کہانی نویس کا سفر
یہ یونیورسٹی آف لوٹن کا ٹور ازم ڈپارٹمنٹ تھا اور میں یہاں ایک طالب علم . یہ بہت سال پرانی بات ہے مگر یہ میری زندگی کا ایسا باب ہے جو جتنا پرانا ہوتا جاتا ہے اسے یاد کرنے سے دل کو اتنی ہی خوشی ہوتی ہے ، سمجھ لیں وہ دور یادوں کا وینٹیلیر ہے . میں یہاں برطانیہ میں اس صدی کے آغاز پر آیا تھا اور اب یہاں اکیس سال سے زیادہ کا عرصۂ بیت گیا ہے مگر حقیقت میں وہ سفر آج بھی جاری ہے جس کے آغاز پر نہ میرا اختیار نہیں تھا اور جس کا انجام بھی میری مرضی سے نہیں ہو گا
کتنا مشکل ہے آگہی کا سفر
بارہا خود سے مات کھائی ہے
زندگی میں دو چیزوں کو ساتھ لیکر چلنا مشکل ہوتا ہے مگر جب دو چیزوں کے درمیان کنیکشن کو ساتھ لیکر چلا جائے تو پھر مشکل مشکل نہیں رہتی آپ کی دوست بن جاتی ہے اور آپ کے ساتھ ساتھ چلتی ہے .اگر زندگی میں سب کام ہو جائیں ، کوئی تکلیف برداشت نہ کرنی پڑے ، کہیں کسی سختی کا سامنا نہ ہو اور پھر ایک دن ان سب باتوں سے تنگ آ کر اگر آپ کسی بلند مقام پر بیٹھ کر ایک بار زور سے چیخ کر پہاڑوں سے اپنا غم نہ بیان نہ کریں تو زندگی اس خراب ریل گاڑی کی طرح ہے جو خوبصورت دکھائی دیتی ہے مگر وہ مسافر کو کبھی منزل تک نہیں پہنچا سکتی. …………. زندگی کا فلسفہ صرف کامیابیوں کے میڈل سینے پر سجانے کا نام نہیں بلکہ ناکامیاں ، سختیاں ، الجھنیں اور دشوار رستے زندگی کے تمام موسم ہیں اور یہ موسم زندگی کی کھیتی کی آبیاری ، زرخیزی اور پختگی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں یہ حقیقت ہے کہ جو کبھی بھٹکا نہ ہو اسے راستے کی اہمیت کا احساس نہیں ہوتا
میں میڈیا اور توڑ ازم کا طالب علم تھا اور یہ میرے لیے ایک الگ جہاں تھا . مجھے برطانیہ میں پہلے کسی تعلیمی ادارے میں علم حاصل کرنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا . جس تعلیمی نظام کو میں پیچھے چھوڑ آیا تھا اس میں اور یہاں ایک فرق یہ تھا کہ طلباء اور اساتذہ میں ایک عجیب سا دوستی یا کہہ لیں فرینک نیس کا رشتہ ہوتا ہے . یہاں سر کہنے کا رواج نہیں ہاں کچھ درسگاہوں میں استادوں کو ان کے سر نام سے بلایا جاتا ہے مگر اکثر سر نام سے اصل نام کا سفر بہت جلدی طے ہو جاتا ہے. ایسے ہی میری تعلیمی زندگی میں دو پیٹر نامی اشخاص ( محترم معلمین )کا بہت اہم کردار ہے
پہلے پیٹر کا پورا نام پیٹر ڈارلنگ تھا ، میرے میڈیا ڈیپارٹمنٹ کا سپروائزر اور میرا استاد . کچھ ماہ پہلے میں ٹریکنگ پر ویلز گیا وہاں بی بی سی کے ایک فوٹو گرافر سے ملاقات ہوئی اور اس نے مجھے بتایا کہ پیٹر طویل العمری اور بیماری سے لڑ رہا ہے اور اب اس نے بول چال بھی بند کر دی ہے . پیٹر ایک شفیق استاد، ایک بہترین صحافی اور بہت اچھا لکھاری تھا . مجھے اب کچھ علم نہیں کہ اس کی صحت کیسی ہے مگر وہ شفیلڈ میں رہتا تھا اور یہیں اس نے زندگی کے بہترین سال گزارے تھے. پیٹر استاد نہیں ایک دوست تھا جو ہمیشہ اس بات پر اپنی خوشی کا اظہار کرتا کہ میں اس سے ملاقات کا وقت ایک گھنٹے کا لیتا مگر یہ ملاقات گھنٹوں چلتی رہتی. کچھ لوگ فصیح و بلیغ ،شیریں بیاں اور خوش کلام ہوتے ہیں اور ان کی باتیں ہمیشہ یاد رہتی ہیں ، جیسے آج پیٹر ڈارلنگ یاد آ گیا ( جب یہ سفر ی داستان لکھی گئی تھی تب پیٹر ڈارلنگ علیل تھے مگر حال ہی خبر ملی کہ مارچ 2019 میں وہ انتقال کر گئے )
دوسرے پیٹر کا نام پیٹر گروبسکی تھا ، یہ میرا جرمن استاد ایک کوہ پیما اور مہم جو قسم کا انسان تھا . گروبسکی وہ شخص تھا جس سے میری یونیورسٹی میں پہلی ملاقات ہوئی اور میں نے یونیورسٹی میں داخلے سے پہلے اس سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا . اس ملاقات نے مجھے تین ہزار پاونڈ کی بچت کروا دی . زمانہ طالب علمی میں ہر قسم کی بچت ایک نعمت ہوتی ہے اور اگر آپ یونیورسٹی میں جائیں اور انھیں یہ لگے کہ آپ کو فاونڈیشن کورس اور انگریزی زبان کا ٹیسٹ دینے کی ضرورت نہیں ہے تو سمجھ لیں کہ آپ آدھی ڈگری کے مالک بن گئے . کچھ ایسا ہی میرے ساتھ ہوا تھا . یہ ایک اڑتاہوا تیر تھا جو میں نے پکڑ لیا . ایک روز میں نے اخبار میں ایک اشتہار دیکھا یہ یونیورسٹی آف لوٹن کے ٹور ازم ڈپارٹمنٹ کی داخلے کا اشتہار تھا . میں نے فون اٹھایا اور اشتہار پر دیے نمبر پر کال کی . پیٹر گروبیسکی نے فون اٹھایا . پیٹر ڈپارٹمنٹ کے امتحانی امور کا انچارج تھا اور ایک ریسرچ ٹیم کا ہیڈ. میں نے پیٹر سے ملاقات کا وقت لیا ، سوٹ پہنا اور یونیورسٹی پہنچ گیا . مجھے تب یہ معلوم نہیں تھا کہ سوٹ جیسی فارمیلیٹی کی ضرورت نہیں تھی ، یہاں کپڑوں سے زیادہ انفرادی کاوشوں کی قدر ہوتی ہے اور انہی خصوصیات کا مجموعہ ایک فرد کی تشکیل کرتی ہیں. اس پہلی ملاقات میں پیٹر نے مجھے بہت حوصلہ دیا سمجھ دس کلو وزن بڑھ گیا. اس نے مجھے داخلے کے فارم دیے میں انھیں پر کیا اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے انھیں داخل کر وا دیا . کچھ ہفتوں بعد مجھ غیر مشروط داخلہ مل گیا اور میری درخواست کی منظوری پر پیٹر کے دستخط تھے . اس کے بعد تین چار سال میں نےپیٹر گروبسکی سے بہت کچھ سیکھا، اس کے ساتھ یورپ کے سفر کیے اور اس کی فیلڈ ریسرچ ٹیم میں کام کیا . آخری اطلاعات کے مطابق پیٹر ریٹائرڈ ہو کر بیڈ فورڈ شائر میں کہیں آباد ہے ، مجھے یقین ہے کہ آج بھی وہ کسی پہاڑ کے بیس کیمپ میں یا کسی سکینگ سلوپ پر بیٹھا ہو گا
مجھے میڈیا اور توڑ ازم دونوں سے لگاؤ تھا اورمیں نے دونوں ہی میں تعلیم حاصل کی . یہ بہت سخت وقت تھا ، یونیورسٹی فیس کی فکر، نوکری کی فکر ،غریب الوطنی ، ماونٹ ایورسٹ سے بلند خواب اور ایک طویل تنہائی . اونچائی پر آکسیجن نہیں ہوتا اور سائنس کہتی ہے کہ انسانی جسم اونچائی پر خود کو کھانے لگ جاتا ہے بلکل ایسے ہی تنہائی ہوتی ہے یہ انسان کی غریب الوطنی کو اس کا ڈیتھ زون بنا دیتی ہے یعنی آپ کے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا ، آپ نے آگے جانا ہوتا ہے اور اس تنہائی سے لڑنا ہوتا ہے ، میرے لڑنے کا انداز مختلف تھا مگر یہ میرے سفر کا وہ خوبصورت حصہ ہے جس کا نکھار میں آج تک میں اپنی ذات میں محسوس کرتا ہوں . میں جب تنہا ہوتا تو میں سفر پہ نکل جاتا ، کچھ لکھ لیتا اور زیادہ وقت کچھ پڑھنے میں گزارتا مگر میرا یہ ماننا ہے کہ کتاب کا علم ایک اچھے معلم کے بغیر بوجھ بن جاتا ہے ، تعلیم ایک قسم کا رومانس ہے جس میں بہت سے عناصر شامل رہتے ہیں اور کامیابی صرف کتاب پڑھنے اور امتحان پاس کرنے کا نام نہیں ، میرے خیال سے وہ لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو علم سے خود کو روشن کرتے ہیں اور اس کے انوارات ا وروں تک پہنچاتے ہیں یہ گلشن کے باغباں ہوتے ہیں اور ایسے ہی لوگوں کو یاد رکھا جاتا ہے اور یہی خاص لوگ بہار بن کر قومی افق کی رنگینی کا انتظام کرتے ہیں
چلو کہ جشن بہار دیکھیں چلو کہ ظرف بہار جا نچیں
چمن چمن روشنی ہوئی ہے کلی کلی پہ نکھار سا ہے ( ساغر صدیقی)
"وقت کسی کے لئے نہیں رُکتا!وقت کی رفتار تب بھی جاری رہتی ہے جب دلوں کی دھڑکنیں بند ہوجاتی ہیں۔وقت زنداں کی تاریکی، سمندروں کی گہرائی اور صحراؤں کی مضطرب رتوں سے بہار کی شاموں ، خزاں کی دوپہروں اور ساون کی بد مست جھریوں میں چلتا رہتا ہے،یہ فطرت کا تیز رفتار گھوڑا ہے جو تھکتا نہیں اور کہیں رکتا بھی نہیں مگر ایک ایسی جگہ ہے جہاں اس کی رفتار ختم ہو جاتی ہے . ……” پیٹر گروبسکی کا لیکچر جاری تھا اور میں لیکچر ہال میں بیٹھا پیٹر کے الفاظ کی رنگینیوں کا مزہ لے رہا تھا، مجھے اندازہ تھا پیٹر کی اگلی لائن کیا ہو گی مگر پھر بھی کلیر نے پوچھا ” وہ کونسی جگہ ہے پیٹر؟” پیٹر مسکرا کر بولا پہاڑ…….. سوزی جو کلیر کے ساتھ بیٹھی تھی نے پیٹر کی بات سنتے ہی کلیر کے کان میں کہا ” لو اس کے پہاڑ پھر سے آ گئے ہمیں بور کرنے ، یو نو آئی ڈونٹ لائیک ماونٹینز ( تمہیں پتہ ہے مجھے پہاڑ اچھے نہیں لگتے ) ، پہاڑ بھی کوئی جگہ ہوتے ہیں ؟ جگہیں تو ہیں مراکیش ، شرمل شیخ، فلوریڈا ، فوکیٹ یا پھر میامی کے ساحل جہاں زندگی کا احساس ہوتا ہے اور جہاں وقت چلتا نہیں بھاگتا ہے ……….ا ٹ جسٹ فلائز……….. انسان ابھی سامان کھول کر ریلیکس کر رہا ہوتا ہے اور ہالیڈے ختم ". میں نے سوزی اور کلیر کی بات سنی تو آگے کے سفر کا سوچنے لگ گیا جس میں ان دونوں نے میرے ساتھ اور پیٹر کے ساتھ انڈورا جانا تھا . اس فیلڈ ریسرچ میں ہم کوئی دس لوگ تھے اور ان میں میں واحد ایشیائی تھا- انڈورا کا سفر ایک حسین تجربہ تھا . چلیے اس سفر پر چلتے ہیں ! سفر کا آغاز کرنے سے پہلے چند تاریخی غلطیوں پر بات کر لیتے ہیں . کچھ لوگ داستان گوئی کے ماہر ہوتے ہیں اور وہ اس انداز سے داستان بیان کرتے ہیں کہ جھوٹ بھی سچ لگتا ہے . ترقی پزیر ملکوں کے مورخین کو اس بات کا خوف نہیں ہوتا کہ کوئی ان کے لکھے حقائق پر تحقیق کرے گا کیونکہ لوگوں کے وسائل محدود ہوتے ہیں اس لیے بہت سے لکھاری یہاں، وہاں ، ہر جگہ سے مواد اکٹھا کرتے ہیں اور ایک ماسٹر پیس تیار کر لیتے ہیں جسے واقفیت کی بنا پر ایوارڈ بھی مل جاتا ہے
سفر نامہ یا سفری داستان کا بھی یہی حال ہے .جس سفری داستان میں عریانی فحاشی اور جھوٹی داستانیں نہ ہوں وہ سفری داستان یا سفر نامہ نہیں ہوتا داستان گو کو کم از کم یہ ضروری لکھنا پڑھتا ہے کہ ” ریل کا سفر کر رہا تھا ایک ماہ جبین دروازہ کھول کرآئی میرے ساتھ والی نشت پر بیٹھی اور پھر تھکن کے مارے میرے کندھے پہ سر رکھ کر سوگئی۔ یہیں سے وہ داستان عشق شروع ہوئی جو سفر کے آخر تک ایک انجان سے بندھن کے طورپر قائم رہی کبھی یہ پیرس کے آئیفل ٹاور کی بلندی پہ جا پہنچی اور کبھی اس نے مصر کے اہراموں میں اپنے جلوے بکھیرے ، داستان گو آخری روز تک اس رشتے میں بندھا رہتا اور پھر جب اسے آخری چپٹر لکھنا ہوتا ہے تو وہ اس حسن کی ملکہ کو ایک ہوٹل کے کمرے میں سویا چھوڑے آتا ہے۔ ایک رقہ اس کی مدہوش زلفوں کے پاس رکھ کر یہ لکھتا ہے کہ میں اجنبی انجان منزل کا مسافر ہوں تمہاری رفاقت میری زندگی کا ایک حسین تجربہ تھی، اب مجھے جانا ہے ، وغیرہ وغیرہ "۔ میں نے ایسی کوئی سفری داستان نہیں لکھی میں پچھلے پندرہ سالوں سے سفر میں ہوں اور میں نے کبھی جھوٹ کی عینک سے دنیا کو نہیں دیکھا . اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کو جو مل نہیں پاتا وہ اس کا سب سے زیادہ پیچھا کرتا ہے اور کبھی کبھی وہ ایک لا حاصل کی تلاش میں نکل پڑتا ہے . انسانی زندگی دنیا بہت خوبصورت ہے مگر جو حسن میرے وطن میں ہے اور جو رنگینیاں اس کے سبزہ زاروں میں ہیں وہ مجھے کہیں نظر نہیں آئیں ، یہ سچ ہے کہ ہمارے نظام میں کچھ خرابیاں ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب خراب ہے . مجھے میرا شمال ، میرا کشمیر ، میرے پہاڑ ، میری ندیاں ، میری مٹی کے تمام موسم حسین لگتے ہیں
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کوہستانی
…….جاری ہے ……..
اگلی قسط کے لیے یہاں کلک کریں https://www.tarjumanemashriq.com/2021/08/11/1266/