عاقل خان ایک خوبصورت جوان، فن حرب کا ماہر اور انتہائی ذہین افعان تھا۔ عاقل خان کی علمی، عقلی اور انتظامی صلاحیتوں کے پیش نظر مغل بادشاہ اورنگزیب نے اُسے کابل کا گورنر تعینات کیا۔ اورنگزیب کی بیٹی زیب النسا ء کابل کے دورے پرگئی تو عاقل خان کی مردانہ وجاہت پر مر مٹی۔ عاقل خان کو پتہ چلا تو اُس نے گورنری سے استعفی ٰدے دیا۔
ایک روز عاقل خان گھوڑے پر سوار قلعہ بالا حصار کے نیچے سے گزر رہا تھا کہ زیب النساء نے اُسے دیکھ لیا۔ زیب النساء نے ایک کا غذ پر لکھا کہ ”شنید م ترک خدمت کر د عاقل خان زنا دانی“ سنا ہے کہ عقلمندودانا عاقل خان نے سرکاری خدمت سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ عاقل خان نے جواباً لکھا کہ”چراکارے کند عاقل کہ بار آید پشیمانی“ ایسی عقل کا کیا فائدہ جو ندامت وپشیمانی کا باعث بنے۔
عاقل خان جانتا تھا کہ جب اس یکطرفہ عشق کی خبر بادشاہ کو پہنچے گی تو سب سے پہلے عاقل خان اور پھر اس کا سارا خاندان مار دیا جائے گا۔ کاش وزیراعظم عمران خان اور پی ٹی آئی سمیت،پیپلزپارٹی اور نون لیگی عاقل خانوں میں اتنی اخلاقی جرأت ہو کہ وہ اپنی حرکتوں پر نادم و پشیمان ہوں۔ قندہارسے تعلق رکھنے والی نازو توخی حسن کا مجسمہ اور علم واداب کا سمندر تھی۔ جوانی میں بیوہ ہوگئی مگر دوبیٹوں کی پرورش اس انداز سے کی کہ دونوں یک بعد دیگرے جنوبی افغانستان اور ملحقہ ایرانی صوبوں کے بادشاہ رہے۔ نازو عالمہ اور شاعرہ تھی۔ اس کی شاعری بے مثال ہے۔ صوفی شعرأ کی طرح نازو کا ہر شعر علم وحکمت کا خزینہ ہے۔ وہ لکھتی ہے کہ داغدار،ضدی، ہٹ دھرم، لالچی اور عوام دشمن شخص وہ بھیڑیا ہے جسے بستی میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ زرداری، نواز شریف، عمران خان اور اُن کے وزیر مشیر،ہم خیال اور ہم رکاب کون ہیں یہ جاننا ضروری ہے۔ عمران خان ذاتی طور پر کرپٹ نہ سہی مگر اُس کے وزیروں، مشیروں اور صلاح کاروں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو لالچی، عوام دشمن، داغدار اور کرپشن سے پاک اعلیٰ کردار کا مالک ہو۔ آٹا، چینی اور رنگ روڈ سیکنڈل تو سامنے ہیں۔ خفیہ فائلوں میں کیا لکھا جا چکا ہے اُس کا احوال اس لئے سامنے نہیں آرہا چونکہ اپوزیشن اور نوکر شاہی کا بھی اسی میں مفاد ہے۔ کنفیوشس چین کا چیف جسٹس تھا۔ اُسے خبر ہوئی کہ بادشاہ تین دن سے دربار شاہی میں نہیں آرہا۔ پتہ چلا کہ نوجوان بادشاہ تین راتوں سے طوائف خانے کے چکر لگا رہا ہے۔ رات کو دیر تک وہ محفل میں رہتا ہے اور دن کو سوجاتا ہے۔ کنفیوشس نے اس جرم کی پاداش میں بادشاہ کو تین سال کے لئے معزول کر دیا۔ خبر سنتے ہی بادشاہ سلامت عدالت میں پہنچے اور معافی نامہ لکھ دیا۔ چین میں آئندہ کے لئے یہ قانون بن گیا کہ بغیر معقول وجہ کے بادشاہ چھٹی نہیں کر سکتا۔ جدید چین کے معمار ڈنگ ژیاؤ پنگ نے اپنی دس بنیادی اصلاحات میں لاؤزے،کنفیوشس، بدھ، چنگ ز ی اور سن توژو کی تعلیمات کا پھر سے اجرا ء کیا۔ ہمارے ہاں قائداعظمؒ اور حسین شہید سہروردی کے علاوہ کوئی ایسا لیڈر نہ آیا جسے قوم کی بد حالی کا احساس ہوتا۔ سارے لیڈر بھیڑے کی کھال پہن کر آئے اور اپنے اپنے حصے کا شکار کیااور اسلام کے نام پر حاصل کردہ وطن کو بھیڑیوں کی شکار گاہ میں بدل دیا۔ قوم کی بد قسمتی بلکہ بے ہمتی کہ وہ لیڈر اور ڈیلر میں فرق نہ کر سکی۔ میکاولی کا یہ قول میں اپنی تحریروں میں کئی بار لکھ چکا ہوں۔وہ کہتا ہے کہ حکمران کو لومڑی کی طرح مکار اور شیر کی طرح خونخوار ہونا چاہیے۔ بد عہدی، چکمہ سازی، فریب کاری اچھے حکمرانوں کی خصوصیات ہیں۔ حکمران کو چاہیے کہ وہ عوام کو دھوکہ دے او راُن کا شکار کرے۔ عوام میں اتنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ حاکم کی شاطرانہ چالیں سمجھ سکیں۔ عوام غرض مند ہوتے ہیں اور ہمیشہ حکمرانوں اور حکومتوں سے ہی اُمیدیں وابستہ رکھتے ہیں۔
ہمارے ملک میں آزاد عدلیہ بھی ہے اور دیگر قومی ادارے بھی موجود ہیں مگر انصاف اور اصلاحات کا فقدان ہے۔ امام جلال الدین سیوتی لکھتے ہیں کہ قوانین کی بھرمار لاقانونیت کو فروغ دیتی ہے۔ ابن رشد نے لکھا کہ عادل، زیرک اور عوام دوست حکمران عوام جیسی زندگی بسر کرتا ہے۔ وہ خلفائے راشدین اور حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓکی مثال پیش کرتا ہے۔ مرزا حیدر دوغلات تیمورتغلق اور امیر تیمور کی مثالیں پیش کرتا ہے کہ دونوں کے وزیر مشیر اور درباری عالم، فاضل اورباکردار تھے۔ وہ بادشاہ پر بھی نظر رکھتے تھے اور اُس کے حرم یعنی بیویوں، بچوں اور رشتہ داروں کو بھی معاف نہ کرتے تھے۔
وطن عزیز میں بھٹو سے بلاول اور نواز شریف سے لیکر مریم تک کوئی ایسا نہیں جس کا کردارو عمل مثالی ہو۔ جس نے عوام کو چکما نہ دیا ہوااور جس کے وزیر مشیر اور صلاح کارکلمہ حق کہنے کی جرأت رکھتے ہوں۔ آدھا ملک درباریوں اور آدھا بھکاریوں، غرضمندوں، حاجت مندوں، مجرموں اور سیاسی جماعتوں کے غلاموں پر مشتمل ہے۔ زرداری، نواز شریف، فضل الرحمن اور ولی خان کے گھرانوں کے علاوہ کسی پاکستانی ماں کا بیٹا لیڈر نہیں بن سکتا چاہے وہ عاقل خان جیسا زیرک، تیمورتغلق اور امیر تیمور جیسا بہادر اور علم وادب سے مزین ہی کیوں نہ ہو۔ کوئی پاکستانی ماں نازو توخی،ملالہ انایا جوار خاتون جیسی نہیں چونکہ اب ہماری عورتوں کی تعلیم و تربیت کے مراکز اور ماحول بدل گیا ہے۔ ہماری عورتوں میں و ہ صلاحیت نہیں جن کے بچے وطینت، قومیت اور جذبہ حریت سے سرشار ہوں۔
روائیتی سیاسی گھرانوں کے علاوہ وطن کی ساری مائیں ووٹر، سپورٹر، جیالے، متوالے، غلام، مجرم اورسیاسی خاندانوں کے خدمتگار اور سرکاری ملازم بیدار کرتی ہیں۔ جو سچ کے اقرار اور جرات انکار کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ نپولین نے کہا تھا کہ شیروں کا قائد بارہ سنگھا ہو تو شیر بارہ سنگھوں کی طرح بزدل ہو جاتے ہیں اوراگر شیر کو بارہ سنگھوں کی قیادت مل جائے تو بارہ سنگے شیر وں کی طرح حملہ آور ہوتے ہیں۔ آج مریم، بلاول اور فضل الرحمن کی قیادت میں بڑے بڑے شیر ڈھیر ہو رہے ہیں۔ عمران خان ابھی تک کرکٹ کے نشے میں ہے اور وہ بائیس کروڑ کو کرکٹ کے بارہ کھلاڑیوں کی طرح ڈیل کر رہا ہے۔ وزیر اور مشیر کمنٹری پر لگے ہیں اور ملک بدحالی کا شکار ہے۔
روسی مفکر رسول حمزہ توف نے لکھا کہ بستی میں ایک ہی بدھواور ایک ہی عقلمند کافی ہوتا ہے۔ اگربدھوواور عاقلوں کی تعداد بڑھ جائے تو بستی کا نظام تباہ ہو جاتا ہے۔ وطن عزیز میں عقلمندوں، دانشوروں اور جاہلوں کی منڈیاں سجی ہیں۔عام لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان میں عقل مند کون ہے اور جاہل کون ہے۔ شیخ سعدی ؒ لکھتے ہیں کہ حکمران کو چاہیے کہ وہ عوام سے صلح رکھے اور دشمن کی جنگ سے محفوظ رہے۔اچھے اور عادل حکمران کی رعایا ہی اس کی قوت اور فوج ہے۔ ہمارے سیاست دانوں اور حکمرانوں کا وطیرہ ہی الگ ہے۔وہ دشمن کو دوست اور فوج کو دشمن سمجھتے ہیں اورعوام کو جبر و ظلم کے شکنجے میں کسنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔پتہ نہیں کہ اسد اللہ غالب نے اپنی کتاب میں کیا لکھا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ مظلوم عوام اور فوج ایک صفحہ پر ہیں اور عمران خان سمیت سارے سیاست دانوں کا صفحہ ایک ہی ہے جس پر عوام کے خون کے چھینٹے اور کرپشن کے داغ ہیں۔