Tarjuman-e-Mashriq

مین آف دی میچ

ہماری آخری امید،ہمارے آباؤ اجداد کے وہ لوگ جنہوں  نے  قربانیاں  دے کر ہمارے لئے یہ وطن حاصل کیا  اور بات یہیں نہیں رکتی بلکہ  نہایت کم وسائل  ہونے کے باوجود   وہ اس ملک کی تعمیر و ترقی میں بھی کوشاں رہے۔ پھر وقت کا  پہیہ گھوما اور ایک ایسی نسل وارد ہوئی جس نے نواز شریف، زرداری الطاف حسین اور فضل الرحمان  جیسے لوگوں کو ملک کی باگ ڈور تھما دی اور پھر لوٹ مار، بد عنوانی، نسلی امتیازات اور بنیادی ضروریات کیلئے لڑنا   موجودہ نسل کا مقدر ٹھہرا۔

پاکستان میں پروان چڑھنے والی اس تیسری پیڑھی  کیلئے اس ماحول میں  زمین تنگ سی ہونا شروع ہو گئی  چنانچہ ان میں سے ایک بڑی تعداد نے   اپنے  ملک کی  معیشت،  سیاست اور اپنی قومیت  سے بے نیاز ہوکر   دوسرے ممالک میں پناہ ڈھونڈنا  شروع کر دی۔ان میں پاکستان سے تعلق  کا احساس دم توڑ چکا تھا  ۔

پھر یوں ہوا کہ اس ملک میں ایک شخص اٹھا  جس نے  اس ملک کے مایوس اور شکست خوردہ نوجوانوں کو  اسی نسل سے تعلق کا احساس بیدار کیا۔اس نے کہا کہ اگر تم  وہیں رہو یا  اپنے ملک واپس آ جاؤ جیسے بھی ہو ہم نے اس ملک کو نئے سرے سے تعمیر کرنا ہے۔اس نے ایک بہتر کل کی امید اور خواب  دیکھا ۔

ہاں یہ بات بھی بعید القیاس نہیں کہ وہ اس ضمن میں غلطیاں بھی کرے گااور ناکامیاں بھی اس کا مقدر ٹھہریں گی اور اس پر آپ کو اس پر تنقید کا پورا پورا حق ہے لیکن ایک بات یاد رہے کہ اس نے دہائیوں سے  رائج اس  فرسودہ اور تعفن زدہ ماحول  کو للکارنے کی جرات کی  اور ملک  کی دوسری پیڑھی نے کبھی اسے موقع تو دور کی بات ،  بلکہ اس کا مذاق اڑایا۔ یوں اس کے پاس روایتی سیاستدان اور اسٹیبلشمنٹ  کی حمایت حاصل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ یہ قوم اپنی برادریوں، ذات پات کے نظام میں جکڑی ہوئی ہے  اور یہ کبھی اس سے باہر سوچنے کےقابل ہی نہیں رہی۔ اس نے اپنی قیادت میں  اسی قوم  و ملت سے اس ملک کیلئے بہتری لانے کا اعادہ کیا۔

 اس فرسودہ  اور کیچڑ میں لتھڑے ہوئے نظام میں بہتری کیلئے  کم سے کم وہ اپنی پوری کوشش تو کر رہا ہے  جہاں اس  کے ارد گرد خون آشام گدھوں کا ٹولہ اسے نوچ کھانے کی تاڑ میں بے چین منڈھلا  رہا ہے۔آئے روز  بد عنوان ٹولہ  اس کی کارکردگی، اہلیت اور اس کی نیت پر سوال اٹھا رہا ہے ۔ گالم گلوچ لوگوں میں مایوسی پھیلانا اس ٹولے کا وطیرہ بن چکا ہے۔ باوجود اس کے کہ اس کے پاس اب بھی کوئی زیادہ   انتخاب نہیں ہیں کیونکہ وہی   پرانے  اور روایتی موقع پرست لوگ   اس کے گرد  جمع ہیں۔  لیکن اس کے اس جذبے کو سلام کیونکہ اس کی  نیت  میں کوئی فتور نہیں ہے۔

میرے دوستو ذرا  اس بات کا گمان کرو کہ تم اس کی جگہ ہو اور تمہارے سر پر  اس قوم  کی قیادت کی تلوار لٹک رہی ہو  یا پھر  اس فرسودہ  اور اپاہج نظام کی بحالی کا طوق  تمہارے گلے  پڑ گیا ہو۔

اگر یہ پرانی نسل سمجھتی ہے کہ عمران خان کو کچھ کھونے یا ہارنے کا ڈر ہے  تو  یہ ان کی سوچ ہی کی طرح فرسودہ ہے۔اس نے ساری دنیا میں  سفر کئے اکابرین کی صحبت میں رہا ، شاہانہ زندگی گزاری اور اس کیلئے تختِ شاہی تو ایک معمولی سی  چیز ہے۔وہ  میری اور تمہاری اگلی نسلوں کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اسی سوچ میں وہ لڑکھڑائے گا بھی،لیکن  وہ اس قوم کی زندگی کی آخری رمق ہے۔

یہ کتنی قابلِ رحم بات ہے  کہ  ہماری دوسری نسل  اپنے آنے والی نسل کیلئے کتنا گھٹن زدہ ، فرسودہ  نظام  پیدا کر رہا ہے  اور مزید اسی بات پر مصر ہے کہ  آخری امید بھی دم توڑ جائے۔ لوگ   دعا کر رہے ہیں کہ ان کے بچے بہتر ماحول میں رہیں     اور ایک ایسا رہنما پیدا ہو جو ان کے بچوں کا بھلا سوچے۔ لیکن لوگ  عمران خان کی ناکامی کی خواہش اپنے دلوں میں دبائےبیٹھے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انہیں اپنے بچوں کا مستقبل مریم نواز اوربلاول زرداری کے زیرِ سایہ نظر آتا ہے۔ خدا ایسی قوم  کو سلامت رکھے۔ آخر میں عمران خان بھی   شکستہ پا   ہو کر بیٹھ جائے گا کہ اس کا اپنی قوم کیلئے دیکھا ہوا خواب، تعبیر نہ ہو سکا۔ یوں اس کے اس  قوم کی بہتری کیلئے   کئے گئے  کچھنامناسب    سمجھوتوں کو  پروان چڑھنے کا موقع مل جائے گا۔

کیا آپ اپنی اگلی نسل کیلئے  ایک بہتر پاکستان کے خواب  سے دست بردار ہو نا پسند کریں گے؟  اگر ہاں تو پھر تو ایک دوسرے پر خوب کیچڑ اچھالیے اور اس کے  ناکام ہونے کی  دعا کریں۔

اگر آپ گزشتہ چالیس سالوں میں   اس ملک کو  لوٹ  مار،  وسائل کےبے دریغ استعمال کر کہ  بنجربنانے والوں   کے انتخاب میں اتنے ہی محتاط  و تنقیدی ہوتے جتنا آپ عمران کیلئے ہیں تو  اب کسی   ورلڈ کپ کی کمنٹری یا یونیورسٹی میں لیکر دے رہا ہوتا۔

وہ غلطیاں بھی کرے گا اور لڑکھڑائے گا بھی۔  لیکن اگر وہ اس  فرسودہ نظام  میں دس فیصد بہتری لانے میں بھی کامیاب ہو جاتا ہے تو  میں اسے فضلو، الطاف حسین، نواز شریف اور زرداری کی  لوٹ مار سے  لائی ہوئی خوشحالی پر ترجیح دے کر دوبارہ  منتخب کرنگا۔  میں اپنے خواب کی دھن میں عمران  خان  کے ساتھ ہوں  کیونکہ  اس کے علاوہ  میرے پاس کوئی  چارہ نہیں ہے۔

Exit mobile version