Tarjuman-e-Mashriq

  7 – پہاڑ باتیں کرتے ہیں

انڈورا لاویلا اور نقشے

جب میں   مادر وطن  سے نکلا  تو مجھے احساس نہیں تھا کہ  اس سفر کے بعد  اور کتنے  سفر میرے منتظر ہونگے، میں سفر کرنا  چاہتا تھا  اور مجھے لگتا ہے کہ وہ لوگ جو ان سرحدوں اور نقشوں  کی قید سے آزاد سفر کرتے تھے  بہت روشن خیال  اور  پراعتماد انسان تھے.   وہ جہاں جاتے وہاں سے کچھ سیکھ کر آتے   ۔

میری  طالب علمی کا دور عجیب تھا ۔ میرے ساتھ پڑھنے والے پاکستانی  اور  کشمیری ساتھی مجھے آوارہ  گرد سمجھتے  بلکہ کچھ رشتہ دار تو یہاں تک کہہ دیتے کہ جب چھٹی ہوا کرے تو کسی ریستوران میں ایک شفٹ لگا  لیا کرو ، ہم کون سا  انگلینڈ سیر کرنے آئے ہیں ۔ یہ  وہ سوچ ہے جو ایک صدی بعد بھی یہاں آ کر رہنے والے  تارکین وطن میں پائی جاتی ہے ۔ فنون لطیفہ کی کوئی قدر نہیں ، کتاب سے دوستی نہ ہونے کے برابر اور  کچھ توہمارے ایسے بزرگ ہیں جو اگر برمنگھم یا مانچسٹر میں آ کر  آباد ہوئے تو  کبھی اپنے شہر سے باہر ہی نہیں گئے۔ان  کی کل کائنات ان کا گھر، بچے، برادری اور کام تھا ۔ان کی  زندگی  میں ایک ہدف تھا اور وہ پیچھے اپنے    وطن میں ایک عالیشان کھوٹھی بنانا تھا اور اس خوشی کو پانے  کی جدوجہدمیں بہت  سے گمنامی میں ہی  مر گئے . اگر وہ یہ ہدف حاصل نہ کر پائے تو ان کے بچوں پر یہ بوجھ  یا  فرض  ان کی زندگی  کا مقصد بن گیا اور پھر ایک شاندار کوٹھی  کسی پہاڑی پر مکمل ہوئی  جس  پر مرحوم حاجی صاحب، راجہ صاحب یا چوہدری صاحب کے نام کی تختی لگی اور یہ بچے بھی اسی روٹین میں جیے جن میں ان کے والدین جیتے تھے.   میں نے طالب علمی کے دور میں بہت  سختیاں دیکھیں  اور  بہت محنت سے کام کیا، بلکہ دو دو نوکریاں کیں،  کیونکہ اس کے بغیر گزارہ  نہیں تھا اور جہاں تک بات سیاحت کی تھی  تو اس کا بندوبست غیب سے ہو جاتا تھا.

میں مدتوں رشتہ داروں سے نہ ملتا اور میرے دوست بھی محدود تھے مگر جب بھی وقت اور پیسہ ہوتا کہیں نہ کہیں نئے لوگوں کو  ملنے  چلا جاتا  اور آج  میں جس جگہ کھڑا تھا یہ با لکل  نئے لوگ تھے ، نئی زبان اور ایک منفرد  تجربہ تھا .    شایدندا فاضلی نے  ٹھیک ہی  کہا تھا :

نقشہ اٹھا کے کوئی نیا شہر ڈھونڈیئے

اس شہر میں تو سب سے ملاقات ہو گئی

انڈورا لاویلا  بیس بائیس ہزار نفوس کا  مسکن  ایک    جدید شہر انڈورا کا  دارالحکومت   ہے ۔ میں دارالحکومت  ڈھونڈتا ہوا ایک چھوٹے سے شہر میں جا  پہنچا جہاں سکون  ہی سکون تھا.   یہاں بڑی بڑی  عمارتیں اور آنکھوں کو چندھیا دینے والے  شاپنگ  سینٹرز   تھے مگر ان تمام عمارتوں میں شیشے کی ایک    تکون  نما بڑی سی عمارت نہایت واضح اور مختلف تھی . تحقیق اور ناکام سی تشویش پر پتہ چلا کہ  تب یہ یورپ  کا    سب سے بڑا سپا سینٹر تھا۔

میں نے  ٹورسٹ  انفارمیشن   سینٹر  ڈھونڈنا شروع  کر دیا  ۔ یہاں  کسی کو میر ی اور کسی کی مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی۔ انڈورا میں بولی جانے والی زبان  کیتلان   اور  فرانسیسی زبان سے  میری مکمل ناشناسی   تھی.  مجھے  پہاڑی ، اردو اور انگریزی آتی تھی مگر  یہاں کوئی بھی یہ زبانیں بولنے اور سمجھنے والا  نہ تھا ۔  میرے ہاتھ میں انڈورا کا  ایک نقشہ تھا اور ساتھ ہی   دارالحکومت کا نقشہ بھی  جس پر  نیلے رنگ میں انگریزی کا    ایک   مانوس لفظ ”آئی’ ‘  درج تھا جو  میری    دانست  میں سوائے  انفارمیشن جیسے  ہمدردانہ  لفظ کے کوئی اور نہیں ہوسکتا تھا.  لہذا   اس نشان پر  اپنی شہادت کی انگلی ثبت  کیے جب میں انفارمیشن سینٹر پہنچا تو  پتہ چلا کہ  درحقیقت یہی وہ جگہ تھی جس  کی  تلاش  یاران تیز گام کو  تھی   .    ٹورسٹ انفارمیشن سینٹر میں ایک   خاتون تنہا   بیٹھی شاید میرے جیسے    بھولے بھٹکے  مسافر کی  ہی منتظر تھی . مجھے دیکھتے  ہی اس نے مجھ سے کچھ اپنی زبان میں   پوچھا جو مجھے سمجھ نہیں آیا ، میں نے  ادب سے پوچھا کہ کیا آپ انگریزی  سے واقف ہیں؟ محترمہ نے بڑے ہمدردانہ انداز میں کہا ‘ لٹل ‘یعنی تھوڑی آتی ہے۔  

                  میں نے فرمائش کی کہ مجھے تمام عجائب گھروں اور اہم پرکشش مقامات کے نقشے  درکار  ہیں ۔  وہ اٹھی اور اس نے میرے سامنے نقشوں کا ڈھیر لگا دیا .   شاید  میرے چہرے  پہ  لکھا تھا کہ یہ  شخص حدمتارکہ جنگ والے وطن سے آیا ہے  جہاں کبھی بھی نقشہ بدل سکتا ہے . جیسے  اکہتر میں   بدلا تھا  جب بلتستان  کے ایک حصے پر انڈیا نے قبضہ کیا اور تاحال  وہ   اس پر قابض ہے . ترتک  دریائے شیوک کے کنارے واقع  ایک ایسا خوبصورت اور بد نصیب علاقہ ہے  جس کے مکین  کشمیر کے دیگر سرحدی  علاقوں میں بسنے والوں کی طرح اپنے خاندانوں سے جدا ، دریا ، پہاڑ اور کہیں تو بس ایک چھوٹے سے  نالے کے اس جانب نہیں جا سکتے کیونکہ میرا مادر وطن    نقشوں  میں ان تبدیلیوں اور تقسیم   کے مجرمانہ   عمل  کا  مسلسل شکار  ہے۔  یہ ایک دل خراش داستان ہے جسے جب  بھی چھیڑا جاتا ہے تو    آنکھیں نم ہو جاتی ہیں ۔  ان خاندانوں اور ان نقشوں کا کرب وہی جانتے ہیں  جو اس  حال سے گزرے ہیں ۔

کشمیر کے حالات تب بھی ایسے ہی تھے جیسے آج ہیں . کاش کشمیر دنیا کی امن پالیسی میں کوئی مقام  یا درجہ رکھتا  مگر یہ نہ ہو سکا اور اس کا نقصان یہ ہے کہ انڈیا اور پاکستان دنیا کی دو ایٹمی طاقتیں کبھی بھی کسی جنگ کا   میدان بن سکتی ہیں . کارگل کی    جنگ نے یہ ثابت کیا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ایک  آتش فشاں ہے جس کے ایک سرے پر  پاکستان ہے اور دوسرے پر انڈیا . اگر یہ آتش فشاں  پھٹتا ہے تو اس بار ممکن ہے یہ  تیسری عالمی جنگ کا آغاز  ہو ۔    

جب ان نقشوں کی بات چل نکلی ہے تو کچھ   ایسے نقشے ہیں جن میں بغض اور جلد بازی نے   آج تک دنیا کے امن کو  تلوار کی نوک پر رکھا ہوا ہے . چین کے ساتھ انڈیا کی میکموہن لائن جسے انڈیا  لائن آف ا یکچویل  کنٹرول کہتا ہے  بھی مستقبل میں خطے میں بہت بڑا فساد بپا کرنے کی وجہ  بن سکتی ہے . اسی طرح      نگرانو کارا باغ کا تنازعہ آ رمینیا اور آذربائیجان کے درمیان متنازعہ علاقے پر ایک نسلی اور علاقائی   تناؤ  ہے۔   اس طرح کے بہت سے مسائل کا حل اگر نہ ہوا تو مسائل کبھی بھی  ختم نہیں ہونگے  ۔   

خیر نقشے کب ایک سے رہتے ہیں  اور پھر یہ طویل سیاسی  گفتگو ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی. میں تو بس لفظ  نقشے  میں الجھ گیا  کیونکہ بقول  اسعد بدایونی

پرانے گھر کی شکستہ چھتوں سے اکتا کر

نئے مکان کا نقشہ بناتا رہتا ہوں

 میں چونکہ سفر میں ہوں اور اپنی چھت کی یاد ستاتی ہے . ایک بار کیرولائن نے  کہا تھا  کہ  میں جنتا وقت سوچنے پہ لگاتا ہوں اگر اتنا وقت عملی کام   کرنے  پر  صرف کروں تو  شاید      زندگی سے میں کچھ حاصل کر پاؤں۔ انفارمیشن   سینٹر  والی خاتون نے     نقشوں کی ایک امدادی کھیپ میرے سامنے رکھ دی۔ یہ نقشے  بھی کیتالان میں تھے مگر محترمہ  نے  سرخ قلم سے  بڑے بڑے نشان لگا کر  مجھ نابینا کو بینائی عطا کی اور  کچھ مقامات  پر پہنچنے کا  را ستہ دکھایا۔

                  میں پہلے میوزیم کی تلاش میں نقشہ ہاتھ میں تھامے گلی گلی بھٹکنے لگا   اور  پھر ایک بہت خوبصورت عمارت میں داخل ہو گیا . اندر جا کر پتہ چلا کہ میں  انڈورا کی  پارلیمنٹ   کا دروازہ کھول کہ اندر داخل ہوا تھا  ۔  یہاں پہنچ  کر  احساس ہوا کہ یہ عجائب خانہ نہیں بلکہ  قانون سازی کا مرکز ہے۔ یہ   قرون وسطی کی عمارت پارلیمنٹ کیسے ہوسکتی ہے؟ سوچتے سوچتے  میں  فوراً سلام آباد پہنچ  گیا   جہاں   پارلیمنٹ   ہاوس  میں      بڑی بڑی  کرسیوں  پر   کچھ چھوٹے چھوٹے  لوگ   بیٹھے قیام  پاکستان سے  لیکر اب تک   اپنی ہی  قوم کا استحصال کر رہے ہیں ، اس میں ہر جماعت اور ہر سیاسی  سوچ کے لوگ  شامل ہیں  ،  جو عوام کے نمائندے تو ہیں مگر ان کس تعلق عوام سے نہیں ہے  ۔

                  اندر استقبالیہ پر دیکھا تو  ایک انڈورن مٹیار کوئی  کتاب  پڑھ رہی تھی .اس نے شفقت سے کچھ کہا  مگر  مجھے کچھ سمجھ نہ آیا ایسے ہی جیسے امریکہ کا  سیکریٹری  فاراسٹیٹ کچھ کہتا ہے  اور عالم اسلام خاموش رہتا ہے کیونکہ انہیں سمجھ ہی کچھ نہیں آتی کہ آقا کا کیا حکم ہے .  بہر حال مجھے محترمہ نے بتایا کہ بابو یہ پارلیمنٹ  ہاؤس  ہے  اور یہاں   آنے کے لیے وزارتوں کا دعوت  نامہ یا   کوئی   ایسی  دستاویز چاہیے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ مہمان  کو یہاں بلوایا گیا ہے  ۔

                  جب    استقبالیہ  پر  بیٹھی خاتون سے  بات چیت ممکن نہ ہو سکی  تو کالی وردی میں ملبوس ایک صاحب یہاں آئے ان کے ساتھ ایک انگریزی دان خاتون بھی تھیں . انہوں نے مجھے بتایا کہ میں  جس جگہ کھڑا تھا  یہ  پارلیمنٹ کے چند بڑے افسران  کے دفاتر تھے  جن میں سیکرٹری جنرل   بھی  شامل تھے ۔ میرے  پاس آزاد کشمیر سے آتے ہوئے  میرا پریس کارڈ تھا  جو میں نے جیب سے نکالا اور انہیں دکھاتے ہوئے  بتایا کہ میں یہاں    انڈورا کے بارے میں  تحقیقی دورے پر ہوں .برطانیہ کی یونیورسٹی کا طالب علم ہوں  اور مزید معلومات حاصل کرنے کا  خواہش مند   ہوں  . خاتون نے  مجھ پر ترس کھاتے  ہوئے   کہا کہ میں تمہارے لیے پارلیمنٹ کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ ملاقات کا بندوبست کرتی ہوں وہ انگریزی دان  ہے اور اسے تم سے ملکر کر خوشی ہو گی. یہ نائن الیون سے پہلے کی دنیا تھی جہاں اس طرح کی ملاقاتیں ممکن تھیں مگر عالمی سیاسی عدم استحکام نے سب کچھ بدل دیا   ۔

                  میں چونکہ آ رنسل  سے آرہاتھا اس لیے   میں نے محسوس کیا کہ میں اتنے بڑے افسر سے ملنے کے لیے تیار نہیں ہوں ۔ میں نے فوراً گزارش کی کہ   مجھے انڈورا کے متعلق کچھ  تحقیق کرنی ہے. اگر    مجھے کوئی کاغذی معلومات  دستیاب ہو  جائیں   تو میں  نقل کرلوں گا مگر سوائے آئین کے جو 1993میں کاغذی صورت میں آیا سب کچھ  کیتالان  میں تھا۔ میں نے   اگلی صبح  کی ملاقات کا وقت لیا اور اس عمارت سے باہر آ   گیا ۔ یہ ضروری نہیں  تھا کہ سیکرٹری جنرل سے ملا جاتا مگر یہ ضروری تھا کہ اگر ملاجاتا تو مکمل  تیاری کے ساتھ ۔ آخر وہ ایک بیوروکریٹ تھا اور میں اسے  ایک صحافی کے طورپر مل رہا تھا اس لیے  شائستگی اور  ڈیکورم کا تقاضہ تھا کہ میں ملاقات کا وقت لیتا . خاتون نے   ایک کاغذ پر  مسٹر ویلنتی    کا نام لکھا اور کہا کسی باضابطہ  ملاقات کے وقت کی ضرورت  نہیں  کل  نو بجے کے بعد آجانا .  میں  اس  عزت اور مدد پر حیران پریشان اسی گلی کا را ستہ لیے واپس بڑے چوک میں آگیا جہاں سے بڑی بی   نے مجھے  ایک  نامکمل   راستے  پر ڈالا تھا۔

                  سامنے پھر وہی حمام تھا یعنی سپا سنٹر میں وہاں پہنچا تو حیران ہوا نہانے اورمالش کرنے کا اس قدر بڑا اور پرتکلف انتظام؟  ہمارے قصبے  میں ظہور حجام اکثر بال کاٹنے کے بعد مفت  چمپی  کر دیتا  تھا مگر یہاں تو نخرے ہی کچھ اور تھے۔ میں نے فوراً   تھکے جسم کی مالش کروانے کا سوچا۔

-جاری ہے –

Exit mobile version