یہ لندن کے مضافات میں ایک ولایتی ریستوران تھا جہاں سی فوڈ کھانے کے لئے لوگ دور دراز سے کھچے چلے آتے۔ اسی ریستوران کے ایک میز پر پانچ پاکستانی دوست کھانے کے بعد اصرار کر رہے تھے کہ کھانے کا بل میں ادا کروں گا، ایک کہہ رہا تھا کہ یہ علاقہ میرے گھر سے قریب ہے اس لئے بل میں دوں گا دوسرا کہنے لگا کہ کھانے کی دعوت میں نے دی تھی اس لئے میزبانی کا حق میرا بنتا ہے۔ قریبی میزوں پر کھانا کھاتے ہوئے گورے اس تکرار کو دلچسپی سے دیکھ رہے تھے اور بل لینے کا منتظر سفید فام بیرا مسکرائے جا رہا تھا۔ برطانیہ کے بیشتر ریستورانوں میں جہاں کہیں بھی چار پاکستانی دوست مل کر کھانے کے لئے جاتے ہیں وہاں یا تو چپکے سے کوئی ایک دوست جا کر بل ادا کر دیتا ہے یا پھر بل کھانے کے میز تک پہنچ جائے تو ہر ایک بل ادا کرنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتا ہے جبکہ گورے دوستوں میں یہ رواج نہیں ہے وہ اگر اکٹھے کھانا کھانے جائیں تو ہر ایک صرف اپنے حصے کا بل ادا کرتا ہے۔ دوستوں کے کھانے کا بل ادا کرنا ہم پاکستانیوں میں میزبانی اور دوستی کا ایک خوشگوار تقاضا سمجھا جاتا ہے۔ کیا صرف کھانے کا بل ادا کرنا ہی دوستی کا تقاضا ہے یا اس کے علاوہ بھی دوستی کسی اور چیز کا تقاضا کرتی ہے۔ برطانیہ میں دوستی کے معیار پاکستانی معاشرے سے یکسر مختلف ہیں۔ یہاں بے تکلف دوست ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر یا ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سرِ عام چلتے پھرتے نظر نہیں آتے۔دوست صرف وہی ہوتا ہے جو ضرورت اور وقت پڑنے پر آپ کے ساتھ کھڑا ہو اور آپ کے کام آئے۔ میرے ایک ملنے والے ہیں جن کو ایک زمانے میں لوگوں سے دوستیاں کرنے کا بڑا شوق تھا۔ ایک بار انھیں اپنے کاروبار کے لیے چند ہزار پونڈ کی ضرورت پڑی تو انہوں نے اپنے سب سے عزیز دوست سے رابطہ کیا جو مالی طور پر بھی بہت خوشحال تھے لیکن اُن صاحب نے آڑے وقت مالی مدد کرنے کی بجائے ٹال مٹول سے کام لیا اور کہا کہ تم مجھے چند ماہ بعد کی تاریخ کا چیک پیشگی سائن کر کے دو تو میں تمہیں رقم ادھار دے سکتا ہوں۔ اس دھچکے کے بعد سے اُن کا دوستی پر سے یقین ہی اُٹھ گیا۔ کہتے ہیں کہ دوستی اور رشتہ برابری کے لوگوں کے ساتھ کرنا چاہئے کیونکہ فارسی کہاوت ہے کہ کبوتر با کبوتر باز با باز یعنی کبوتر کبوتروں سے اورباز بازوں سے ہی محبت کرتے ہیں۔ دوستی اور محبت کی جاتی ہے یا ہوجاتی ہے؟ اس بارے میں لوگوں کی مختلف آراء ہیں۔ بہت سے لوگ جن سے ہماری بچپن اور لڑکپن کی دوستی ہوتی ہے جب وہ بڑے ہو جاتے ہیں اور زندگی کے نشیب وفراز سے گزرتے ہیں تو وہ بالکل مختلف انسان بن جاتے ہیں یا بہت سے دوستوں کے رویوں میں گھٹیا پن آ جاتا ہے اور بہت سے دوست عمدہ اور اچھی عادتیں اپنا لیتے ہیں۔ دوستوں کی جن عادتوں اور رویوں کی وجہ سے ہماری اُن سے دوستی استوار ہوئی ہوتی ہے اُن کی وہ عادتیں اور رویے ہی بدل جاتے ہیں جیسے پھل پکتا ہے تو کسی کی رنگت سبز،پیلی یا سرخ ہو جاتی ہے اور کسی کا ذائقہ میٹھا یا ترش یا پھر کڑواہو جاتا ہے۔ کالج کے دنوں میں میرا ایک کلاس فیلومیرا بہت گہرا دوست تھا اس کے والدین اور خاندان کے لوگ بہت ہی وضع دار اور شرافت کی مثال تھے۔ میرا یہ دوست بھی یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے تک اور بہت ہی دیانتدار اور یاروں کا یار تھا لیکن سرکاری افسر بنتے ہی اس کی ترجیحات بدل گئے ں۔ رشوت، شراب نوشی اور رنڈی بازی اس کی زندگی کا معمول بن گئے اور اب اس کے دوستوں میں صرف وہی لوگ شامل ہیں جو ناجائز طریقے سے مال بنانے اور مال لٹانے کے چکر میں پڑے رہتے ہیں۔ انسان اپنے دوستوں سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔انکی اچھی بُری عادتوں کا اثر بڑی تیزی سے ہوتا ہے، کچھ کو دیکھ کر عبرت پکڑتا ہے کچھ کو دیکھ کر سبق حاصل کرتا ہے اور کچھ کی پیروی یا مشوروں پر عمل کر کے کامیابی کی منزل تک پہنچتا ہے۔ میرے ایک دوست کا حلقہ احبات بہت وسیع ہے جس میں ہر قماش کے لوگ شامل ہیں۔ فراڈیے، زانی، شرابی، جواری لیکن وہ خود ان سب علتوں سے محفوظ ہیں اور ایک شاندار اور مطمئن انسان ہیں اور بہت عمدہ باتیں کرتے ہیں۔ میں نے ایک دن اُن سے استفسار کیا کہ آپ نے یہ سب اچھی باتیں کہاں سے سیکھیں تو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ اپنے دوستوں سے۔ میں نے کہا کہ آپ کے دوستوں میں تو کوئی معقول شخص میں نے آج تک نہیں دیکھا پھر آپ نے اُن سے اچھی باتیں کیسے سیکھ لیں تووہ کہنے لگے کہ جو سب کام میرے دوست کرتے ہیں، میں کوشش کرتا ہوں کہ وہ کام نہ کروں کیونکہ میں جب اپنے ان دوستوں کی زندگی میں جھانک کر دیکھتا ہوں کہ وہ ان کاموں کی وجہ سے کن کن مصیبتوں اور نفسیاتی مسائل سے گزر رہے ہیں تو مجھے اُن سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے دوستوں میں جو بدنام لوگ شامل ہیں کیا آپ کو ان کی دوستی سے خجالت نہیں ہوتی تو انہوں نے جواباً قتیل شفائی کا یہ شعر سنایا۔
وہ میرا دوست ہے سارے جہاں کو ہے معلوم
دغا کسی سے کرے وہ تو شرم آئے مجھے
کہنے لگے ہر شخص اپنے اعمال کا خود جوابدہ ہوتا ہے۔ مجھے تو دوستوں کی دوستی سے غرض ہے جب وہ مجھے ملتے ہیں تو میرا وقت ان کے ساتھ بہت اچھا گزرتا ہے اور ہم ایک دوسرے سے اپنی اپنی زندگی کے مشاہدات اور تجربات کو شیئر کرتے ہیں۔ ہماری ہر ملاقات ہمیں پھر سے ہشاش بشاش کردیتی ہے۔ اس کے علاوہ مجھے اپنے دوستوں سے کچھ اور نہیں چاہئے ویسے میں تو ہر وقت دعا کرتا رہتا ہوں کہ مجھے اپنے دوستوں سے کبھی کوئی کام نہ پڑے کیونکہ کام پڑنے پر اکثر وہی دوست کام نہیں آتے جن سے آپ نے توقعات وابستہ کر رکھی ہوتی ہیں۔ اچھے دوست خدا کی انمول نعمت ہوتے ہیں جن کے سامنے آپ اپنے دل کی ہر بات کہہ سکتے ہیں۔ زندگی کے بند کمرے میں اچھے دوست ایک روشن دان کی طرح ہوتے ہیں جہاں سے ہمیں روشنی اور تازہ ہوا میسر آتی ہے۔ ہماری زندگی میں بہت سے عارضی دوست ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے ذریعے سے ہمیں اپنے بہترین دوست مل جاتے ہیں۔بعض لوگ دوستوں کو سیڑھی کے طور پر استعمال کر کے بڑے لوگوں سے تعلقات استوار کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ کچھ دوست ایسے بھی ہوتے ہیں جو زندگی کے سفر میں وقت سے پہلے ہم سے جدا ہو کر اگلے سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں یا ہجرت کر کے سات سمندر پار جا بستے ہیں اور ہمیں زندگی کے بہت سے مرحلوں میں ان کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔دوستی ایک طرح سے اعتماد کے رشتے کا دوسرا نام ہے اور کچھ لوگوں سے چند ملاقاتوں کے بعد ہی اعتماد کا یہ رشتہ قائم ہو جاتا ہے اور کچھ دوستوں سے سالہاسال کے تعلق کے بعد بھی اعتماد اور اعتبار کا سلسلہ نہیں جڑتا۔ آج کل سوشل میڈیا پر فرینڈ ریکوئیسٹ کے ذریعے جس دوستی کا آغاز ہوتا ہے معلوم نہیں اسے دوستی کے کس درجے پر رکھنا چاہئے۔ جولوگ سیکڑوں یا ہزاروں افرادکے دوست ہوتے ہیں وہ درحقیقت کسی کے دوست نہیں ہوتے۔ دوستی ہمیشہ دوطرفہ ہوتی ہے، صرف اسی انسان کو مخلص دوست ملتے ہیں جو خودبھی دوستوں کے ساتھ مخلص ہوں۔ ہمارے بہت سے اوورسیز پاکستانی کچھ مشہور لوگوں اور پاکستان سے آنے والے سیاست دانوں اور بااختیار افسروں کی خاطر مدارت اور میزبانی کرکے یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ اُن کے دوست بن گئے ہیں لیکن جب انہیں ان وی آئی پی ٹائپ نام نہاد دوستوں سے کوئی کام پڑتا ہے تو وہ ان کا نام بھی بھول چکے ہوتے ہیں۔ خود غرضی کے موجودہ دور میں اگر کوئی شخص کسی سیاستدان بااختیار افسر کو اپنادوست سمجھے تو اس سے بڑا نادان کوئی اور نہیں ہو سکتا۔سیاست دان اور بااختیار لوگ صرف اپنے مفادات کے دوست ہوتے ہیں۔ ان سے کسی قسم کی بھلائی کی امید رکھنا ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی مرغے سے توقع کریں کہ وہ انڈے دینا شروع کر دے گا۔ وہ شخص بہت تنہا اور محروم ہوتا ہے جس کا کوئی مخلص دوست نہ ہو لیکن مفاد پرستوں کی دوستی سے تنہائی بہتر ہے۔ اچھے اور برے دوستوں کا ہماری زندگی پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ اکثر لوگوں کو سگریٹ نوشی، شراب اور جوئے، رنڈی بازی اور اس طرح کی کئی عادتیں اپنے دوستوں کی وجہ سے پڑتی ہیں جبکہ وہ لوگ جو اس طرح کی کسی بھی علت سے بچے رہتے ہیں اس کی وجہ بھی اُن کے سچے اور صالح دوست احباب ہوتے ہیں۔ دوستی صرف بے تکلفی کا نام نہیں۔ اچھے اور لنگوٹیے دوست ایک دوسرے کے ہمراز اور رازوں کے محافظ بھی ہوتے ہیں۔ لیکن پھر بھی کہتے ہیں کسی اچھے سے اچھے اور مخلص دوست سے بھی اپنے راز چھپانے چاہئیں جہاں خاموشی سے کام چل سکتا ہو وہاں بولنے سے گریز کرنا چاہئے۔ یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ جو لوگ ایک دوسرے کے بدترین دشمن بنتے ہیں اُن میں سے ایک دوسرے کے بہترین دوست رہے ہوتے ہیں اسی لئے کسی اچھے سے اچھے دوست کو بھی اپنا ہمرازیا رازدار نہیں بنانا چاہئے۔
دل دہل جاتا ہے یہ سوچ کے فیضان مرا
میں نے سب راز ہی یاروں کو بتائے ہوئے ہیں
دوست
پرانی پوسٹ