Tarjuman-e-Mashriq

-4 -بریگیڈیئرصولت رضا کی انکشاف انگیز یادداشتیں

بریگیڈیئر (ر) صولت رضا 6 اکتوبر 1952ء کو سید رفاقت حسین کے ہاں پشاور میں پیدا ہوئے۔ جو ایک سرکاری ملازم کے طور پر وہاں متعین تھے۔ ابتدائی تعلیم ڈی پی نیشنل سکول ٹیونیشیا لائنزکراچی سے حاصل کی۔ماڈل ہائی سکول ماڈل ٹائون لاہورسے میٹرک،اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے انٹرمیڈیٹ، اسلامیہ کالج سول لائنز سے بی اے اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کیا۔1971ء میں پاک آرمی جوائن کی اور پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے تربیت حاصل کی۔ پاسنگ آئوٹ کے بعد توپ خانہ کی ایک یونٹ ’’23 فیلڈ رجمنٹ آرٹلری‘‘میں تعینات کیے گئے۔اکتوبر 1973ء میں ان کی خدمات مستقل طور پر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’’انٹر سروسز پبلک ریلیشنز‘‘ کے حوالے کر دی گئیں۔ جولائی 2003ء میں آئی ایس پی آر سے بطور بریگیڈیئر ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔

صولت رضانے  اپنی کتاب ’’کاکولیات‘‘ سے بہت شہرت پائی۔کتاب کا پہلا ایڈیشن 1975ء میں شائع ہوا اور اس کا 27واں ایڈیشن 2012ء میں شائع ہوا۔یہ معلوم ایڈیشنز کی تعداد ہے جو مصنف کے پبلش نے شائع کیے۔ کہاجاتاہے کہ اس کتاب کے ’’نامعلوم ایڈیشنز‘‘کی تعداد بہت زیاد ہ ہے۔یہ پاکستان ملٹری اکیڈمی میں زیر تربیت ایک کیڈٹ کی دلچسپ آپ بیتی ہے۔ پیش لفظ میں ممتاز ادیب بریگیڈیئر صدیق سالک نے لکھا: ’’کیپٹن صولت رضا سنگلاخ فوجی زمین سے پھوٹنے والا ایک تازہ چشمہ ہے۔ اسی زمین سے پھوٹنے والے کئی چشمے مثلا ً کرنل فیض احمد فیض،میجر چراغ حسن حسرت ، میجر جنرل شفیق الرحمن، کرنل محمد خان اور میجر ضمیر جعفری پہلے ہی دریااور پھر سمندر بن چکے ہیں۔ صولت رضا میں بھی چشمہ سے سمندر بننے کی صلاحیت موجود ہے‘‘۔

 یہ دن شادی کے شور شرابے میں ہی گزر گئے۔ اس افراتفری میں کوئٹہ واپسی اور وہاں سے دوروز کے وقفے کے بعد دوبارہ اندرونی سلامتی کے فرائض انجام دینے والے فوجی دستوں کے ساتھ اگلے مورچوں پر خبر اور تصویر کے لئے سرگرداں ہوگئے۔ عجب صورتحال کاسامنا تھا ۔ ایک سیاستدان کے فیصلے کے مطابق قومی فوج اور دوسرے سیاستدان کے حکم پر ’’شورش پسندوں‘‘نے ایک دوسرے کو نشانے پر رکھا ہواتھا۔یہ سب کچھ پاکستان کی جغرافیائی حدود میں برپاتھا۔ دکھ کی بات ہے کہ گرفتار ہونے والے پچانوے فیصد شورش پسند اردگرد کے ماحول سے ہی بے خبر تھے ۔ سردار ہی ان کے لیے زمین و آسمان تھا۔بلوچستان کے یہ علاقے اگر پاکستان میں شامل تھے تو انہیں ترقی کے ان ثمرات سے بہر ہ مند ہونا چاہیے تھا جس سے دیگر علاقے لطف اندوز ہورہے ہیں۔بدقسمتی سے اس حوالے سے سیاسی عزم ناپید نظر آیا۔ مقامی سیاسی قائدین ایک دوسرے کے درپے تھے ۔ مری اور مینگل علاقے میں آپریشن شروع ہوا تونواب اکبر بگٹی نے بھٹو صاحب سے ہاتھ ملاتے ہوئے تمام اقدامات کی حمایت کر دی۔ مجھے یا دہے کہ فوجی آپریشن کے حق میں اکبر بگٹی صاحب نے کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ میں ولولہ انگیز خطاب کیا۔بھٹوصاحب ہر لحاظ سے بلاشرکت غیرے پاکستان کے حکمران تھے ۔ پیپلز پارٹی ذاتی جماعت تھی جس میں کسی کو اختلاف رائے کی جرات نہیں تھی۔رہی سہی کسر جنرل ٹکا خان کی تعیناتی نے مکمل کر دی تھی ۔بھٹو صاحب نے پاک آرمی کے آخری کمانڈرانچیف لیفٹیننٹ جنرل گل حسن کو’’غیر روایتی‘‘انداز میں رخصت کر کے جنرل ٹکا خان کو چیف آف آرمی سٹاف مقر ر کر دیاتھا۔موصوف اس سے قبل مشرقی پاکستان میں بھٹو صاحب کے ’’سیاسی عزم‘‘کی’’ عسکری انداز ‘‘میں تکمیل کر چکے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعدجنرل ٹکا خان پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے ۔راولپنڈی سے الیکشن لڑا اور ناکام ہوئے۔پارٹی کے جنرل سیکرٹری بھی رہے ۔ فوج کے سابق سربراہ کو میں نے اپنی آنکھوں سے موچی دروازہ لاہور کے باہر پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے درمیان’’حواس باختہ ‘‘دیکھا۔جنرل ٹکا خان کی ریٹائرمنٹ کے دن قریب آرہے تھے ۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایک اور ٹکاخان کی تلاش درپیش تھی۔اس حوالے سے چہ میگوئیاں جاری تھیں۔کئی نام گردش میں تھے تاہم ویٹو بھٹو صاحب کے پاس تھا۔چند روز شش وپنج میں گزرے ۔ایک دن کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اکبر خان اور دیگر افسران ڈنر کے بعد ہلکی پھلکی گفتگو میں مصروف تھے ۔ کور کمانڈر نے میری جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ہاں بھائی ، پی آر او ،پریس کی کیا خبر ہے ؟‘‘میں نے بے ساختہ جواب دیا کہ’’ سر!دعا کریں نیا آرمی چیف فوج سے ہی ہو‘‘۔ اس بات پر خاموشی چھائی گئی ۔پھر ایک مشترکہ قہقہہ بلند ہوا ۔’’کیا مطلب؟‘‘کئی آوازیں آئیں؟۔میں نے کہا:’’بھٹوصاحب سے غیر معمولی فیصلہ متوقع ہے ۔ وہ خود آرمی چیف بن کر کور کمانڈر ز کے ذریعے فوج کو پیشہ وارانہ طور سے مصروف رکھ سکتے ہیں‘‘۔سب نے میری بات کو قہقہوں میں اڑا دیا۔

جنگ 1971ء کے بعد فوج کے بار ے میں پیپلزپارٹی کی جانب سے نازیبا پروپیگنڈے کا سلسلہ جاری تھا۔ جنرل ٹکاخان نے اس رویے کو نظر انداز کئے رکھا۔ مشرقی پاکستان کے حوالے سے بے سروپا باتیں’’فیڈ ‘‘کی جارہی تھیں۔دراصل بھٹو صاحب کی حکمت عملی یہ تھی کہ مشرقی پاکستان میں ہزیمت کا تمام تر بوجھ فوج پر ہی رہے اور جذباتی قوم کے سامنے پلٹن میدان میں سرنڈر کی تصاویر اور فلمیں پیش کر کے سیاسی رہنمائوں کے براہ راست ملوث ہونے کو اذہان سے نکال دیاجائے۔

بہر حال ایک روز کور کمانڈر ملتان لیفٹیننٹ جنرل محمد ضیاء الحق کی جنرل ٹکا خان کے بعد آرمی چیف مقرر ہونے کا اعلان کر دیا گیا۔بھٹوصاحب نے تقریباً آٹھ لیفٹیننٹ جنرلز کو نظر انداز کر کے جنرل ضیاء الحق کو اس اہم عسکری منصب کے لئے منتخب کر لیا۔کوئٹہ کے’’ کور ٹیکٹیکل ہیڈ کوارٹرز ‘‘میں سناٹا تھا۔ تقرری غیر متوقع تھی ۔ لیفٹیننٹ جرنل محمد اکبر خان کو آرمی چیف تعینات ہونے کی بہت امید تھی۔شاید انہیںجنرل ٹکا خان نے بھی امید دلائی تھی۔ اس وقت کے کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل عبد المجید ملک نے ریٹائرمنٹ کے بعد لکھی گئی کتاب ’’ہم بھی وہاں موجود تھے‘‘میں نئے آرمی چیف کی تقرری کے بارے میں ذاتی معلومات درج کی ہیں۔ان کے مطابق وزیر اعظم بھٹو نے متعدد بار کہا کہ وہ انہیں آرمی چیف بنانا چاہتے ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل عبد المجید ملک رقمطراز ہیں کہ انہیں بھی لیفٹیننٹ جنرل محمد ضیاء الحق کی ترقی اور تقرری پر حیرت ہوئی۔نئے آرمی چیف کی تقرری کے اعلان کے بعد لیفٹیننٹ جنرل محمد اکبرخان نے فوری طور پر ریٹائرمنٹ کے لئے درخواست دے دی جو منظور کر لی گئی ۔ کور میں الوداعی تقریب ہوئی ۔ ایک ہیلی کاپٹر میں رخصت ہونے والے کور کمانڈر اپنے زیر کمان افسروں اور جوانوں کو’’خدا حافظ ‘‘کہنے کے لئے روانہ ہوگئے۔میں بھی اپنی ٹیم کے ہمراہ موجود تھا۔ روایتی تقاریر میں نئے آرمی چیف کے لئے نیک خواہشات کا اظہارکرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل محمد اکبر خان کراچی واپس پہنچ گئے جہاں اختتامی الوداعی تقریب کا اہتمام تھا۔قائمقام کور کمانڈر میجر جنرل جہانزیب ارباب کو مقرر کردیا گیا۔

جنرل ہیڈ کوارٹر زمیں آرمی چیف کا منصب سنبھالنے کے بعد جنرل محمد ضیاء الحق پہلے دورے پر کوئٹہ تشریف لائے۔میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھاکہ اٹک قلعے میں فیلڈجنرل کورٹ مارشل کے سربراہ میجر جنرل محمد ضیاء الحق کے ذہن میں لیفٹیننٹ صولت رضا کی پہچان موجود ہے۔

کوئٹہ ایرپورٹ پرتازہ دم آرمی چیف جہازسے اترے ، سینئر آرمی افسروں کی استقبالیہ قطار جہاز کی سیڑھیوں کے ساتھ موجود تھی ۔ ڈیوٹی پر موجود جونیئر افسر ایک فاصلے پر کھڑے تھے۔ جنرل محمد ضیاء الحق سینئر افسروں سے مصافحہ کر کے جونہی فارغ ہوئے تو ان کی نظر جونیئرافسروں کی جانب اٹھی اور مجھے فاصلے سے ہی پہچان لیا ۔ ’’صولت صاحب، آپ کہاں؟‘‘۔ یہ آواز غیر متوقع تھی ۔ قائمقام کور کمانڈر نے کہا کہ سر!یہ میرا پی آر او ہے ۔ آئی ایس پی آرافسر ہے۔ اب جنرل ضیاء الحق کی باری تھی ، انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اٹک قلعے کی یادیں تازہ کرناشروع کر دیں۔ انہوںنے اپنے سٹاف افسر سے کہا کہ ’’بلوچستان میں قیام کے دوران کچھ وقت صولت صاحب کے لیے رکھنا ہے ۔ میں نے گپ شپ کرنی ہے‘‘۔آرمی چیف کے یہ ارشادات میرے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئے۔دفتر پہنچاتو دو تین صاحبان میرے دفتر کی تزئین و آرائش کے غم میں مبتلا تھے۔یہ دفتر ہیڈ کوارٹرکی عمارت کے سب سے زیادہ ’’نظر انداز‘‘حصے میں واقع تھا۔ جس کے ایک حصے میں بلیک اینڈ وائٹ تصاویر بنانے کے لیے ڈارک روم بھی تھا۔ چند گھنٹوں میں نیا قالین،فرنیچر،رنگ اور روغن اور معلوم نہیں کیا کیا گیا۔دیواروں پر جہاں مستقل داغ دھبے تھے وہاں پر وال پیپرز چسپاں کر دیئے گئے ۔ معاملہ کیا ہے؟ایک جوان نے بتایا کہ سر! نئے آرمی چیف آپ کے دفتر میں آرہے ہیں۔میں سمجھ گیا کہ چیف کا ملاقات کا حکم دفتر کے دورے کی افواہ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ راولپنڈی ا ٓفس سے بھی کالز موصول ہو رہی تھیں ۔ سب پوچھ رہے تھے کہ آرمی چیف نے اور کیا بات کی۔ شروع سے بتائو؟کیا ہوا ، وغیرہ وغیرہ۔مختصر یہ کہ ’’عزت سادات‘‘بحال ہو گئی۔بلوچستان کے حوالے سے واقعات بہت ہیں ۔ آرمی چیف کی تبدیلی کے باوجود آپریشن کی کیفیت برقرار تھی۔ کوئٹہ میں خاص سرگرمی نہیں تھی ۔البتہ رات آٹھ اور نو بجے کے درمیان حصے میں ایک دو مرتبہ بم دھماکہ ضروری ہوتاتھا۔کئی مرتبہ مشکوک افراد پکڑے بھی گئے لیکن کوئی خاص کامیابی نہیںہوئی۔بلوچ رہنما اس کارستانی کی ذمہ داری افغانستان سے آنے والے ’’غیر پاکستانی‘‘عناصر پر ڈالتے تھے ۔ اس کے برعکس پختون قائدین کا اصرار تھا کہ بلوچ قوم پرست ہیں جو پہاڑوں پرچڑھے ہوئے ہیں۔کوئٹہ میں ایک خاموش قبیلہ ہزار ہ قوم کا بھی ہے جو اپنے مخصوص رسم و رواج اور نسلی شناخت کے باعث ایک الگ تھلگ مقام رکھتا ہے۔ یہ میں اپنے زمانے 70ویں اور80ویں دہائی کی بات کر رہا ہوں۔اب تو حالات بہت تبدیل ہو گئے ہیں۔میرے نزدیک کراچی کے بعد کوئٹہ سب سے زیادہ کثیر الانسلی شہر ہے ۔ کم از کم دس مختلف نسلی پس منظر کے حامل خاندان برسوں سے مقیم ہیں۔سیاسی میدان میں مقابلہ بھی بلوچ اور پختون مفادات کی رسہ کشی ہے۔البتہ فلاحی اقدامات کے ہونے یا نہ ہونے سے ہر نسل کا فرد اور خاندان متاثر ہوتا ہے۔

ایک اور واقعہ جو ذہن سے کبھی محو نہ ہو سکا وہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل محمد ضیاء الحق کے مابین کوئٹہ کی ایک آفیسر میس میں دلچسپ مکالمہ تھا ۔ بھٹو صاحب بلوچستان کے دورے پر تھے۔ آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق اور چیف آف جنرل سٹاف جنرل عبد اللہ ملک بھی ان کے ہمراہ تھے ۔ میس میں لنچ تھا جس میں گریژن کے کچھ اور افسر بھی تھے۔ بھٹو صاحب اپنے مخصوص انداز میں تشریف لائے ۔ نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جنرل (ر)ٹکا خان بھی ہمراہ تھے ۔ ابھی لنچ کی باضابطہ کارروائی شروع نہیں ہوئی تھی۔جوان افسر بھٹوصاحب کے گرد گھیرا ڈالے ان کی قاد ر الکلامی سے مستفید ہورہے تھے کہ بھٹو صاحب کے آبدار نے ’’مشروب مغرب‘‘سے بھرا گلاس ان کی خدمت میں پیش کیا۔ انہوں نے ارد گرد دیکھا ، ہرطرف خاموشی تھی ۔ کسی نے آواز لگائی کہ آرمی میس میں ’’نوش جاں‘‘کرنے پر پابندی ہے ۔ ’’کس نے لگائی ہے؟‘‘بھٹوصاحب کی گرج سنائی دی ۔ ’’ویئر اِز ضیاء؟‘‘۔ضیاء کہاں ہے؟۔ جنرل محمد ضیاء الحق کچھ فاصلے پر مہمانوں کے ساتھ مصروف گفتگو تھے ۔ انہیں اطلاع دی گئی کہ وزیر اعظم یاد فرمارہے ہیں۔وہ فوراًحاضرہوگئے۔جی سر!بھٹوصاحب نے پابندی کے بارے میں دریافت کیاتوبولے کہ میس میں ’’نوش جاں‘‘کر نے پر پابندی جنرل ٹکا خان کے دور سے ہے۔بھٹوصاحب نے اپنا گلاس لہراتے ہوئے کہا کہ’’ میں تو پی رہا ہوں‘‘۔اس موقع پر جنرل ضیاء الحق نے وزیراعظم کو تاریخی جملہ کہا کہ ’’Sir!You are above the law‘‘(جناب آپ قانون سے بالاتر ہیں۔)یہ جملہ سن کر بھٹو صاحب پھولے نہیں سما رہے تھے ، سب نے قہقہہ لگایا اوربات آئی گئی ہوگئی۔

بڑے عہدوں پر متمکن شخصیات کی گفتگو ، بدنی بولی اور نشست وبرخاست میں خیر اور شر کے پہلو موجود رہتے ہیں۔دیکھنے اور سننے والوں کیلئے نصیحت ، وصیت اور عبرت کا سامان ہوتے ہیں۔کاش بروقت غور کر لیاجائے۔

کوئٹہ میںسلسلہ ہائے روز وشب میں اتار چڑھائو معمول تھا۔ سردیاں خاص طور سے کڑا امتحان تھیں۔کوئٹہ قدرتی گیس سے محروم تھا ۔ لہذاپتھر کوئلہ سے کام چل رہا تھا۔ سیاسی سطح پر کوئی خاص ہلچل نہیں تھی کہ اچانک سات جنوری1977ء کو وزیراعظم بھٹو نے اعلان کیا کہ سات مارچ77ء کو عام انتخابات ہوں گے ۔ دس مارچ 77ء کو قومی اسمبلی تحلیل کر دی گئی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی مخالف جماعتوں نے مولانا مفتی محمود کی قیادت میں نو جماعتوں نے انتخابی اتحاد قائم کر لیا اور ’’ہل‘‘کے انتخابی نشان کے ساتھ حصہ لینے کا اعلان کر دیا۔پیپلز پارٹی کا نشان حسب سابق تلوا ر تھا۔وطن عزیز میں ایک بار پھر معرکہ حق وباطل بر پا ہوا۔ سات مارچ77ء کو انتخابات منعقد ہوئے۔ سرکاری اعلان کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی نے 155اورپاکستان قومی اتحاد نے 35نشستوں پر کامیابی حاصل کی ۔ کل نشستیں200تھیں۔پاکستان قومی اتحاد نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیااور بھٹو حکومت کے خلاف ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کر دیا۔کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر شہروں ، قصبات وغیرہ میں بھی جلسے جلوس اور ریلیاں نکلنے لگیں۔ان علاقوں میں جمعیت علمائے اسلام کے رہنما اور کارکن زیادہ سرگرم تھے ۔ کوئٹہ میں بھی قومی اتحاد کے جلوس نکلتے ، کبھی کبھار پختون اور بلوچ رہنما بھی جناح روڈ پرنعرہ بازی کرتے دکھائی دیتے تھے ۔ مختصر یہ کہ پانچ جولائی1977ء سارے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔بھٹو صاحب اور دیگر سیاسی رہنمائوں کوحراست میں لے کر نظر بند کر دیا گیا۔جنرل محمد ضیاء الحق چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے۔ فضل الٰہی چودھری بدستور صدر پاکستان کے فرائض انجام دے رہے تھے۔انہوں نے پیپلز پارٹی کے دبائو کے باوجود صدارت سے استعفیٰ نہ دیا۔

 بلوچستان مارشل لاء زون ڈی تھا۔پہلے میجر جنرل ایس ایم اے عباسی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوئے۔ مجھے زون ڈی کے پی آر او کے فرائض انجام دینے کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔میجر جنرل عباسی سخت گیر اور کم گو کمانڈر تھے۔معمول کے مطابق پریس ریلیز کی منظور ی خود کو کٹہرے میں کھڑا رکھنے کے مترادف تھی۔ انہیں متن سے زیادہ ٹائپنگ کے معیار اور فائل کے رنگ وغیرہ سے زیادہ دلچسپی تھی۔عسکری امور کی انجام دہی کے معاملے میں بے پناہ صلاحیتوں کے حامل تھے۔ان کا فوج میں بہت احترام تھا۔بہاولپور کے شاہی خاندان سے تعلق کے باعث مخصوص مزاج رکھتے تھے ۔ میجر جنرل عباس جلد ہی مارشل لاء کی ڈیوٹی سے سبکدوش ہوگئے اور میجر جنرل عبد اللہ سعید کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر زون ڈی مقرر کیا گیا۔آپ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کے کمانڈنٹ بھی رہ چکے تھے ۔ یہ ہماری کیڈٹ شپ کا دور تھا۔لہذ اجب پہلی ملاقات میں انہیں معلوم ہوا کہ میں ان کے دور میں کیڈٹ رہا ہوں تو ’’پلیز سٹ ڈائون‘‘کہہ کر پی ایم اے کی یادیں تازہ کرنے لگے۔میر ی کتاب’’کاکولیات‘‘کا پہلا ایڈیشن شائع ہو چکا تھا لیکن ابھی میجر جنرل عبد اللہ سعید کے علم میں نہیں تھا ۔ ’’کاکولیات‘‘کی اعزازی کاپی پیش ۔ بہت خوش ہوئے او ر یوں زون ڈی کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے ساتھ ربط باہمی استوار ہو گیا جو کسی بھی پریس رابطہ افسر کے لئے لازم ہے کہ وہ سب سے سینئر شخصیت کا مزاج آشنا ہو اور ان کے اہداف کو بھرپور انداز میں سمجھ بھی سکے تاکہ متعلقہ ناظرین،سامعین اورقارئین تک بیانیہ پہنچ سکے۔

کاکولیات کا ذکر آیاتو ہفت روزہ ہلال کا ذکر ضروری ہے۔ یونٹ میں قیام کے دوران صرف ایک مضمون ’’سلیوٹ‘‘ہلال میں شائع ہوا تھا۔ آئی ایس پی آر میں تعیناتی کے بعد ہفت روزہ ہلال کے آفس میں موقع ملتے ہیں ’’تحصیل شعور و آگہی‘‘کے لئے مصروف ہوجاتا تھا۔ اکرام قمر صاحب ایڈیٹر تھے اور محمد یونس صاحب ڈپٹی ایڈیٹر تھے ۔ ادارتی عملے میںرشید اختر صاحب اور محمد افضل تحسین سرگرم تھے ۔میں نے ’’روٹ مارچ‘‘کے عنوان سے پی ایم اے میں گزرے ایام کو یاد کیا اور تین اقساط میں ایک تربیتی مشق کو بیان کرنے کی کوشش کی۔اکرام قمر صاحب کی خدمت میں مسودہ پیش کیا ۔ انہوں نے اصلاح کے بعد اسے شائع کرنے کی اجازت دے دی۔ اکرام قمر صاحب بے پناہ صلاحیتوں کے حامل تھے۔انہیں ادب، صحافت اور نثر نگاری پر مکمل عبور تھا۔ الفاظ کے پس منظر سے بھی آگاہ

 تھے۔تلفظ کے معاملے میں بھی حساس تھے ۔ ٹیلی فون پر اگر کوئی ’’ہلال‘‘کے بجائے ’’حلال‘‘کا دفتر کہتا تو معذر ت غلط نمبر کہہ کر فون بند کر دیتے تھے۔ان کی شخصیت کا چند سطور میں احاطہ ممکن نہیں۔ ’’کاکولیات‘‘کو منطقی انجام تک پہنچانے میں اکرام قمر صاحب کا ہاتھ ہے ۔ پی ایم اے کے بارے میں میرے مضامین قسط وار شائع ہو رہے تھے۔اگر تاخیر ہو جاتی تو برساتی چھتری ہاتھ میں لیتے ،مجھے آئی ایس پی آر کے دفتر میںتلاش کر کے جلی کٹی سناتے۔ ان کا اصرار تھا کہ پی ایم اے کیڈٹ کے بارے میں پہلی مرتبہ ’’مشق سخن‘‘جاری ہے ، اسے منقطع نہیں ہونا چاہیے۔جلدا زجلد مکمل کر وتاکہ کتاب شائع کی جائے۔’’کاکولیات‘‘کے باعث فوج اور ادبی حلقوں سے بھی حوصلہ افزائی کے اشارے ملے۔آرمی میں کمیشن کے خواہشمند نوجوانوں کی دلچسپی خوش آئند تھی۔مداحوں کے خطوط اور ٹیلی فون وغیرہ سے بہت مسرت محسوس ہوتی تھی۔

بلوچستان میں میجر جنرل عبداللہ سعید کی زیر کمان امن و امان کی بحالی،ترقیاتی سرگرمیاں اور مارشل لاء ضوابط کے تحت ملٹری کورٹس کے فیصلوں کی تشہیر میں دن رات صرف ہورہے تھے ۔کبھی کبھار منفی صورتحال پر قابوپانے کے لیے شب بیداری کی نوبت بھی آجاتی تھی۔ ایک مرتبہ کوئٹہ کے سب مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر (بریگیڈیئر)کو نہ جانے کیا سوجھی کہ انہوں نے کوئٹہ کے ’’مخصوص بازار‘‘پر پولیس وغیرہ کے ذریعے چھاپہ مارا اوروہاں مصروف تمام مردعورتوں کو گرفتار کر لیا گیا۔اگلے روز مجھے حکم دیا گیا کہ ایک اہم کارروائی کی گئی ہے ۔ اس کی بھرپور تشہیر ہونی چاہیے۔جنرل ضیاء الحق کے حوالے سے اسلام پسندی کی رَو چل پڑی تھی۔ہر چھوٹابڑا سرکاری افسر اور اہلکار ایسا عمل بجا لانے کے لیے کوشاں رہتاتھاکہ جس کی انجام دہی کے بعد اس کی’’اسلام پسندی ‘‘کا شہرہ ہو جائے۔ کوئٹہ کے سب مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے دفتر پہنچا تو گرائونڈ میں پچاس ساٹھ عورتیں منہ چھپائے بیٹھی تھیں ، معلوم ہوا کہ ان کے ہمراہ گرفتار مرد جیل بھیج دیے گئے ہیں۔البتہ بریگیڈیئر صاحب گرفتارخواتین کوموجود ہ زندگی تر ک کر کے نیک ر اہ اپنانے کی تلقین کریں گے ۔ قبل اس کے کہ میں کچھ عرض کرتا ۔ موصوف آفس سے باہر آگئے اور انہوں نے دینی احکامات بیان کرنے شروع کر دیئے ۔ خواتین سرجھکائے خاموشی سے سن رہی تھیں۔بریگیڈیئر صاحب نے تقریر کا اختتام اس بات پر کیا کہ آپ سب کو موجود سلسلہ ترک کر کے شادیاں کرنی چاہئیں۔یہ بات کہنے کی دیر تھی کہ ایک بلند قامت خاتون جوقائدانہ صلاحیتوں سے مالا مال تھی۔ بریگیڈیرصاحب کو اپنی جانب متوجہ کرکے کہنے لگی کہ’’ آپ نے بہت اچھی باتیں کی ہیں۔ واقعی ہم سب کو شریفانہ زندگی گزارنے چاہیے ۔ سب سے اچھی تجویز شادی کی ہے۔ کاش گھومنے پھرنے والے مردوں میں سے کوئی ہم سے شادی بھی کر لے تو سارا مسئلہ حل ہو جائے ۔ شادی ایک نیک عمل ہے ۔میری درخواست ہے کہ آپ اس نیکی کا آغاز میرے ساتھ شادی سے کریں اور اپنے ماتحتوں کو حکم دیں کہ وہ بھی زمین پر بیٹھی ہوئی عورتوں میں سے کسی ایک سے شادی کر لے ۔ اللہ اللہ خیر سلا۔آپ کو د وبارہ ہمارے بازار میں پولیس بھیجنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی ‘‘۔

خاتون کی تقریر ختم ہوئی۔ چند لمحے سناٹارہا۔ اب سب مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے جواب دینا تھا ۔ وہ صرف یہ کہہ کر آفس میں چلے گئے کہ ’’ان سب کو جیل بھجوا دیاجائے‘‘۔میں نے مارشل لا ء ہیڈ کوارٹر زون ڈی میں اعلیٰ افسران کو ساری روداد سنائی۔بات میجر جنرل عبد اللہ سعید تک بھی پہنچی۔ان کا حکم تھا کہ یہ روداد کسی اخبار میں نہیں آنی چاہیے۔انہوںنے آئندہ کے لیے فلاحی،اصلاحی اور تبلیغی اقدامات کے لیے رہنما کمیٹی بنادی تاکہ انفرادی نوعیت کی کارروائیوں کی روک تھام کی جا سکے۔

بلوچستان میں آئی ایس پی آر افسر کی حیثیت سے چار برس سے زائد عرصہ قیام کیا ۔ زیادہ وقت کوئٹہ میں ہی گزرتا رہا تھا۔ اندرون بلوچستان کے شہر ،قصبے اور دیہات بھی قریب سے دیکھے۔خاص طورسے لوگوں کے مسائل اور درپیش مشکلات سے آگہی ہوتی۔کچھ ہی عرصے میں وسیع حلقہ احباب جن میں زیادہ تر صحافی، ادیب اوراساتذہ شامل تھے ذہنی اور سماجی پذیرائی کے لیے ترتیب پا چکا تھا۔ جناح روڈ پر بک لینڈ کتابوں کی مشہور دکان میں سلیم بخاری صاحب کی صورت میں برادرانہ ماحول میسر تھا۔ ساتھ زیدی فوٹو گرافر خوش آمدید کہنے کے لیے ہروقت موجود رہتے تھے۔زیدی صاحب مدت تک کوئٹہ میں آئی ایس پی آر کے لیے بھی پیشہ وارانہ خدمات انجام دیتے رہے۔ بعد میں میرے اصرار پر مستقل سرکاری فوٹو گرافر تعینات کر دیے گئے۔ کوئٹہ سے واپس روالپنڈی پوسٹنگ کے احکامات موصول ہوئے تو چند روز طبیعت ملول رہی۔اس شہر سے ہماری بے پناہ خوشگوار یادیں وابستہ تھیں۔ذاتی اور سرکاری لحاظ سے گرم سرد حالات سے گزرنا ہوا۔کبھی

 کبھار پانی میں ڈبکی بھی لگی ، یہ سب زندگی کے حصے ہیں ۔ا تار چڑھائو آتے رہتے ہیں۔کوئٹہ میں بسر کئے شب و روز آج بھی تنہائی میں گد گداتے ہیں۔اس شہر میں ہی ہماری بیچلر لائف کا خاتمہ ہوا۔شادی شدہ افسر کی حیثیت سے سرکاری فرائض کی انجام دہی ایک علیحدہ ’’واردات‘‘ہے۔زندگی میں اچانک ایک ایسی شخصیت سے احکامات موصول ہونا شروع ہوجاتے ہیں جہاں حکم عدولی کی گنجائش نہیں۔سرکار احکامات پر عمل درآمد کے عوض تنخواہ دیتی ہے جبکہ گھر کی حکومت کو تنخواہ دے کر احکامات وصول کرتے ہیں۔میرے بعد آئی ایس پی آر کوئٹہ میں میجر بشیر کیانی کو تعینات کیاگیا۔انہیں ریڈیو جرنلزم کا وسیع تجربہ تھا۔ ایم اے صحافت پنجاب یونیورسٹی سے ہی کیاتھا۔ہم سے پہلے فارغ التحصیل ہوئے تھے۔

آئی ایس پی آرڈائریکٹوریٹ پہنچتے ہی معمول کے فرائض کی ادائیگی شروع ہوگئی۔بریگیڈیئر تفضل حسین صدیقی سربراہ تھے۔یہ آئی ایس پی آر میں کیپٹن کی حیثیت سے شامل ہوئے تھے ۔ اس سے قبل ’’پاکستان ٹائمز‘‘میں خدمات انجام دیں۔ یوں آئی ایس پی آر کو کچھ ’’وقفے‘‘کے بعد ایک ایسا سربراہ میسر آگیا تھا جو تعلقات عامہ ‘انگریزی اردو جرنلزم اور ابلاغ کے شعبے لیے اجنبی نہیں تھا۔صحافت کی دنیا کے بڑے چھوٹے ’’تفضل بھائی‘‘کہتے نہیں تھکتے تھے۔بریگیڈیئر صدیقی جونیئرز کے لیے معلم کا درجہ رکھتے تھے ،ہم سے ہمیشہ ایک مشفق استاد کی مانند برتائو کیا۔انہیں آئی ایس پی آر کی عمارت ،دفاتر ،گاڑیوں وغیرہ سے خاص دلچسپی نہیں تھی۔میں نے ان کے دور میں کبھی وسیع پیمانے پر دفاتر کی مرمت وغیرہ ہوتے نہیں دیکھی تھی۔انہیں ورثے میں جو سٹاف کار ملی اسی پر ہی اپنی سروس مکمل کی۔دفتر کے قریب ہی ایک آفیسرز میس میں قیام پذیر تھے۔رینک کے لحاظ سے پروٹوکول کے عادی نہیں تھے۔ان کے اختیار میں ہوتا تو شاید فوٹو گرافریاکیمرہ مین کی موٹر سائیکل پر بیٹھنے سے بھی گریز نہ کرتے ۔ یہ ہم ایسے جونیئر کیپٹن انہیں دن میں ایک دومرتبہ بریگیڈیئر ہونے کا احساس دلاتے تھے۔واقعات کی ایک طویل فہرست ہے۔تاہم چند ایک کا ذکر ہی مناسب ہوگا ۔جنرل محمد ضیاء الحق نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے ابلاغی محاذ کافی حد تک آئی ایس پی آر کے حوالے کر دیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد میجر جنرل مجیب الرحمن سیکرٹری اطلاعات مقرر ہوئے تو ہم پر کارکردگی کا دبائو کم ہو گیا۔کرنل صدیق سالک(بعد میں بریگیڈیئر)ان کے پریس سیکرٹری تھے، یوں آئی ایس پی آر کی ایک اور بلند قامت شخصیت کی خدمات بھی جنرل محمد ضیاء الحق کو حاصل تھیں۔ہمارے دفتر سے رو زانہ پریس سمری جایا کرتی تھی۔ اس میں اخبارات ، الیکٹرانک میڈیا،جرائد وغیرہ سے اہم مضامین ،خبریں اور دیگر معلومات درج ہوتی تھیں۔جنرل محمد ضیاء الحق ذاتی طور پر بھی اہم اخبارات کا مطالعہ کرتے تھے۔ اداریے اورکالم بھی پڑھتے تھے۔ یہ صورتحال سمری تیار کرنے والے عملے کے لیے ’’پریشان کن‘‘تھی کہ کہیںاہم کالم ، اداریہ یا  خبر سمری سے رہ نہ جائے۔جنرل محمد ضیاء الحق کبھی کبھار اس جانب اشارہ کرتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ جنرل محمد ضیاء الحق کے صف اول کے تمام مدیروں،صحافیوں اور ادیبوں سے ذاتی تعلقات قائم ہو گئے تھے۔ اس ربط باہمی میں بھی بریگیڈیئر تفضل حسین صدیقی کااہم کردار تھا۔مارشل لاء حکومت کے باوجود ’’فرینڈلی پریس‘‘کی موجودگی سے ہمارا کام نسبتاً آسان تھا۔راولپنڈی میں قیام کے دوران 23مارچ کو منعقد ہونے والی پاک افواج کی مشترکہ پریڈ اہم ترین ایونٹ تھا۔راولپنڈی ریس کورس گرائونڈ میں یہ شاندار تقریب منعقد ہوتی تھی۔آئی ایس پی آر کی براہ راست ذمہ داری پریڈ گرائونڈ ، پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کے ذریعے رواں تبصرے (کمنٹری)کا انتظام تھا۔ بریگیڈیئر تفضل حسین صدیقی کی نگرانی میں یہ ڈیوٹی ’’دوآتشہ‘‘تھی۔ایک ڈائریکٹر آئی ایس پی آر کو کمنٹری کے مندرجات سے مطمئن رکھنا ، انہیں ’’آل اوکے‘‘سن کر یہ ا طمینان ہوتا تھا۔گرائونڈ میں پریڈ کمانڈر کے اپنے احکامات تھے۔ان پر عمل درآمد کے سوا چار ہ نہیں تھا۔ کیپٹن کی حیثیت سے دو مرتبہ کمنٹری کی ذمہ دار ی میں ہاتھ بٹانے کا موقع ملا۔ پی ٹی وی کے اظہر لودھی صاحب اور خالد حمید صاحب کہنہ مشق اور ہر دم تیار ایسی خصوصیات کے حامل تھے۔ صبح شام ریہرسل جاری تھی۔فوجی دستوں کی پریڈ کے ساتھ کمنٹری باکس سے بھی آنکھوں دیکھا حال سنایا جاتا تھا۔ہمارا اصل امتحان فائنل ریہرسل تھی جس کے اختتام پر کمنٹری کے بارے میں منفی تبصرے سن کر ہشاش بشا ش دفتر واپس آنا بھی فرائض میں شامل تھا۔ دراصل بریگیڈیئر صدیقی ناموافق حالات میں بھی مطمئن رہتے تھے۔ 23مارچ پریڈ کے بعد جنرل محمد ضیاء الحق کمنٹری ٹیم کو آرمی ہائوس مدعو کرتے تھے اور یہ ملاقات پریڈ کے فوراً بعد طے تھی۔ایک مرتبہ اظہر حمید لودھی ، خالد حمید اور بریگیڈیئر تفضل حسین صدیقی کے ہمراہ آرمی ہائوس کے برآمدے میں انتظار کررہا تھا کہ جنرل محمد ضیاء الحق برآمدہ میں ہی آگئے۔ بید کی کرسیاں تھیں اورسامنے میز پر سیون اپ کی بوتلیں رکھ دی گئیں۔ جنرل محمد ضیاء الحق  نے ابھی پریڈ کی یونیفارم تبدیل نہیں کی تھی۔ شاندار پریڈ کے  بعد بہت خوش نظر آرہے تھے ۔ انہوں نے اظہر لودھی او ر خالد حمید کی بھی خوب تعریف کی۔ بریگیڈیئر تفضل حسین صدیقی کو بھی شاباش دی اور مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے :ـ’’یہ بتائیے کہ سب سے اچھی پریڈ کس دستے نے کی تھی؟‘‘میری رائے سے قبل ہی پنجاب رجمنٹ ، فضائیہ اور آرمرڈ کور ، بحریہ وغیرہ کے نام بلند ہونے لگے ۔ اس حوالے سے بحث میں سیو ن اپ کا وقفہ آیا تو میں نے ’’بوائے سکائوٹس‘‘کے دستے کی تعریف کی۔ جنرل محمد ضیاء الحق کہنے لگے ’’وہ کیسے؟‘‘میرا جواب تھا کہ سر!بوائے اسکائوٹس کسی آرمی فارمیشن سے نہیں ہیں۔سکولز کے طالب علم ہیں۔ آپ نے ان کا سلامی دیتے ہوئے جوش و خروش دیکھا ہوگا۔میرے خیال میں ان کی سب سے زیادہ حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ کل انہیں پریڈ میں شامل دیگر دستوں کے ساتھ کھانے پر مدعو نہیں کیا گیا۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے فورا ًاپنے اے ڈی سی کو طلب کیا اور اس حوالے سے احکامات دیئے۔ ’’بڑا کھانا‘‘کے موقع پر جنرل محمد ضیاء الحق جب بوائے سکائوٹس دستے کے ڈائننگ ایریا میں آئے تو انہوںنے بلند آواز سے میری طرف اشارہ کر کے کہا کہ بچو !آج آپ ان انکل کی وجہ سے آئے ہیں۔انہوں نے کل آپ کی پریڈ کی بہت تعریف کی ۔شاباش ، ویلڈن۔

ایک اور واقعہ بیرون ممالک دورے سے متعلق ہے ۔ ایک روز بریگیڈیئر تفضل حسین صدیقی کی جانب سے ارجنٹ بلاوا موصول ہوا۔ گھر میں ٹیلی فون نہیں تھا ، لہذ اسائیکل پر ہی دفتر بھاگا۔ ہانپتے کانپتے آفس میں داخل ہوا ۔ ڈائریکٹر آفس کی لائٹس ’’آن ‘‘تھیں۔حاضری دی تو بریگیڈیر صدیقی نے ایک فائل میری جانب سرکادی۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے ہمراہ پریس پارٹی کی فہرست تھی اور آخر میں سبز قلم سے کیپٹن صولت رضا لکھا ہواتھا۔یہ اضافہ جنرل صاحب نے خود کیا تھااور حکم نامہ بریگیڈیئر صدیقی کے نام تھا۔کہنے لگے پاسپورٹ ہے؟ میرا جواب نہیں ۔کہنے لگے شناختی کارڈ ہے ؟ ’’جی نہیں‘‘۔ شیروانی ہے؟’’جی نہیں‘‘۔ طبیعت کے برعکس بریگیڈیر صدیقی صاحب میری جانب سے مسلسل نہیں نہیں سن کر برہم ہوگئے اور انتہائی شستہ لہجے میں ڈانٹ ڈپٹ کرنا شروع کر دی۔ دو روز بعد روانگی ہے ۔ تم نہ گئے تو جنرل محمد ضیاء الحق کو کون جواب دے گا؟وغیرہ وغیرہ۔

قصہ مختصر رات گئے پاسپورٹ ، شناختی کارڈ کے فوری حصول کے لئے رشید اختر صاحب (نائب مدیر ہلال)کو ذمہ داری دی گئی۔اسی طرح دو شیروانیاں بھی ٹرائل کے لیے منگوائی گئیں۔ایک تنگ اور دوسری ڈھیلی ڈھالی۔’’بس آپ جہاز پر بیٹھ جانا ۔ میں کوئی اور عذر نہیں سننا چاہتا‘‘۔صدیقی صاحب نے فیصلہ کن انداز میں حکم صادر فرمایا۔

جنرل محمد ضیاء الحق ترکی،قطر ، اردن ، بحرین اور اومان کے دورے پر جارہے تھے ۔ جہاز روانگی کے لیے تیار تھا ۔ جنرل محمد ضیاء الحق، بیگم ضیاء الحق اور ذاتی سٹاف کے اراکین داخل ہوئے ۔ بریگیڈیر(تب کرنل)صدیق سالک بھی ہمراہ تھے۔جہاز پرواز کر گیا۔پندرہ بیس منٹ کے بعد جنرل محمد ضیاء الحق وی آئی پی کیبن سے باہر آئے اور انہوں نے سفر میں شامل رفقاء سے فرداًفرداً ہاتھ ملانا شروع کر دیئے۔پریس پارٹی کی جانب آئے تو گرمجوشی نمایاں تھی۔میں سب سے آخر میں ایک سیٹ پر بیٹھا تھا۔جنرل محمد ضیاء الحق سب سے ملتے ہوئے ہماری جانب آئے اور مجھے دیکھتے ہی کہا کہ ’’صولت صاحب بھی ہمارے ساتھ جا رہے ہیں۔سالک !اس پر نظر رکھنا ۔واپس بھی لے کر جانا ہے‘‘۔ان کی اس بات پر قہقہہ گونجا اور مجھے کرنل صدیق سالک نے اشارہ سے طلب کر لیا۔جنرل محمد ضیاء الحق جونہی کیبن میں واپس گئے ، سالک صاحب نے جواب طلبی شروع کر دی۔ ’’تم کیسے آئے ہو، تمہارا نام تو لسٹ میں نہیں تھا‘‘۔ سر!مجھے کچھ معلوم نہیں ، بریگیڈیئر صدیقی نے پرسوں رات احکامات پاسپورٹ اور شیروانی حوالے کی تھی ۔ حکم تھا کہ جہاز میں سوار ہوجائو!سالک صاحب بولے ’’تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا‘‘۔ میںنے جواب دیا: ’’ سر! میںسمجھا کہ آپ کے کہنے پر میرا نام شامل کیا گیا ہے‘‘۔ میر ے اس جواب کے بعد طویل خاموشی طاری ہوگئی ۔ چند لمحے توقف کے بعد کہنے لگے آپ کہیں گم نہ ہوجانا ، تمہیں ساتھ واپس لے کر جانا ہے۔ چیف مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر کا حکم ہے‘‘۔ آخری جملے کا لہجہ نوکدار تھا۔دس روز ہ دورے میں ترکی میں زیادہ قیام تھا۔استنبول کی شہرہ آفاق مسجد میں تبرکات کی زیارت کرائی گئی ۔ خاص طور پر جبہ مبارک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سامنے دیکھ کر عجب کیفیت طاری تھی۔جنرل محمد ضیاء الحق کی آنکھوں سے اشک رواں تھے۔دل سے دعائیں جاری تھیں۔ میرے دل میں اچانک لاہور کا خیال آگیا ۔’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے لاہو رجانا ہے‘‘۔بس یہ جملہ ادا ہوا تھا کہ سب نے دوسری جانب حرکت شروع کر دی۔مغرب کا وقف قریب تھا۔ جنرل محمد ضیاء الحق

 نے چند منٹ توقف کیا اور کہنے لگے کہ مغرب کی نماز پڑھ کر ہی آگے جائیں گے ۔ شاید سرکاری پروگرام میں نماز شیڈول نہیں تھی ۔ لہذا میزبان چند لمحے پریشان دکھائی دئیے۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے پی ٹی وی کے سینئر کیمر ہ مین اسلم خان سے کہا’’خان صاحب ، اذان دیجیے۔ نماز بھی آپ ہی پڑھائیں گے‘‘۔اسلم خان صاحب نے اللہ اکبر کی صدا بلند کی ، ابھی اذان مکمل نہیں ہوئی تھی کہ ایک کلین شیو ترک امام تشریف لائے ۔نماز مغرب سب نے ادا کی۔ نوافل کے بعد مسجد سے باہرآئے تو سینکڑوں کی تعداد میں لوگ جمع تھے۔ اللہ اکبر۔پاکستان۔۔پاکستان ۔۔۔کے نعرے بلند ہونے لگے۔یہ منظر دیکھ کر جنرل محمد ضیاء الحق ایک گاڑی کی چھت پر چڑھ گئے اوروالہانہ انداز میں تقریر شروع کردی۔انگریزی میں ترک عوام کے جذبات کی ترجمانی کر رہے تھے۔ترکی میں پاکستان کے ساتھ دلی وابستگی کے مناظر جابجا نظر آئے۔پاکستانی صدر کی تقریر ختم ہوئی تو تالیوں اور نعروں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا جس کی گونج آج بھی ان لمحات کی یاد کے ساتھ سنائی دیتی ہے۔قطر،بحرین اور اومان میں میزبانی کا منفرد انداز تھا۔سرکاری اور ذاتی تحائف کے انبار تھے لیکن عوام ندارد۔

ہمارے وفد میں روزنامہ مہران سکھر کے ایڈیٹر سید سردار علی شاہ بھی شامل تھے۔علالت کے باوجود خوش گفتار اور ہنس مکھ رہنے پر مصر تھے۔ قطر میں وفد اراکین کے لیے سیکورٹی کارڈ تقسیم کیے جا رہے تھے ۔ میں شاہ صاحب کے ساتھ ہی کھڑا تھا۔ متعلقہ میزبان افسر نے ایک نام پکارا ’’سید نذیر مسیح‘‘۔ شاہ صاحب چونکے، یہ کون ہے؟میں نے بتایا کہ صدر مملکت کے ذاتی سٹاف میں ہیں ’’لیکن یہ سید کیسے ہوگیا؟‘‘میں نے بتایا کہ شاہ صاحب پاکستان کی لسٹ میں ’’سید‘‘نہیں ہیں۔ یہ عربی کا کمال ہے، انہوں نے جناب کا ترجمہ کیا ہے۔اب نذیر مسیح صاحب کو ’’سید ‘‘کے ساتھ کارڈ مل گیاجسے دکھا کر وہ پاکستان میں ریٹائرمنٹ کے بعد تعویز گنڈے کا بزنس آسانی سے جار ی کر سکتے ہیں‘‘۔ شاہ صاحب میری بات سن کر ملول ہوگئے اور میزبان افسر کے بارے میں ’’ادارتی‘‘لہجے میں گفتگو شروع کردی۔اتنے میں گرم قہوہ آگیا ۔ ہم نے دوتین چسکیاں لے کر موضوع بد ل دیا۔…..جاری ہے  

 

 https://bit.ly/2M6dsocپہلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں 

https://bit.ly/3rL7bO9دوسری قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

https://bit.ly/3rL7bO9تیسری  قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

Exit mobile version