تحریر: ڈاکٹر یوسف عالمگیرین
جذبہ ستمبر اس جذبے کی کہانی ہے جو پاکستانی عوام کے دلوں میں دفاع وطن کو یقینی بنانے کے حوالے سے ہمیشہ موجزن رہتا ہے۔ چھ ستمبرکا دن قوم میں جہاں ایک نئی اُمنگ پیدا کرتا ہے وہاں دشمن کے قبیح عزائم کی نشاندہی بھی کرتا ہے کہ کس طرح اس نے ایک آزاد ملک کی آزادی کو سلب کرنے کی ناپاک کوشش کی اوراس قوم کے غیض و غضب کو دعوت دی جس نے صرف دو دہائیاں قبل ہزاروں جانوں کی قربانی دے کر اپنے لئے ایک الگ اور آزاد مملکت حاصل کی تھی۔
آج آزاد وطن کی آزاد فضاؤں میں سانسیں لینے والے پاکستانی شہریوں کے بزرگوں نے قائداعظم محمد علی جناح کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک پرچم تلے جمع ہوکر قائد کی سربراہی میں ایک وطن کے لئے جدوجہد کی، انہوں نے اس وطن کے لئے اپنا تن، من اور دھن سب کچھ قربان کردیا اور وہ آئندہ نسلوں کو حُب وطن کا ایک ایسا پیغام دے گئے جس کی پاسداری ہمارے عوام ہمیشہ کریں گے۔ اپنے وطن اور نظرئیے کے ساتھ جُڑے رہنے والے ہمارے یہ عوام دنیا کے بہترین شہریوں میں شمار ہوتے ہیں جو اپنی سرزمین کے لئے سب کچھ لٹا دیتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کی افواج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے کہ قوم کے یہ جانباز دفاعِ وطن کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا اپنے لئے باعث صد افتخار سمجھتے ہیں۔ بلاشبہ قوم و ملک کا مستقبل ان کی ثابت قدمی‘ جرأت اور اولوالعزمی سے وابستہ ہے۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں بھی پاکستان کی قوم نے اپنے جاں نثار بیٹوں کے شانہ بشانہ ملک کی سرحدوں کا دفاع باوقار انداز میں مؤثر بناتے ہوئے دنیا کو یہ باور کرا دیا کہ ہم ایک زندہ اور دلیر قوم ہیں۔ اس جنگ میں بہادری اور جرأت کے جو کارنامے سرانجام دئیے گئے اور قربانی کا جو جذبہ دیکھنے میں آیا وہ ناقابلِ یقین تھا۔
پاکستانی قوم نے جس جرأت اور بہادری کا مظاہرہ جنگ کے دنوں میں کیا وہ ہمارے نظریات اور قومی شعور کا مظہر ہے۔ یہ ایک ایسا معرکہ تھا جب ہمیں اپنے سے کہیں زیادہ عددی برتری والے دشمن سے مقابلہ کرنا تھا اور قوم کا یہی جذبہ تھا جس نے ہماری افواج کو دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا۔ جہاں ہماری بری افواج نے دشمن کو اس کی جارحیت کا دندان شکن جواب دیا وہاں ہمارے شاہینوں نے بھی پیشہ ورانہ مہارت کے اعلیٰ معیار قائم کئے۔ ان معرکوں میں پاک بحریہ بھی کسی سے پیچھے نہ تھی کہ اس نے ناقابلِ فراموش کارکردگی سے دشمن کوورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
جنگ ستمبر میں پاکستانی عوام کا جوش و جذبہ دیدنی تھا لوگوں نے اپنے حوصلوں کو قائم رکھا۔ یہ معرکہ تمام حکومتی اداروں‘ فلاحی تنظیموں غرضیکہ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کا امتحان تھا جس میں سرخرو ہو کر قوم نے ثابت کیا کہ وہ اپنے سرحدی محافظوں کے ساتھ ہے۔ قوم میں پایا جانے والا اتحاد اور شہریوں کا عزم لاہور‘ سیالکوٹ اور سرگودھا میں لہراتے ہوئے ”ہلال استقلال“ سے عیاں ہوتا ہے۔ جنگ کا ایک محاذ ہمارے ادیبوں‘ شاعروں‘ گلوکاروں نے سنبھالا اور ولولہ انگیز ترانے اور نغمے تخلیق کئے جو نہ صرف قوم کے جذبات کے ترجمان تھے بلکہ میدان جنگ میں مصروفِ کار عساکر پاکستان کے جوش اور ولولے کی ضمانت بھی تھے۔
تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ان چھپن سالوں میں ہم نے ہر شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں ترقی کی ہے۔ دفاعی شعبے میں مکمل خود کفالت کی منزل حاصل کر لی گئی ہے……کیا یہ اعزاز کم ہے کہ پاکستان، دنیائے اسلام کی واحد ایٹمی طاقت ہے۔ ہماری افواج جدید اسلحہ وسازوسامان سے لیس ہیں۔ چھوٹے ہتھیاروں سے لے کر ڈھائی ہزار کلومیٹر تک مار کرنے والے میزائل، جدید بکتر بندگاڑیوں سے لے کر دنیا کے تیز اور موثر ترین ٹینک الخالد تک، مشاق طیاروں سے لیکر جدید لڑاکا طیاروں جے ایف 17تھنڈر تک اور بہترین جنگی بحری جہازوں سے لے کر جدید ترین آبدوزوں تک اندرونِ ملک تیار کئے جارہے ہیں۔
اس کے علاوہ نائن الیون کے سانحہ کے بعد خطہ جنوبی ایشیاء میں لڑی جانے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جس طرح ہمارے عوام ثابت قدم رہے اور اپنی افواج کے شانہ بشانہ لڑتے ہوئے شہادتیں پیش کیں وہ دنیا کی تاریخ میں یاد رکھی جائیں گی۔ صرف وطنِ عزیز پاکستان ہی تھا جس کی امریکہ، اتحادی افواج سمیت دنیا کی دیگر افواج سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابیاں کہیں زیادہ رہیں۔ الحمدللہ پاکستان اپنے حصے کاکام کرنے میں کامیاب رہا ظاہر ہے اس کی ایک بھاری قیمت تھی جو ہمارے فوجی جوانوں، ہمارے بچوں، بوڑھوں اور ماؤں نے اپنے جگر گوشے کھو کر ادا کی لیکن اپنے پاؤں لڑکھڑانے نہیں دئیے۔ آج الحمدللہ پاکستان کی مغربی سرحد کے ساتھ واقع قبائلی علاقے صوبہ خیبرپختونخوا کا حصہ ہیں اور قبائلی اضلاع کے طور پر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہیں۔ آج وہاں بہترین سڑکیں، تعلیمی ادارے، کیڈٹ کالجز، صحت کی سہولیات اور کاروبار کے لئے بہترین مارکیٹیں تعمیر ہوچکی ہیں۔اب وہ لوگ ایک شہری نظم و ضبط اور ملکِ پاکستان کے آئین کے تحت اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وطن عزیز پاکستان جو ایک اور بہترین کام سرانجام دینے میں کامیاب ٹھہرا ہے وہ پاکستان اور افغانستان کے مابین بین الاقوامی سرحد پر باڑ لگا کر اُسے محفوظ بنانا ہے۔ اس کے لئے ہمارے فوجی آفیسرز اور جوانوں کی شہادتیں بھی ہوئیں لیکن اسے تعطل کا شکار نہیں ہونے دیا گیا۔ بارڈر پر باڑ نوے فیصد سے زیادہ مکمل ہوچکی ہے۔ مختلف مقامات پر جہاں ضروری ہے انٹری پوائنٹس قائم کئے گئے ہیں جہاں سے دونوں ممالک کے شہری، پاسپورٹ اور دیگر ضروری سفری دستاویزات دکھا کر گزر سکتے ہیں۔ تجارت اور دیگر کاروبار بھی اُسی طرح سے ہورہے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ اُنہیں بین الاقوامی سرحدی قوانین کے مطابق قانونی شکل دے دی گئی ہے۔ اس سے جہاں دہشت گردی اور غیر قانونی آمدورفت ختم ہوگی وہاں دونوں ممالک کے شہریوں میں ایک تہذیب بھی پروان چڑھے گی کہ کس طرح انہوں نے بین الاقوامی اصولوں کی پاسداری کو یقینی بتاتے ہوئے آپس میں برادرانہ تعلقات قائم رکھنے ہیں۔
پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جس نے افغانستان میں ہمیشہ امن کے لئے کوششیں کی ہیں کیونکہ پاکستان جانتا ہے کہ افغانستان میں انتشار پاکستان میں بھی انتشار کا باعث بنتا ہے۔ یوں پاکستان کا امن افغانستان کے امن کے ساتھ مشروط ہے۔
بہرطور دفاع وطن کے تقاضے آج بھی وہی ہیں۔ دشمن یقینا ہماری یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی سازشوں سے باز نہیں آئے گا۔ پاکستان مخالف عناصر مختلف حیلوں بہانوں سے پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ کبھی پاکستان میں قوم پرستی کے تاثر کو ابھارا جاتاہے تو کبھی فرقہ واریت کو ہوا دے کر ہماری اندرون سلامتی اور یکجہتی کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا جاتاہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم باشعور قوم ہونے کا ثبوت دیں۔ قومی یکجہتی کے فروغ کے لئے فرقہ بندی اور قوم پرستی کے عفریت سے نجات حاصل کریں۔بلاشبہ قائد کے روشن فرمان ایمان، اتحاد، تنظیم کی جتنی آج ضرورت ہے، پہلے کبھی نہ تھی کہ یہی اصول دفاع پاکستان کا ضامن ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ جذبہ ستمبر صرف ملک کی بیرونی سرحدوں کی حفاظت کے لئے ضروری نہیں بلکہ ملک کو درپیش اندرونی محاذ پر چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لئے بھی اسی جذبے کی ضرورت ہے۔ قوم کو یکجان اور اندر سے مضبوط رکھنے کے لئے ان کے انصاف، مساوات، میرٹ اور معاملات میں شفافیت کو یقینی بنانا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ خدانخواستہ قوم اگر اندر سے کمزور پڑ جائے تو وہ پھر بیرونی سرحدوں کی حفاظت یقینی بنانے کے قابل بھی نہیں رہتی۔ لہٰذا بیرونی اور اندرونی چیلنجز کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کے لئے قوم کے اندر اعتماد اور مضبوطی ایسے اوصاف صرف اور صرف اخلاقی اقدار، اخوت، باہمی یگانگت اور اُن کے حقوق کے تحفظ یقینی بنا کر پیدا کئے جاسکتے ہیں۔ جس قوم کو انصاف مل رہا ہو، روزگار کے مساوی حقوق حاصل ہوں، ان کی حق تلفی نہ ہو اور میرٹ کی پاسداری کی جارہی ہو اس قوم کو کوئی بڑے سے بڑا دشمن بھی شکست نہیں دے سکتا۔ ہمیں یکجان رہنا ہے، مضبوط رہنا ہے، ایک دوسرے کے ہاتھ تھامے رکھنے ہیں، اخلاقی روایات کو سربلند رکھنا ہے اس کے لئے حکومت، تمام اداروں، تمام پارٹیوں اور ہرمکتبہ فکر کے لوگوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہے اور یہی جذبہ ستمبر کی روح ہے کہ اپنی مٹی سے جڑے ہوئے لوگ اس کی حفاظت اپنی جان سے بڑھ کر کرتے ہیں اور پھر اس کو سنوارنے کے لئے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ پاکستان ہمیشہ سلامت رہے۔