زرا تو جھیل کنارے آ ۔۔۔۔۔۔دو جگہیں ایسی تھیں جہاں جھیلوں کے تعاقب میں جایا جا سکتا تھا ۔۔ایک واپس ناران جایا جائے اور ادھر سے سہوچ گاؤں سے سپٹ ویلی کوہستان پہنچا جائے جہاں دو سے تین جھیلیں دیکھی جاسکتی ہیں ۔۔۔یا پھر جلکھڈ سے نوری ٹاپ کے ذریعے کشمیر اترا جائے اور رتی گلی کا دیدار کیا جائے ۔۔۔میرا دل نیلم نیلم پکار رہا تھا ۔۔۔جبکہ دماغ بار بار بچوں کے ہمراہ نوری ٹاپ عبور کرنے کے فیصلے کی نفی کررہا تھا ۔۔۔دل ہی حاکم ہوتا ہے تو فیصلہ بھی دل کا ہی ہوا۔۔۔میں نے رات کھانے پر ہی صبح کشمیر براستہ نوری ٹاپ جانے کا اعلان کردیا ۔۔۔
بچے بہت خوش تھے ۔۔اہلیہ اور والدہ پریشان تھیں ۔۔لیکن بمشکل تمام ہم سب متفق ہوگئے ۔۔۔مجھے درہ نوری نار اور نوری ٹاپ کی مشکلات کا اندازہ تھا لیکن باقی سب بہت خوش تھے اور میں ان کی خوشی غارت نہیں کرسکتا تھا ۔۔۔
بیسر سے جلکھڈ چار کلومیٹر اور پھر جلکھڈ سے نوری نار کے ذریعے نوری ٹاپ ۔۔جلکھڈ 10,000 فٹ بلندی پر واقع ہے جبکہ نوری ٹاپ 12500 فٹ بلند ہے ۔۔۔یعنی ہمیں 2500 فٹ بلندی پر ایک کچے اور پتھریلے ٹریک پر جانا تھا جبکہ بارش کسی بھی وقت آسکتی تھی ۔۔جلکھڈ سے نوری ٹاپ اور پھر ٹاپ سے کشمیر کا پہلا گاؤں سرگن ۔۔۔ان کے درمیان 52 کلومیٹر کا فاصلہ ہے ۔۔۔جلکھڈ سے ٹاپ اٹھارہ کلومیٹر جبکہ ٹاپ سے سرگن تک 34 کلومیٹر تک مسلسل اترائ ہے ۔۔۔
صبح دس بجے جلکھڈ سے روانگی ہوئ ۔۔جلکھڈ سے نکلتے ساتھ ہی کچا پتھریلا ٹریک بلندی کی جانب جانا شروع ہوجاتا ہے ۔۔۔بچے بہت خوش تھے کیونکہ انہیں راستے کی پریشانیوں کا اندازہ نہیں تھا ۔۔ان کے ساتھ باپ تھا ،ماں کے ساتھ بیٹا تھا ،بیوئ کے ساتھ خاوند تھا ۔۔۔سب خود کو محفوظ تصور کررہے تھے ۔۔۔لیکن باپ ،بیٹا اور خاوند کا اعزاز لیے میں جانتا تھا کہ اللہ ہی ہم سب کا حامی وناصر ہے ۔۔اس طویل ٹریک میں کسی ذی روح سے ہمارا سامنا نہیں ہونا ۔۔۔خدانخواستہ جیپ خراب ہوگئ تو میں اکیلا کیا کروں گا ۔۔۔ہر موڑ کے بعد دور بل کھاتا جیپ ٹریک نظر آتا ۔۔۔بچوں کی خوشی دیدنی تھی ۔۔۔میں بھی اپنے رب کے آسرے چلا جارہا تھا ۔۔درخت اور سبزہ ختم ہوچکا تھا ۔۔۔نیچے وادی میں نوری نار نالہ بل کھاتا چلا جارہا تھا ۔۔۔مجھے آج تک سمجھ نہیں آئ کہ پانی ان میدانوں میں بل کھاتا کیوں جاتا ہے ۔۔۔اگر وہ سیدھا بھی جائے تو بھی یہاں تو اسے روکنے والا کوئ نہیں ۔۔۔لیکن شاہد وہ بھی ان حسین وادیوں میں سے گزرتے ہوے مست ہو جاتا ہے ۔۔۔اوپر پہاڑوں سے جگہ جگہ پانی بہہ کر آرہا تھا اور نیچے پستیوں میں بہتے نوری نار نالے کا حصہ بن رہا تھا ۔۔۔قریبا چھ کلو میٹر سفر کے بعد وادی میں نوری نار نالے کے کنارے ایک چھوٹی جھیل دکھائ دی ۔۔۔سر سبز میدان کے بیچوں بیچ انگوٹھی میں جڑی یہ جھیل فورا ہی آنکھوں کے راستے دل میں اتر جاتی ہے ۔۔۔کچھ دیر اس جھیل کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کیں ۔۔۔انہی جھیلوں کے تعاقب میں تو اس جان لیوا راہ کا انتخاب کیا تھا ۔۔۔ٹریک مسلسل بلند ہوتا چلا جارہا تھا ۔۔۔پہاڑی ڈھلوانوں پر سرخ اور کاسنی رنگ کے پھول دبیز تہہ بچھائے ہوئے تھے ۔۔۔سامنے پہاڑوں پر برف نظر آنا شروع ہوئ تو اندازہ ہوا کہ ہم ٹاپ کے قریب ہیں ۔۔۔ٹاپ سے قبل آخری چڑھائ بہت خطرناک تھی قریباً دو سو فٹ طویل اس چڑھائ میں بڑے بڑے گول پتھر جن کی سطح چکنی تھی اور وہ زمین میں گڑے تھے ۔۔۔ان کے اوپر سے گاڑی نے گزرنا تھا ۔۔۔۔یہاں میں آف روڈنگ کے شوقین حضرات کو ایک راز کی بات بتا دوں ۔۔۔عموماہم لوگ سمجھتے ہیں کہ ایسی چڑھائ کے لیے گاڑی کو پیچھے سے ایکسلیریٹر دے کر طاقت اور سپیڈ کے ساتھ لایا جائے اور چڑھائ عبور کی جائے ۔۔۔لیکن یہ غلط ہے ۔۔۔ایسی صورتحال میں ان چکنے پتھروں پر گاڑی پھسل جاتی ہے اور ہمارے پاس راہ کی چوڑائ اتنی کم ہوتی ہے کہ ہزاروں فٹ نیچے جانے کے سوا کوئ چارہ نہیں بچتا ۔۔۔جو دوہزار فٹ ہم ڈیڑھ گھنٹے میں آئے ہوتے ہیں اگلے ڈیڑھ منٹ ہمیں دوبارہ واپس اسی بلندی پر دھکیل دیتے ہیں جہاں سے شروعات کی ہوتی ہے ۔۔۔انتہائ تحمل کے ساتھ ایک ایک پتھر پر سے ہلکے پاؤں یعنی کم سپیڈ سے گاڑی گزاری جائے ۔۔
آخری چڑھائ کے بعد ہم لوگ ٹاپ پر تھے ۔۔چاروں طرف سے کم بلند پہاڑوں کے بیچوں بیچ پیالے کے پیندے کی مانند یہ ایک خوبصورت ٹاپ تھا ۔۔۔نوری ٹاپ سے دو کلومیٹر پہلے ضلع مانسہرہ کی حد ختم ہوجاتی ہے اور آزاد کشمیر شروع ہوجاتا ہے ۔۔۔یعنی کہ نوری ٹاپ آزاد کشمیر میں ہے ۔۔۔
ٹاپ پر گاڑی روک کر ایک گھنٹہ قیام کیا ۔۔مکمل تنہائ میں گزرا یہ ایک گھنٹہ اللہ کی نعمت تھی جو اس روز مجھے حاصل تھی ۔۔میں نہیں سمجھتا کہ مجھ سے پہلے ضلع راولپنڈی سے کسی نے خواتین و بچوں کے ہمراہ خود ڈرائیو کرکے نوری ٹاپ عبور کیا ہو۔۔۔
ٹاپ سے کشمیر کی جانب نیچے نوری مجھے نیلم سے ملانے کو آوازیں دے رہی تھی ۔۔یخ بستہ ہوائیں چل رہی تھیں اور بیٹی کو سانس لینے میں بھی کافی دشواری کا سامنا تھا ۔۔۔اترائ کو آسان سمجھ رہا تھا لیکن پستیوں میں اترنے کو بھی وقت لگتا ہے یہ اس دن معلوم ہوا ۔۔۔34 کلو میٹر کی ایک طویل اترائی سامنے تھی ۔۔۔ہر موڑ سے جیپ کو دو بار آگے پیچھے کرنا پڑتا اور ایک بار دل کلیجہ منہ کو آجاتا تھا ۔۔۔معلوم دنیا میں کسی کو نہیں معلوم تھا کہ میں آج اپنی آل اولاد سمیت کہاں ہوں ۔۔۔لیکن میری اور بچوں کی جنت میرے ساتھ تھی تو اللہ کی مدد شامل حال رہی اور واپسی کا راستہ کم ہوتا چلا گیا ۔۔۔۔نوری نار نالہ ٹاپ کے دوسری جانب دریائے کنہار میں جاملتا ہے ۔۔۔جبکہ ٹاپ کی کشمیر والی جانب کافی بڑا نالہ جسے دریا بھی کہہ سکتے ہیں یہ یقیناً دریائے نیلم میں جاکر ملے گا ۔۔۔کشمیر کی جانب گلیشیر بہت زیادہ اور بڑے ہیں جبکہ دو چار جگہ شدید تیز پانی میں سے ٹریک گزرتا ہے ۔۔۔۔بلکہ تیز پانی شاہد ٹریک پر سے گزرتا ہو ۔۔۔۔لیکن دونوں صورتوں میں ہمیں وہاں سے گزرنا تھا کیونکہ واپسی کو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔قریبا بیس کلومیٹر اترائی کے بعد درخت اور سبزہ شروع ہوجاتا ہے لیکن اترائی میں کمی نہیں ہوتی ۔۔۔یہاں چھوٹی چھوٹی جھیلوں اور ہمالین مارموٹ بھی جابجا ملتے ہیں ۔۔۔۔۔
ایک مشکل صورتحال یہ پیش آئ کہ گاڑی کے بریک نے گرم ہوکر کام کرنا چھوڑ دیا حالانکہ میں نے حتی الوسع کوشش کی کہ بریک کم سے کم استعمال کروں اور گئیر میں اتروں ۔۔۔لیکن پھر بھی بریک نے میر جعفر کی طرح عین وقت پر دھوکہ دے دیا ۔۔۔اس کے بعد کا سفر پہلے گئیر میں طے کیا اور ڈیڑھ گھنٹے کا راستہ اڑھائی گھنٹے میں مکمل ہوا الحمد للہ ۔۔۔۔
نوری نار ٹاپ کا کشمیر والا حصہ ،ناران والے حصہ کی نسبت بہت زیادہ خوبصورت ہے ۔۔۔لیکن جو لوگ یہ ٹاپ کرنا چاہتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ گروپ کی صورت میں سفر کریں تاکہ کسی ناگہانی مشکل سے باآسانی نبٹا جاسکے اور سب سے اہم یہ کہ اس درہ کو جلکھڈ سے سرگن کی جانب عبور کیا جائے اس میں پچیس سو فٹ چڑھائی چڑھنا پڑتی ہے جبکہ کشمیر کی جانب سے اس درہ کو عبور کرنے کی صورت میں چار ہزار فٹ اونچائی پر جانا پڑتا ہے ۔۔۔۔یہ میرا مشورہ ہے باقی پنچابی کی کہاوت ہے کسی نے اونٹ سے پوچھا چڑھائ بھلی یااترائ تو اس نے ایک ممنوع گالی دی اور کہا میرے لیے دونوں برابر ہیں ۔۔۔۔
ایڈونچر کے شوقین حضرات جولائی ،اگست ،ستمبر میں یہ درہ عبور کرسکتے ہیں ۔۔۔یہ ایک متبادل راستہ بھی ہے نیلم وادی کا جو ہندوستانی افواج کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے اور محفوظ بھی ۔۔۔اس سڑک کو اگر پختہ کردیا گیا جس کا امکان موجود ہے تو پھر ایڈونچر کے شوقین محروم ہو جائیں گے ۔۔۔اسلیے پہلی فرصت میں اس درہ کو عبور کرنیکی منصوبہ بندی کریں ۔۔۔ڈرائیور اور گاڑی پر اعتماد ہونی چاہیے ۔۔۔دونوں میں سے ایک کی کمزوری بھی آپ کو زندگی کے آخری سفر پر روانہ کرسکتی ہے ۔۔۔۔
کشمیر کی آبادیاں اور گاؤں شروع ہوچکے تھے سرگن نالہ دریا بنا پھنکارتا ٹریک کے ساتھ چل رہا تھا ہم بھی دھیرے دھیرے منزل سے قریب ہورہے تھے ۔۔۔۔جس دل کی مان کر اس راہ پر چلا آیا تھا وہ دل ذات باری کا مشکور تھا اور قلبی سجدہ شکر بجا لارہا تھا ۔۔۔۔
واقعی پاک ہے وہ ذات جو اپنے ایک گنہ گار بندے کو دو خواتین ،دو بچیوں ،اور دو بچوں کی ہمراہی میں ایک خطرناک ترین راہ سے ہر بلا سے محفوظ انسانی آبادیوں میں دوبارہ لے آئی تھی ۔۔۔۔۔جاری ہے