارا قیام بٹہ کنڈی میں ہوگا لیکن بٹہ کنڈی بھی ہماری کاروباری ذہنیت کا شکار ہوچکا ہے ۔۔۔جابچا بے تکی تعمیرات نے بٹہ کنڈی کے حسن کو گہنا دیا ہے ۔۔۔ایسا لوگ کہتے ہیں ۔۔۔۔۔مجھے بٹہ کنڈی نہ کبھی حسین نظر آیا نہ ہی کبھی اس کے حسن نے دل کی دھڑکنیں تیز کیں ۔۔۔۔بٹہ کنڈی سے نکلتے ساتھ گاڑی میں ایک طوفان بدتمیزی برپا ہوگیا کہ اس کے بعد کہاں رکیں گے ۔۔۔زندگی کا حاصل موبائل نیٹ ورک ختم ہوچکا ہے ۔۔۔فیس بک واٹس ایپ سب بند ہے ۔۔۔ایسی آوارہ گردی کا کیا فائدہ کہ بندہ واٹس ایپ پر اسٹیٹس بھی نہ لگا سکے ۔۔۔۔میں مٹی کا مادھو بنا چپ چاپ سن رہا تھا ۔۔۔میری آنکھوں کے سامنے ملکہ حسن دودی پت سر کی خوابناک مخمور آنکھیں تھیں اور میں ان کی مدہوشی میں گم چلا جارہا تھا ۔۔۔۔بڑوائی کے آثار دکھتے ساتھ ہی بچوں ،والدہ اور اہلیہ کی پر امید نظریں میری جانب اٹھیں لیکن جب میں بڑوائی بھی بغیر رکے عبور کرگیا تو گاڑی میں کوئی ہنگامہ نہ ہوا ۔۔۔بلکہ سب کو سانپ سونگھ گیا تھا ۔۔۔عائشہ کے بقول جو آج بابا ہمارے ساتھ کر رہے ہیں وہ تو کالے کافر بھی مسلمانوں کے ساتھ نہیں کرتے ۔۔۔کیونکہ بڑوائی میں جابجا دوکانیں اور ہوٹل بن چکے ہیں تو سب کا خیال تھا کہ شاہد ہم یہاں رکیں گے ۔۔۔۔لیکن سب کے اندازوں کو ملکہ حسن دودی پت سر نے غلط ثابت کردیا ۔۔۔۔
گاڑی میں موجود تمام نفوس کی امید کی آخری کرن تھی ناران سے 40 کلو میٹر دور جلکھڈ کا قصبہ ۔۔۔عصر کے قریب ہم جلکھڈ پہنچے ۔۔جلکھڈ آج بھی پرانی قدروں کو قدرے سنبھالتا نظر آتا ہے ۔۔۔گئے وقتوں کی یادیں جلکھڈ کو دیکھ کر تازہ ہوتی ہیں ۔۔۔ماضی کی خوشبو کو محسوس کرتے ہوئے یہاں سے بھی گزر گیا اور ساتھ ہی اعلان کردیا کہ تین کلومیٹر بعد ہم بیسر میں قیام کریں گے بھلے رات گاڑی میں بسر کرنا پڑے اور راستے سے لی گئی ناشپاتیوں پر گزارہ کرنا پڑے ۔۔۔۔
جلکھڈ سے گزر کر ایک کلو میٹر چڑھائی کے بعد نیچے اترائی میں بیسر گاؤں ہے جہاں آج سڑک کنارے مون ریسٹورنٹ موجود ہے ۔۔۔لوہے کا ایک پل اور اس کے نیچے سے گزرتا پانی بیسر کا داخلی دروازہ ہے ۔۔۔وسیع وعریض مون ریسٹورنٹ کی پارکنگ میں شاہراہ بابو سر پر سفر کرنیوالے کچھ مسافروں کی گاڑیاں کھڑی تھیں ۔۔۔گاڑی پارکنگ میں کھڑی کی اور مون ریسٹورنٹ والوں کی جانب سے پیش کی گئی کڑاھی پر بمعہ اہل و عیال پل پڑا ۔۔۔اج پہلی بار مون ریسٹورنٹ مجھے آپنی فضول اور غیر اخلاقی تشہیر کے باوجود بھلا لگا ۔۔۔لیکن مون ریسٹورنٹ والوں کی بنائی قیام گاہوں میں قیام اب بھی میرے لیے ممکن نہ تھا ۔۔۔۔ایسا کرکے میں بھی ان کی تشہیری مہم کا حصہ بن جاتا جو میں بننا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔بھوک ایک ایسا طاقتور جذبہ ہے جو انسان سے کچھ بھی کروا سکتا ہے ۔۔اور اس شام بچوں کو لگی بھوک نے مجھ سے وہ کچھ کروا دیا جو میرے منصوبہ کا حصہ نہ تھا ۔۔۔میں نے مون ریسٹورنٹ پر کھانا کھایا ۔۔۔مجھے اس کا تاعمر افسوس رہے گا ۔۔۔۔اس کے بعد میں تین دن بچوں کے ہمراہ بیسر مقیم رہا لیکن مون ریسٹورنٹ سے پانی کا ایک گلاس تک نہیں پیا ۔۔۔میری مون ریسٹورنٹ سے کوئ ذاتی رنجش نہیں اختلاف ہے تو فقط اس تشہیری مہم سے ہے جس نے جابجا قدرت کے حسن اور خوبصورتی پر اپنے بدنما داغ چھوڑے ہیں ۔۔۔مون ریسٹورنٹ سے پہلے بیسر کی واحد پختہ قیام گاہ بالاکوٹ ہوٹل کے نام سے ہے ۔۔یہی میری آنے والے دنوں کی آماجگاہ تھی ۔۔۔بالاکوٹ ہوٹل سے میری تب کی جان پہچان ہے جب یہ لکڑی اور کھاس پھوس کا بنا دس فٹ لمبا اور چھ فٹ چوڑا چھپڑ ہوا کرتا تھا ۔۔۔۔
گرم پانی ،عمدہ کھانا اور وائی فائی جیسی موجودہ دور کی بنیادی ضرورت سے محروم بیسر میں آج بھی میرے لیے ایک عجیب کشش موجود تھی جس نے مجھے تین دن یہاں جکڑے رکھا ۔۔۔درختوں سے عاری سبز گھاس کا لبادہ اوڑھے بیسر ،جس کی سر سبز ڈھلوانوں پر جابجا بھیڑوں کے ریوڑ پیٹ پوجا کرتے نظر آتے ہیں۔۔۔ آج بھی آوارہ گردی کی تسکین کے لیے کافی ہے ۔۔۔قیام گاہ کے ساتھ ہی برفانی گلیشیر سے آتا دودھیا پانی اور اس کے کنارے سبز مخملیں گھاس پر بیٹھنا اور گھنٹوں بیٹھے رہنا ایک آوارہ گرد کے لیے کسی بھی پر آسائش فائیو سٹار ہوٹل میں قیام سے کروڑوں گنا افضل ہے ۔۔۔۔موبائل کی غیر موجودگی میں ان ایام میں فطرت سے بہت بار ہمکلامی ہوئی ۔۔۔
بچے خصوصاً عبداللہ اور عائشہ بہت خوش تھے ۔۔دریائے کنہار کی دوسری جانب پہاڑ پر جاتے ٹریک کی نشاندھی جب سے میں نے کی تھی کہ یہ ملکہ حسن دودی پت سر جھیل کا ٹریک ہے تب سے ان کی خوشی دیدنی تھی اور ان کا جوش و خروش ولولہ قابل دید تھا رات گئے تک وہ دودی پت سر جھیل اس کے ٹریک اور ساتھ لیجانے والے لوازمات کا آپس میں تذکرہ کرتے رہے ۔۔۔دودی پت سر جانے سے زیادہ خوشی عائشہ کو اس بات کی تھی کہ اس کی بڑی بہن فاطمہ ،ماں اور دادی نہیں جاسکیں گے اور وہ واپس آکر ان سب کو دودی پت سے کے قصے مزے سے سنائے گی۔۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔