اس بات میں کوئی شک باقی نہیں کہ پاکستان میں عملاً عدل کاقتل ہوچکا ہے۔ پاکستانی میڈیا پاکستان دشمنی میں سب سے آگے ہے اور بیرونی دشمنوں کا آلہ کار ہی نہیں بلکہ فرنٹ لائن فائیٹر بھی ہے۔ بیوروکریسی بے رحم، بے حس اور معاشرے اور ریاست میں بھگاڑ پیدا کرنیوالی ایسی مشینری ہے جس کا کوئی متبادل ہی نہیں۔ جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت نے عدلیہ کے وجود پر پہلا وار کیا جس کی وجہ سے ریاست کا انتظامی ڈھانچہ بڑی حدتک مفلوج ہو گیا۔ سیاستدانوں نے پٹواریوں اور تھانیداروں کے ذریعے جمہوری نظام تشکیل دیا اور پھر اسی نظام کی بنیاد پر ایک آئین مرتب کیا جو صر ف سیاستدانوں،وکیلوں اور ججوں کے علاوہ مافیا اور اس سے منسلک افراد کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔اٹھارویں ترمیم کے بعد آئین بڑی حدتک مفلوج ہو چکا ہے۔ صوبے ہی نہیں بلکہ بہت سے ادارے بھی آئینی اور قانونی حیثیت سے آزاد ہیں۔ احتساب برائے نام ہے اور عدل و انصاف کا فقدان ہے۔ جسٹس ملک قیوم کے بعد افتخار چوہدری اور اب جسٹس رانا شمیم کے حلف نامے نے عدلیہ کی رہی سہی ساکھ بھی ختم کر دی ہے۔ زرداری اور نواز شریف کے خلاف مقدمات اور عدل کا گرتا ہوا معیار کسی بحث کا متقاضی ہی نہیں۔ان مقدمات کو طول دینا اور پھر عدلیہ کے خلاف مہم چلانا ایک ایسی روائیت ہے جس کی جڑیں دن بدن مضبوط ہو رہی ہیں اور عدلیہ بے بسی کے بھنور میں پھنس چکی ہے۔
رفیق تارڑ کے بریف کیس اور سوٹ کیس ہوں یا سپریم کورٹ پر حملہ، آخر کوئی تووجہ ہے کہ عدلیہ ہر بار ہار مان لیتی ہے۔ یہی عدلیہ عام آدمی کی بے گناہی اور مظلومیت پر کبھی توجہ نہیں دیتی اور محض اپنا مقام و مرتبہ بلند کرنے کے لئے عام لوگوں سے جیلیں بھرتی ہے یا پھر انہیں تختہ دار پر لٹکا دیتی ہے۔ کرپٹ اور قاتل سیاستدانوں اورا ُن کے مددگاروں کی تاریخیں اُن کی مرضی کے مطابق طے کی جاتی ہیں اور ضمانتیں بھی اُن کی سہولت کو مد نظر رکھ کر دی جاتی ہیں۔
پاکستان کی سا لمیت پر حملہ ہو یا عدلیہ، فوج اور اُس کے معاون اداروں کو بد نام کرنے کا کوئی گھناؤنا منصوبہ، ہمارا میڈیا تحقیق و تفتیش کیے بغیر ہی ملک کے اندر افراتفری پھیلاتا ہے اور بھارت سمیت پاکستان مخالف قوتوں کو ایسا مواد فراہم کرتا ہے تاکہ دنیا پاکستان کو ہر لحاظ سے نہ صرف شک کی نگاہ سے دیکھے بلکہ پاکستانی صحافیوں، خود ساختہ دانشوروں، سیاستدانوں اور مافیا کے پھیلائے منفی پرا پیگنڈے کی بنیاد پر پاکستان،اسلام اور افواج پاکستان کے خلاف منظم مہم کا از سر نو آغاز کرے۔سئنیر صحافی نصر ت جاوید ایسے صحافیوں کو بولڈ اور بلنٹ صحافی لکھتا ہے۔ شاہد مسعود نے تو انصار عباسی کی حمایت میں پہلا نمبر لکھوانے میں ذرہ بھر دیر نہ کی۔ بھینس، بھینسوں کی بہینں والا محاورہ ویسے ہی تو وجود میں نہیں آیا۔ بہت پہلے جب حامد میر اوصاف میں لکھتا تھا اور کبھی کبھی پتے کی بات بھی لکھ دیتا تھا تو بیرسٹر سیف اور اور جنرل پرویز مشرف کے تعلقات پر”آدمی اپنی مجلس سے پہچانا جاتا ہے“ کے عنوان سے کالم لکھا جس میں کافی حدتک سچائی تھی۔ شاہد مسعود ڈی ٹریک ہی نہیں بلکہ اکثر ڈی ریل بھی ہوجاتا ہے اور اسے بھارت کی فکر لاحق رہتی ہے۔ حال ہی میں ماؤ نواز علیحدگی پسندوں کی طرف سے کاروائیوں پر شاہد مسعود کا غم دیدنی تھا۔ بار بار کہا کہ خدا کرے ایسا نہ ہو ورنہ بھارت کا بہت نقصان ہو سکتا ہے۔ شاہد مسعود کا فلسفہ بھی عجیب ہے۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کس کاغمخوار اور کس کا مخالف ہے۔
نصرت جاوید نے اٹھارہ نومبر کے کالم میں بولڈ صحافیوں کی بہادری کا ذکر کیا ہے۔ شاید جناب نصرت جاوید نہیں جانتے کہ ایسے بولڈ صحافی صرف پاکستان میں ہی پائے جاتے ہیں۔امریکہ ہو یا برطانیہ بھارت یا پھر کوئی دوسرا ملک۔ملکی مفاد میں بنائی جانے والی پالیسوں پر وہاں کی مسلح افواج اور خفیہ معلومات حاصل کرنے والے اداروں کی مرضی شامل ہوتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف جب بھارت کے دور ے پر گئے تو واجپائی کے ساتھ ون آن ون ملاقات بھی طے تھی۔ دونوں رہنماؤں نے ابھی کوئی بات نہ کی تھی کہ بھارتی خفیہ ایجنسی کا ایک جونیئر افسر واجپائی کے قریب بیٹھ گیا۔جنرل مشرف نے اعتراض کیا تو واجپائی صاحب نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ یہ میری بات نہیں مانے گا۔ بھارتی وزیراعظم کی بے بسی دیکھتے ہوئے جنرل پرویزمشرف نے ہنس کر ملاقات ختم کر دی۔ جناب نصرت جاوید نے کبھی کسی بھارتی صحافی کو ”را“ کی ہٹ دھرمی اور فوج کی بھارتی خارجہ اور داخلہ پالیسی میں شراکت داری پر لکھتے نہیں دیکھا ہوگا۔ آج بھی بھارتی وزیراعظم مودی ”آرایس ایس“، ”را“ اور بھارتی فوج کے منصوبوں سے اختلاف نہیں کر سکتا چاہے سارا بھارت نفرت کی آگ میں ہی کیوں نہ جل جائے۔ صحافت کے اعلیٰ ترین نمونے صرف پاکستان میں ہی پائے جاتے ہیں جو ملک اور قوم کی بربادی اور بدحالی پر پھولے نہیں سماتے اور کرسیوں پر گھوم گھو م کر اور مسکرا مسکر ا کر حادثوں اور المیوں پر نہ صرف فضول بحث کرتے ہیں بلکہ خوش بھی ہوتے ہیں۔ یہی حال سیاستدانوں کا ہے جو ملک میں انتشار پھیلانے اور اداروں کو بلیک میل کرنے کے لئے ہر وقت شیطانی چالوں اور حربوں پر کام کرتے ہیں۔ مریم نواز کھل کر کہہ چکی ہے کہ اُس کے پاس بہت سی ویڈیوز ہیں۔ اگر سب کی سب سامنے لے آئی تو سب کچھ نہ صرف برباد ہو جائے گا بلکہ بہت سے لوگ اپنا منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہیں گے۔آخر مریم نواز کا مشن ویڈیو بنوانا اور لوگوں کو بلیک میل کرنا ہی ہے اور اگریہی سیاست ہے تو اس سے گھٹیا اور گھناؤنی سیاست شاید ہی دنیا میں ہو۔
موجودہ سیاسی انتشار کا واحد حل عدلیہ ہی کے پاس ہے۔ جب تک سیاسی گھرانوں کی کرپشن لوٹ مار اور سکینڈل بنانے کے رحجان پر عدلیہ کی تلوار نہیں چلتی حالات بد سے بد تر ہو جائینگے۔ عدالتوں کے باہر لگنے والی سیاسی عدالتیں اور قتل کے بعد فتح کا نشان بنا کر جیلوں سے نکلنے والے قاتل سیاستدانوں کو نہ روکا گیا تو پھر ہر شخص ایسے لوگوں سے انتقام لینے کے لئے آزاد ہوگا۔
موجودہ پاکستان کے نوے فیصد رقبے پر طویل عرصہ تک سکھوں کی حکمرانی رہی ہے۔ اس حکمرانی کے بنیاد سکھ قبیلوں کا باہم اتحاد، دلیر خالصہ فوج، قیادت پر مکمل بھروسہ او ر مہاراجہ رنجیت سنگ کی جرات مند انہ قیادت اور نظام عدل تھا۔ وہ مسلمانوں کا بدترین دشمن مگر اپنوں کا غمخوار اور ہمدرد تھا۔کشمیر کے ڈوگروں کی بھی یہی خاصیت تھی۔ جرنیل مہان سنگھ، کھڑک سنگھ، بدھ سنگھ، مان سنگھ، ہری سنگھ اور دیگر سکھ جرنیلوں کے خاندانوں کو وہ ہی مراعات حاصل تھیں جو آجکل زرداری اور نواز شریف خاندان کو حاصل ہیں۔ پنجاب کے سکھ اور کشمیر کے ڈوگرہ خاندانوں اور موجودہ پاکستان کے شاہی خاندانوں میں فرق یہ ہے کہ اُن پر کبھی کرپشن، چوری چکار ی اور لوٹ مار کا مقدمہ نہ بنا۔ ہمار ا کوئی دانشور صحافی ایک بھی ایساواقع بیان نہیں کرسکتا کہ زرداری اور نواز شریف خاندان نے کبھی کسی پر رحم کیا ہو یا اپنی جیب سے کسی کو ایک دھیلا دیا ہو۔ صحافیوں کو لفافے اورپلاٹ بھی قومی خزانے سے دیے جاتے رہے ہیں۔ جناب نصرت جاویدکے دبنگ اور بولڈ صحافی صرف سکینڈل بنانے اور ملکی مفاد پر حملے کرنے کے ماہر ہیں انہیں کرپشن کے پہاڑ نظر نہیں آتے۔ آخر کوئی تو وجہ ہے کہ منصور علی خان، کاشف عباسی، خانزادہ، سلیم صافی اور عمران شاہد ہر حادثے اورہر سانحے پُرجوش پروگرام کرتے ہیں اور خوشی سے جھومتے چائے کی چسکیاں لیتے ہیں۔ آخر اس خوشی کی کوئی وجہ تو ہے؟ امریکہ اور مغرب میں کتا مر جائے اور بھارت میں گائے کو ٹاکوں یا منہ کُھرکی بیماری لاحق ہو جائے تو وہاں کا میڈیا ماتم کرتا ہے۔ یہاں غریب اور مفلس عوام مریں یا جئیں ہمارے میڈیا کو اس کی پرواہ نہیں۔ میڈیا صرف مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری اور ان کی پھیلائی ہوئی افواہوں اورسکینڈلوں کی تشریح اور تشہیر کو ہی صحافت کا بنیادی مقصد سمجھتا ہے۔
پاکستان میں سیاستدانوں اور صحافیوں نے پاک فوج، عوام اور نظریہ پاکستان پر حملہ کیا اوراسلام پر بھی تنقید شروع کر دی تو عدلیہ نے خاموشی اختیار کی۔اس خاموشی سے شہہ پا کر اب اس ٹولے نے عدلیہ کو بھی اسی صف میں شامل کر لیاہے جس کا واضح مقصد ملکی سالمیت اور آزادی کو مفلوج کرنا اور عدلیہ کو متنازعہ بنا کر ملک میں لا قانیت کو فروغ دینا ہے۔ یہی وقت ہے کہ عدلیہ نہ صرف نظام عدل کا تحفظ کرئے بلکہ ملک کو مافیا کی یلغار سے بھی محفوظ کرئے۔ جب نواز شریف عدلیہ کے معزز ججوں کی یہ پانچ لوگ کہہ کر توہین کر رہا تھا اور مریم نواز یہ کہہ رہی تھی کہ میں نے منہ کھولا تو عدلیہ منہ چھپاتی پھیرے گی توعدلیہ اپنی عزت ووقار کا خیال کرتی تو آج عدل کا قتل نہ ہوتا۔