“ جب تاریخ رقم ہوگی تو لکھا جائے گا کہ آئی ایس آئی نے امریکہ کی مدد سے سوویت یونین کو افغانستان میں شکست دے دی اور ساتھ ہی دوسرا جملہ بھی ہوگا کہ اس کے بعد آئی ایس آئی نے امریکہ کی مدد سے امریکہ ہی کو افغانستان میں شکست دے دی ”
یہ سنہری الفاط ہیں اس مرد قلندر کے جسے دنیا جنرل حمید گُل کے نام سے جانتی ہے ۔آج وہ ہم میں موجود نہیں لیکن برسوں پہلے کی گئی ان کی یہ پیشین گوئی حرف بحرف سچ ثابت ہوچکی ہے ۔ پاکستان کی مایہ ناز آئی ایس آئی کا شمار اگر آج دنیا کی دس ٹاپ انٹیلیجنس ایجنسیز میں ہوتا ہے تو اس کاسہرا ان قومی ہیروز کے سر ہے جن میں جنرل حمید گل بھی اہم ترین ہیرو اور اس ادارے کو کھڑا کرنے والے ستون ہیں۔ قومی سلامتی اور سیکورٹی کا یہ ادارہ گو عرصہ دراز سے موجود تھا لیکن اس کی اصل افادیت افغانستان پہ روسی قبضے کے بعد اجاگر ہوئی جب جنرل ضیاٗ الحق نے جنرل اختر عبدالرحمٰن کو اس کی سربراہی سونپی ۔
اس کے بعد جب جنرل حمید گُل نے اس ادارے کی سربراہی سنبھالی تو راتوں رات اس کا شمار سی آئی اے اور ایم آئی سکس جیسے دنیا کے چوٹی کے سیکورٹی اداروں میں ہونے لگا ۔ کامیابی کا یہ سفر افغانستان کو روسی قبضے سے چھڑانے والی جد و جہد کا ہی مرہون منت ہے ۔ پاکستان کو دو لخت کرنے میں روسی کردار پوری پاکستانی قوم بالخصوص افواج پاکستان کے دل پہ ایک بھاری بوجھ تھا اور اسی بوجھ کو اتارنے میں جنرل حمید گل جیسے سرفروشوں نے بیڑا اٹھایا اور شب و روز کی کاوشوں سے نہتے افغانیوں کی ایسی تربیت اور راہنمائی کی کہ بالکل آج امریکہ ہی کی طرح روس بھی کئی چھاوٗنیوں کو چھوڑ کر رات کے اندھیروں میں بھاگ نکلا۔افغانستان پہ روسی قبضے کے بعد افغان مجاہدین نے چھوٹے چھوٹے گروپس میں مزاحمت شروع کردی اور پاکستان یعنی آئی ایس آئی نے ان گروپس کی مدد شروع کردی ۔ شروع کے سالوں میں امریکہ اور سارا یورپ ایک خاموش تماشائی کی طرح حالات کا جائزہ لیتا رہا اور جب یہ مزاحمت آہستہ آہستہ زور پکڑنے لگی تو امریکہ نے پاکستان کو محدود سی امداد کی آفر کی جسے جنرل ضیاٗ الحق نے امریکی صدر جمی کارٹر کو مونگ پھلی کے دانوں کا طعنہ دے کر ٹھکرا دیا۔ جمی کارٹر کے بعد جب رونلڈ ریگن نے امریکی صدر کا عہدہ سنبھالا تو افغان جہاد اپنی پوری توانائی سے جاری تھا ۔ اسامہ بن لادن جیسے مالدار عرب اس جہاد کی مالی سرپرستی کر رہے تھے۔ امریکہ روس سرد جنگ میں اب امریکہ کو روس کو زچ کرنے میں کافی آسانی محسوس ہوئی چنانچہ امریکہ ، یورپ اور سعودی عرب نے افغان جہاد کے لئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دئے ۔
یہی وہ وقت تھا جب جنرل حمید گل مجاہدین کے گاڈ فادر بن چکے تھے اور کرنل امام جیسے سرفروش کمانڈوز کے ساتھ مجاہدین کے ساتھ میدان جنگ میں نمازیں ادا کرتے تھے اور مکمل طور پر ان کے دلوں کے حکمران تھے ۔ یہ جنرل حمید گل کی ہی ھکمت عملی تھی جو انہوں نے تمام مجاہدین گروپوں کو متحد رکھتے ہوئے انہیں مختلف محاذوں پہ روسیوں کو پسپائی پہ مجبور کیا ہوا تھا ۔ ایسے وقت میں جب ہر طرف جنرل حمید گل اور آئی ایس آئی کا طوطی بولتا تھا امریکی سی آئی اے اپنے آپ کو کھڈے لائن سمجھنے پہ مجبور تھی چنانچہ امریکہ نے ساری امداد پہ اپنے کنٹرول کا مطالبہ کردیا جسے جنرل حمید گل نے انتہائی حقارت سے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ اگر امریکہ دی گئی امداد کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتا ہے تو اپنی افوج بھی لڑائی کے میدان میں اتارے وگرنہ دور کھڑا ہو کر تماشہ دیکھتا رہے۔ اپنی خودی کو بلند رکھنے والے ایسے مجاہدین کی محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ جو روس گرم پانیوں تک قبضے کا خواب لے کر آیا تھاوہ کابل سے آگے قدم نہ بڑھا سکا اور اپنے اسلحے ، گولہ بارود ، فضائی طاقت اور اپنے فوجیوں کی لاشوں کے انبار چھوڑ کر افغانستان سے بھاگنے پہ مجبور ہوا۔ یہ ہے مختصر سی کہانی جنرل حمید گل مرحوم کے کہے کلمات کے پہلے حصے کی ، یعنی آئی ایس آئی نے افغانستان میں امریکہ کی مدد سے روس کو شکست دی ۔
اب آتے ہیں مرحوم کی پیشین گوئی کے دوسرے حصے یعنی آئی ایس آئی نے افغانستان میں امریکہ کی مدد سے امریکہ ہی کو شکست دے دی ۔ امریکہ نے پاکستان ، پاکستانی فوج یا آئی ایس آئی کو اپنے مقاصد کے حصول تک استعمال کیا جس کے بعد دعا نہ سلام ۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو جس طرح امریکہ نے شروع میں ہی سبوتاژ کردیا اور اس کے خالق ، ذوالفقار بھٹو ، کو عبرت بنوا دیا وہ کوئی راز نہیں ۔ افغان جہاد کے دوران فوجی قیادت نے نہ صرف وہ پروگرام جاری رکھا بلکہ طرح طرح کی پابندیوں کے باوجود اسے روس کے افغانستان سے انخلاٗ تک پایئہ تکمیل تک بھی پہنچا دیا ۔ دوسری طرف روس کی شکست کے بعد دنیا کا نظام ہی بدل گیا ۔ امریکہ بہادر نے نئے ورلڈ آرڈر کا شوشہ چھوڑا اور تمام عالم پہ اپنی خدائی کا خواب دیکھنے لگا ۔ کمیونزم کی شکست کے بعد اسلام کو اگلا ہدف ٹھہرایا گیا۔ افغانستان میں مجاہدین گروہ بندی اور نیم خانہ جنگی کی حالت میں تھے ۔ امریکہ اپنے مقصد کے حصول کے بعد مکمل طور پہ پیٹھ پھیر چکا تھا ۔ ایسے میں طالبان نے سر اٹھایا اور بڑی قلیل مدت میں افغانستان میں حکومت بنا لی ۔ آئی ایس آئی دوبارہ فرنٹ لائن پہ تھی ۔ طالبان حکومت کو امریکہ نے بھی تسلیم کر لیا ۔ اسامہ بن لادن جو پہلے مجاہدین کی صف اول میں تھے وہ طالبان کے بھی منظور نظر بن گئے ۔ اسی عرصے میں ایک کہانی ، جو فائلوں میں گم ہوگئی ، نے جنم لیا کہ امریکہ نے طالبان سے وسظی ایشیا تک رسائی کے لئے شمال کے کچھ حصے کی لیز کا مطالبہ کیا جس میں لیعت و لعل یا انکار پہ طالبان کو سونے یا بارود کے انبار میں سے کسی ایک کے چننے کی دھمکی دی ۔ طالبان نے بکنے سے صاف انکار کر دیا اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے ۔ 9/11 کا ٹوپی ڈرامہ رچا کر اسامہ بن لادن کا مطالبہ کیا گیا جو طالبان نے مکمل ثبوت کی فراہمی پہ مان بھی لیا حتاکہ بن لادن کو کسی تیسرے ملک کے حوالے کرنے کی حامی بھی بھر لی لیکن مقصد کچھ اور تھا لہذا پانی گدلا کرنے کا بہانہ بنا کر ایک بھیڑیا ایک بھیڑ پہ چڑھ دوڑا ۔ افغانستان کے شہروں ، پہاڑوں ، غاروں اور جنگلات تک کو تہس نہس کر دیا گیا۔ امریکی ، برطانوی اور اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنیوں نے افغانستان کو اپنے تمام اسلحے اور گولہ بارود کی ٹیسٹ لیبارٹری بنا دیا ۔ دنیا کو طالبان یا مجاہدین کے نام سے ہٹا کر القائدہ کے پیچھے لگا دیا گیا ۔ پاکستان کو بھی پتھر کے دور میں دھکیلنے کی دھمکی دے کر آگے لگا لیا ۔ پاکستان سے چن چن کر عرب باشندوں کو یا تو ڈرون کا نشانہ بنانا شروع کردیا یا ہمارے بردہ فروش حکمران کی معرفت خرید کر گوانٹاناموبے کیمپ کو بھرنا شروع کر دیا ۔ افراتفری کے اس عالم میں طالبان نے داڑھیاں منڈوا کر افغانستان کے اندر ہی جائے پناہ ڈھونڈھ لی۔ کچھ بھاگ کر پاکستان آ چھپے چنانچہ حقانی نیٹ ورک کی رٹ شروع کر دی گئی ۔ اسی دوران پاکستان کے اندر تحریک طالبان پاکستان کے نام سے اپنے ایجنٹوں کو بھیج کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں شروع کر دی گئیں اور ساتھ ڈرون حملوں کا لامتناہی سلسلہ بھی جاری رکھا ۔
اب اتنے غیض و غضب کے بعد ہونا تو یہ چائیے تھا کہ افغانستان سے القائدہ ، مجاہدین یا طالبان کا نام و نشان مٹ جاتا لیکن قدرت کا انتقام دیکھیں کہ فرعون ہی کے گھر میں دوبارہ موسٰی کی پرورش کے وہ اسباب و حالات پیدا کر دئے گئے جن کی جستجو میں قارئین پہ ہی چھوڑتا ہوں ۔ چنانچہ حالات وہ پیدا ہوگئے کہ پاکستان ، آئی ایس آئی ، کو طالبان سے مذاکرات کے لئے راضی کرنے کا منت ترلہ شروع ہوا اور بلآخر ان کے مطالبات کے سامنے ڈھیر ہوکر افغانستان چھوڑنے کی حامی بھر لی اور ایک دفعہ پھر آئی ایس آئی سے اپنے محفوظ فرار کو یقینی بنانے کی مدد مانگی ۔ آج جب امریکہ وہاں سے رخصت ہورہا ہے تو آئی ایس آئی پہ طالبان کی مدد کا دوبارہ واویلہ مچایا جا رہا ہے ۔ کاش آج جنرل حمید گل زندہ ہوتے اور آئی ایس آئی کی امریکہ کی مدد سے افغانستان میں امریکہ ہی کی درگت بنتے خود اپنی آنکھوں سے دیکھتے ۔