میں جب بہاول پور کے ایس ڈی ہائی سکول میں نویں جماعت کا طالب علم تھا تو مجھے اپنے کورس کی کتابوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے رسالے پڑھنے میں بہت زیادہ دلچسپی تھی۔ ان رسالوں میں قلمی دوستی کے نام سے چند صفحات مخصوص ہوتے تھے جن میں بچوں کے نام، کوائف اور مشغلوں کی تفصیل درج ہوا کرتی تھی۔ ایک جیسے مشغلے رکھنے والے بچے خط کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ کر کے قلمی دوست بن جایا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ان دنوں ادبی کتابیں پڑھنا، ڈاک ٹکٹیں جمع کرنا، سیاحت اور صداکاری میرے پسندیدہ مشغلے تھے اور یہی مشغلے اب تک میری زندگی کا حصہ ہیں بلکہ ان میں باغبانی، سکے اور کرنسی نوٹ جمع کرنے کے مشغلوں کا اضافہ ہوا ہے۔ کرونا وائرس کی وبا کے باعث لاک ڈاؤن اور دیگر پابندیوں کی وجہ سے جس طرح کئی مہینے تک برطانوی شہریوں کو صرف اپنے اپنے گھروں تک محدود رہنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ نفسیاتی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئے لیکن ایسے لوگ کسی قسم کی ڈپریشن میں کم مبتلا ہوئے جو اس دوران اپنے کسی نہ کسی مشغلے سے دل بہلاتے رہے۔ کسی مشغلے کے بغیر زندگی گزارنا (اور خاص طور پر ریٹائرمنٹ کے بعد) انسان کو اس کائنات کی بہت سی دلچسپیوں، رعنائیوں اور خوبصورتیوں کے علاوہ جینے کی امنگوں سے محروم کر دیتا ہے۔ برطانیہ میں 75فیصد لوگ کوئی نہ کوئی مشغلہ رکھتے ہیں۔ اس ملک کے 5مقبول ترین مشغلوں میں بالترتیب پیدل چلنا، ریڈنگ(مطالعہ)، ورزش کرنا، باغبانی(گارڈننگ) اور کوکنگ یعنی شوقیہ کھانا بنانا شامل ہے جبکہ سیاحت بھی یونائیٹڈ کنگڈم کے لوگوں کا ایک پسندیدہ مشغلہ ہے۔ دنیا بھر کے مقبول ترین مشغلوں میں ٹی وی دیکھنا آج بھی سرفہرست ہے بلکہ میوزک سننا یعنی موسیقی سے لطف اندوز ہونا، ویڈیو گیم کھیلنا، مچھلی کا شکار اور آرٹ اینڈ کرافٹ کے مشغلے بھی عالمی سطح پر لوگوں کی ترجیحات میں شامل ہیں۔ اعداد وشمار یہ بتاتے ہیں کہ جن لوگوں کی زندگی کسی قسم کے مشغلے سے محروم ہو وہ نہ صرف جلد ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں بلکہ ان میں سگریٹ نوشی، جوئے، شراب نوشی اور اسی طرح کی دیگر علتوں میں مبتلا ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے مشاغل انتہائی دلچسپ اور منفرد ہیں۔ بہت سے لوگوں کو دنیا بھر میں بننے والی ماچس کی ڈبیاں جمع کرنے کا شوق ہے۔ ہزاروں لوگ ایسے ہیں جن کا مشغلہ خوبصورت کی رنگز اکٹھے کرنا ہے۔ دنیا میں کئی لوگ ایسے بھی ہیں جن کے مشغلے بہت مہنگے ہیں مثلاً کچھ لوگ قیمتی گھڑیاں، کاریں، نوادرات، مجسمے اور پینٹنگز جمع کرنے کے شوقین ہیں۔ ایسے لوگ خوش نصیب ہیں جن کے مشاغل ہی ان کے روزگار کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ ایسے لوگ ایک دوسرے کے جلد قریب آ جاتے ہیں جن کے مشاغل ایک جیسے ہوں۔ یہ لوگ ایک دوسرے کی قربت میں خود کو زیادہ سرشار محسوس کرتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ کبھی ایسے شخص کے ساتھ سیاحت کے لئے جائیں جس کا اپنا مشغلہ بھی سیر و سیاحت ہو تو آپ کا لطف دوبالا ہو جائے گا جبکہ اگر آپ کا ہم سفر کوئی ایسا شخص ہو جسے سیر و سیاحت سے کوئی دلچسپی نہ ہو تو وہ آپ کو بھی بیزار کر دے گا۔ اسی طرح اگر آپ کسی ایسے شخص کے ساتھ فلم دیکھنے چلے جائیں جسے سینما جانے کا شوق نہ ہو تو آپ بھی فلم سے لطف اندوز نہیں ہو سکیں گے۔ میرے ایک دوست کے والد کچھ عرصہ ہوا اپنی 30سال کی ملازمت کے بعد ریٹائر ہوئے ہیں۔ انہیں کیرم بورڈ کھیلنے، میوزک سننے اور کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ ملازمت کے دوران انہیں اپنے ان مشاغل کے لئے کم ہی فرصت ملتی تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ایک کیرم بورڈ کلب کے رکن بن گئے ہیں جہاں وہ ہفتے میں دو دن اپنے اس مشغلے سے لطف اندوز ہونے میں گزارتے ہیں اور ان لوگوں سے اچھی کتابوں اور موسیقی کا تبادلہ کرتے ہیں جو ان معاملات میں اچھا ذوق رکھتے ہیں۔ ان کے برعکس وہ لوگ جو زندگی بھر کسی بھی قسم کے مشغلے سے محروم رہتے ہیں وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بہت بیزار اور دشوار زندگی گزارتے ہیں۔ وقت کاٹنا ان کے لئے بہت مشکل ہو جاتا ہے جس کا براہ راست اثر ان کی صحت پر پڑتا ہے۔ ملازمت کی مصروفیت سے فراغت کے کچھ عرصے بعد ہی انہیں احساس ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ مصروفیت بھی واقعی ایک بہت بڑی نعمت ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں اچھے ذوق و شوق اور مشغلے رکھنے والے لوگ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کا انتظار کرتے ہیں تاکہ انہیں فرصت میسر آئے تو وہ اپنی پسند اور مرضی کے مطابق اپنا وقت گزار سکیں۔ گذشتہ دنوں میں نے اپنے ایک دانشور دوست کو پاکستان فون کر کے استفسار کیا کہ آج کل پاکستانی قوم یا پاکستانیوں کے پسندیدہ مشاغل کون سے ہیں؟ میرے دوست جو اہل پاکستان کو ایک قوم ماننے کو ہی تیار نہیں،کہنے لگے کہ ان دنوں پاکستانیوں کے دو پسندیدہ مشاغل ہیں جو شادی شدہ ہیں ان کا پسندیدہ مشغلہ ملک کی آبادی بڑھانا ہے اور جو غیر شادی شدہ ہیں ان کا پسندیدہ مشغلہ کسی جگاڑ کے چکر میں رہنا ہے۔ یہی سوال ایک اور دوست سے کیا تو وہ کہنے لگے کہ کبوتر بازی اور پتنگ بازی وغیرہ کے علاوہ سیاسی اور مذہبی بحث مباحثے، سوشل میڈیا اور کرکٹ ہمارے لوگوں کے پسندیدہ مشغلے ہیں۔ ایک سرکاری افسر سے پاکستانیوں کے پسندیدہ مشاغل کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے کہ ہر کام میں شارٹ کٹ تلاش کرنا، نامور شخصیات، بڑے بڑے سرکاری افسروں اور سیاستدانوں سے تعلقات بنانے کی کوشش کرنا، ان کے ساتھ تصاویر بنا کر لوگوں کو مرعوب کرنا اور لوگوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا ہمارے لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ ایک خاتون سے پوچھا تو کہنے لگیں کہ خود کو خوبصورت اور خوب سیرت ثابت کرنا ہمارے ملک کی خواتین کی اکثریت کا سب سے پسندیدہ مشغلہ ہے اور جب سے مختلف ٹی وی چینلز پر کوکنگ شو کا فیشن عام ہوا ہے تو گھر کے نوکروں سے طرح طرح کے کھانے بنوانا بھی ایک مشغلہ بن گیا ہے۔ ایک بے روزگار نوجوان سے پوچھا کہ پاکستانیوں کی نئی نسل کے پسندیدہ مشاغل کیا ہیں؟ تو اس نے بیزاری سے جواب دیا کہ یہ سب پیٹ بھرے لوگوں کے چونچلے ہیں۔ طالبعلمی کے دنوں میں میرے بھی کئی مشغلے تھے۔ بے روزگاری نے میرے ان تمام مشغلوں کا ملیا میٹ کر دیا ہے۔ جب کسی انسان کو سہولت سے دو وقت کی روٹی کھانے کو میسر نہ ہو تو کہاں کے مشغلے اور کہاں کے ذوق و شوق، اور واقعی ہمارے ملک کی ایک بڑی آبادی دو وقت کی روٹی کے لئے بڑے جتن کرتی ہے اور اسی لئے بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی۔ بہت سے غنچے پھول بننے سے محروم رہتے، بہت سے مجسمے پتھر میں ہی چھپے رہ جاتے ہیں انہیں کوئی سنگ تراش میسر نہیں آتا لیکن پاکستان میں ایسے نیک نیت لوگوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جنہوں نے انسانیت کی فلاح وبہبود اور محروم لوگوں کی مدد کو ہی اپنا مشغلہ اور مشن بنا لیا ہے۔ یہی لوگ محرومیوں او مسائل کے گھپ اندھیروں میں اپنے حصے کے چراغ روشن کر رہے ہیں۔ آئیے ہم بھی سوچیں کہ کیا ہم نے اپنے حصے کا کوئی چراغ جلایا؟
مشغلے
پرانی پوسٹ