کچھ دانشوروں کا کہنا ہے کہ ہمیں پہلی ملاقات میں کسی کی ذات سے متاثر ہونا چاہیے اور نہ ہی اس کی گفتگو سے قائل لیکن اپنا سلسلہ تو یہ ہے کہ بندہ اچھا لگے تو اس کی ذات سے مرعوب نہ ہوں لیکن اس سے متاثر اور قائل ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں، میری ان سے بات ہوئے کئی دن ہوگئے ہیں لیکن سرشاری کی کیفیت ابھی بھی طاری ہے۔ کچھ ہفتے کسی مہربان نے سوشل میڈیا پر سرائیکی زبان کے شاعر مخمور قلندری کا ایک مختصر کلام شیئر کیا۔ وہ پوری نہیں بلکہ ادھوری نظم تھی۔ جسے مکمل سننے کے لیے بے تاب ہوگیا۔
میں انسان ہوں اور اس ناطے اپنی ذات میں بے شمار کمزوریاں بھی ہیں لیکن ایک بڑی کمزوری جو شاید دیگر خامیوں پر بھاری ہے، وہ اچھا شعر یا کلام سننا بھی ہے۔ معمولی سے تلاش کے بعد یو ٹیوب پہ وہ سب کچھ مل گیا جسے پڑھنے اور سننے کی تمنا مچل رہی تھی۔ اس سے قبل میں سوشل میڈیا کو فضول، وقت کا ضیاع بلکہ ایک بڑا چور گنتا تھا جو غیر محسوس طریقے سے آپ کا بہت سارا وقت چوری کرلیتا ہے لیکن آج یہ کس قدر نعمت ثابت ہوا اور پھر اپنی رائے پر نظرثانی کرنا پڑی کہ کوئی بھی اچھی یا بری نہیں ہوتی اس کا استعمال اچھا یا برا ہوسکتا ہے۔ مخمور قلندری اللہ لمبی زندگی دے۔ سرائیکی زبان کا ایک بہترین شاعر ہے، جس نے اپنی شاعری میں محبت کے لطیف جذبوں، معاشرتی مسائل اور ظلم و جبر کے خلاف بغاوت کا علم بھی بلند کیا۔ کلام سننے کے بعد ایک تڑپ اور پیدا ہوئی کہ جس شخص کا اتنا اچھا کلام ہے، اس سے ہم کلام بھی ہونا چاہیے۔ یہاں بھی سوشل میڈیا کام آیا اور مطلوبہ نمبر بھی مل گیا۔ اب اپنی سانسیں بحال کیں، گلا صاف کیا اور جھجکتے جھجکتے فون کیا کہ شاعر لوگ تو حساس دل کے مالک ہوتے اور یہ جانے کس حال میں ہو گے۔ مختصر سلام دعا کے بعد سلسلہ کلام ویڈیو کال یہ جا پہنچا۔ جہاں دیکھا کڑاکے کی دھوپ میں مخمور قلندری اپنے کھیتوں میں کام اور فصلوں کو پانی دے رہا تھا۔ بات چیت کیا تھی، دکھوں، دردوں کا ایک لامتناعی سلسلہ تھا، مخمور قلندری نے بتایا کہ ڈیرہ غازی خان جہاں سے ان کا تعلق ہے کسی دور میں شدید دہشت گردی کی لپیٹ میں ر ہا۔ کبھی اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنے والوں نے ہمیں اجاڑا اور کبھی امن قائم کرنے والوں ہمیں مرثیے اور بین کرنے پر مجبور کیا۔ جب یہ دونوں تھک گئے تو رہی سہی کسر فرقہ پرستی نے نکال دی اور ان کے والد بھی اس کا شکار بنے اور جس ظالم نے میرے باپ کو شہید کیا وہ ان کا نہ صرف بہترین درست تھا بلکہ اپنے شعری مجموعے کا انتساب بھی انہوں نے اس کے نام کیا تھا۔ خبر نہیں تھی کہ اپنے اپنے فرقے کو درست ماننے والے انسانیت کے اتنے کم زینے آجائیں گے، یہ وہ دور تھا کہ جب دہشت گرد آپ کے نام سے آپ کے فرقے کا اندازہ لگاکر سرعام بھون دیتے تھے۔ مخمور قلندری جن کا اصل نام سید وسیم خان ہے، ان سے یہ پوچھنے کی جسارت نہ کرسکا، سید وسیم عباس کو مخمور قلندری میں چھپانے میں یہ قلمی نام استعمال ہوا یا پھر فرقہ بازوں کے اژدھاہوں سے خود کو محفوظ رکھنے کی یہ ایک ڈھال تھی۔ مخمور قلندری کا کہنا تھا کہ اگرچہ اب حالات کافی حد تک پرامن ہیں لیکن اب بھی کڑھنے کی سزا بھگت رہے ہیں، اتنے بڑے نقصان کے بعد اب بھی علاقے کا ہر شخص خود کو غیر محفوظ سمجھتا ہے۔
کل ماتم بے قیمت ہوگا، آج ان کی توقیر کرو
دیکھوں خون جگر سے کیا کیا لکھتے ہیں فسانے لوگ
سادہ اور درویش صفت مخمور قلندریے بار بار شکریہ ادا کررہا تھا کہ میں نے اتنی دور سے یاد کیا، بالآخر ہمیں ان سے اجازت لینا پڑی، انہوں نے ہمیں چھوٹی موٹی چند نظمیں بھی سنائیں۔ آخری نظم ڈھیٹ سرائیکی لہجے میں تھی کہ بابا سایئں فرماندے ہن ‘‘ جی یہ چاہا کہ بابا سائیں فرماتے رہیں ، ہم سنتے رہیں اور یہ سلسلہ کلام ٹوٹے نہ۔