Tarjuman-e-Mashriq

لچھو پری زاد، پولیس افسر اور ایک نیک آدمی

از قلم:  افتخار افی
کل رات تین بجے پرانی ٹولینٹن مارکیٹ مال روڈ سے مُلحقہ دیوار کے ساتھ میں چند دوستوں کے ساتھ کھڑا تھا سردی بہت زیادہ تھی محفل اختتام کو پہنچی تھی کہ یک دم ایک پری زاد بھاگ کر میرے پاس آیا مسکرا کر مجھے دیکھا اور میری ٹانگوں سے ایسے لپٹ گیا گویا ماں کی آغوش میں آگیا ہو میں نے متانت سے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور خود سے جُدا کر کے جب اُس کے چہرے کو دیکھا تو سانولی رنگت والا پری زاد مسکرا رہا تھا اُس کے بے ترتیب دانت اس قدر دل کش لگ رہے تھے کہ بیان نہیں کر سکتاچہرے پر ایسی اپنائیت تھی جیسے میری سگی اولاد ہو,نام پوچھنے پر بولا میرا نام ریحان ہے اماں مجھے لچھو کہتی ہے.
لچھو کے چہرے پر ایسا حُسن تھا کہ کائنات جھومتی دکھائی دی میں نے اُس کے نرم گدے جیسے ٹھنڈے ہاتھوں کو تھام کر پوچھا“لچھو کیا چاہئے”لچھو نے بڑے اپنے پن سے کہا“سو روپیہ”.اسی اثناء میں ایک بچی اور ایک بچہ بھی میرے سامنے آ کھڑے ہوئےوہ دونوں بچے بھی حُسن اور جمال کا پیکر تھے-ان پری زادوں میں ایک لچھو کا دوست تھا اور دوسری چہرے کے خدوخال سے لچھو کی بڑی بہن لگتی تھی,میں نے لچھو کے دوست سے پوچھا تجھے کیا چاہئے ؟
وہ لچھو کی تقلید کرتے ہوئے وہ بھی ایک سو روپے کا طلب گار نکلا جبکہ بچی نے پچاس کے نوٹ کا تقاضہ کیا میں نے جیب سے نوٹ نکالے,ٹوٹے ہوئے پیسے نہیں تھے-میں نے پانچ سو کا نوٹ لچھو کو دیا اور کہا کہ جاو کسی دکان سے بھان لے آؤ, لچھو اور اس کے ساتھی پری زاد بھاگ کر بازار کی طرف گئے.
اسی اثناء میں پولیس کی ایک جیپ اور ایک گاڑی کچھ فاصلے پر رُکی ایک باوردی افسر اتر کر میری طرف آیا جبکہ ایک گن مین اُس کے پیچھے تھا-دیگر پولیس والے گاڑی سے اُتر کر الرٹ کھڑے تھے.
میں اور میرے تمام دوست افسر کی طرف دیکھ رہے تھے وہ افسر جس کے چہرے پر ماسک تھا آنکھوں میں خوشی تھی.قریب آیا چہرے سے ماسک اتارامسکراتے ہوئے میری طرف ہاتھ بڑھا کر بولا
اسلام علیکم
میں نے جواب میں ہاتھ ملاتے ہوئے وعلیکم اسلام کہا،پولیس افسر جس کے بائیں ہاتھ میں تسبیح تھی اور چہرے پر ایک پر مُسرت شناسائی تھی،ڈیل ڈول ایسا گویا وردی بنی ہی اسی جسم کے لئے ہو،وہ ادھیڑ عمر افسر درویش لگ رہاتھا.اس سے پہلے کہ میں کوئی بات کرتا افسر بولا “ آپ کو دیکھا تو سوچا نیک بندے کو سلام کرتا جاؤں “.میں نے کہا شکریہ سر اس سے پہلے کہ میں کچھ اور کہتا وہ بارودی درویش واپس اپنی پولیس جیپ کی طرف لوٹا گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی مال روڈ پر نکل گئی ،یہ بھی پری زاد تھا جو ایک جملے سے میرے کندھوں پر ذمہ داری کا پہاڑ رکھ کر چلا گیا“نیک آدمی “ مجھے بخوبی اندازہ ہوگیا کہ میرے وی لاگز اللہ کے بندوں کے دلوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں.اس بات کا ادراک مجھے اُس درویش افسر کے جملے سے ہوا یہ وہ پری زاد تھا جو کمالی سے نا آشنا تھا مگر باغوں میں واک کرتے ویڈیو بناتے افتخار افی سے واقف تھا.مجھے افسر کا انداز اور جملہ بہت پسند آیا تھا ابھی میں اس تازہ واردات قلبی کے سرور میں غلطاں تھا کہ ایک دوست نے بتایا کہ یہ ڈی ایس پی انار کلی ہیں.تب مجھے معلوم ہوا کہ میرے دل و دماغ پر تاثر چھوڑ جانے والا ڈی ایس پی ہے.میں دل میں جشن منا رہا تھا کہ بابا جی اشفاق احمد کے پڑھائے سبق نے پولیس والوں کو بھی میرا گرویدہ بنا دیا ہے.سب دستوں سے ہاتھ ملا کر رخصت لی اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھا اس سے پہلے کہ میں گاڑی میں بیٹھتا لچھو کی آواز آئیانکل یہ لو پیسے.
میں تو بھول ہی چُکا تھا کہ لچھو پانچ سو کا بھان لینے گیا ہے،میں نے سو سو لچھو اور اس کے دوست کو دئے اور جب پچاس روپے لچھو کی بڑی بہن کی طرف بڑھائے تو وہ بولی “ مینوں وی سو دے “میں نے کہا تو نے پچاس مانگے تھے ، لینے ہیں لو ورنہ جاتا ہوںبچی نے پچاس کا نوٹ لے لیااُس کی چہرے پر مایوسی چھا گئیوہ بھی سو روپے لینا چاہتی تھی،اُس کے من میں لالچ آگیا تھا.
میں نے بھانپ کر ایک اور پچاس کا نوٹ اُس بچی کی طرف بڑھایا تو بچی کا مُرجھایا چہرہ کھل کر گلاب ہوگیا ، میں نے اُس تینوں پری زادوں کے ساتھ تصاویر بنوائیں اور وہ تینوں خوشی خوشی اسی پرستان کی سمت بھاگ گئے جہاں سے آئے تھے،میں وہاں سے لوٹ آیاآج صبح جب میں جاگا تو ناشتے کے وقت درویش ڈی ایس پی مجھے یاد آگیا جو مجھے “نیک آدمی” کا خطاب دے گیا اور لچھو بھیجو مجھے مُسکراہٹ کا خزانہ عطا کر گیاپری زاد ہمارے ارد گرد ہی ہوتے ہیں بس ہم اُنہیں پہچان نہیں پاتےاللہ ہمیں آسانیاں عطا کرے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے آمین.
نوٹ: بچے کا نام فرضی ہے مگر واقعہ سچا ہے
Exit mobile version