یہ وحشت کل بھی تھی ، آج بھی ہے اور نجانے آئیندہ کب تک اس پاک دھرتی ، جسے اب پاک کہتے ہوئے بھی زبان لرزتی ہے ، کو لہو لہان کرتی ، اس پہ راج کرتی اور اسے دنیا میں رسوا کرتی رہے گی ۔ سانحہ سیالکوٹ جس میں ایک بے گناہ سری لنکن انسان , پریانتھا کمارا، کو جھوٹے الزام ، جس سے ایک غلطی زبان سے آشنائی نہ ہونے پر ہوئی اور جس کا ادراک ہونے پر اس نے معافی بھی مانگی کو پہلے تو خون میں نہلا کر بیدردی سے نیم مردہ کیا گیا اور پھر برلبِ سڑک گھسیٹ کر جلا دیا گیا۔ اسلام کے شیدائیوں کی جب ایک بیگناہ کےخون سے ہولی کھیل کر بھی تسلی نہ ہوئی تو انہوں نے جلتی ہوئی لاش کو پس پشت رکھ کر سیلفیاں بنائیں اور میڈیا کو بڑے فخریہ انداز میں اپنے جذبہ عشق رسولؐ کو لبیک لبیک کے نعرے لگا کر اجاگر کیا ۔ اے اللّہ اور اللّہ کے رسولؐ ہمارے چند بگڑے اوراصل اسلام سے نابلد مٹھی بھر نوجوانوں کے اس گناہِ کبیرہ کی سزا پوری بستی ، شہر یا ملک کو نہ دینا ، آمین۔ افسوس صد افسوس پوری اسلامی دنیا میں پاکستان ہی وہ ملک رہ گیا ہے جو پورے کا پورا مسلمان بنا پھرتا ہے اور نجانے کب کوئی کسی دوسرے پہ کفر کا فتویٰ صادر کردے ۔ توہین مذہب یا توہین رسالتؐ کا الزام عائد کردے اور اپنے ساتھ ایک جنونی گروہ جمع کرکے ڈنڈوں ، لاٹھیوں اور پتھروں سے پہلے تو اس کی جان لے اور قتلِ ناحق سے بھی من راضی نہ ہو تو اس کی لاش کو دو گز زمین سے بھی محروم کرتے ہوئے اسے آگ میں جلا کر راکھ کردے ۔ توہینِ مذہب یا توہینِ رسالت کا قانون ویسے تو کم و بیش ہر اسلامی ملک میں موجودہے لیکن اسی قانون کی توہین اور قانون شکنی یا اس کا غلط استعمال سب سے زیادہ اپنے ملک پاکستان میں ہی ہے ۔ یہ قانون یہاں نافذالعمل کیا ہوا جیسے ہر کسی کے ہاتھ میں ایک کارگر ہتھیار آگیا ہے ۔ اِدھر کسی کی کسی سے ان بن ہوئی ادھر توہین مذہب یا رسالتؐ کی آڑ میں الزام تراشی ، مجمع سازی ، لٹھ بازی پھر سنگساری اور آخر میں میت کی آتش زدگی ۔ یہ ہے ہماری مذہب اور عشقِ رسولؐ کی دیوانگی کا عالم ۔
اگر اس قانون کی زد میں آنے والے ماضی کے واقعات ، عدالتوں میں زیرِ التوا مقدمات اور بنیادی انسانی حقوق یعنی ہیومن رائیٹس کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ دیکھا جائے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ذرا سی عقل اور شعور کھنے والا شخص شرمندگی کے مارے زندہ درگور ہوجاتا ہے ۔ بات کو واضح کرنے کی خاطر چند مثالیں ضرور دوں گا تاکہ قاری اس مسئلے کی سنجیدگی کا احساس کرتے ہوئے اپنی آواز بلند کرے اور اربابِ اختیار کو تمام قانونی سقم دور کرتے ہوئے اس میں بہتری لانے پہ مجبور کرے ۔ کچھ عرصہ پہلے گوجرانوالہ کی کسی بستی میں ایک عورت کے کسی سے ناجائیز تعلقات قائم ہوگئے ۔ اس نے اپنے آشنا کی مدد سے خاوند کو راستے سے ہٹانے کا پلان بنایا ، چنانچہ گھر میں کچھ ردی اور پرانے اخباروں کو آگ لگا دی اور خود ہی گھر سے باہر نکل کر واویلا شروع کردیا کہ اس کے خاوند نے ، نعوذ باللّہ ، قرآنِ پاک کو شہید کردیا ہے ۔ افواہوں پہ کان دھرنے والے اسلام کے شیدائی جوق در جوق جمع ہوئے ۔ محلے کی مسجد سے بھی اعلانات شروع ہوگئے ۔ بس پھر کیا تھا ، بچارے بیگناہ شخص کو گھر سے باہر گھسیٹ لیا گیا ۔ وہ اسی قرآن کی قسمیں کھا کھا کر واسطے دیتا رہا کہ وہ بے قصور ہے ، اس نے کوئی گناہ نہیں کیا لیکن بدکار بیوی جلتے کاغذوں کو بار بار ثبوت کے طور پہ پیش کرتی رہی ۔ مسجد کے اعلانات اور مولوی صاحب کے فتوے آگ کو اور بڑھکاتے رہے ۔ چنانچہ لاتوں ، لاٹھیوں ، پتھروں کا کھیل شروع ہوا ۔ آن واحد میں ایک بےگناہ نہ صرف موت کی وادی میں چلا گیا بلکہ جلا کر راکھ کر دیا گیا ۔ پولیس آئی ، کاروائی ڈالی ، اپنی جان بخشی کی خاطر اس بدکردار عورت ، جاہل محلے داروں اور مولوی صاحب ، کے فتووں کی روشنی میں کیس داخل دفتر کرادیا ۔ ان پڑھ لوگوں کی بستی سے نکل کر ایک اعلیٰ درجے کی تعلیمی درسگاہ میں آتے ہیں ۔ یہ کوئی پرانی بات نہیں ، پشاور یونیورسٹی میں مشال خان کو جس بربریت کا نشانہ بنا کر توہینِ مذہب کی بھینٹ چڑھایا گیا ، جوکہ بعد میں سب جھوٹ ثابت ہوا ، وہ بھی ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے ۔
ہمارا ملک فرقہ واریت کی جس آگ میں جل رہا ہے وہ بھی ایک علیحدہ عذاب ہے۔ رحیم یار خان کے کسی علاقے میں کسی شخص نے کسی دوسرے شخص کی دکان پہ عید میلاد النبیؐ کا پوسٹر لگا دیا ۔ دونوں کے فرقوں اور مذہب میں اختلاف تھا لہذا پوسٹر اتار دیا گیا۔ بس پھر کیا تھا شمع رسالتؐ کے پروانوں کا گروہ جمع ہوگیا ۔ چشمِ زدن میں نہ صرف اس کی دکان جلا دی بلکہ اسے بھی پوسٹر اتارنے کی پاداش میں زندگی سے آزاد کردیا گیا ۔ فرقہ واریت ہی کی ایک نئی قسم بھی ماضی قریب میں ایجاد ہوئی ہے جو لبیّک اللّھم لبیّک سے ایک قدم آگے بڑھ کر لبیک یا حسینؓ ، لبیک یا علیؓ اور لبیک یا محمدؐ کے نعروں سے ہمارے ایمانوں کو تازہ کرنے پہ مامور ہے ۔سیالکوٹ فیکٹری میں بھی سری لنکن شخص نے مشینوں پہ لگے ہوئے کسی ایسے ہی پوسٹر کو اتار کر توہینِ مذہب کا ارتکاب کیا جسے مذہب کے شیدائیوں نے دنیا میں ایک گھناوٗنی مثال بنا کر ملک کے نام پہ بھی کالک مل دی ۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں جو توہینِ مذہب یا توہینِ رسالتؐ کے قانون کی غلط توجیح و تشریح اور غیر قانونی و غیر اخلاقی استعمال کو واضح کرنے کو کافی ہیں ۔ گو ہمارے علمائے کرام نے اب سیالکوٹ واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اس کے غلط استعمال کو اجاگر کیا ہے لیکن پھر بھی حکومتی سطح پہ بھی اس قانون کی صحیح تشریح ، اس کے صحیح استعمال اور شریعت کے تمام اصولوں کی روشنی میں اس پہ عمل درآمد کی ضرورت ہے تاکہ آئیندہ کوئی بےگناہ اس کی بھینٹ چڑھنے سے بچ سکے ۔ میڈیا ،بشمول پرنٹ، الیکٹرانک و سوشل ، کا بھی فرض ہے کہ عوام کا شعور بیدار کرے اور ملکی بدنامی کا باعث بننے والے ایسے واقعات کی روک تھام میں اپنا پورا مثبت کردار ادا کرے ۔ ان سب سے بڑھ کر علمائے کرام پہ بھی مذہبی فرض جبکہ ملکی قرض ہے کہ وہ مسجد اور منبر کو استعمال کرتے ہوئے اس تنگ نظری اور افواہوں کی بنیاد پہ کسی بیگناہ کی زندگیاں اجاڑنے کے گھناوٗنے کھیل کو رکوانے میں اپنا مکمل اور مثبت کردار ادا کریں ۔ اگر معاشرے کے ہر طبقے نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو یہ ملک ایسے وحشت ناک واقعات میں الجھ کر بدنامی کی دلدل سے کبھی نہیں نکل پائے گا ۔ اللہ رب العزت سے بھی دعا ہے کہ وہ ہماری راہنمائی فرمائے ، آمین ۔
جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کر
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے