Tarjuman-e-Mashriq

ماں

تحریر:  یاسمین ریاض چوہدری

تخلیق کائنات کا بظاہر مقصد نسل انسانی کے لئے زندگی اور آخرت یعنی حیات بعد از موت کے وسائل مہیاکرنا تھا۔ فرشتے اور جنات تو پہلے سے موجود تھے اور پوری یکسوئی سے عبادت الہٰی میں مصروف تھے۔ اللہ نے ایک ایسی مخلوق پیدا کرنے کا اردہ کیاجسے اشرف المخلوقات کا خطاب دیکردیگر مخلوق پر برتری اور عظمت عنائیت کی۔ انسان کو عقل وشعور، قوت اور فہم و فراست کے علاوہ علم و حکمت سے بہر اور کیا تاکہ وہ تسخیر کائنات کے عمل سے گزرکر اپنے خالق کی پہچان کر سکے۔
تسخیر کائنات کا عمل انسان کی اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے۔جب وہ اپنی پر کھ و پہچان کرنے میں کامیابی حاصل کرلے تو کائنات کے پوشیدہ وپیچیدہ راز خود بخود کھلنے شروع ہو جاتے ہیں۔ انسان اپنی ذات کے حوالے سے ہی علم کی معراج حاصل کرتا ہے اور کائنات کے چھپے اور پوشیدہ رازوں سے واقفیت حاصل کرتا ہے۔
فرمایا: میں نے چھ دنوں میں زمین وآسمان تخلیق کیے اور ساتویں دن تمہارا رب عرش پر مقیم ہوا۔ مفسرین نے اپنے اپنے علم کے مطابق تخلیق کائنات، عرش و کرسی اور تخلیق آدم کی شرعیں لکھیں تاکہ انسان قرآن کی برکت و فضیلت سے فائدہ اٹھا کر دنیا و آخر ت کی زندگی میں سرخرو ہو سکے۔
اللہ نے آدم ؑ و حوا ؑ کو مٹی سے پیدا کیا اور پھر انسانی تخلیق کا وسیلہ ماں کو بنایا۔ فرمایا اے لوگو میں نے تمہیں ایک مرد اور عورت کے وجود سے پیدا کیا اور پھر تمہاری نسل بڑھتی گئی۔ پھر فرمایا تمہیں کنبوں اور قبیلوں میں بانٹ دیا تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کر سکو۔ اللہ کے فرمان کے مطابق برتری کا معیار رنگ و نسل، کنبہ اور قبیلہ اور دولت و حکومت نہیں بلکہ تقویٰ و پرہیز گاری ہے۔ تمام انسان شکم مادر سے پیدا ہوئے ہیں اور اُن کی پیدائش کا سبب اورو سیلہ ایک ہی ہے۔
انسان ہی نہیں دیگر مخلوق بھی شعوری قوتوں سے مزین پیدا ہوتی ہے اور اپنی اپنی نسلی خوکے مطابق زندگی بسر کرتی ہے۔ انسان واحد مخلوق ہے جس کی شعوری قوتیں اُس کی عمر اور عقلی قوتوں سے ہم آہنگ ہوتی ہیں۔ اگر چہ انسانی پیدائش مر د کے نطفے کی محتاج ہے مگر اس پیدائش کے دیگر مراحل ماں کے پیٹ میں ہی مکمل ہوتے ہیں۔ قدیم یونانی، بابلی، سو میری اور مصری تہذیبوں کے علاوہ ہندی اور چینی تہذیبوں میں ما ں کے کردار کو درخت سے تشبیہ دی گئی ہے۔ بیچ چاہیے کتناہی طاقتور کیوں نہ ہو اس کی نشو وارتقا زر خیر مٹی، موسم اور ایک خاص ماحول کی محتاج ہوتی ہے۔ اللہ نے ماں کے پیٹ کو ان سارے لوازمات سے مزین کیا اور انہیں اُسی ترتیب پر رکھا ہے جیسے کائنات کی پہلی عورت اورنسل انسانی کی پہلی ماں حضرت حواؑ کو رکھا تھا۔عورت کی پیدائش سے لیکر بلوغت کے مراحل تک اُس کی نشو ونمأمیں مرد کے لیے کشش اور اولاد کی پیدائش و پرورش کے راز پنہاں کر دیے جن کے عمل و ارتقا میں عورت کے کردار، نفسیات اور معاشرتی ماحول سے منسلک طبعی اور طبی عمل کو بھی شامل رکھا۔
مسلم مفکر الکندی اور دیگر محقیقین نے عورت کے عنوان پر سینکڑوں کتابیں لکھیں۔ان مسلم علمأنے قدیم یونانی، بابلی اور ہندی علماء کے فرسودہ خیالات کو قرآنی علوم کی روشنی میں مسترد کیا اور عورت کے مقام و مرتبے سے انسان کو از سر نو واقفیت دلائی۔
عورت کا وجود ہی تخلیق انسانی کا باعث ہے۔ ہر ماں کا فرض ہے کہ وہ اپنی پہچان سے ہی اپنے وجود کی حفاظت کرے۔ عورت کے وجود کے چار حصے ظاہری اور چار ہی باطنی ہیں۔ ہر عورت اپنی ہم راز ہے۔ یہ راز اُس کے جسم کے ظاہری، باطنی کردار و عمل اور خدوخال سے منسلک ہیں۔ پہلا جسمانی ظاہر ی حصہ عورت کا سراپا، دوسرا جسمانی خدو خال، تیسرا شکل و صورت اور چوتھا کشش و حیاء ہے۔ اس طرح چار مخفی حصے خواہشات، بہاؤ یعنی خواہش کی تکمیل، صبر اور ٹھہراؤ ہیں۔ عورت ان آٹھ بنیادی اجزاء یا حصوں سے واقف نہ ہو تو وہ محض ایک مادہ ہے جو بچے تو پیدا کر تی ہے مگر خاندان، قبیلے اور معاشرے میں اُسکا کوئی مقام نہیں ہوتا۔ ایسی ماؤں کے بچے ڈاکٹر، انجینئر، عالم، سوداگر، سائنسدان یا سیاستدان ہی کیوں نہ ہوں وہ کبھی بھی معاشرے اور ریاست کے لئے فائدہ مند نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ اپنی پہچان سے واقف آنیوالی نسلوں کی صحیح اور درست رہنمائی کر سکتے ہیں۔
امام سیوطی کا فرمان ہے کہ مسلمانوں نے قرآن پاک سے ایک ہزار علوم اخذ کیے اور دنیا کا نظام ان ہی علوم کی روشنی میں چل رہا ہے۔ انسان کے عقیدے، تربیت، تعلیم، معاشرتی ماحول اور نفسیاتی عمل پر منحصر ہے کہ وہ ان علوم کی کس طرح حفاظت کرتا ہے اور اپنی عقلی اور شعوری قوت سے انہیں کس طرح روبہ عمل لاتا ہے۔ وہ چاہے تو ان علوم کو اپنی شیطانی،سفلی، استدراجی اور مادی خواہشات کے تابع تباہی و بربادی کے لئے استعمال کرے یا پھر قدرتی، الہی واصلاحی علم وعمل کی روشنی میں انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کر دے۔
محقیقین نے عورت کے وجود کو ایک ایسے ادارے سے تشبیہ دی ہے جس کی محافظ اور سربراہ خود عورت ہی ہے۔ اس کے وجود میں ایک نسل پنہاں ہے اور آگے چل کر وہ کئی نسلوں اور تہذیبوں کو جنم دیتی ہے۔ علامہ اقبال ؒ نے کہا”وجود زن سے ہے کائنات میں رنگ“۔ جوزی اور الکندی نے عورتوں کو سات درجوں میں تقسیم کیا اورہر درجے کے اوصاف اس کے پیشے، خاندانی عصبیت اور معاشرتی ماحول کے مطابق بیان کیے۔ محقیقین کے مطابق بچہ ماں کے پیٹ میں ہی ابتدائی تربیت حاصل کرتا ہے۔ ماں کی نفسیات، اخلاقیات اور عبادات کا اثر بچے کے شعور پر نقش ہو جاتا ہے جو موت تک اُس کے کردار و عمل پر اثر انداز رہتا ہے۔ بچہ جوان ہو کر کسی بھی پیشے سے منسلک ہو جائے اور جس بھی رتبے پر فائز ہو اُس کی رگوں میں ماں کا خون گردش کرتا ہے۔ ڈاکٹر آصف جاہ کی کتاب ”دی چائلڈ کرافٹ“ والدین کے لئے بہترین رہنما ہے۔ امریکہ میں والدہ اور بچوں کے نفسیاتی تجزیہ سے ثابت ہوا ہے کہ ہر بچہ ماں کی نفسیات اور اخلاقیات کے اسی فیصد اثر کا حامل ہوتا ہے۔ تعلیم و تربیت، معاشرتی ماحول کا دس فیصد اور باپ کے رویے، پیشے اور تربیت کا صرف پانچ فیصد اثر ہوتا ہے۔ باقی پانچ فیصد کا فیصلہ بچہ خود کرتا ہے جس پر بنیادی تعلیم و تربیت کا اثر ہوتا ہے۔
معلمین نے ہم خیال بیوی کو قدرت کا تحفہ قرار دیا ہے۔ مفسرین نے سات قسم کی عورتوں کو جہنمی قرار دیا ہے۔ جن میں بد کلام، خاوند کے حقوق پورے نہ کرنے والی، ننگے سر رہنے والی، بازاروں میں پھرنے والی، بے حیأ، مختصر لباس پہننے والی نیم برہنہ رہنے والی اور محفل کی رونق بننے والی عورتیں شامل ہیں۔ نہ صرف اسلام بلکہ عیسائیت، یہودیت اور ہندومت کی تعلیمات میں بھی ایسی عورتوں کا ذکر ہے جو معاشرتی بھگاڑ کا باعث بنتی ہیں۔ ویٹیکن میں کوئی عورت ننگے سر اور ٹخنوں تک لمبے لباس کے بغیر داخل نہیں ہوسکتی۔عیسائیت میں ننگے سرپھرنے والی عورت کا سر منڈوانے کا حکم ہے۔
آج مسلمان اور خاص کر پاکستانی عورت جس راستے پر چل نکلی ہے وہ ترقی کا نہیں بلکہ تنزلی کا راستہ ہے۔ ”تہذیبوں کے تصادم“ کا مصنف لکھتا ہے کہ جب تک بن باپ کے بچوں کی تعداد باپ والے بچوں سے زیادہ نہیں ہو جاتی دنیا میں ایک عقیدے اور ہم آہنگ معاشرے کا قیام ناممکن ہے۔ اُس کی سوچ کا ہدف اسلامی معاشرہ، اخلاقیات، آداب اور خاندانی نظام ہے۔ بد قسمتی سے ہم بڑی سرعت کیساتھ جان ڈیوی اور پی وٹنگٹن کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔ مائیں اپنے اسلامی کردارو عمل سے بیزار اور بچے بے راہ روی کا شکار ہیں۔ نور مقدم کیس ہو یا چھوٹے بچوں کیساتھ زیادتی اور درندگی۔ ایسے لوگوں کا تعلق اُن کی ماؤں کے کردار اور نفساتی عمل سے ہے۔
ہمارا معاشرہ، ملکی قوانین، حکمران طبقہ اور تعلیمی ادارے ہر لحاظ سے ناکام اور فرسودہ روایات کے زیر اثر تنزلی کا شکار ہیں۔ ضرورت ہے کہ مسلمان اور پاکستانی عورت اپنی ذات کو پہچانے۔ عورت سب سے پہلے اپنی اصلاح کرے اور پھر اولاد کے حقوق کی فکر کرے۔ موجودہ نسل نفسیاتی اُلھجنوں کا شکار ہے جس کی سب سے بڑی وجہ غیر ذمہ دار، بداخلاق اور اسلامی اقدار و روایات سے بیزار مائیں ہیں۔
تعلیمی اسناد اور ڈگریاں کردار سازی نہیں کر سکتیں۔ تعلیمی اداروں سے منسلک خواتین بچیوں کے لئے رول ماڈل ہوتی ہیں۔ بد قسمتی سے ان اداروں میں پڑھانے والی خواتین برینڈڈ لباس اور مغربی ثقافت کی دیوانی ہیں۔ معاشرہ ویسے ہی ابتری کا شکار ہے تو پھر محب وطن اور دیندار نئی نسل کی آبیاری کیسے ہوسکتی ہے۔ جب ماں، ٹیچر اور معاشر تی ماحول ملکر ایک بے دین ثقافت پروان چڑھانے کے مشن پر ہوں تو ریاست کے زوال پذیر ہونے میں دیر نہیں لگتی۔

Exit mobile version