بدخشاں سے بہاولپور
محمد ایوب
(ایک اقتباس )
حصہ دوم
روحانی اور سائنسی علوم پر بھی ہزاروں کتابیں ایران کی مختلف یونیورسٹوں میں موجود ہیں۔ اور یقینا ان پر تحقیق کا عمل بھی جاری ہوگا۔ تصوف اور خانقا ہی نظام کی بنیاد ہی ایرانیوں نے رکھی۔ روحانی سلسلوں کی ابتدأ عراق اور ایران سے ہوئی اور صوفیأ و علمأ نے ساری دنیا میں روحانی علوم کی روشنی سے کفروجہالت کے اندھیروں میں حق کی شمعیں روشن کیں۔
نجمہ نے بات ختم کی تو رحیمہ کہنے لگی کہ میں نے حمیرہ احمدکو ایک خاص وجہ کی بنأ پر پڑھا ہے ۔ "ہم کہاں کے سچے تھے "سے لے کر "الف” تک یکسانیت ہی یکسانیت ہے۔ وہ سیکس ، سکینڈلز ، معاشرتی اور سیاسی منافقت ، کرپشن اور نوکر شاہی کی رعونت اور تکبر پر لکھتی ہے۔ دیکھا جائے تو اس کی بیس کتابیں درحقیقت ایک ہی کتاب کے بیس چیپٹر ہیں ۔امربیل اور من و سلویٰ جیسے ضغیم ناول بے مقصد لکھے گے ۔ ان عنوانات پردرجنوں تحریریں بہتر انداز میں لکھی گئیں مگر معاشرے اور ریاست کے ماحول پر کچھ اثر نہ ہوا۔ حمیرا احمد کی تحریریں در حقیقت اس کے ڈراموں کے سکرپٹ ہیں جس کا مقصد دولت اور شہرت کا حصول ہے۔ حمیرا احمد کا خاصہ ہے کہ وہ اپنے تہجد گزار کردار کو مصلے سے اُٹھا کر بازار حسن میں لے جاتی ہے اور پھر واپس مصلے پر بیٹھا کر یا پھر کسی اُنچی عمارت سے گرا کر شہدائے عشق میں شامل کر دیتی ہے۔سیکس ، مسلک اور دیگر معاشرتی برائیوںکے بیان میںوہ روحانیت کا مصالحہ استعمال کرتی ہے۔
مگر وہ ادب اور ذھانت کے کئی ایواڈ بھی تو حاصل کر چکی ہے۔ نجمہ نے رحیمہ کو روکتے ہوئے کہا۔
ساتھ بیٹھے لڑکے نے کہا یہ ایواڈ کون دیتا ہے۔
شبنم بولی جو نہ ناول پڑھتے ہیںاور نہ ہی ڈرامے دیکھتے ہیں۔
تو پھر وہ کیا دیکھتے ہیں ؟ رحیمہ نے سوال کیا۔
وہ رائٹردیکھتے ہیں اور اس کا لائف سٹائل دیکھتے ہیں ۔ تحریریں تو ساری ایک جیسی ہوتی ہیں۔
سنا ہے کہ پیر کامل کا عربی میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔ ایک طالب علم نے پوچھا۔
پتہ نہیں اس ترجمے سے عربوں کو کیا ملے گا۔وہ تو پیر کامل پر ہی یقین نہیں رکھتے۔ان کا پیر امریکہ اور تعویز ڈالر ہے۔شبنم کے اس جواب پر حمیرا احمد کی جان چھوٹ گئی ورنہ رحیمہ کی خاص وجہ پر مزید بحث ہو سکتی تھی۔
نجمہ قندہاری کی چھٹیاں ختم ہونے والی تھیں اور ہر روز ایک نیا موضوع اس کے سامنے رکھ دیا جاتا۔ پیر صاحب آستانے پر آتے، اپنی کلاس اٹینڈ کرتے اور کچھ دیر بیٹھ کر نجمہ سے اجازت لے کر چلے جاتے۔ چلتے وقت وہ سیکرٹری کو کچھ ہدایات دیتے اور سارا خان، آمنہ ، رخسانہ اور رحیمہ کا پوچھ کر رخصت ہوجاتے۔ وہ اکثر نجمہ سے شکوہ کرتے کہ آپ ہمیں تھوڑا وقت دیتی ہیں۔ آپ کے آنے سے ہمیں خوشی ہوتی ہے۔
انگلینڈ سے آئے طالب علم نے نجمہ کو یاد دلایا کہ وہ چین کی تاریخ اور انقلابات کے متعلق بات کرنے والی تھی۔ اس نے ہند میں فکری انقلابات کی بات بھی کی تھی مگر دونوں باتیں ادھوری رہ گئیں۔ نجمہ نے ہنستے ہوئے کہا کہ یہ کوئی باقاعدہ کلاس تو ہے نہیں۔ دوسری بات یہ کہ آپ لوگوں کی دلچسپی کے لئے میں اپنا ذاتی مشاہدہ اور کچھ علمی معلومات شیئر کرتی ہوں۔ دیکھا جائے تو آپ کی معلومات اور تجزیات بھی کچھ کم نہیں۔ شاید یہ اکیڈیمی کے ماحول کا اثر ہے کہ آپ نے نہ صرف باہر سے آنے والوں بلکہ ایک دوسرے کی گفتگو بھی غور سے سنتے ہیں۔ شبنم دیگر اداروں میں بھی پڑھاتی ہے مگر زیادہ وقت یہاں رہتی ہے۔ اسے پتہ ہے کہ ایک گروپ اسے سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ نہ اس کی عزت کرتا ہے اور نہ ہی اس کی موجودگی برداشت کرتا ہے۔ میرے نزدیک یہ تزکیہ ہے۔ وہ کسی کی غیبت نہیں کرتی، اپنا مطالعہ سب سے شیئر کرتی ہے۔ وہ اپنی گرشتہ زندگی اور غلطیوں پر نادم نہیں چونکہ یہ سب اس پر مسلط ہوا تو حوصلے اور ہمت سے اس نے اپنا راستہ الگ کر لیا۔ وہ کسی کے ساتھ ڈیٹ پر نہیں جاتی صرف محنت سے عزت کی روٹی کماتی ہے۔ وہ بے شمار معاشی اور معاشرتی مسائل کا سامنا کر رہی ہے مگر شکوہ نہیں کرتی۔ اسے خوشی ہے کہ اس اکیڈیمی سے وابستہ طلبأ، اساتذہ اور میر ی طرح آنے والے لوگ اس کے منتظر رہتے ہیں۔
وہ کسی کی زندگی میں مداخلت نہیں کرتی اور نہ ہی اپنی طرف سے کوئی قصہ یا کہانی بیان کرتی ہے۔ وہ چاہے تو اپنا لائف سٹائل چند دنوں میں بدل سکتی ہے۔ اسے بدنام کرنے والوں کی اکثریت اس کی رفاقت کی منتظر ہے مگر وہ کوئی نیا تجزیہ کرنے کے موڈ میں نہیں۔
قناعت پسندی اسے ورثے میں ملی ہے اور وہ اس اثاثے کو محفوظ رکھنا چاہتی ہے۔ شبنم سے میرا تعلق تین نسلوں سے ہے۔ اس کا دادا میجر قلندر خان اور پھر والد اور اب میں اور شبنم اخلاق، آداب، علم، روایات اور قناعت کے رشتوں سے منسلک ہیں جس میں نفع و نقصان کا کوئی اندیشہ نہیں۔
لاہور میں گجروں کا ایک ڈیرہ ہے۔ ہر ماہ کی آخری جمعرات وہاں دال روٹی کی دعوت اور محفل سیف الملوک ہوتی ہے۔ گوکہ میری زبان پنچابی نہیں مگر حضرت میاں محمد بخشؒ کے کلام میں وہ تاثیر ہے جو دیگر پنجابی صوفی شعرأ کے کلام میں نہیں۔ کچھ اشعار یونیورسل ہیں۔ میاں صاحبؒ انسانی رشتوں، روایات، اخلاقیات اور قناعت کے متعلق کہتے ہیں۔
جس یاری وچ مطلب ہووے توڑ کدی نی چڑھدی
چادر لیرولیر محمد جو کنڈیاں وچ اڑ دی
چنگی مندی یاری اندر سہہ واری ہوجاندی
یار یاراں دا گلہ نی کردے سچی پریت جہناندی
نجمہ نے خالص کوئٹہ وال لہجے میں میاں صاحبؒ کے اشعار پڑھے تو لگا جیسے وہ فارسی میں پنچابی پڑھ رہی ہے۔
تہمینہ بنگش نے دلچسپی لیتے ہوئے ایک اور شعر کی فرمائش کی۔
نجمہ کہنے لگی ابھی ہم پیرومرشد کے حوالے سے بات کر رہے تھے۔ یہ میری سوچ ہے کسی پر تنقید نہیں۔ اصل چیز نیت ہے۔
پیر کامل کے متعلق ہر صوفی شاعر نے لکھا ہے۔ میاں محمد بخشؒ لکھتے ہیں۔
"کامل پیر محمد بخشا لعل بنان پتھروے” ۔ جب کوئی طالب حق پیرومرشد کے ہاتھ پر بیعت کر لیتا ہے تو ولی کامل اسے تراش کر پتھر سے لعل بنا دیتا ہے۔
ایک جگہ فرمایا:
کچ وی منکا لعل وی منکا اکو رنگ دوہاں دا
جدصرافاں ہتھے چڑھدے فرق ہزار کوہاں دا
آپ کی زبان سادہ اور عام فہیم ہے۔ یوں تو میاں صاحبؒ کا سارا کلام بامعنی، پرتاثیر اور اسلامی فلسفہ حیات کا ترجمان ہے۔ آپ نے دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی زندگی پر جس انداز سے لکھا ایک عام قاری اسے آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ آپ کے کلام کی سب سے بڑی خوبی ایک ہی شعر میں ایک ہی لفظ کئی معنوں میں استعمال کرنا ہے۔
آپ نے مرشد کی ضرورت کے زمرے میں لکھا:۔
بن مرشد کم بن دا نائیں لکھ پے کریے حیلے
منتر باہجھ محمد بخشا ناگ نی جاندے قیلے
انسان کا سب سے بڑا دشمن نفس امارہ ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا شیطان انسان کو رزق کی کمی کا خوف دلاتا ہے۔ اسے گناہوں کی ترغیب دیتا ہے اور راہ ہدات سے بھٹکاتا ہے۔ اللہ انسان کے رزق میں وسعت دیتا ہے، اسے نیکی کے راستے پر چلنے کی تلقین کرتا ہے اور آخرت میں جنت کی خوشخبری دیتا ہے۔ اللہ مہربان، رحیم، کریم، معاف کرنے والا اور مخلوق سے محبت کرنے والا ہے۔ میاں صاحبؒ فرماتے ہیں جس طرح منتر کے بغیر سانپ نہیں قیلے جاسکتے اسی طرح مرشد کامل کے بغیر تزکیہ نفس، نفس امارہ کی خواہشات کو کچلنا اور پھر اس سے حاصل شدہ نتائج کو سمجھنا مشکل ہے۔ نفس کشی کے لئے کسی مذہب کی بھی ضرورت نہیں۔ ہر مذہب میں ایسے لوگ ہیں جو ترک دنیا کرتے ہیں اور جنگلوں اور ویرانوں میں سال ہا سال تک چلہ کشیاں کرتے ہیں مگر حاصل شدہ نتائج سے فائدہ اٹھانے کے بجائے نقصان میں چلے جاتے ہیں۔ قرآنی بیان کے مطابق ہدایت کے لئے ولی و مرشد کی رہنمائی ضروری ہے۔ سورہ کہف میں فرمایا جسے اللہ ہدایت نہیں دیتا اسے ولی و مرشد کی رہنمائی حاصل نہیں ہوتی۔
امام غزالیؒ عارفین کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اللہ نے انسانی جسم کے اعضأ ایک جیسے بنائے چونکہ ان اعضأ کا کام ایک جیسا ہے مگر دلوں پر خاص توجہ دی اور ہر دل کی الگ خصوصیت رکھی۔ سوائے اللہ کے دلوں کے بھید کوئی نہیں جانتا۔ دل ہی ربّ اور بندے کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ فرمایا جو کچھ بندوں کے دل میں ہے میں جانتا ہوں مگر کچھ دل ایسے ہیںجن میں دیکھنے کی صلاحیت نہیں۔ اللہ کتنا مہربان ہے وہ ہر دل میں ہے مگر بندوں نے اسے دل کے اندر محسوس ہی نہیں کیا۔ انسان نے سائنسی ایجادات کے انبار لگالئے اور مادی ترقی کی معراج پر پہنچ گیا مگر سینے میں رکھے گوشت کے ایک ٹکڑے میں چھپے راز نہ پاسکا۔ انبیأ، اولیأ اور صوفیأ کے نزدیک یہی حکمت ہے کہ آدمی اپنے دل کے اندر جھانک لے اور دل کی آنکھ سے کائنات کا مشاہدہ کرے۔
اولیائے کرام ظاہری اور باطنی یعنی دل کی آنکھ سے یکساں دیکھتے ہیں۔ تاکہ ظاہری آنکھ دھوکہ نہ دے جبکہ عام لوگ ظاہری آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اکثر دھوکہ کھا جاتے ہیں۔
واقعہ معراج کے ذکر میں فرمایا:۔ پاک ہے تمہارا ربّ جو ایک ہی رات میں اپنے بندے کو مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ تک لے گیا اور پھر اسے جنت کی سیر کرائی۔
پھر فرمایا جو کچھ میرے بندے نے دیکھا اس میں ذرہ بھر شک نہیں۔
انبیائے کرام اپنی ظاہری آنکھ سے اسرار الٰہی کا مشاہدہ کرتے ہیں ذات الٰہی کا نہیں۔ حضرت موسیٰؑ کے واقعہ فرمایا:۔ اے موسیٰؑ آپ مجھے نہیں دیکھ سکتے۔ ہاں۔ اگر سامنے والے پہاڑ پر نظر جماسکو تو میری ایک جھلک دیکھ سکتے ہو۔ قرآن میں اس واقعہ کی تفصیل موجود ہے کہ حضرت موسیٰؑ پہاڑ پر بھی نظر نہ جما سکے اور پھر ہوش میں آنے کے بعد معافی کے طلبگار ہوئے۔
ذات الٰہی کا مشاہدہ صرف آپﷺ کی شان ہے۔ آپﷺ کی اُمت کے ولی دل کی آنکھ سے اسرار الٰہی کا مشاہدہ کرتے ہیں جسے سائنس یا کوئی مادی علم اپنے احاطے میں لانے سے عاجز ہے۔ صوفی شعرأ نے اپنے مشاہدہ قلبی کا اظہار اشعار کی صورت میں کیا تاکہ عام لوگوں کا دل ربّ کی طرف مائل ہو اور وہ اپنے ظاہری دھندوں سے فارغ ہو کر اپنے خالق کی طرف دھیان دے سکیں۔
حصہ اول پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں .
https://www.tarjumanemashriq.com/2020/12/22/459/