جنگل کے جوگی
ہم بعد از دوپہر اپنی منزل پر پہنچے . ہمارا قیام ہوٹل مارکو پولو، لاما سانا میں تھا. ہم اپنے اپنے سامان کے ساتھ جب ہوٹل کے باہر اترے تو دور پہاڑوں پر سفیدی کی چادر یہ بتا رہی تھی کہ اسکینگ سلوپس بہت مصروف ہونگی . ہمیں پیٹر نے ریسیپشن پر جانے کو کہا ، لگتا تھا فوجی بھرتی دفتر میں بھرتی کے لیے لے جایا جا رہا ہے . ایک درمیانے قد کی دبلی پتلی خاتون کالے رنگ کے سوٹ میں ملبوس ہمارے استقبال کو کھڑی تھی . اس نے گلے میں گلابی رنگ کا رومال باندھا ہوا تھا اور وہ ہر آنے والے کو خوش آمدید کہتی ایک مسکراہٹ سے گردن ہلاتی اور اگلے ہی لمحے وہ یہی مشق دہراتی اور اگلے مہمان کا استقبال کرتی. ہوسپٹیلٹی انڈسٹری کا یہ کمال ہے کہ اس میں رکھ رکھاؤ بہت ہوتا ہے . برطانیہ کی نسبت میرے تجربے میں یورپ کے دیگر ممالک کی مہمان نوازی تھوڑی مختلف ہے . اچھی مہمان نوازی کا دارومدار دو باتوں پر یقینی ہے ان میں اولین آپ کا ہوٹل یا رہائش گاہ کا انتخاب اور دوئم اس ہوٹل یا رہائش گاہ میں خرچ کیے گئے پیسے . اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اونچی دکان پر پھیکا پکوان بھی مل سکتا ہے
کچھ سال پہلے میں فیری پر اپنی کار میں سوار سمندر کے رستے آئل آف وائٹ گیا . پورا دن میں اس جزیرے پر گھومتا رہا . چھوٹا سا جزیرہ تھا اس لیے جہاں بھی جاتا واپس لوٹ کر اپنے نقطۂ آغاز پر آ جاتا . جب بھوک لگی تو میں ایک ریستوران میں جا بیٹھا . اسکا مینیو شائد فرینچ میں تھا یا پھر مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا . یہاں بھی ایک سرخ رومال والی خاتون نے آرڈر لیا . میں نے اس سے پوچھا کہ اس مینیو میں ویجیٹیرین یا سمندری خوراک کیا ہے تو اس نے آنکھیں گھماتے ہوئے کچھ بولے بغیر اپنی شہادت والی انگلی ایک ڈش پر رکھی میں نے بھی گردن ہلاتے ہوئے ہاں کہا اور وہ چلی گئی . مجھے شدید بھوک لگ رہی تھی اور ذہن میں تھا کہ وہ کم از کم آدھ کلو مچھلی اور کافی سارا سلا کھانے کو ملے گا اور میں پیٹ بھر کر کھانا کھاؤ گا . تھوڑی دیر میں ایک باوردی شخص آیا ، اس نے میرے سامنے ایک بڑی سے پلیٹ رکھی جس میں کچھ رنگین چیزیں سجھی تھیں . سبز رنگ کی ایک عمودی لائن پر دو پیلے رنگ کے سبزی کے ٹکڑے اور ہر ٹکڑے کا سائز میرے انگوٹھے کے ناخن کے برابر . اس عمودی لائن سے ایک اور پیلی لائن پلیٹ پر کھینچی گئی تھی جس پر تین یا چار سینٹی میٹر لمبی اور دو یا تین سینٹی میٹر چوڑا ایک مچھلی کا ٹکرا تھا جسے میں نے کھانا تھا . اس پلیٹ میں برکت کے لیے دو مٹر اور ایک سلاد کا پتا رکھا تھا جس کے ساتھ ایمان تازہ کرنے والی سفید چٹنی نما چیز کی ایک چھوٹی سی ڈھیری تھی. باوردی شیف نے پلیٹ رکھی اور بولا ” انجوائے”. میں بہت کنفیوز تھا مگر بوکھا تھا اس لیے بسم الله اور الحمدللہ میں کچھ سیکینڈ لگے ، دو نوالوں میں اس پلیٹ کی رنگینی غائب ہو گئی. یہ حسین ڈش کھانے کے بعد بھوک اور چمک اٹھی ، مجھے انتظار تھا کہ ابھی مین کورس آئے گا . میں نے سوچا کہ جس اہتمام سے سٹارٹر پروسا گیا ہے مین کورس بھی اسی طرح آئے گا . پندرہ منٹ تک میں اس جانب تکتا رہا جہاں وردی والا شیف غائب ہوا تھا اور گلابی رومال والی خاتون نے مجھے آخری مسکراہٹ سے نوازا تھا . آخر تنگ آ کر میں نے ہاتھ کھڑا کیا ، خاتون مسکراتے ہوئے آئی اور میرے سامنے بل رکھ دیا . تب مجھے سمجھ آئی کہ میں اپنے نصیب کا سارا رزق کھا چکا تھا . میں نے یہاں بل ادا کیا قریب ایک دوکان پر گیا یہاں سے پانی کی ایک بوتل اور کیلے کا ایک تھیلا لیا اور ساحل سمندر پر بیٹھ کر کیلے کھائے اور اپنی فیری کا انتظار کیا اور انسانی ارتقا، یا چارلس ڈارون نے نئی نسلوں کے ارتقا کے خیال کے لیے جو دلیل دی کیا وہ درست تھی خیر تھیوری پہلے ہی چیلینج ہو چکی تھی یہ میری مکمل انسانی بھوک تھی جسے آج افریقہ سے آئے کیلوں نے مٹایا تھا اور وہ بھی ساحل سمندر پر ، تب سے میں نے اس بات کو یقینی بنانا شروع کیا کہ میں تمام گلابی رومالوں کی ہاں میں ہاں نہیں ملاؤں گا
انڈورا میں جب اس گلابی رومال والی خاتون نے سب کو لائن میں لگا لیا تو میں ناجانے کیوں آخر میں کھڑا ہو گیا . میرے ساتھ لائن میں کیرولائن مچلز تھی. کیرولائن میری یونیورسٹی میں پہلے دن سے سمجھ لیں گائیڈ تھی . میں جب پہلی بار یونیورسٹی گیا تو لیکچر ہال کا ماحول مختلف تھا، میرے تمام ہم عصر انگریز تھے اور یہاں ایک بھی ایشیائی طالب علم نہیں تھا . میں جب لیکچر ہال میں پہنچا تو مجھے احساس ہوا کہ ہمارے تعلیمی ادارے پاکستان میں ابھی دنیا سے کتنے پیچھے ہیں . آج سے پندرہ سال پہلے ( اب اکیس ) جو سہولیات یہاں میں نے یونیورسٹی میں دیکھی تھیں وہ پاکستان میں ابھی دستیاب نہیں تھیں . پاکستان میں تعلیم حاصل کرنا ایک مشکل اور خرچے والا کام تھا جبکہ یہاں ایک انسان میں طالبعلم کی صفات ہونا ضروری تھیں باقی کام ادارے اور استاد کر دیتے تھے . جب میں یہاں آیا تھا تو ٹیکنالوجی کے میدان میں پاکستان اتنا ایڈوانس نہیں تھا جتنا آج ہے . کاش پاکستان اور آزاد کشمیر میں تعلیم عام ہو جائے ہر بچے کو کتاب اور علم دونوں سے لگاؤ ہو اور اقبال کے شاہین گلیوں بازاروں کے بجائے درسگاہوں اور تعلیمی اداروں کا رخ کریں تو پھر کون روک پائے گا اس قوم کو جو کچھ نہ ہونے کے باوجود پچھلی صدی کا بہت بڑا معجزہ ہے . جب پاکستان بنا تھا تو کہا گیا تھا یہ قائم نہیں رہ پائے گا مگر آج آدھ صدی کے بعد بھی یہ معجزہ قائم ہے اور دنیا کی ایک لازوال حقیقت ہے
کیرولائن میرے ہم عصروں میں پہلی ساتھی طالبہ تھی جس نے پہلی بار مجھ سے پوچھا تھا کہ میں کہاں سے آیا اور کون ہوں . بھورے بالوں والی کیرولائن ہمیشہ مسکراتی رہتی اور اس نے پڑھائی میں بھی میری کافی مدد کی کیونکہ یہاں کلاس روم کی تعلیم سے زیادہ تحقیقی تعلیم کا رواج تھا اور پندرہ سال (اب اکیس) پہلے میں نے برطانیہ آ کر زندگی کے سوئمنگ پول کے گہرے حصے میں چھلانگ لگائی تھی مگر اللہ کا شکر ہے اس چھلانگ نے مجھے تیرنا سکھا دیا
جیسے میں ذکر کر رہا تھا کہ مہمان نوازی کے مزے لوٹنے کے لیے کن کن شرائط کو مد نظر رکھا جاتا ہے ، لہٰذا اس سفر بلکہ پورے دورے کے لیے ہم نے جو کچھ ادا کیا تھا اس میں گلابی رومال والی مائی کی سمائل سمجھ لیں بونس تھی . سٹوڈنٹ پیکیج میں کتنی آسائش مل سکتی ہے یا خریدی جا سکتی ہے اس کا اندازہ ہر اس شخص کو ہو گا جو کبھی طالب علم رہا ہو . طالب علم درویش اور ملنگ لوگ ہوتے ہیں اس لیے ہم سب کو بتایا گیا کہ دو لوگوں کو ایک کمرہ شیئر کرنا پڑے گا . سب نے اپنی اپنی مرضی کے کمرے پر قبضہ کر لیا جبکہ ایک کمرہ باقی بچا اور دو لوگ ابھی کمرہ ملنے کے منتظر تھے ایک تھا میں اور دوسرا میرا استاد پیٹر! دونوں ہی جنگل کے جوگی
پیٹر نے مجھ سے پوچھا کہ اگر مجھے کوئی اعتراض ہے تو وہ کسی اور ہوٹل میں جگہ ڈھونڈھ سکتا ہے . یہ پیک سیزن تھا اور مارکو پولو ہوٹل کے عملے نے پیٹر کو بتایا کہ اس وقت کسی یوتھ ہاسٹل میں بھی جگہ نہیں ملے گی . مجھے اعتراض نہیں تھا کیونکہ مجھے علم تھا کہ اگلے کچھ دنوں میں کیا ہونے والا تھا . یہ کوئی غیبی علم نہیں تھا بلکہ پچھلے دو سالوں میں میں نے یہ سیکھ لیا تھا کہ انگریز کا زندگی گزارنےکا کیا انداز ہے . جب پیٹر نے مجھ سے میری مرضی پوچھی تو میں نے میں انشاء جی کا یہ شعر پیٹر کو سنایا ( انگریزی ترجمے کے ساتھ )تو وہ مسکرایا اور سامان لے کر کمرے کی طرف چل دیا . انشاء جی نے کہا تھا
ہم جنگل کے جوگی ہم کو ایک جگہ آرام کہاں
آج یہاں کل اور نگر میں، صبح کہاں اور شام کہاں
یہ حقیقت ہے کہ روگ اور جوگ مشکل کام ہیں مگر جب آپ کو ان دونوں کی تھوڑی بھی سمجھ آ جائے تو زندگی بہت آسان ہو جاتی ہے . کچھ روگ جان لیوا ہوتے ہیں اور کچھ روگ من کے دیوے جلا دیتے ہیں ، یہ سب حقیقت کو سمجھنے کی بات ہے . میرے وطن کشمیر میں روگ اور جوگ دونوں بکثرت ہیں . یہاں باکمال صوفیاء کرام کا بسیرا ہے اور یہاں آدھ صدی سے زیادہ بھارتی ظلم اور جبر نے اس خوبصورت فردوس کائنات کو غلامی کے روگ میں جکڑا ہوا ہے
میں بہت تھکا ہوا تھا اور سونا چاہتا تھا ، میں کمرے کی طرف جا رہا تھا تو کیرولائن نے مجھے آواز دی اور بولی ” گڈ لک ود یور سلیپ راجہ ” مجھے سمجھ نہیں آئی کہ آیا وہ مذاق کر رہی ہے یا مجھے کچھ سمجھانا چاہ رہی ہے . میں کمرے میں داخل ہوا ، پیٹر پہلے ہی اپنا سامان کھول چکا تھا اور وہ انٹرکام پر ہوٹل کا فون نمبر معلوم کر رہا تھا . میں سمجھا کہ شائد کسی ہنگامی صورت کے لیے یہ اس نمبر کو جاننا چاہتا ہے مگرنہیں پیٹر سب سے بڑا جوگی تھا اس نے یہ نمبر اپنی بیگم کو دینا تھا . جیسے ہی نمبر ملا پیٹر نے اپنے موبائل سے یہ نمبر اپنی بیگم کو دیا ، تھوڑی دیر میں پیٹر کی بیگم کا فون آیا اور انہوں نے پورے دن کی جدائی کے احساسات کو ایک گھنٹے طویل کال میں بیان کیا اور میری نیند کسی جنگل میں گھاس چرنے چلی گئی اور میرے کانوں میں کیرولائن کے الفاظ گونج رہے تھے – ” گڈ لک ود یور سلیپ "
جاری ہے